کورٹ میں بولی دہلی پولیس، ہیٹ اسپیچ کے الزام میں گرفتار پنجرہ توڑ ممبر کی تقریر کا ویڈیو نہیں

شمال-مشرقی دہلی میں فروری مہینے میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے دوران ہیٹ اسپیچ کے الزام میں پنجڑہ توڑ تنظیم کی ممبر دیوانگنا کلیتا حراست میں ہیں۔

شمال-مشرقی دہلی میں فروری مہینے میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے دوران ہیٹ اسپیچ  کے الزام میں پنجڑہ توڑ تنظیم کی ممبر دیوانگنا کلیتا حراست میں ہیں۔

فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر

فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ  نے جمعہ کو دہلی پولیس کوہدایت دی کہ پنجرہ توڑ تنظیم کی ممبر دیوانگنا کلیتا کے ویڈیو پیش کرے، جس میں وہ مبینہ طور پر بھڑکاؤ بیان دے رہی ہیں۔شمال-مشرقی دہلی میں اس سال فروری مہینے میں ہوئےفرقہ وارانہ تشدد کے دوران بھڑکاؤ بیان دینے کے الزام میں کلیتا فی الحال عدالتی حراست میں ہیں۔

حالانکہ ان کی ضمانت عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے پولیس نے کہا کہ ان کے پاس اس وقت کے ویڈیو اور تصویریں تو ہیں، جس میں پنجرہ توڑ کی ممبر اور جے این یواسٹوڈنٹ دیوانگنا کلیتا دیکھی جا سکتی ہیں، لیکن اس کے پاس ایسا کوئی ویڈیو نہیں ہیں جس میں وہ بھڑکاؤ بیان دے رہی تھیں۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، شنوائی میں دہلی پولیس کی جانب سے پیش ہوئے ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل ایس وی راجو سے جسٹس سریش کمار کیت کے ذریعے باربار یہ پوچھے جانے پر کہ اگر پولیس کے پاس جعفرآباد میں کلیتاکےمبینہ طور پر بھیڑ کو بھڑ کانے والے بیان کا کوئی حصہ ہو تو پیش کرے۔ اس پر معاملے کے جانچ افسر نے یہ بات کہی کہ ان کے پاس ایسا کوئی ویڈیو نہیں ہے۔

کلیتا کی ضمانت عرضی پر فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے عدالت نے دونوں فریق کو سوموار (24 اگست)تک تحریری حلف نامہ پیش کرنے کاوقت دیا ہے۔عدالت میں کلیتا کی جانب  سے پیش ہوئے ان کے وکیل کپل سبل نے بتایا کہ ان کے (کلیتا)خلاف چارج شیٹ داخل ہو چکی ہیں اور اب جانچ کے لیے ان کی ضرورت نہیں ہے۔

سبل نے دلیل دی،‘دہلی پولیس نے کہا ہے کہ کسی سی سی ٹی وی فوٹیج یا ویڈیو میں وہ (کلیتا)نظر نہیں آتی ہیں۔’سبل نے کہا کہ کلیتا ایک زبردست طالبعلم ہیں اور اگر انہیں لگتا ہے تو کسی مدعے کے لیے چل رہے مظاہرہ میں شامل ہونے کا ان کے پاس اختیار ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل ایس وی راجو یہ دلیل دیتے رہے کہ دنگوں کے دوران دیوانگنا کلیتا نے بھیڑ کو بھڑکایا تھا اور عدالت بار بار یہ پوچھتی رہی کہ کیا ان کے پاس ایسا کوئی ویڈیو یا سی سی ٹی وی فوٹیج ہے، جس میں وہ ایسا کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں؟

معاملے کی شنوائی کر رہے جسٹس کیت نے کہا،‘اس وقت میڈیا وہاں تھی۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ انہوں نے (کلیتا)ایسا کیا کہا تھا جس سے بھیڑ بھڑک گئی اور جرم کیا۔’اس پر ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل نے کہا، ‘جانچ افسر کے مطابق اس وقت وہاں میڈیا نہیں تھی، تب جسٹس کیت نے سوال کیا، کیا وہاں پولیس تھی؟ اگر ہاں تو پولیس کو کچھ ریکارڈ کرنا چاہیے تھا۔’

اس پر ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل نے کہا، ‘اس مظاہرے میں بہت سارے لوگوں نے حصہ لیا تھا، کسی بھی سی سی ٹی وی فوٹیج میں سب کے چہرے قید ہونے کی امید کرنا ممکن نہیں ہے۔’خود کے دہلی پولیس کے ذریعے مقرر کیے گئے اسپیشل سرکاری وکیل ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے وکیل راجیو کشن شرما شنوائی کے دوران ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعےپیش ہوئے۔

عدالت نے شرما سے پوچھا کہ کیا پولیس کے پاس ایسا کوئی ویڈیو ہے۔ اس پر انہوں نے کہا، ‘ہمارے پاس اس سلسلے میں تمام تصویریں اور ویڈیو ہیں۔ معاملے کے جانچ افسر کے پاس یہ دستیاب ہیں۔’اس پر جسٹس کیت نے جانچ افسرکو بلوا کر ویڈیو کے بارے میں پوچھا۔

