اگر عدالت حکم جاری کرے تو سوشل میڈیا پر سیاسی اشتہاروں پر روک لگائیں گے: الیکشن کمیشن

الیکشن کمیشن نے بامبے ہائی کورٹ سے کہا کہ سوشل میڈیا پر اشتہاروں کے لیے واضح اصولوں کی ضرورت ہے اور ہم سبھی طریقوں کا استعمال کر کے یہ یقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ ملک میں غیر جانبدارانہ اور آزاد انتخابات ہوں۔

الیکشن کمیشن نے بامبے ہائی کورٹ سے کہا کہ سوشل میڈیا پر اشتہاروں کے لیے واضح اصولوں کی ضرورت ہے اور ہم سبھی طریقوں  کا استعمال کر کے یہ یقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ ملک میں غیر جانبدارانہ اور آزاد انتخابات ہوں۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی:الیکشن کمیشن نے بامبے ہائی کورٹ سے کہا کہ اگر وہ حکم جاری کرتا ہے تو  کمیشن ووٹنگ کے 48 گھنٹے پہلے سوشل میڈیا پر سیاسی اشتہاروں پر روک لگا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے بامبے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نریش پاٹل اور جسٹس این ایم جامدار کی بنچ سے کہا کہ ہم خاص طور سے الیکشن کے وقت سوشل میڈیا پر سیاسی اشتہاروں کے ریگولیٹری سے جڑے اپنے سبھی پچھلے نوٹیفیکیشن کی عمل آوری یقینی بنائیں گے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل پردیپ راج گوپال نے یہ دلیلیں دیں۔وہ گزشتہ شنوائی پر عدالت کے ذریعے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دے رہے تھے۔عدالت نے پوچھا تھا کہ کمیشن ووٹنگ کے دن سے 48 گھنٹے پہلے سوشل میڈیا پر سیاسی اشتہاروں پر روک لگانے کی واضح ہدایت دینے سےہچکچا کیوں رہا ہے؟

راج گوپال نے کہا کہ کمیشن کو جانکاری ہے کہ الیکشن سے پہلے سوشل میڈیا پر اشتہاروں کے لیے واضح اصولوں کی ضرورت ہے اور ہم سبھی طریقوں  کا استعمال کر کے یہ یقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ ملک میں غیر جانبدارانہ اور آزاد انتخابات ہوں۔عدالت ،وکیل ساگر سوریہ ونشی کی پی آئی ایل پر شنوائی کر رہی تھی،جس میں سوشل میڈیا پر پیڈ سیاسی اشتہاروں کی صورت میں فرضی خبروں کی ریگولیٹری کے لیے کمیشن کو ہدایت دینے کی گزارش کی گئی ہے۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق؛اس سے پچھلی شنوائی میں فیس بک نے عدالت کو بتایا تھا کہ اس نے 2019لوک سبھا انتخابات سے پہلے ہندوستان میں اپنی ویب سائٹ پر سبھی سیاسی اشتہاروں اور پیڈ مواد کے لیے سخت جانچ کا پروسیس شروع کیا ہے۔نئے سسٹم میں یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ صرف ہندوستان کے شہری اور سیاسی ادارے ہی سیاسی اشتہار دے سکتے ہیں۔

ٹوئٹر اور یو ٹیوب نے بنچ کو بتایا تھا کہ انھوں نے صرف ان ہی سیاسی اشتہاروں کو منظوری دی ہے،جن کی الیکشن کمیشن کے ذریعے تصدیق کی جا چکی ہے۔ حالانکہ سوشل میڈیا ویب سائٹوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ عرضی گزار وں کی مانگ کے مطابق رضاکارانہ طور سے سیاسی اشتہاروں کے لیے 48 گھنٹے کی روک نہیں لگا سکتے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)

Next Article

’ای ڈی ساری حدیں پار کر رہا ہے‘، سپریم کورٹ نے تمل ناڈو کارپوریشن کے خلاف جانچ پر روک لگائی

سپریم کورٹ نے جمعرات کو تمل ناڈو اسٹیٹ مارکیٹنگ کارپوریشن (ٹی اے ایس ایم اے سی) کے خلاف تحقیقات پر روک لگا دی اور ای ڈی کو حدیں پار کرنے پر سرزنش کی۔ عدالت نے کہا کہ افراد کے خلاف مقدمہ درج کر سکتے ہیں، لیکن کارپوریشن کے خلاف فوجداری مقدمہ درج نہیں کر سکتے؟

(علامتی تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات (22 مئی) کو ریاست کے زیر انتظام تمل ناڈو اسٹیٹ مارکیٹنگ کارپوریشن (ٹی اے ایس ایم اے سی) کے خلاف تحقیقات پر روک لگا دی اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی ) کو’سار ی حدیں پار کرنے’ پر سرزنش کی۔

چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح  کی بنچ تمل ناڈو حکومت اور ٹی اے ایس ایم سی کی طرف سے دائر درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی، جس میں 23 اپریل کو مدراس ہائی کورٹ کی جانب ان کی درخواست کو خارج کیے جانے  کو چیلنج کیا گیا تھا، جس میں مبینہ بے ضابطگیوں کے سلسلے میں سے 6 اور 8 مارچ 2025 کے درمیان ٹی اے ایس ایم سی ہیڈکوارٹر پر ای ڈی  کے چھاپوں کو غیر قانونی قرار دینے کی مانگ کی گئی تھی۔

لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، سی جے آئی گوئی نے مرکزی تفتیشی ایجنسی کی نمائندگی کررہے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو سے پوچھا،’آپ افراد کے خلاف تومقدمات درج کر سکتے ہیں لیکن کارپوریشن کے خلاف فوجداری مقدمات درج نہیں کر سکتے؟ آپ کاای ڈی  ساری  حدیں پار کر رہا ہے۔’

سپریم کورٹ نے مدراس ہائی کورٹ کے فیصلےکو چیلنج کرنے والےٹی اے ایس ایم سی کی طرف سے دائر ایس ایل پی پر ای ڈی کو نوٹس جاری کیا۔

ٹی اے ایس ایم سی اور اس کے ملازمین کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کپل سبل اور مکل روہتگی نے دلیل دی کہ ایجنسی نے بغیر کسی ضابطے کے موبائل فون کی کلوننگ کرکے اور ذاتی آلات کو ضبط کرکے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا ہے۔

سبل نے کہا، ‘ہم نے پایا کہ جن لوگوں کو آؤٹ لیٹ دیے گئے ہیں ان میں سے کچھ حقیقت میں نقد لے رہے ہیں۔ اس لیے ریاست نے خود کارپوریشن کے خلاف نہیں بلکہ 2014-21 سے افراد کے خلاف 41 ایف آئی آر درج کیں۔ ای ڈی  2025 میں سامنے آتا ہے اور کارپوریشن (ٹی اے ایس ایم سی) اور ہیڈ آفس پر چھاپہ مارتا ہے۔ سارے فون لے لیے گئے، سب کچھ لے لیا گیا۔ سب کچھ کلون کیا گیا۔’

اس پر سی جے آئی نے پوچھا، ‘کارپوریشن کے خلاف جرم کیسے ہو سکتا ہے؟ آپ افراد کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کر سکتے ہیں، لیکن کارپوریشن کے خلاف فوجداری مقدمہ درج نہیں کر سکتے؟’

انہوں نے کہا کہ ‘آپ ملک کے وفاقی ڈھانچے کی مکمل خلاف ورزی کر رہے ہیں۔’

سبل نے عدالت عظمیٰ سے بھی درخواست کی کہ وہ ای ڈی کو فون اور آلات سے کلون شدہ ڈیٹا کے استعمال سے روکے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ پرائیویسی  کا معاملہ ہے!’ تاہم، بنچ نے مشاہدہ کیا کہ درخواست گزاروں کو عبوری راحت پہلے ہی دی جا چکی ہے اور وہ مزید کوئی ہدایات نہیں دے سکتی۔

مدراس ہائی کورٹ کی بنچ نے 23 اپریل کوٹی اے ایس ایم سی کی طرف سے اپنے ہیڈکوارٹر میں ای ڈی  کی طرف سے کی گئی تلاشی اور ضبطی کی کارروائی کے خلاف دائر تین رٹ درخواستوں کو خارج کر دیا تھا۔ بنچ نے درخواستوں کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا تھا کہ چھاپوں اور اچانک معائنہ کے دوران ملازمین کو حراست میں لیناضابطے کا معاملہ ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ای ڈی نے حال ہی میں تمل ناڈو میں کئی مقامات پر نئے سرے سےچھاپے مارے، جن میں ٹی اے ایس ایم سی کے منیجنگ ڈائریکٹر ایس وسکن اور فلمساز آکاش بھاسکرن کے گھر بھی شامل ہیں۔وسکن سے مبینہ طور پر تقریباً 10 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی۔

Next Article

ہیٹ ویو سے 20 سال کے عرصے میں 20 ہزار موتیں، پسماندہ سماج سب سے زیادہ متاثر

سال2001 سے 2019 کے درمیان ہندوستان میں ہیٹ ویو کی وجہ سے تقریباً 20000 افراد ہلاک ہوئے۔ تحقیق میں پایا گیا کہ مرد اور پسماندہ سماج کے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ محققین نے ذات پر مبنی سماجی تحفظ کی پالیسی کی سفارش کی ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: ہندوستان میں2001 سے 2019 کے درمیان ہیٹ ویو یعنی لُو کی وجہ سے تقریباً 20000 افراد ہلاک ہوئے، ایک حالیہ تحقیق میں اس  بات کاانکشاف ہوا ہے۔ اس تحقیق میں مردوں میں ہیٹ اسٹروک سے اموات  کے امکانات زیادہ پائے گئے۔

