سال2001 سے 2019 کے درمیان ہندوستان میں ہیٹ ویو کی وجہ سے تقریباً 20000 افراد ہلاک ہوئے۔ تحقیق میں پایا گیا کہ مرد اور پسماندہ سماج کے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ محققین نے ذات پر مبنی سماجی تحفظ کی پالیسی کی سفارش کی ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
نئی دہلی: ہندوستان میں2001 سے 2019 کے درمیان ہیٹ ویو یعنی لُو کی وجہ سے تقریباً 20000 افراد ہلاک ہوئے، ایک حالیہ تحقیق میں اس بات کاانکشاف ہوا ہے۔ اس تحقیق میں مردوں میں ہیٹ اسٹروک سے اموات کے امکانات زیادہ پائے گئے۔
ایک اور حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ہیٹ ویو سے ہونے والی اموات بھی ذات پات کے خطوط پر منقسم ہیں- ہندوستان میں پسماندہ برادریوں کے لوگوں کی موتیں، دوسری برادریوں کے لوگوں کے مقابلے ، لُو سے کہیں زیادہ ہوئی ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ ایک طرح کی ‘تھرمل اِن جسٹس’ (گرمی سے متعلق ناانصافی) کی صورتحال ہے۔
اقوام متحدہ کے انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی سی سی) کی2021 کی ایک رپورٹ سمیت متعدد رپورٹس نے خبردار کیا ہے کہ ایشیاء کے کئی حصوں بشمول ہندوستان میں آنے والے برسوں میں اکسٹریم ویدر ایونٹس(شدید موسمی واقعات)، جیسےکہ ہیٹ ویو دیکھنے کو ملیں گے۔
ہر سال گرمی کے ریکارڈ ٹوٹتے جا رہے ہیں۔ ہندوستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق، فروری 2025 ہندوستان میں گزشتہ 125 سالوں میں سب سے گرم فروری کا مہینہ رہا ہے۔
جان لیوا گرمی
ہیٹ ویو یعنی لُوانسانی صحت پر برا اثر ڈال سکتی ہے۔ اور ہیٹ اسٹروک – جو صرف تھکاوٹ اور چکر آنے جیسی ہلکی علامات ہی نہیں بلکہ موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
او پی جندل گلوبل یونیورسٹی، سونی پت، ہریانہ کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ہندوستان میں باہر کے انتہائی درجہ حرارت کی وجہ سے ہونے والی اموات کا مطالعہ کیا۔
انہوں نے عمر اور جنس کے لحاظ سے ایسی اموات میں تفاوت کا مشاہدہ بھی کیا۔ اس کے لیےانھوں نے کئی سرکاری ذرائع سے ڈیٹا کا تجزیہ کیا- جیسے کہ محکمہ موسمیات سے درجہ حرارت کا ڈیٹا اور نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو سے اموات کا ڈیٹا۔
تحقیق میں کہا گیا، ‘ذات، پیشہ اور گرمی سے ہونے والے دباؤ کے درمیان یہ مضبوط تعلق ہی ‘تھرمل اِن جسٹس’ کہلاتا ہے۔’
ٹیم نے پایا کہ 2001 سے 2019 کے درمیان ہندوستان میں ہیٹ اسٹروک سے 19693 اور شدید سردی سے 15197 اموات ریکارڈ کی گئیں۔ تاہم، یہ تعداد حقیقی اعداوشمار سے کم ہوسکتے ہیں کیونکہ انتہائی درجہ حرارت کی وجہ سے ہونے والی اموات کی رپورٹنگ خاطرخواہ نہیں ہوتی- یہ بات 29 اپریل کو شائع ہونے والی ایک تحقیق میں کہی گئی ہے، جوسائنسی جریدے ‘ٹمپریچر’ میں شامل اشاعت ہے۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیاکہ 45-60 سال کی عمر کے لوگ ہیٹ اسٹروک اور سردی دونوں سے ہونے والی اموات کے لیے سب سے زیادہ حساس تھے۔ اس کے بعد 60 سال سے زیادہ کے بزرگ اور 30-45 سال کی عمر کے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ تحقیق میں یہ بھی پایا گیا کہ ہیٹ اسٹروک سے مرنے والوں میں مردوں کی تعداد زیادہ تھی؛ اس عرصے میں مردوں میں اموات خواتین کی نسبت تین سے پانچ گنا زیادہ تھیں۔
او پی جندل گلوبل یونیورسٹی کے پروفیسر اور اس تحقیق کے شریک مصنف پردیپ گوئن نے ایک بیان میں کہا، “کام کرنے کی عمر کے مردوں میں ہیٹ اسٹروک سے ہونے والی اموات کی زیادہ تعداد شاید اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ مرد خواتین کے مقابلے باہر زیادہ وقت تک کام کرتے ہیں۔’
سال2001 سے 2014 کے ریاستی اعداد و شمار کے مطابق، ہیٹ اسٹروک سے سب سے زیادہ اموات آندھرا پردیش، اتر پردیش اور پنجاب میں ہوئی تھیں۔
او پی جندل گلوبل یونیورسٹی میں موسمیاتی تبدیلی، ماحولیات، صحت، سیاست اور گورننس پر کام کرنے والے پروفیسر پردیپ گوئن نے ایک پریس ریلیز میں کہا، ‘ملک کے بیشتر حصوں میں اس موسم گرما میں شدیدلُو کی توقع ہے، اور جیسے جیسے دنیا گرم ہو رہی ہے،ایکسٹریم ویدر ایونٹس زیادہ ہورہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں، بغیر کسی تاخیر کے، یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو درجہ حرارت کے خطرات کے بارے میں بیدار کرنےاور ان کےاثرات کو کم کرنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔’