جانچ افسرنے عدالت کو بتایا،‘ہمارے پاس ویڈیو ریکارڈنگ اور تصویریں ہیں، لیکن بھڑکاؤ بیان سے متعلق کچھ نہیں ہیں، لیکن یہ ان کے وہاں موجود ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔’انہوں نے بتایا، ‘واقعہ سے پہلے جب وہ لوگوں کو بھڑکا رہے تھے، ہمارے پاس وہ ویڈیو ہیں، جس میں 22 اور 23 فروری کو وہ یہاں بیٹھے ہوئے تھے، لیکن ہمارے پاس ان کے ذریعے بھڑکاؤ بیان دینے سے متعلق ویڈیو نہیں ہیں۔’

بتا دیں کہ گزشتہ جولائی میں دہلی کی ایک مقامی عدالت نے فسادات سے متعلق  ویڈیو فوٹیج نکالنے میں دیری پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور معاملے کی جانچ میں بے وجہ کاہلی برتنے پر دہلی پولیس کی سرزنش کرتے ہوئے شمال-مشرقی دہلی دنگوں کی غیر جانبدارانہ  جانچ یقینی بنانے کو کہا تھا۔

معلوم ہو کہ دیوانگنا کلیتا اور ‘پنجرہ توڑ’ کی ایک اور ممبر نتاشا نروال کو مئی مہینے میں دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے خلاف آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت معاملے درج کیےگئے ہیں۔پچھلے سال دسمبر میں شہریت ترمیم قانون (سی اےاے)کے خلاف مظاہروں  کے دوران پرانی دہلی کے دریا گنج علاقے میں اور اس سال کی شروعات میں شمال مشرقی  دہلی کے دنگوں اورتشدد کے سلسلے میں کلیتاکے خلاف چار معاملے درج کیے گئے ہیں۔

کلیتا کو دو معاملوں میں دریا گنج اور ایک شمال مشرقی  دہلی کے جعفرآباد معاملے میں ضمانت مل چکی ہے۔پنجرہ توڑ تنظیم کاقیام 2015 میں کیا گیا تھا، جو ہاسٹل میں رہنے والی اسٹوڈنٹ پر نافذ طرح طرح کی پابندیوں کی مخالفت کرتی ہے۔ تنظیم کیمپس کے امتیازی قوانین اور کرفیو ٹائم کے خلاف لگاتار مہم چلاتی رہی ہے۔

Next Article

راہل گاندھی نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر محروم طبقات کے طلبہ کے ہاسٹل اور اسکالرشپ کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا

راہل گاندھی نے 10جون کو لکھے اپنے خط میں پی ایم مودی سے کہاہے کہ دلت، شیڈول ٹرائب (ایس ٹی)، انتہائی پسماندہ طبقہ (ای بی سی)، دیگر پسماندہ طبقہ (او بی سی) اور اقلیتی طلبہ کے   ہاسٹلوں کی حالت ‘قابل رحم’ ہے۔ اس کے علاوہ ان طلبہ  کے لیے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ  کی فراہمی میں تاخیر ہو رہی ہے۔

لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی۔ (تصویر بہ شکریہ: یوٹیوب/انڈین نیشنل کانگریس سے اسکرین شاٹ)

نئی دہلی: لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا ہے، جس میں دلت، درج فہرست قبائل (ایس ٹی)، انتہائی پسماندہ طبقہ (ای بی سی)، دیگر پسماندہ طبقہ (او بی سی) اور اقلیتی طلبہ کے ہاسٹلوں کی’قابل رحم’حالت کی جانب  توجہ مبذول کروائی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، راہل گاندھی نے اپنے خط میں محروم طبقات کے طلبہ کو پوسٹ میٹرک اسکالرشپ فراہم کرنے میں تاخیر کے معاملے کو بھی اٹھایا ہے اور وزیر اعظم سے ان اہم مسائل پر توجہ دینے کی گزارش  کی ہے۔

دی ہندو کے مطابق ، انہوں نے کہا کہ ان مسائل کی وجہ سے ان طبقات کے 90 فیصد طلبہ کے تعلیمی مواقع متاثر ہو رہے ہیں۔

معلوم ہو کہ راہل گاندھی نے یہ خط 10 جون کو لکھا ہے۔ اس میں انہوں نے کہا ہے، ‘پہلا مسئلہ دلت، ایس ٹی، ای بی سی، او بی سی اور اقلیتی برادریوں کے طلبہ کے لیے رہائشی ہاسٹل کی قابل رحم حالت ہے۔ بہار کے دربھنگہ میں امبیڈکر ہاسٹل کے حالیہ دورے کے دوران طلبہ نے شکایت کی کہ وہاں ایک کمرہ ہے، جس میں 6-7 طلبہ کو رہنے پر مجبور  ہونا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ بیت الخلاء گندے ہیں، پینے کا پانی صاف نہیں ہے، میس کی سہولت نہیں ہے اور لائبریری یا انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے۔’