ایک اور حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ہیٹ ویو سے ہونے والی اموات بھی ذات پات کے خطوط پر منقسم ہیں- ہندوستان میں پسماندہ برادریوں کے لوگوں  کی موتیں، دوسری برادریوں کے لوگوں کے مقابلے ، لُو سے کہیں زیادہ ہوئی ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ ایک طرح کی ‘تھرمل اِن جسٹس’ (گرمی سے متعلق ناانصافی) کی صورتحال ہے۔

اقوام متحدہ کے انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی سی سی) کی2021 کی ایک رپورٹ سمیت متعدد رپورٹس نے خبردار کیا ہے کہ ایشیاء کے کئی حصوں بشمول ہندوستان میں آنے والے برسوں میں اکسٹریم ویدر ایونٹس(شدید موسمی واقعات)، جیسےکہ ہیٹ ویو دیکھنے کو ملیں گے۔

ہر سال گرمی کے ریکارڈ ٹوٹتے جا رہے ہیں۔ ہندوستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق، فروری 2025 ہندوستان میں گزشتہ 125 سالوں میں سب سے گرم فروری کا مہینہ رہا ہے۔

جان لیوا گرمی

ہیٹ ویو یعنی لُوانسانی صحت پر برا اثر ڈال سکتی ہے۔ اور ہیٹ اسٹروک – جو صرف تھکاوٹ اور چکر آنے جیسی ہلکی علامات ہی نہیں بلکہ موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

او پی جندل گلوبل یونیورسٹی، سونی پت، ہریانہ کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ہندوستان میں باہر کے انتہائی درجہ حرارت کی وجہ سے ہونے والی اموات کا مطالعہ کیا۔

انہوں نے عمر اور جنس کے لحاظ سے ایسی اموات میں تفاوت کا مشاہدہ بھی کیا۔ اس کے لیےانھوں نے کئی سرکاری ذرائع سے ڈیٹا کا تجزیہ کیا- جیسے کہ محکمہ موسمیات سے درجہ حرارت کا ڈیٹا اور نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو سے اموات کا ڈیٹا۔


تحقیق میں کہا گیا، ‘ذات، پیشہ اور گرمی سے ہونے والے دباؤ کے درمیان یہ مضبوط تعلق ہی  ‘تھرمل اِن جسٹس’ کہلاتا ہے۔’


ٹیم نے پایا کہ 2001 سے 2019 کے درمیان ہندوستان میں ہیٹ اسٹروک سے 19693 اور شدید سردی سے 15197 اموات ریکارڈ کی گئیں۔ تاہم، یہ تعداد حقیقی اعداوشمار سے کم ہوسکتے ہیں کیونکہ انتہائی درجہ حرارت کی وجہ سے ہونے والی اموات کی رپورٹنگ خاطرخواہ نہیں ہوتی-  یہ بات 29 اپریل کو شائع ہونے والی ایک تحقیق میں کہی گئی ہے،  جوسائنسی جریدے ‘ٹمپریچر’ میں شامل اشاعت ہے۔

تحقیق میں یہ بھی بتایا گیاکہ 45-60 سال کی عمر کے لوگ ہیٹ اسٹروک اور سردی دونوں سے ہونے والی اموات کے لیے سب سے زیادہ حساس تھے۔ اس کے بعد 60 سال سے زیادہ کے بزرگ اور 30-45 سال کی عمر کے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ تحقیق میں یہ بھی پایا گیا کہ ہیٹ اسٹروک سے مرنے والوں میں مردوں کی تعداد زیادہ تھی؛ اس عرصے میں مردوں میں اموات خواتین کی نسبت تین سے پانچ گنا زیادہ تھیں۔

او پی جندل گلوبل یونیورسٹی کے پروفیسر اور اس تحقیق کے شریک مصنف پردیپ گوئن نے ایک بیان میں کہا، “کام کرنے کی عمر کے مردوں میں ہیٹ اسٹروک سے ہونے والی اموات کی زیادہ تعداد شاید اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ مرد خواتین کے مقابلے باہر زیادہ وقت تک کام کرتے ہیں۔’

سال2001 سے 2014 کے ریاستی اعداد و شمار کے مطابق، ہیٹ اسٹروک سے سب سے زیادہ اموات آندھرا پردیش، اتر پردیش اور پنجاب میں ہوئی تھیں۔

او پی جندل گلوبل یونیورسٹی میں موسمیاتی تبدیلی، ماحولیات، صحت، سیاست اور گورننس پر کام کرنے والے پروفیسر پردیپ گوئن نے ایک پریس ریلیز میں کہا، ‘ملک کے بیشتر حصوں میں اس موسم گرما میں شدیدلُو کی توقع ہے، اور جیسے جیسے دنیا گرم ہو رہی ہے،ایکسٹریم ویدر ایونٹس زیادہ ہورہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں، بغیر کسی تاخیر کے، یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو درجہ حرارت کے خطرات کے بارے میں بیدار  کرنےاور ان کےاثرات کو کم کرنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔’

