گراؤنڈ رپورٹ:شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے دنگوں میں متاثرہ موج پور،اشوک نگر جیسے علاقوں کے55 دکانداروں نے نقصان کی بھرپائی کے لیےکل 3.71 کروڑ روپے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن دہلی سرکار نے اس میں سے 36.82 لاکھ روپے کی ہی ادائیگی کی ہے۔ جودعوے کے مقابلے9.91 فیصدی ہی ہے۔
نئی دہلی:شمال-مشرقی دہلی کا موج پور چوک علاقہ پہلے کی ہی طرح اپنی رفتارمیں چل رہا ہے۔ سڑکیں ہروقت گاڑیوں سے بھری رہتی ہیں، چاروں طرف ہارن کا شور سنائی دیتا ہے اور گندی نالیوں سے لگاتار بدبو آتی رہتی ہے۔ زیادہ تر بہار اور اتر پردیش سے آئے لوگ یہاں کی تنگ گلیوں میں کسی طرح اپنی زندگی کی گاڑی کھینچ رہے ہیں۔
اوپر سے دیکھ کر ایسا نہیں لگتا ہے کہ ایک سال پہلے یہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ فرقہ وارانہ فساد ہوئے تھے، لیکن اس سے متاثرہوئے لوگوں کے زخم اب بھی ہرے ہیں۔ان کی داستاں سرکاری دعووں کو اسی طرح آئینہ دکھاتی ہیں، جس طرح موج پور کا میٹرو اسٹیشن جو اوپر سے خوب چمکدارہے، لیکن جس پلر پر یہ کھڑا ہے اس کی بنیادیہاں کے ایک نالے میں ہے۔
میٹرو سے تقریباً200 میٹر کی دوری پر صبح 10 بجے محمد رفیع اپنی پرانے کپڑوں کی دکان کھولتے ہیں، لیکن ان میں کوئی جوش نہیں ہے اور وہ تھکے ہارے سے لگتے ہیں۔ ان کے ماتھے پر شکن اور ڈبڈبائی آنکھوں سے ان کی تکلیفوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
‘جب پہلی بار اپنی جلی ہوئی دکان دیکھی تو پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی، ایسا لگا کہ جیسے ہم خود قبر میں ہیں، ہماری زندگی بھر کی کمائی،25 سال کی محنت ایک دنگے میں ختم ہو گئی،’ اپنی بھری ہوئی آنکھوں اور کانپتے ہونٹوں سے رفیع نے یہ کہا۔
پچھلے سال 24 فروری کو فرقہ وارانہ فساد کے دوران محمد شفیق کی دو منزلہ دکان کوشرپسندوں نے جلا دیا تھا۔ اسے ان کے والدنے 25 سال پہلے انہیں تحفے میں دیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ بات اب بھی ان کی سمجھ سے باہر ہے کہ آخر کیسے اور کیوں یہاں پر دنگا ہوا۔ انہوں نے بتایا،’23 فروری کو یہاں دنگا شروع ہو گیا تھا۔ ہم سب ڈرکر اپنی دکان بند کرکے اپنے گھروں میں بیٹھ گئے تھے۔ تبھی اگلے دن دوپہر میں کسی نے کال کیا کہ میری دکان میں آگ لگا دی گئی ہے۔ میں نے اور میرے پورے پریوار نے فائر بریگیڈ اور پولیس کو سینکڑوں کال کیے، لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے میری دکان دھو دھوکر جل کر ختم ہو گئی، لیکن انتظامیہ نے کچھ نہیں کیا۔’
رفیع نے آگے کہا،‘اس کے بعد کیجریوال سرکار نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ نقصان کی بھرپائی کریں گے۔ لیکن ہم بھیک مانگنے کے لیے مجبور ہو چکے ہیں، ہماری یہ حالت ہو چکی ہے کہ قرض دینے والے لوگ پریشان کرتے رہتے ہیں۔ میرے اوپر ساڑھے چار لاکھ کا قرض ہوچکا ہے۔‘