راہل گاندھی نے مزید کہا، ‘دوسرا مسئلہ محروم طبقات کے طلبہ کے لیے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ میں تاخیر اور ناکامی ہے۔’

بہار کی مثال دیتے ہوئے اپوزیشن لیڈر نے دعویٰ کیا کہ وہاں کا اسکالرشپ پورٹل تین سال سے بند ہے اور 2021-22 میں کسی بھی طالبعلم کو اسکالرشپ نہیں ملی ہے۔

گاندھی نے خط میں لکھا، ‘اس کے بعد بھی اسکالرشپ حاصل کرنے والے دلت طلبہ کی تعداد تقریباً آدھی رہ گئی ہے، جو مالی سال 23 میں 1.36 لاکھ سے مالی سال 24 میں 0.69 لاکھ تک پہنچ گئی۔ طلبہ کی شکایت ہے کہ اسکالرشپ کی رقم ذلت آمیز حد تک کم ہے۔’

راہل گاندھی نے کہا ہے کہ یہ ‘مسئلہ’ پورے ہندوستان میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے پی ایم مودی سے مطالبہ کیا کہ وہ دلت، ایس ٹی، ای بی سی، او بی سی اور اقلیتی برادریوں کے طلبہ کے لیے ہر ہاسٹل کا آڈٹ کرائیں تاکہ ان طلبہ کے لیے اچھا انفراسٹرکچر، صفائی ستھرائی اور خوراک اور تعلیمی سہولیات کو یقینی بنایا جاسکے اور کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے مناسب فنڈز مختص کیے جاسکیں۔

اس کے علاوہ راہل گاندھی نے اسکالرشپ کی بروقت تقسیم، اسکالرشپ کی رقم میں اضافہ اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپس کو بہتر طریقے سے نافذ کرنے پر بھی زور دیا ہے۔

راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ پی ایم مودی اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ہندوستان اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک کہ محروم طبقات کے نوجوان آگے نہیں بڑھتے۔ انہوں نے اس سلسلے میں وزیراعظم سے مثبتردعمل کی توقع ظاہر کی ہے۔

Next Article

ایئر انڈیا حادثہ: پی ایم مودی نے جائے حادثہ کا دورہ کیا، کئی ممالک کے سربراہان نے تعزیت کا اظہار کیا

جمعرات کو ایئر انڈیا کا طیارہ گر کر تباہ ہونے کے بعد پی ایم مودی نے جمعہ کو جائے حادثہ کا دورہ کیا۔ دریں اثناء امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، پاکستان، بنگلہ دیش اور مالدیپ سمیت کئی ممالک کے سربراہان نے اس حادثے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

پی ایم مودی جائے حادثہ کا دورہ کرتے ہوئے۔تصویر بہ شکریہ: ایکس

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعہ (13 جون) کو گجرات کے احمد آباد میں جائے حادثہ کا دورہ کیا، جہاں ایک دن پہلے ایئر انڈیا کا مسافر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ اس دوران وزیراعظم نے سول اسپتال کا بھی دورہ کیا، جہاں اس حادثے میں زخمی ہونے والوں  کا علاج کیا جا رہا ہے۔

معلوم ہو کہ جمعرات (12 جون) کو ایئر انڈیا کا  طیارہ لندن کے لیے ٹیک آف کرنے کے فوراً بعد ایک رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا تھا، جس کے بعد رات دیر گئے ایئر انڈیا نے طیارے میں سوار 242 میں سے 241 افراد کی موت کی تصدیق کی ۔ طیارے میں 230 مسافر اور عملے کے 12 ارکان سوار تھے۔

اس واقعے میں ایک ہندوستانی نژاد برطانوی مسافر بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔ وہیں، گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ وجئے  روپانی  کی بھی موت ہوگئی۔

جمعرات کو واقعہ کے بعد احمد آباد پہنچے  وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا، ‘تقریباً تمام مسافروں کی لاشوں کو نکالنے کا کام مکمل ہو گیا ہے۔ 1.25 لاکھ لیٹر ایندھن کی  وجہ سے درجہ حرارت اتنا زیادہ تھا کہ کسی کو بچانے کا کوئی امکان نہیں تھا۔’

اس حادثے پر ملک اور بیرون ملک سے تعزیت کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے کہا ہے کہ وہ حادثے کی تحقیقات میں ہر ممکن مدد فراہم کریں گے۔

روس کے صدر ولادیمیر پوتن، کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی، پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف ، بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس، مالدیپ کے صدر محمد معیزو سمیت کئی سربراہان مملکت نے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

وہائٹ ہاؤس میں ایک تقریب کے دوران طیارہ حادثے پر بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا،’ حادثہ خوفناک تھا، میں نے ان سے کہا ہے کہ ہم جو کچھ کر سکتے ہیں کریں گے، ہندوستان ایک بڑا اور مضبوط ملک ہے، مجھے یقین ہے کہ وہ اسے سنبھال لیں گے۔’