تحقیق کی شریک مصنف اور پی پی جندل گلوبل یونیورسٹی کے اسکول آف  پبلک ہیلتھ اینڈ ہیومن ڈیولپمنٹ کی پروفیسر نندتا بھان  نے پریس ریلیز میں کہا،


‘ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو بیرونی کام(آؤٹ ڈور ورک) کرنے والے مزدور، خاص طور پر کم آمدنی والے اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کو کسی نہ کسی طرح کی سماجی مدد فراہم کرنے پر غور کرنا چاہیے، کیونکہ وہ درجہ حرارت کے باوجود کام پر جانے کو مجبور ہو سکتے ہیں۔’


‘تھرمل اِن جسٹس’

ایک حالیہ تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ ہندوستان میں ہیٹ ویو سے ہونے والی اموات  بھی ذات پات کے خطوط پر منقسم ہے۔

انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (بنگلور اور احمد آباد) سمیت مختلف اداروں کی ایک ٹیم نے سیٹلائٹ ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے2019 اور 2022 کی گرمیوں کے دوران لُو کی وجہ سے ہونے والے ہیٹ اسٹریس (گرمی سے تناؤ) کے بارے میں چھوٹی چھوٹی تفصیلات جمع کیں اور پھر اسے پیریاڈک لیبرفورس سروے (پی ایل ایف ایس) ڈیٹا کے ساتھ ملا کر تجزیہ کیا۔ اس سروے میں ایسے لوگوں کی شناخت کے لیے آبادیاتی اشارے استعمال کیے گئے جو بیرونی کام(آؤٹ ڈور) کرتے تھے۔ اس سروے میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو شامل کیا گیا تھا۔

محققین نے پایا کہ اعلیٰ ذاتوں (بااثرذاتوں) کے لوگ اوسطاً 27-28 فیصد کام باہر کرتے ہیں، جبکہ درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کے لوگ اپنے کل کام کے وقت کا 43-49 فیصد حصہ باہری کاموں میں گزارتے ہیں۔ درج فہرست ذات (ایس سی ) اور درج فہرست قبائل (ایس ٹی) برادریوں کے لوگ مل کرملک کے کم از کم 65 اضلاع میں دو سالوں کے دوران 75فیصد سے زیادہ وقت بیرونی کاموں میں صرف کرتے رہے۔

کیا یہ اس لیے ہو سکتا ہے کہ پسماندہ طبقات گرم علاقوں میں زیادہ رہتے ہیں؟

یہ جاننے کے لیے ٹیم نے رات کے وقت زمین کی سطح کے درجہ حرارت (لینڈ سرفیس ٹمپریچر)کے تجزیےکا سہارا لیااور پایا کہ ایسا نہیں ہے۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کاسٹ، پیشہ اور ہیٹ اسٹریس(گرمی سے تناؤ) کے درمیان جو مضبوط تعلق سامنے آئے ہیں انہیں سب سے بہتر طریقے سے ‘تھرمل اِ ن جسٹس’کے طور پرسمجھا جا سکتا ہے۔

مطالعہ میں مزید کہا گیا ہے، ‘ایک فری مارکیٹ (اکانومی) میں مزدوروں  کو یہ آزادی ہونی چاہیے کہ وہ اپنی ترجیحات کی بنیاد پر مزدوری اور پیشہ ورانہ خطرات کے آمیزے کا انتخاب کرسکیں، ہمارے نتائج بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں یہ آمیزہ ذات پات کی بنیاد پر مختلف ہوتا ہے- اور یہ براہ راست پسماندہ برادریوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔’

مطالعہ یہ بھی کہتا ہے کہ،


‘ذات کی شناخت اور ہیٹ اسٹریس کے رابطے کے درمیان ہمیں جو واضح اور مضبوط تعلق ملا ہے وہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے ہندوستان میں موسمیاتی تبدیلی کے موافقت اور تخفیف کے کسی بھی منصوبے کوصرف محنت کی تقسیم کے بجائے ، ذات پات کے لحاظ سے کام کی تقسیم جیسے سماجی درجہ بندی کو مدنظر رکھ کر تیار کیا جانا چاہیے۔’


نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے جن اعداد و شمار کا استعمال گوئن اور ان کے شریک مصنفین نے اپنے حالیہ مطالعہ میں کیا، ان میں ذات پات سے متعلق کوئی معلومات نہیں تھی۔ لہذا وہ اپنے مطالعے میں ہیٹ ویو سے ہونے والی  خاص کمیونٹی کے اموات کے مسئلے کا جائزہ نہیں لے سکے، گوئن نے دی وائر کو بتایا۔