محمد رفیع کا دعویٰ ہے کہ دنگے میں ان کا 12 لاکھ کا نقصان ہوا ہے، لیکن دہلی سرکار نے انہیں صرف 51700 روپے پکڑاکر معاملے کو رفع دفع کر دیا۔
رفیع کی دکان۔ (فوٹو: دی وائر)
انہوں نے کہا، ‘اس سے زیادہ کی رقم تو لاک ڈاؤن میں گھر بیٹھ کر کھانے میں ہی خرچ ہو گئی۔ ہم جیسے لوگوں پر دوہری مار پڑی ہے، پہلے دنگے نے برباد کیا اس کے بعد لاک ڈاؤن نے کمر توڑ دی۔ پتہ نہیں کب ہم لوگ پھر سے کھڑے ہو پائیں گے۔’
رفیع کی دکان کے بغل میں بنی معین الدین کی دکان میں اب بھی دنگوں کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں۔ تین منزلہ بلڈنگ کی دیواریں ابھی بھی جل کر کالی پڑی ہوئی ہیں۔انہوں نے بتایا،‘سرکار نے ہمیں جتنا معاوضہ دیا ہے، اس سے زیادہ پیسے اسے پینٹ کرانے میں خرچ ہو جائیں گے۔ ہمارا اتنا سامان اندر جل کر خاک ہو گیا، اس کی خبر کون لےگا۔’
معین الدین نے کہا، ‘روز کی طرح اس دن بھی میں لگ بھگ 9:30 بجے اپنی دکان کھولنے آیا تھا تو دیکھا کہ یہاں خوب بھیڑ جمع ہو رہی تھی۔ اس سے پہلے کپل مشرانے بھڑکاؤ تقریرکی تھی۔ میں ڈر کے مارے اپنی دکان بند کرکے گھر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد میں نے ٹی وی پر دیکھا کہ میری دکان جل رہی ہے، میں نے پولیس اور فائر بریگیڈ کو جانکاری دی، لیکن کوئی نہیں آیا، تین دن تک دکان جلتی رہی۔ تین دن بعد میں نے اپنے سامنے فائر بریگیڈ کو بلایا اور جو بھی بچا تھا اسے بجھوایا۔’
دہلی دنگے کے متاثرمعین الدین نے اپنے نقصان کو لےکر11 لاکھ روپے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن سرکار کی جانب سے انہیں صرف 75050 روپے کی ہی مدد ملی ہے۔
یہ صرف رفیع اور معین الدین کی ہی کہانی نہیں ہے، بلکہ دی وائر کے ذریعےآر ٹی آئی کے تحت حاصل کیے گئے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ دہلی دنگے کے دوران جلائے گئے دکانوں کے لیے دعویٰ کی گئی رقم کے مقابلے ریاستی سرکار نے 10 فیصدی سے بھی کم معاوضہ دیا ہے۔
شاہدرہ ایس ڈی ایم کے دائرہ اختیار میں آنے والے موج پور، اشوک نگر جیسے علاقوں سے 73 دکانداروں نے معاوضے کے لیے درخواست دی تھی، جس میں سے 66 لوگوں کو ہی فائدہ دیا گیا ہے۔
عالم یہ ہے کہ اس میں سے 55 متاثرہ دکانداروں نے نقصان کی بھرپائی کے لیےکل 37158200(3.71 کروڑ) روپے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن سرکار نے اس میں سے 3682967(36.82 لاکھ) روپے کی ہی ادائیگی کی ہے۔ یہ کل رقم کے مقابلے9.91 فیصدی ہی ہے۔
باقی کے 11 لوگوں کو انتظامیہ کی جانب سے 2.44 لاکھ روپے کا معاوضہ دیا گیا ہے۔ ان لوگوں نے اپنی طرف سے کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا۔
شاہدرہ ایس ڈی ایم دیباسیس بسوال کی جانب سے مہیا کرائی گئی جانکاری کے مطابق اس علاقےمیں گھر جلائے جانے کو لےکر 17 لوگوں نے درخواست دی تھی، جس میں سے 16 لوگوں کو ہی معاوضہ دیا گیا۔