ایئر انڈیا نے تصدیق کی ہے کہ 12 جون 2025 کو احمد آباد سے لندن گیٹوک جانے والی پرواز اے آئی171حادثے کا شکار ہوگئی۔ 12 سال پرانا بوئنگ 787-8 طیارہ احمد آباد سے دوپہر 1:38 پر روانہ ہوا تھا۔ اس میں 230 مسافر اور عملے کے 12 ارکان سوار تھے۔ طیارہ ٹیک آف کے کچھ دیر بعد گر کر تباہ ہو گیا۔ ہمیں یہ بتاتے ہوئے انتہائی دکھ ہورہا ہے کہ کل 242 میں سے 241 کی موت ہو چکی ہے۔ واحد زندہ بچ جانے والا ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ طیارے میں 169 ہندوستانی، 53 برطانوی، 7 پرتگالی اور 1 کینیڈین شہری سوار تھے۔ زندہ بچ جانے والے ہندوستانی نژاد برطانوی شہری ہیں۔

‘ایئر انڈیا مرنے والوں کے اہل خانہ کے تئیں اپنی گہری تعزیت کا اظہار کرتا ہے۔ ہماری توجہ اس وقت متاثرہ افراد، ان کے اہل خانہ اور پیاروں کی مدد پر ہے۔ ضرورت مندوں کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے لیے ایئر انڈیا کی ایک خصوصی ٹیم احمد آباد میں موجود ہے۔ ہم واقعے کی تحقیقات کرنے والی ایجنسیوں سے مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ ایئر انڈیا نے خصوصی ہیلپ لائن نمبر 1800 5691 444 جاری کیا ہے۔ ہندوستان سے باہر سے کال کرنے والوں کے لیے یہ نمبر ہے: +91 8062779200۔’ ایئر انڈیا نے ایکس پر لکھا ہے ۔

ایئر انڈیا نے ایک اور پوسٹ میں کچھ اور معلومات دی ہیں۔ لکھا ہے ، ‘ایئر انڈیا نے احمد آباد، ممبئی، دہلی اور گیٹوک ہوائی اڈوں پر ‘فرینڈز اینڈ ریلیٹیو اسسٹنس سینٹرز’ قائم کیے ہیں، تاکہ فلائٹ اے آئی171 کے مسافروں کے اہل خانہ اور پیاروں کو مدد کی جاسکے۔ ان مراکز کے ذریعے رشتہ داروں کے احمد آباد جانے کے انتظامات بھی کیے جا رہے ہیں۔’

حادثے کے بارے میں ایئر انڈیا کے چیئرمین این چندر شیکھرن نے کہا، ‘انتہائی دکھ کے ساتھ میں تصدیق کرتا ہوں کہ احمد آباد سے لندن گیٹوک جانے والی ایئر انڈیا کی پرواز نمبر 171 آج حادثے کا شکار ہو گئی ہے۔ ہماری تعزیت اس ہولناک حادثے سے متاثر ہونے والوں کے خاندانوں اور پیاروں کے ساتھ ہے۔ اس وقت ہماری ترجیح تمام متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کو امداد فراہم کرنا ہے۔ ہم موقع پر موجود ایمرجنسی ریسپانس ٹیموں کی مدد اور حادثے کے متاثرین کو ضروری مدد فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔’

معلوم ہو کہ ایئر انڈیا کا بی 787 ڈریم لائنر طیارہ جو احمد آباد سے لندن کے گیٹوک ہوائی اڈے کے لیے اڑان بھر رہا تھا وہ ایک رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا۔ اس طیارے کے مین پائلٹ سمت سبھروال تھے اور کو پائلٹ کلائیو کندر تھے۔ طیارے میں 230 مسافر اور عملے کے 12 ارکان سوار تھے۔

ایئر لائن کے مطابق، گر کر تباہ ہونے والے بوئنگ 787-8 طیارے میں 169 ہندوستانی، 53 برطانوی، ایک کینیڈین اور سات ڈچ شہری سوار تھے۔

Next Article

مسافروں کو لے کرجا رہا ایئر انڈیا کا طیارہ احمد آباد ہوائی اڈے کے قریب حادثے کا شکار

لندن جارہا ایئر انڈیا کا طیارہ احمد آباد ایئرپورٹ سے ٹیک آف کے فوراً بعد حادثے کا شکار ہو گیا۔ طیارے میں 242 مسافر سوار تھے۔ ایئر انڈیا نے مسافروں اور ان کے اہل خانہ کو معلومات فراہم کرنے کے لیے ایک خصوصی ہیلپ لائن نمبر 1800 5691 444 جاری کیا ہے۔

احمد آباد ہوائی اڈے کے قریب طیارہ کے حادثے کا شکار ہونے کے بعد منظر، جمعرات، 12 جون، 2025 ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: لندن جانے والا ایئر انڈیا کا طیارہ آج احمد آباد ہوائی اڈے کے قریب حادثے کا شکار ہو گیا ۔کئی  لوگوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کا اندیشہ ہے، حالاں کہ سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔

ریاستی پولیس کنٹرول روم نے بتایا ہے کہ طیارے میں 242 مسافر سوار تھے۔ ٹی وی9گجراتی نے اطلاع دی ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ وجئے روپانی بھی اس میں سوار تھے۔

ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن نے کہا ہے کہ طیارہ احمد آباد سے ٹیک آف کے فوراً بعد گر کر تباہ ہو گیا۔ اس نے تصدیق کی ہے کہ طیارے میں دو پائلٹ اور 10 کیبن کریو سمیت 242 افراد سوار تھے۔ طیارے کی کمانڈ کیپٹن سمت سبھروال اور فرسٹ آفیسر کلائیو کندر کے ہاتھوں میں تھی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ 242 افراد میں 217 بالغ اور 11 بچے شامل ہیں۔

ایئر انڈیا نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ، ‘ آج احمد آباد سے لندن گیٹوک جا رہی فلائٹ اے آئی171 ٹیک آف کے بعد حادثے کا شکار ہوگئی۔ یہ پرواز احمد آباد سے دوپہر 1:38 پر روانہ ہوئی تھی اور  بوئنگ 787-8 طیارے میں کل 242 مسافر اور عملے کے ارکان سوار تھے ۔ ان میں سے 169 ہندوستانی شہری ، 53 برطانوی شہری ، 1 کینیڈین شہری اور 7 پرتگالی شہری تھے۔ زخمیوں کو قریبی اسپتالوں میں لے جایا جا رہا ہے۔ ایئر انڈیا نے مسافروں اور ان کے اہل خانہ کو معلومات فراہم کرنے کے لیے ایک خصوصی ہیلپ لائن نمبر 1800 5691 444 جاری کیا ہے ۔ ایئر انڈیا اس واقعے کی تحقیقات کرنے والے اہلکاروں کے ساتھ مکمل تعاون کر رہا ہے۔ ‘

تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے شہری ہوابازی کے وزیر رام موہن نائیڈو نے ایکس پر لکھا ، ‘احمد آباد میں فلائٹ حادثے کی خبر سے صدمے میں ہوں اور غمزدہ ہوں۔ ہم نے اعلیٰ سطح کی چوکسی اختیار کی ہے۔ میں خود صورتحال کی نگرانی کر رہا ہوں اور تمام ہوا بازی اور ہنگامی اداروں کو فوری اور مربوط کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ریسکیو ٹیمیں موقع پر روانہ کر دی گئی ہیں اور زخمیوں کو فوری طبی امداد اور ریلیف فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ میری تعزیت اور دعائیں طیارے میں سوار تمام لوگوں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔’

واقعے کے ویڈیو میں میگھانی نگر کے قریب دھارپور علاقے سے شدید دھوئیں کا غبار اٹھتے دیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ اکاؤنٹس کا کہنا ہے کہ حادثہ فرانزک کراس روڈ پر پیش آیا۔

گجرات کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل نے ایکس پر پوسٹ کیا کہ زخمی مسافروں کو علاج کے لیے لے جانے کے لیے گرین کوریڈور کا انتظام کرنے اور اسپتال میں علاج کے تمام انتظامات کو ترجیحی بنیادوں پر یقینی بنانے کی ہدایات دی گئی ہیں۔

پٹیل نے اموات پر غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ‘وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی مجھ سے بات کی اور اس طیارہ حادثے میں بچاؤ اور امدادی کارروائیوں کے لیے این ڈی آر ایف ٹیموں اور مرکزی حکومت کے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔’

مرکزی شہری ہوابازی کے وزیر رام موہن نائیڈو کنجراپو نے بھی ایکس پر ایک پیغام پوسٹ کیا ؛ ‘احمد آباد میں ہوائی جہاز کے حادثے کے بارے میں جان کر صدمے میں ہوں۔’

انہوں نے کہا، ‘ہم ہائی الرٹ پر ہیں۔ میں ذاتی طور پر صورتحال کی نگرانی کر رہا ہوں اور تمام ایوی ایشن اور ایمرجنسی رسپانس ایجنسیوں کو فوری اور مربوط کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ریسکیو ٹیمیں تعینات کر دی گئی ہیں، اور طبی امداد اور راحت کے کام کو جائے وقوعہ پر پہنچانے کو یقینی بنانے کی تمام کوششیں کی جا رہی ہیں۔ میری تعزیت اور دعائیں طیارے میں سوار تمام افراد اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔’

ایئر انڈیا کے چیئرمین این چندر شیکھرن نے بھی غم کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘میں انتہائی دکھ کے ساتھ تصدیق کرتا ہوں کہ احمد آباد سے لندن گیٹوک کے لیے اڑان بھرنے والی ایئر انڈیا کی فلائٹ 171 آج ایک المناک حادثے کا شکار ہوگئی۔ ہماری تعزیت اس تباہ کن واقعے سے متاثرہ تمام افراد کے اہل خانہ اور پیاروں کے ساتھ ہے۔ اس وقت، ہماری بنیادی توجہ تمام متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کی مدد پر ہے۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘ہم سائٹ پر ایمرجنسی رسپانس ٹیموں کی مدد کرنے اور متاثرہ افراد کو تمام ضروری مدد اور دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے اپنے  اختیارات میں ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ جیسے ہی ہمیں مزید تصدیق شدہ معلومات موصول ہوں گی مزید اپڈیٹس کا اشتراک کیا جائے گا۔ ایک ہنگامی مرکز کو فعال کر دیا گیا ہے اور معلومات حاصل کرنے والے خاندانوں کے لیے ایک امدادی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔’