گوئن نے دی وائر کو ای میل کے ذریعے بتایا،’ڈیموگرافی نام کے جرنل میں شائع ہونے والا مضمون بہت دلچسپ ہے، اور یہ واضح ہے کہ وہاں کے محققین نے ڈیٹا کا استعمال کاسٹ اور ہیٹ اسٹریس کے درمیان تعلق کی تحقیقات کے لیے کیاہے، اور وہ پرذات پر مبنی موافقت اور روک تھام کے منصوبوں کی سفارش کر رہے ہیں۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

بانو مشتاق سے پہلے بھی پی ایم مودی نے دونامور شخصیات کو انٹرنیشنل ایوارڈ پر نہیں دی تھی مبارکباد

کنڑ ادیبہ بانو مشتاق کی’ہارٹ لیمپ’ کو انٹرنیشنل بکرپرائز ملنے پرپی ایم مودی نےانہیں مبارکباد پیش نہیں کی۔ اس سے پہلے انہوں نے رویش کمار کو ریمن میگسیسے ایوارڈ اور گیتانجلی شری کو انٹرنیشنل بکر ایوارڈ ملنے پر بھی مبارکباد نہیں دی تھی۔

گیتانجلی شری، بانو مشتاق اور رویش کمار۔ تصاویر: وکی میڈیا کامنس، اے پی/پی ٹی آئی، اور انٹرنیشنل بکر ویب سائٹ۔

گیتانجلی شری، بانو مشتاق اور رویش کمار۔ تصاویر: وکی میڈیا کامنس، اے پی/پی ٹی آئی، اور انٹرنیشنل بکر ویب سائٹ۔

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی عام طور پر بین الاقوامی فورمز پر مختلف شعبوں میں ہندوستانیوں کی حصولیابیوں کو عوامی طور پر تسلیم کرنے اور ان کاجشن منانے کے لیےمعروف ہیں۔ تاہم، اس میں کچھ قابل ذکر مستثنیات ہیں، جہاں ان کی خاموشی کوواضح طور پرمحسوس کیا گیاہے۔

رپورٹ کے مطابق، ایسی ہی ایک مثال بانو مشتاق کی ہے، جنہیں حال ہی میں بین الاقوامی بکر پرائز سے نوازا گیا، اور پی ایم مودی کی جانب سے انہیں مبارکبادنہیں دی گئی۔

معلوم ہو کہ بانو نے اپنےافسانوں کے مجموعہ’ہردے دیپا’ (ہارٹ لیمپ) کے لیے 2025 کا بین الاقوامی بکر پرائز جیتا ہے۔

بانو کے علاوہ، کم از کم دو ایسی مثالیں اورہیں جب پی ایم مودی نے عالمی سطح پر تسلیم شدہ ایوارڈ کے ہندوستانی فاتحین کی عوامی طور پر ستائش نہیں کی ۔

ان تینوں معاملوں میں وزیر اعظم مودی کی خاموشی کھیل، سائنس اور دیگر شعبوں میں ہندوستانی حصولیابیوں کا عوامی طور پر جشن منانے کے ان کے معمول کے بالکل برعکس ہے۔

یہ خاموشی ممکنہ طور پرترجیحی ہے، اورممکنہ طور پر ان ایوارڈ یافتگان کے سیاسی نظریات ، آئیڈیالوجی یا ان کے کام کے موضوعات کی وجہ سے بھی ہے، جن میں اکثر مذہبی اکثریت پسندی اورتفرقہ انگیز سیاست کی تنقید اور ہندوستان میں تکثیریت کی وکالت شامل ہوتی ہے۔

رویش کمار – ریمن میگسیسے ایوارڈ (2019)

ہندی کے سینئر صحافی رویش کمار کو 2019 میں باوقار ریمن میگسیسے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اسے ایشیا کا نوبیل انعام بھی کہا جاتا ہے۔ ہندوستانی سیاسی اسپیکٹرم سے وسیع پیمانے پر مبارکباد کے باوجود وزیر اعظم مودی کی طرف سے  اس کامیابی پررویش کمار کو عوامی طور پر کوئی مبارکبانہیں دی گئی تھی۔

گیتانجلی شری – بین الاقوامی بکر پرائز (2022)

سال 2022 میں گیتانجلی شری کے ناول ‘ریت سمادھی’ کے انگریزی ترجمہ ‘ٹومب آف سینڈ’ کو بین الاقوامی بکر پرائز سے نوازا گیا تھا۔ گیتانجلی شری بین الاقوامی بکر پرائز جیتنے والی پہلی ہندوستانی ادیبہ ہیں۔ اس حصولیابی پر وزیر اعظم مودی سمیت مرکزی حکومت اور حکمراں جماعت  قابل ذکر  طور پر خاموش رہی، حالانکہ یہ کتاب جنوب ایشیائی زبان میں ایوارڈ جیتنے والی  پہلی تخلیق تھی۔