وہیں موت کے سلسلے میں چھ پریوار اور زخمی ہونے کو لےکر 65 لوگوں کو معاوضہ دیا گیا ہے۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اداکی گئی رقم ان کے ذریعے کرائے گئے سروے پر مبنی ہے۔ بی ایس ای ایس، پی ڈبلیو ڈی اور ایس ڈی ایم وبھان نے مل کر دہلی دنگے میں ہوئے نقصان کا اندازہ کیا تھا۔
بسوال کا کہنا ہے کہ دکاندارمستقبل میں ہونے والے فائدہ کی بنیادپر دعویٰ کر رہے ہیں، جو بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ بتائیے کہ نقصان کا اندازہ کیسے کیا جائے۔ اگر کسی کا ایک لاکھ کا نقصان ہوا ہے تو وہ اس سے ہونے والے فائدہ (مان لیجیے تین لاکھ روپے) کا دعویٰ کر رہا ہے۔ ان لوگوں نے بڑھا چاکر دعویٰ کیا ہے۔’
یہ پوچھے جانے پر کہ جن لوگوں کے پاس لین دین کی رسید نہیں ہے اور ان کا سامان برباد ہوا ہے تو ایسے لوگوں کو کس طرح معاوضہ دیا گیا، ایس ڈی ایم نے کہا، ‘جس کا کیش میں ہو رہا ہے یا کچا کام ہے، ایسے لوگوں کے دعوے کو پروف کر پانا بہت مشکل ہے کیونکہ ان کے پاس اوریجنل بل نہیں ہوتا ہے۔ ہماری کمیٹی نے ایسے لوگوں کی جانچ کی ہے، آس پاس کے لوگوں سے جانکاری جٹائی ہے، ریٹ چیک کیا، اپنے حساب سے آئیڈیا لگایا اور تب معاوضہ دیا گیا ہے۔’
بسوال نے کہا،‘سرکار کے فیصلے کے مطابق جس کا جتنا نقصان ہوتا ہے، اس کا 50 فیصدی ہی معاوضہ دیا جا سکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ پانچ لاکھ کا ہی معاوضہ مل سکتا ہے۔ اگر 10 لاکھ کا نقصان ہوا ہے تو پانچ لاکھ ملےگا، اگر 11 لاکھ کا نقصان ہوا ہے تو بھی پانچ لاکھ ہی ملےگا۔’
دستاویزوں میں درج جانکاری کے مطابق متاثرین کی جانب سے کیے گئے دعوے اور انتظامیہ کے ذریعےکرائے گئے اندازے میں بہت زیادہ فرق دکھائی دیتا ہے۔
معین الدین کے دکان کی موجودہ حالت۔ (فوٹو: دی وائر)
نور الٰہی کے مین روڈ پر گنیش کمار کی دکان ہے۔ انہوں نے دنگے کے دوران ہوئے نقصان کے لیے 10 لاکھ روپے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن انہیں ایک لاکھ سات سو روپے ہی ملے۔اسی طرح موج پور کے موہن پوری میں واقع اپنے میڈیکل سٹور کو لے کر جئےبیر سنگھ نے 22 لاکھ روپے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن انہیں پانچ لاکھ روپے ہی مل پائے۔
اشوک نگر مسجد کے پاس واقع اپنے دکان میں ہوئے نقصان کو لےکر قمرالدین خان نے 13 لاکھ روپے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن انتظامیہ کی جانب سے انہیں 1.79 لاکھ روپے کا ہی معاوضہ ملا۔وہیں اشوک نگر کی گلی نمبر پانچ میں اپنا دکان چلانے والی آئشہ بیگم نے چار لاکھ روپے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن سرکار نے انہیں 22808 روپے کی ہی ادائیگی کی۔
اسی طرح رادھیکا پیلیس میں دکان چلانے والے محمد آصف اور شاہ رخ حسن نے دنگے کے وقت ہوئے نقصان کو لےکر بالترتیب چار لاکھ اور سات لاکھ کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن انہیں ایس ڈی ایم آفس کی جانب سے 12500 اور 17500 روپے ہی مل پائے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ جب آپ انتظامیہ سے مانگ کرتے ہیں کہ آپ کو اور معاوضہ دیا جائے تو وہ کیا کہتے ہیں، اس پر محمدرفیع نے کہا، ‘ہم چھوٹے دکاندار ہیں۔ وہ ہم سے نقصان کا پکا بل مانگتے ہیں۔ ہمارا کچا کام ہے، ہم پرانے کپڑوں کا لین دین کرتے ہیں، اس کا کوئی بل نہیں بنتا ہے۔ یہ بات وہ سمجھتے نہیں ہیں۔ ایسی حالت میں ہم کہاں سے اپنے سامان کا بل لائیں۔’