دریں اثنا، احمد آباد ہوائی اڈے کے آپریٹر اڈانی گروپ نے کہا کہ وہ حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

اڈانی گروپ کے چیئرمین گوتم اڈانی نے جمعرات کو کہا کہ احمد آباد ہوائی اڈے کے قریب ایئر انڈیا کے طیارہ  کے حادثے کا شکار ہونے کےبعد گروپ حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

احمد آباد ہوائی اڈہ اڈانی گروپ کے ماتحت چلایا جاتا ہے۔

گوتم اڈانی نے ایکس پر پوسٹ کیا، ‘ایئر انڈیا فلائٹ 171 کے سانحے سے ہم صدمے میں ہیں۔ ہماری تعزیت ان خاندانوں کے ساتھ ہے جنہیں ناقابل تصور نقصان پہنچا ہے۔ ہم تمام حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور زمین پر موجود خاندانوں کو مکمل تعاون فراہم کر رہے ہیں۔’

اس کے ساتھ ہی ایئر انڈیا کے طیارے کے حادثے کی وجہ سے احمد آباد کے سردار ولبھ بھائی پٹیل انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر فلائٹ آپریشن کو عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔

ایس وی پی آئی اےکے نمائندے نے اعلان کیا، ‘سردار ولبھ بھائی پٹیل بین الاقوامی ہوائی اڈہ(ایس وی پی آئی اے)، احمد آباد ایئر انڈیا کے طیارے کے حادثے کے نتیجے میں فی الحال کام نہیں کر رہا ہے۔ تمام فلائٹ آپریشنز کو اگلے نوٹس تک عارضی طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔’

Next Article

میں نے جو دیکھا اس پر یقین نہیں کر پایا، بس بھاگنے لگا: ایئر انڈیا حادثے میں زندہ بچ جانے والے وشواس نے بتایا

احمد آباد سے لندن جانے والی ایئر انڈیا کی فلائٹ 171 کے واحد زندہ بچ جانے والے 40 سالہ وشواس کمار رمیش نے بتایا کہ ٹیک آف کے 30 سیکنڈ بعد ایک تیز آواز آئی اور پھر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔

12 جون 2025 کو احمد آباد میں ایئر انڈیا کے طیارے حادثے میں زندہ بچ جانے والے وشواس کمار رمیش۔ (تصویر: سوشل میڈیا / پی ٹی آئی)

احمد آباد: ٹیک آف سے پہلے 40 سالہ وشواس کمار رمیش کی احمد آباد سے لندن جانے والی ایئر انڈیا کی پرواز میں کچھ بھی عجیب نہیں  لگ رہاتھا۔ لیکن جیسے ہی جہاز کے پہیے زمین سے اوپراُٹھے سب کچھ بدل گیا۔ اگلے 30 سیکنڈ کے اندر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔

جمعرات (12 جون) کو پیش آنے والے اس سانحے میں بہت سے لوگوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے اور وائبس آف انڈیا ابھی تک مرنے والوں کی صحیح تعداد کا انتظار کر رہا ہے، لیکن اس دن کا واحد مثبت پہلو یہ تھا کہ رمیش کو آگ کی لپٹوں سے گھرےبوئنگ 787-8 ڈریم لائنر سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا گیا۔

رمیش کو چوٹیں آئی ہیں۔ وہ فی الحال سول ہسپتال میں زیر علاج ہیں، جہاں انہیں  ابتدائی طبی امداد دی جا رہی ہے۔ وشواس نے کہا، ‘میں بھگوان میں یقین رکھتا ہوں… میں ابھی بھی اپنے بھائی کا انتظار کر رہا ہوں، جو میرے ساتھ سفر کر رہے تھے۔’

‘طیارہ ٹیک آف کرنے کے تیس سیکنڈ بعد ایک تیز آواز آئی اور پھر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ یہ سب بہت تیزی سے ہوا،’ 40 سالہ رمیش نے کہا، جو ایئر انڈیا کی پرواز 171 کے چند زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک ہیں – یا شاید واحد زندہ بچ جانے والے شخص ہیں -جو احمد آباد کے سردار ولبھ بھائی پٹیل بین الاقوامی ہوائی اڈے سے جمعرات کی دوپہر تقریباً 1:38 بجے ٹیک آف کرنے کے فوراً بعد گر کر تباہ ہو گئی۔

طیارے میں عملے کے دس ارکان سمیت 242 افراد سوار تھے۔ مرنے والوں کی تعداد کے بارے میں کوئی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی ہے اور کچھ لاشیں برآمد ہونا باقی ہیں۔ سٹی پولیس چیف جی ایس ملک نے تصدیق کی ہے کہ 204 لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔

طیارہ احمد آباد کے مصروف علاقے میں گر کر تباہ ہوا، جس کااثر شہر کے میگھا نی نگر علاقے میں واقع بی جے میڈیکل کالج کیمپس پرہوا۔