مودی حکومت کی جانب سےہندی کو فروغ دینے اور ہندوستانیوں کی کامیابیوں کے لیے بین الاقوامی ایوارڈز کا جشن منانے کے بر عکس اس معاملے پر قابل ذکر طو رپر توجہ نہیں دی گئی۔ گیتانجلی کی یہ کتاب ہندوستانی تکثیریت، سرحدوں کی بے معنویت کی ایک جرٲت مندانہ جستجو ہے اور اس میں ایک مسلمان پاکستانی مرد اور ایک ہندو ہندوستانی عورت کے درمیان مضبوط رشتے کی عکاسی کی گئی ہے۔

بانو مشتاق – بین الاقوامی بکر پرائز (2025)

اسی ہفتے ادیبہ بانو مشتاق نے اپنے افسانوی مجموعے ‘ہردے دیپا’ (ہارٹ لیمپ) کے لیے 2025 کا بین الاقوامی بکر پرائز جیتا ہے۔ بنیادی طور پر کنڑ میں لکھی گئی اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ دیپا بھاستی نے کیا ہے۔ اس سلسلے میں جہاں اپوزیشن لیڈر انہیں مبارکباد کے پیغامات بھیجتے رہے،  وہیں پی ایم مودی کی خاموش قابل ذکر طور پرمحسوس کی گئی۔

کنڑ ادب اور ہندوستانی زبان کے لیے ایوارڈ کی تاریخی نوعیت کے پیش نظر یہ کوتاہی کئی معنوں میں حیران کن ہے۔

معلوم ہو کہ یہ مجموعہ جینڈرکے بارے میں بات کرتے ہوئے پدری  نظام پر حملہ کرتا ہے۔

Next Article

پہلگام حملہ: ایک ماہ بعد بھی خالی ہاتھ این آئی اے، اب تک نہیں ملا کوئی ٹھوس سراغ

پہلگام حملے کو ایک مہینہ گزر چکا ہے، لیکن این آئی اے کو ابھی تک کوئی ٹھوس سراغ نہیں ملا ہے۔ تفتیشی ایجنسی گواہوں سے پوچھ گچھ اور تکنیکی نگرانی کر رہی ہے۔ پانچ دہشت گردوں پر شبہ ہے، جن میں سے تین پاکستانی ہو سکتے ہیں۔ سینکڑوں لوگوں سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ تھری ڈی میپنگ بھی کی گئی ہے۔

23 اپریل 2025 کو جائے وقوع  پر تعینات ہندوستانی فوج کے جوان۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

23 اپریل 2025 کو جائے وقوع  پر تعینات ہندوستانی فوج کے جوان۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: پہلگام میں 22 اپریل کو ہوئے حملے کو ایک مہینہ گزر چکا ہے، لیکن قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) اب بھی ان دہشت گردوں کی تلاش کر رہی ہے جنہوں نے جموں و کشمیر کے اس سیاحتی مقام پر 26 شہریوں – 25 سیاحوں اور ایک مقامی کو ہلاک کیا تھا۔ اس حملے کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی کافی بڑھ گئی تھی۔

حملے کے چند دن بعد جموں و کشمیر پولیس سے جانچ اپنے ہاتھ میں لینے والی این آئی اے کو اب تک کوئی ٹھوس سراغ نہیں ملا ہے۔ ایجنسی اب گواہوں سے پوچھ گچھ کر رہی ہے اور تکنیکی نگرانی کے ذریعے ڈیٹا کی جانچ کر رہی ہے۔

شبہ ہے کہ اس حملے میں کم از کم پانچ دہشت گرد ملوث تھے، جن میں سے تین کا تعلق پاکستان سے تھا۔ انتظامیہ نے کم از کم تین دہشت گردوں کے اسکیچ جاری کیے ہیں اور ان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والوں کے لیے 20 لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔

انڈین ایکسپریس نے ایک ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے، ‘جموں و کشمیر پولیس نے ابتدائی طور پر دہشت گردوں کے اسکیچ جاری کیے تھے۔ اس کے بعد این آئی اے نے ایک نیا مقدمہ درج کیا اور گواہوں سے پوچھ گچھ شروع کی۔ اب تک 150 مقامی لوگوں سے پوچھ گچھ کی جا چکی ہے، جن میں ٹٹو چلانے والے، دکاندار، فوٹوگرافر اور ایڈونچر اسپورٹس سے وابستہ افراد شامل ہیں۔’

این آئی اے نے ایک مقامی شخص سے بھی پوچھ گچھ کی ہے، جس نے واقعہ سے تقریباً 15 دن پہلے علاقے میں ایک دکان کھولی تھی لیکن حملے کے دن اسے بند رکھا تھا۔ ذرائع نے کہا، ‘اب تک اس کے خلاف کچھ ٹھوس نہیں ملا ہے، تحقیقات جاری ہے۔’

تحقیقات کے دوران این آئی اے نے جائے وقوع سے جمع کیے گئے موبائل ڈیٹا کی جانچ شروع کردی ہے، جس میں متاثرین کے رشتہ داروں اور دیگر سیاحوں کے ذریعے لیے گئے ویڈیوز اور تصاویر بھی شامل ہیں۔ ایجنسی نے گواہوں اور دکانداروں کے بیانات کی بنیاد پر وادی بائی سرن کی تھری ڈی میپنگ بھی کی ہے۔