اسی طرح اشوک نگر کے رہنے والے اور آٹو ڈرائیور محمد راشد کہتے ہیں کہ دنگے کے دوران ان کا پورا گھر جل کر خاک ہو گیا تھا، لیکن پھر بھی سرکار نے انہیں کافی کم معاوضہ دیا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘میرے گھر کی ایک ایک چیز شرپسندوں نے جلا دی تھی۔ ہم لوگ ایک شادی میں گئے تھے، واپس آئے تو ہمارے پاس صرف بدن پر اپنا کپڑا ہی بڑا تھا۔ کیش، جوئیلری، کچن، واشنگ مشین، ٹی وی، بچوں کے ڈاکیومنٹ سب کچھ جل کر خاک ہو گیا تھا۔ لیکن پھر بھی انتطامیہ مانتا ہے کہ ہمارا گھر پوری طرح نہیں جلا تھا۔’
راشد کو سرکار کی جانب سے ڈھائی لاکھ کا معاوضہ ملا ہے، جو کسی فلور پر نقصان (Substantial Damage) کے لیےطے شدہ رقم تھی۔ پوری طرح نقصان کے لیے فی فلور پانچ لاکھ معاوضہ دینے کی بات کہی گئی تھی۔
انہوں نے کہا، ‘میرا تقریباً 10 لاکھ روپے کا نقصان ہوا تھا۔ شرپسندوں نے چھت وغیرہ سب کچھ توڑ دیا تھا۔ ہم نے اس کے لیے ایف آئی آر بھی درج کرا رکھی ہے۔’
بتا دیں کہ کیجریوال سرکار نے دنگے میں ہوئی موت کے معاملوں میں 10 لاکھ روپے، مستقل طور پرجسمانی نقصان کے لیے پانچ لاکھ روپے، شدید چوٹوں کے لیے دو لاکھ روپے، ہلکی چوٹوں کے لیے 20000 روپے، مویشیوں کی موت کے لیے پانچ ہزار روپے تک کی معاوضہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔
رہائشی عمارتوں کے پوری طرح تباہ ہونے پر نقصان سے متاثر ہرفلور کے لیے پانچ لاکھ روپے تک دینے کی بات کہی گئی تھی، نقصان کے لیے ڈھائی لاکھ کا معاوضہ طے کیا گیا تھا۔ وہیں بنا انشورنس والی کمرشیل یونٹ کو نقصان پہنچنے پر پانچ لاکھ روپے کی رقم طے کی گئی تھی۔
دہلی سرکار نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے فساد کے سلسلے میں اب تک کل 26.10 کروڑ روپے کا معاوضہ دیا ہے، جس میں ہلاک ہونے والے، زخمی، پراپرٹی اور دکان برباد ہونے وغیرہ چیزیں شامل ہیں۔ اس کے لیے انہوں نےکل 2221 عرضیوں کو منظوری دی تھی۔
ریاستی سرکار کے مطابق، اب تک 44 ہلاک ہونے والوں، 233 زخمیوں ، 731 گھر جلانے، 1176 دکانیں برباد ہونے، 12 گاڑیوں کو نقصان پہنچنے، جھگیوں کو جلانے والے 12 کیس اور تین اسکولوں کو معاوضہ دیا جا چکا ہے۔وہیں دہلی ہائی کورٹ کی ہدایت پر 13 اپریل 2020 کو ‘شمال-مشرقی دہلی دنگا دعویٰ کمیشن ’ بنایا گیا تھا، جس کے یہاں معاوضے کے لیے 2600 عرضیاں دائر کی گئی ہیں۔
لیکن عالم یہ ہے کہ اس کمیشن نے ابھی تک
ایک بھی کیس میں فیصلہ نہیں کیا ہے۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دہلی دنگے میں 53 لوگوں کی موت ہوئی،581 لوگ زخمی ہوئے اور کئی کروڑ روپے کی پراپرٹی برباد ہوئی تھی۔