تحقیق کی شریک مصنف اور پی پی جندل گلوبل یونیورسٹی کے اسکول آف پبلک ہیلتھ اینڈ ہیومن ڈیولپمنٹ کی پروفیسر نندتا بھان نے پریس ریلیز میں کہا،
‘ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو بیرونی کام(آؤٹ ڈور ورک) کرنے والے مزدور، خاص طور پر کم آمدنی والے اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کو کسی نہ کسی طرح کی سماجی مدد فراہم کرنے پر غور کرنا چاہیے، کیونکہ وہ درجہ حرارت کے باوجود کام پر جانے کو مجبور ہو سکتے ہیں۔’
‘تھرمل اِن جسٹس’
ایک حالیہ تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ ہندوستان میں ہیٹ ویو سے ہونے والی اموات بھی ذات پات کے خطوط پر منقسم ہے۔
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (بنگلور اور احمد آباد) سمیت مختلف اداروں کی ایک ٹیم نے سیٹلائٹ ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے2019 اور 2022 کی گرمیوں کے دوران لُو کی وجہ سے ہونے والے ہیٹ اسٹریس (گرمی سے تناؤ) کے بارے میں چھوٹی چھوٹی تفصیلات جمع کیں اور پھر اسے پیریاڈک لیبرفورس سروے (پی ایل ایف ایس) ڈیٹا کے ساتھ ملا کر تجزیہ کیا۔ اس سروے میں ایسے لوگوں کی شناخت کے لیے آبادیاتی اشارے استعمال کیے گئے جو بیرونی کام(آؤٹ ڈور) کرتے تھے۔ اس سروے میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو شامل کیا گیا تھا۔
محققین نے پایا کہ اعلیٰ ذاتوں (بااثرذاتوں) کے لوگ اوسطاً 27-28 فیصد کام باہر کرتے ہیں، جبکہ درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کے لوگ اپنے کل کام کے وقت کا 43-49 فیصد حصہ باہری کاموں میں گزارتے ہیں۔ درج فہرست ذات (ایس سی ) اور درج فہرست قبائل (ایس ٹی) برادریوں کے لوگ مل کرملک کے کم از کم 65 اضلاع میں دو سالوں کے دوران 75فیصد سے زیادہ وقت بیرونی کاموں میں صرف کرتے رہے۔
کیا یہ اس لیے ہو سکتا ہے کہ پسماندہ طبقات گرم علاقوں میں زیادہ رہتے ہیں؟
یہ جاننے کے لیے ٹیم نے رات کے وقت زمین کی سطح کے درجہ حرارت (لینڈ سرفیس ٹمپریچر)کے تجزیےکا سہارا لیااور پایا کہ ایسا نہیں ہے۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کاسٹ، پیشہ اور ہیٹ اسٹریس(گرمی سے تناؤ) کے درمیان جو مضبوط تعلق سامنے آئے ہیں انہیں سب سے بہتر طریقے سے ‘تھرمل اِ ن جسٹس’کے طور پرسمجھا جا سکتا ہے۔
مطالعہ میں مزید کہا گیا ہے، ‘ایک فری مارکیٹ (اکانومی) میں مزدوروں کو یہ آزادی ہونی چاہیے کہ وہ اپنی ترجیحات کی بنیاد پر مزدوری اور پیشہ ورانہ خطرات کے آمیزے کا انتخاب کرسکیں، ہمارے نتائج بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں یہ آمیزہ ذات پات کی بنیاد پر مختلف ہوتا ہے- اور یہ براہ راست پسماندہ برادریوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔’
مطالعہ یہ بھی کہتا ہے کہ،
‘ذات کی شناخت اور ہیٹ اسٹریس کے رابطے کے درمیان ہمیں جو واضح اور مضبوط تعلق ملا ہے وہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے ہندوستان میں موسمیاتی تبدیلی کے موافقت اور تخفیف کے کسی بھی منصوبے کوصرف محنت کی تقسیم کے بجائے ، ذات پات کے لحاظ سے کام کی تقسیم جیسے سماجی درجہ بندی کو مدنظر رکھ کر تیار کیا جانا چاہیے۔’
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے جن اعداد و شمار کا استعمال گوئن اور ان کے شریک مصنفین نے اپنے حالیہ مطالعہ میں کیا، ان میں ذات پات سے متعلق کوئی معلومات نہیں تھی۔ لہذا وہ اپنے مطالعے میں ہیٹ ویو سے ہونے والی خاص کمیونٹی کے اموات کے مسئلے کا جائزہ نہیں لے سکے، گوئن نے دی وائر کو بتایا۔
گوئن نے دی وائر کو ای میل کے ذریعے بتایا،’ڈیموگرافی نام کے جرنل میں شائع ہونے والا مضمون بہت دلچسپ ہے، اور یہ واضح ہے کہ وہاں کے محققین نے ڈیٹا کا استعمال کاسٹ اور ہیٹ اسٹریس کے درمیان تعلق کی تحقیقات کے لیے کیاہے، اور وہ پرذات پر مبنی موافقت اور روک تھام کے منصوبوں کی سفارش کر رہے ہیں۔’
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)