ایک افسر نے کہا، ‘اس سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ حملہ آور کتنی  دیر تک وہاں تھے، وہ کہاں سے آئے اور کہاں گئے۔ اسی طرح کی تھری ڈی میپنگ این آئی اے نے 2019 کے پلوامہ حملے کی تحقیقات میں بھی کی تھی۔’

حملے کے بعد جموں و کشمیر پولیس نے بڑے پیمانے پر چھاپے مارے اور سینکڑوں لوگوں کو حراست میں لیا، جن میں اوور گراؤنڈ ورکرز بھی شامل تھے۔ ایک سینئر پولیس اہلکار نے کہا کہ حراست کے پیچھے دو مقاصد تھے؛’پہلا، حملے کے بارے میں کوئی معلومات حاصل کرنا اور دوسرا، یہ پیغام دینا کہ اس طرح کے حملوں کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی اور انہیں برداشت نہیں کیا جائے گا۔یہ پیغام دینا ضروری تھا تاکہ مستقبل میں ایسے حملوں کو روکا جا سکے۔’

تاہم، اہلکار نے یہ بھی اعتراف کیا، ‘پہلے مقصد کے حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔’

ایک اور اہلکار نے بتایا کہ حراست میں لیے گئے بیشتر افراد کو رہا کر دیا گیا ہے۔ ‘تاہم، جن لوگوں نے پہلے اوور گراؤنڈ ورکرز کے طور پر کام کیا ہے ان میں سے کچھ کے خلاف پی ایس اے (پبلک سیفٹی ایکٹ) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔’

انہوں نے کہا کہ پولیس اور این آئی اے کو ‘بہت سے لوگوں’ کے بارے میں اطلاع ملی تھی، لیکن زیادہ تر سراغ جھوٹے نکلے۔ ‘ایک معاملے میں، ایک سیاح نے تین آدمیوں کا ویڈیو پوسٹ کیاتھا،  جو حملہ آوروں سے ملتے جلتے تھے اور انہیں وادی بیتاب (پہلگام کے قریب) میں دیکھا گیا تھا۔ انہیں پکڑا گیا اور بعد میں چھوڑ دیا گیا کیونکہ کوئی کچھ خاص نہیں ملا۔’

ایک اور اہلکار نے بتایا کہ تلاشی مہم کو پہلگام سے آگے جنوبی کشمیر کے بیشتر جنگلات تک بڑھا دیا گیا ہے۔

افسر نے یہ بھی کہا کہ حملے کے ابتدائی چند دنوں میں، سیکورٹی فورسز کو دہشت گردوں کے ڈیجیٹل فٹ پرنٹ  ملے تھے اور ان کی بات چیت کو ٹریس کیاگیا تھا۔ ‘لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ اب مکمل طور پر آف لائن ہو چکے ہیں۔’

حملے کے بعد، فوج اور پولیس نے جنوبی کشمیر میں دو الگ الگ کارروائیوں میں مقامی دہشت گردوں  کو ہلاک کر دیا ہے، جن میں ٹی آر ایف (دی ریزسٹنس فرنٹ) کا ایک ٹاپ کمانڈر بھی شامل تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پہلگام حملے کے پیچھے اسی تنظیم کا ہاتھ ہے۔

Next Article

کیرو ہائیڈرو کیس میں ستیہ پال ملک سمیت 6 دیگر کے خلاف سی بی آئی کی چارج شیٹ، آئی سی یو میں سابق گورنر

کیرو ہائیڈرو الکٹرک پروجیکٹ معاملے میں سی بی آئی نے تین سال کی تحقیقات کے بعد اپنے نتائج خصوصی عدالت  کو سونپے ہیں۔ اس معاملے میں جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک اور پانچ دیگر کے خلاف چارج شیٹ داخل کی گئی ہے۔ دریں اثنا ملک نے بتایاہے کہ وہ شدید بیمار ہیں۔

اپریل 2023 میں نئی ​​دہلی کے آر کے پورم پولیس اسٹیشن میں جموں وکشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

اپریل 2023 میں نئی ​​دہلی کے آر کے پورم پولیس اسٹیشن میں جموں وکشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) نے جمعرات (22 مئی) کو جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک اور پانچ دیگر کے خلاف کیرو ہائیڈرو الکٹرک پروجیکٹ کیس میں چارج شیٹ داخل کی ۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق ، سی بی آئی نے اس معاملے میں تین سال کی تحقیقات کے بعد اپنے نتائج خصوصی عدالت کو سونپے ہیں۔ یہ چارج شیٹ اس سال 22 فروری کو ملک کے گھر اور دیگر جائیدادوں پر سی بی آئی کے چھاپے کے بعد داخل کی گئی ہے۔

