بہار حکومت میں اتحادی پارٹی ہندوستانی عوام مورچہ (ہم) کے رہنما اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی کا یہ تبصرہ رام نومی پر نکلے جلوسوں کے دوران کئی ریاستوں میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ جھڑپوں کے بعد سامنے آیا ہے۔
نئی دہلی: بہار کے سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی نے اپنی اتحادی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر حملہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ‘رام’ میں یقین نہیں رکھتے۔
این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق، 14 اپریل کو امبیڈکر جینتی کے موقع پر منعقد ایک تقریب میں مانجھی نے کہا، میں رام میں یقین نہیں رکھتا۔ رام بھگوان نہیں تھے۔ رام، تلسی داس اور والمیکی کے ذریعے اپنا پیغام دینے کے لیے تخلیق کیے گئے کردار تھے۔
ان کا یہ تبصرہ رام نومی پرنکلے جلوسوں کے دوران کئی ریاستوں میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ جھڑپوں کے بعد آیا۔ چند سال قبل اپنی پارٹی ہندوستانی عوام مورچہ (ہم) بنانے والے دلت رہنما مانجھی کو وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی قیادت والےجنتا دل (یونائیٹڈ) اور بی جے پی کے درمیان اتحاد میں ایک اہم اتحادی مانا جاتا ہے۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے مانجھی نے کہا، انہوں نے (تلسی داس اور والمیکی) رامائن لکھی تھی اور ان کی اس تخلیق میں کئی اچھے سبق ہیں۔ ہم ایسا مانتے ہیں۔ ہم تلسی داس اور والمیکی میں یقین رکھتے ہیں، رام میں نہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ نے دلتوں پر مظالم کا حوالہ دیتے ہوئے برہمنوں پر حملہ کرتے ہوئے کہا، اگر آپ رام کو مانتے ہیں تو ہم نے ہمیشہ سے یہ کہانی سنی ہے کہ رام نے شبری کے جوٹھےبیر کھائے تھے، لیکن آپ اس چیز کونہیں کھائیں گے،جس کو ہم جوٹھاکرلیں، لیکن کم از کم اس کو تو کھالیجیے جس کو ہم چھوتے ہیں۔
انہوں نے کہا، دنیا میں دو ہی کاسٹ ہیں، امیر اور غریب۔
سابق مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان کی موت کے بعد مسہر مہادلت برادری سےتعلق رکھنے والے مانجھی ریاست کے سب سے اہم دلت رہنما ہیں۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے ساتھ ان کے تعلقات کبھی خوشگوار اور کبھی تلخ رہے ہیں۔
مانجھی اس وقت مقبول ہوئے جب نتیش کمار نے انہیں مختصر مدت کے لیے وزیر اعلیٰ مقرر کیا تھا، لیکن مانجھی کے خلاف پارٹی کے مختلف رہنماؤں کی شکایت کے بعد انہیں جلد ہی ہٹا دیا گیا۔
انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا، جس کے بعد انہوں نے جے ڈی (یو) – بی جے پی کی قیادت والے اتحاد میں دوبارہ شامل ہونے سے پہلے 2018 اور 2020 کے درمیان راشٹریہ جنتا دل-کانگریس اتحاد سے ہاتھ ملایا۔ ان کے بیٹے سنتوش مانجھی اس وقت نتیش کمار حکومت میں کابینہ وزیر ہیں۔
ماہرین رام پر مانجھی کے تبصرے کو حکمراں اتحاد میں اپنی افادیت دکھانے کی ایک اور کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ان کا تبصرہ ایسے وقت میں زیادہ اہم معلوم ہوتا ہے جبکہ اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی بی جے پی حکومت اور حکمراں اتحاد میں سب سے مضبوط پوزیشن میں ہے۔
حال ہی میں دیکھا گیا کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اسمبلی میں اسپیکر اور سینئر بی جے پی لیڈر وجے کمار سنہا پر سخت رویہ دکھایا تھا۔ انہوں نے سنہا پر ‘غیر آئینی طرز عمل’ میں شامل ہونے اور مجرمانہ تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگایا تھا۔
بھگوا پارٹی (بی جے پی) نے بھی حال ہی میں اپنی اتحادی پارٹی وکاسیل انسان پارٹی (وی آئی پی ) کے خلاف لڑائی شروع کی تھی۔ عملی طور پر وی آئی پی اپنے تینوں ایم ایل اے کے بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد تحلیل ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے اس کے رہنما مکیش سہنی بیچ میں لٹک گئے۔
سہنی کی قانون ساز کونسل کی رکنیت بھی جولائی 2022 میں ختم ہو جائے گی، جس کی وجہ سے امکان ہے کہ وہ اپنی قانون ساز کونسل کی نشست بھی کھو دیں گے، کیونکہ بی جے پی نے ان سے حمایت واپس لینے کے واضح اشارے دیے ہیں۔
صرف چار ایم ایل اے والے اتحاد کے ایک چھوٹے سے پارٹنرکے طور پر مانجھی کی پارٹی ‘ ہم’ بھی ان حالیہ پیش رفتوں اور نتیش کمار کی قیادت والی حکومت میں بی جے پی کے بڑھتےاثر و رسوخ کے بارے میں فکر مند ہوگی۔
بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں رہنے کے باوجود کمار کی اپنی سیاسی آزادی کو برقرار رکھنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ وقتاً فوقتاً، انہوں نے بی جے پی سے مختلف سیاسی موقف اختیار کیا ہے، خاص طور پر ایسے مسائل پر جو ہندو مسلم پولرائزیشن کا باعث بن سکتے ہیں۔
تاہم، 2020 کے انتخابات میں بی جے پی کو پیچھے چھوڑنے کے بعد، وہ سیاسی تصادم سے بچنے کے لیے کافی احتیاط برت رہے ہیں۔
جب وی آئی پی کو بی جے پی نے بے دردی سے ختم کیا اور اس پر ان کی دوٹوک خاموشی یا لکھنؤ میں آدتیہ ناتھ کی حلف برداری کی تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے ان کا 45 ڈگری تک جھک جانا، وہ مثالیں ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ بہار کے وزیر اعلیٰ کا قد بی جے پی کے سامنے بونا ہو گیا ہے۔
اس پس منظر میں، امبیڈکر جینتی کے موقع پر منعقد ایک پروگرام میں رام پر مانجھی کا تبصرہ نہ صرف اعلیٰ ذات کی قیادت والی بی جے پی کے لیے ایک مضبوط سیاسی پیغام ہے، بلکہ بی جے پی کو خاص طور پر حکمراں اتحاد کے تنوع پر زور دینے کی ہدایت بھی کر سکتی ہے۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