میڈیکل کالج کے ہاسٹل کینٹین میں لنچ کررہے کم از کم پانچ میڈیکل طلباء کی موت ہو گئی۔وہیں  20 لوگوں کو سول اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے جو جھلس کر زخمی ہوئے ہیں۔

اسپتال کے احاطے میں رہنے والے بہت سے لوگ، جو ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے رشتہ دار ہیں، کی بھی ہلاکت کا خدشہ ہے۔

گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ اور بی جے پی لیڈر وجئے روپانی بھی طیارے میں سوار افراد میں شامل تھے۔ مرکزی کابینہ کے ارکان نے اس حادثے میں ان کی موت کی تصدیق کی ہے ۔

طیارے میں 53 برطانوی شہری، سات پرتگالی شہری اور ایک کینیڈین شہری سوار تھے۔ باقی تمام ہندوستانی شہری تھے۔ مرنے والوں میں پائلٹ سمت سبھروال بھی شامل ہیں، جنہیں 8700  اڑان گھنٹے کا تجربہ تھا۔

چاروں طرف لاشیں تھیں

سیٹ 11اےپر بیٹھے برطانوی شہری رمیش اب سول ہسپتال کے جنرل وارڈ میں داخل ہیں۔ ان کے سینے، آنکھ اور ٹانگوں پر چوٹیں آئی ہیں؛ درحقیقت، جب انہیں  ایمبولینس سے ہسپتال لایا گیا تو وہ  پیدل ہی ہسپتال پہنچے تھے۔

رمیش کچھ دنوں کے لیے اپنے خاندان سے ملنے ہندوستان آئے تھے اور اپنے بھائی 45 سالہ اجئے کمار کے ساتھ برٹن واپس جا رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ حادثے کے بعد جب وہ اٹھےتو انہوں نے اپنے اردگرد صرف لاشیں ہی دیکھیں۔

رمیش نے کہا، ‘میں نے جو دیکھا اس پر مجھے یقین نہیں ہوا۔ میں کھڑا ہوا اور بھاگنے لگا۔ میرے چاروں طرف ہوائی جہاز کے ٹکڑے پڑےتھے۔ کسی نے مجھے پکڑ لیااور ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال لے گیا۔’ بتایا جاتا ہے کہ رمیش ہوائی جہاز کے ایمرجنسی دروازے سے کود کر باہر نکل گئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ 20 سال سے لندن میں مقیم ہیں اور ان کی اہلیہ اور بچے بھی وہیں رہتے ہیں۔ رمیش نے کہا، ‘وہ ڈرے ہوئےتھے، لیکن اب انہیں پتہ  ہے کہ میں زندہ ہوں۔ میں ان تمام لوگوں کے لیے غمزدہ ہوں جو اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔’

اگرچہ دونوں بھائیوں نے اکٹھے بیٹھنے کی درخواست کی تھی، لیکن شدید رش اور آخری لمحات کی درخواست  کی وجہ سے انہیں الگ الگ بٹھایا گیا۔ رمیش سیٹ 11اے پر تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے بھائی اجئے ہوائی جہاز میں الگ بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا، ‘ہم دیو گئے تھے۔ وہ میرے ساتھ سفر کر رہے تھے اور اب میں انہیں تلاش کرنے سے قاصر ہوں۔ براہ کرم انہیں ڈھونڈنے میں میری مدد کریں۔’

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

ہریانہ پولیس نے محمود آباد کی گرفتاری پر نوٹس کا اب تک جواب نہیں دیا: ہیومن رائٹس کمیشن

این ایچ آر سی نے اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کی گرفتاری کا از خود نوٹس لیتے ہوئےاسے پہلی نظر میں استاد کے انسانی حقوق اور آزادی کی  خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ اب کمیشن نے بتایا ہے کہ ہریانہ پولیس نے ایک ہفتہ کی ڈیڈلائن ختم ہونے کے باوجود اس کے نوٹس کا جواب نہیں دیا ہے۔

علی خان محمود آباد۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی) نے کہا ہے کہ ہریانہ پولیس نے آپریشن سیندور پر تبصرے کے لیے اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کی حال ہی میں ہوئی گرفتاری پر کمیشن کی طرف سے جاری نوٹس کا جواب نہیں دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ، گزشتہ ماہ این ایچ آر سی نے محمود آباد کی گرفتاری کا از خود نوٹس لیا تھا اور کہا تھا کہ پہلی نظر میں محمود آباد کے انسانی حقوق اور آزادی کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

اس سلسلے میں دی ہندو کی جانب سے دائر کردہ حق اطلاعات قانون 2005 کے تحت ایک درخواست کے جواب میں این ایچ آر سی نے کہا کہ ہریانہ پولیس نے ایک ہفتہ کی ڈیڈ لائن کے اندر اس کے نوٹس کا جواب نہیں دیا، جو 27 مئی کو ختم ہوگئی ۔

اخبار کو دیے گئے جواب میں این ایچ آر سی نے کہا کہ کمیشن نے سوموار (10 جون) کو ہریانہ پولیس کو ایک ریمائنڈر بھیجا ہے اور معاملہ ابھی بھی زیر سماعت ہے۔