اس سلسلے میں ستیہ پال ملک کے علاوہ چناب ویلی پاور پروجیکٹس پرائیویٹ لمیٹڈ (سی وی پی پی پی ایل) کے اس وقت کے چیئرمین نوین کمار چودھری ادھیکاری ایم ایس بابو، ایم کے متل اور ارون کمار مشرا کے علاوہ تعمیراتی فرم پٹیل انجینئرنگ لمیٹڈ کا بھی نام لیا گیا ہے۔

واضح ہو کہ یہ معاملہ 2019 میں جموں و کشمیر کے کشتواڑ ضلع میں ایک ہائیڈرو الکٹرک پروجیکٹ کے سول کام کے لیے ایک نجی کمپنی کو 2200 کروڑ روپے کا ٹھیکہ دینے میں مبینہ بے ضابطگیوں سے متعلق ہے۔

سال2022 میں کیرو ہائیڈرو پروجیکٹ کیس میں سی بی آئی کی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں جموں و کشمیر اے سی بی اور محکمہ بجلی نے تحقیقات کی تھی۔

اس میں مزید کہا گیا ہے، ‘ان رپورٹس کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ کیرو ہائیڈرو الکٹرک پاور پروجیکٹ کے سول ورکس پیکج کے ای-ٹینڈرنگ سے متعلق گائیڈ لائنز پر عمل نہیں کیا گیا  تھااور چناب ویلی پاور پروجیکٹس کے 47ویں بورڈ میٹنگ میں ریورس آکشن(نیلامی) کے ساتھ ای-ٹینڈرنگ کے ذریعے دوبارہ ٹینڈر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، تاہم جاری ٹینڈر کو رد کرنے کے بعد بھی اسے لاگو نہیں کیا گیااور آخر کارٹینڈرمیسرز پٹیل  انجینئرنگ کو دے دیا گیا۔’

یہ بھی کہا گیا ہے کہ 4287 کروڑ روپے کی تخمینہ لاگت والا پروجیکٹ ناقص کام کے الزامات اور مقامی بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں ناکامی کی وجہ سے برباد ہو گیا۔

معاملے کی اے سی بی جانچ میں پایا گیا کہ چناب ویلی پاور پروجیکٹ کی47ویں بورڈ میٹنگ میں پروجیکٹ کے لیے ٹینڈر منسوخ کر دیا گیا تھا، لیکن اسے 48ویں بورڈ میٹنگ میں واپس لا کر پٹیل انجینئرنگ کو دیا گیا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ 23 اگست 2018 سے 30 اکتوبر 2019 تک جموں و کشمیر کے گورنر رہے ستیہ پال ملک نے خود اکتوبر 2021 میں دعویٰ کیا تھا کہ انہیں پروجیکٹ سے متعلق دو فائلوں کو منظوری دینے کے لیے 300 کروڑ روپے کی رشوت کی پیشکش کی گئی تھی  ۔ ان میں سے ایک فائل راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے متعلق تھی۔

انہوں نے گزشتہ سال سی بی آئی کی تلاشی کے بعد اپنے خلاف کرپشن کے الزامات سے انکار کیا تھا ۔

ہسپتال میں ملک

قابل ذکر ہے کہ اس دوران ملک نے کہا ہے کہ وہ شدید بیمار ہیں اور بدھ (21 مئی) سے ان کی کڈنی کا ڈائلیسس شروع ہو اہے۔

ان کے پرسنل مینیجر کے ایس رانا نے دی وائر کو بتایا،’ستیہ پال ملک کو 11 مئی کو ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ وہ پیشاب اور گیس پاس کرنے سے قاصر ہیں، اور 14 مئی کو کرائے گئے کلچر ٹیسٹ میں شدید یورین انفیکشن اورکڈنی کی خرابی کی تصدیق ہوئی ہے۔ کل سے ان کی حالت بگڑ گئی ہے اور ان کے گردے بالکل کام نہیں کر رہے ہیں۔ وہ اس وقت آئی سی یو میں داخل ہیں اور بے ہوشی کی حالت میں زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔’

اس سے قبل فروری میں چھاپے کے بعد ملک نے کہا تھا کہ وہ کسان کے بیٹے ہیں اور چھاپے ماری سے ڈریں  گے نہیں۔

انہوں نے  ٹوئٹ کیا تھا،’میں نے بدعنوانی کےملزم لوگوں کے خلاف شکایت کی تھی۔ لیکن سی بی آئی نے ان کی تلاش کے بجائے میرے گھر پر چھاپہ مارا۔ میرے گھر سے آپ کومیرے 4-5 کرتے پاجامے کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ تاناشاہ سرکاری اداروں کا غلط استعمال کر کے مجھے ڈرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں کسان کا بیٹا ہوں، میں ڈروں گا  نہیں اور جھکوں گا نہیں۔’

سی بی آئی نے جنوری میں اس کیس کے سلسلے میں پانچ دیگر افراد کے احاطے کی بھی تلاشی لی تھی۔ الزام ہے کہ ملک کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کرنے کے لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