اس سے قبل، این ایچ آر سینے 21 مئی کو ایک پریس ریلیز میں کہا تھا، ‘نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن(این ایچ آر سی)، انڈیا کو ہریانہ میں اشوکا یونیورسٹی (ایک ڈیمڈ یونیورسٹی) کے پروفیسر کی گرفتاری اور حراستی ریمانڈ کے حوالے سے  20 مئی 2025 کو  ایک رپورٹ ملی ہے۔’

کمیشن نے مزید کہا تھا کہ ‘کمیشن نے پایا ہے کہ یہ رپورٹ، جس میں ان الزامات کا خلاصہ ہے جن کی بنیاد پر اسے گرفتار کیا گیا ہے، پہلی نظر میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ مذکورہ پروفیسر کے انسانی حقوق اور آزادی کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اس لیے کمیشن نے رپورٹ شدہ واقعے کا ازخود نوٹس لینا مناسب سمجھا ہے۔’

معلوم ہو کہ 18 مئی کو ہریانہ پولیس نے محمود آباد کو پاکستان کے خلاف ہندوستان کے آپریشن سیندور پر تبصرے پرسیڈیشن اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

اس کے بعد 21 مئی کو سپریم کورٹ نے محمود آباد کو سخت شرائط کے ساتھ عبوری ضمانت دی تھی۔ عدالت نے ان کی دو سوشل میڈیا پوسٹ کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا بھی حکم دیا تھا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ وہ اس  معاملے سے متعلق مسائل پر نہ تو لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی تقریر کر سکتے ہیں۔

محمود آباد کو سیڈیشن اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا

غور طلب ہے کہ محمود آباد کو سیڈیشن اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس سے قبل ہریانہ اسٹیٹ ویمن کمیشن نے محمود آباد کو پاکستان کے خلاف ہندوستان کے آپریشن سیندور کے بعد سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے پر طلب کیا تھا۔

ان کے خلاف ہریانہ میں بی جے پی کے یووا مورچہ کے جنرل سکریٹری یوگیش جٹھیری نے شکایت درج کروائی تھی۔ پولیس کی طرف سے درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق، جٹھیری ہریانہ کے ایک گاؤں کے سرپنچ ہیں، اور محمود آباد کے تبصرے سے انہیں تکلیف ہوئی  ہے۔

محمود آباد پر بھارتیہ نیائے سنہتا کی دفعہ 152 کے تحت ‘ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والے اقدامات’ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ان پر قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے، شہریوں کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کے ارادے سے دانستہ اور متعصب کام کرنے، مذہب، نسل، مقام پیدائش، رہائش، زبان، ذات یا برادری کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی یا دشمنی، نفرت یا بغض و عداوت کے جذبات کو فروغ دینے یا فروغ دینے کی کوشش کرنے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔

واضح ہو کہ محمود آباد پر حساس وقت میں لوگوں کو ملک کے خلاف اکسانے کا الزام ہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ‘ایسے حساس وقت میں بیرونی طاقتوں کے خلاف لڑنے کے لیے لوگوں کو متحد کرنے کے بجائے پروفیسر جذبات کو بھڑکاتے رہے اور مذہب کے نام پر بیرونی یا غیر ملکی طاقتوں کو فائدہ پہنچانے کا کام کرتے رہے۔’

وہ تبصرہ کیا تھا؟

آٹھ  مئی کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے اشوکا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ محمود آباد نے کرنل صوفیہ قریشی کی ستائش کرنے والے ہندوتوایوں کے تضاد کو اجاگر کیا تھا۔ محمود آباد نے کہا تھا کہ کرنل قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کی پریس بریفنگ ایک علامت کے طور پر اہم تھی، لیکن اسے زمینی حقیقت میں بدلنا ہوگا، ورنہ یہ محض منافقت ہے۔

اس کے بعد ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے دعویٰ کیا تھا کہ محمود آباد کے تبصرے نے ہندوستانی مسلح افواج میں خواتین افسران کی توہین کی اور فرقہ وارانہ منافرت کو فروغ دیا۔

خواتین کمیشن کے جواب میں محمود آباد نے کہا تھا کہ ‘میرے تبصرے کو مکمل طور پر غلط سمجھا گیا ہے اور کمیشن کے پاس اس معاملے میں کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے… مجھے جاری کیے گئے سمن اس بات کو اجاگر کرنے میں ناکام رہے کہ میری پوسٹ کس طرح خواتین کے حقوق یا قوانین کے خلاف ہے۔’

محمود آباد کے مطابق، ‘میں نے کرنل قریشی کی حمایت کرنے والے دائیں بازو کے لوگوں کی بھی تعریف کی اور ان سے عام ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ  بھی یہی رویہ اپنانے کے لیے کہا، جو روزانہ ہراسانی  کا سامنا کرتے ہیں… میرا تبصرہ شہریوں اور فوجیوں دونوں کی سلامتی کے بارے میں تھا۔ اس کے علاوہ، میرے تبصروں میں دور دور تک کوئی بدگمانی نہیں ہے۔’