نئی دہلی واقع انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن کے طلبا کا کہنا ہے کہ پہلا سمسٹر آن لائن کر لیا ہے لیکن دوسرے سمسٹر سے کیمپس میں بلایا جانا چاہیے کیونکہ آن لائن پڑھنے کی کچھ حدیں ہیں۔ انتظامیہ کی طرف سے مطالبات پر دھیان نہ دینے کی بات کہتے ہوئے طلبا نے سوموار سے کیمپس میں دھرنا شروع کر دیا ہے۔
نئی دہلی: نئی دہلی واقع انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن(آئی آئی ایم سی)کے 100 سے زیادہ طلبا نے کیمپس میں آف لائن کلاسزشروع کرنے کی مانگ کرتے ہوئے آن لائن کلاسز کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔طلبا کا کہنا ہے کہ مسلسل رابطہ کیے جانے کے باوجود انتظامیہ سنجیدہ نہیں ہے اس لیے وہ پانچ اپریل سے کیمپس میں دھرنا دیں گے۔ خبر لکھے جانے تک طلبا کیمپس میں دھرنا شروع کر چکے ہیں۔
دراصل، پچھلے سال کووڈ 19کی وجہ سے ملک کے دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ساتھ ہی آئی آئی ایم سی کو بھی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اکتوبر2020 میں آئی آئی ایم سی میں نو مہینے کے میڈیا کورس کا داخلہ امتحان بھی پہلی بار آن لائن ہوا تھا جسے نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے)نے لیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی آن لائن کلاسز چل رہے ہیں۔
حالانکہ انتظامیہ نے طلبا کو بھروسہ دلایا تھا کہ سیکنڈ سمسٹر سے آف لائن کلاسز شروع کرنے پر غور کیا جائےگا۔ اس کو دیکھتے ہوئے گزشتہ20 مارچ کو پہلا سمسٹر ختم ہونے سے پہلے ہی طلبا کیمپس میں کلاسز شروع کرنے کی مانگ کرنے لگے تھے۔ طلبا نے جب دیکھا کہ انتظامیہ ان کے مطالبات کو لےکرسنجیدہ نہیں ہے تب انہوں نے گزشتہ 30 مارچ سے آن لائن ہی شروع ہوئے سیکنڈ سمسٹر کابائیکاٹ کر دیا۔
آئی آئی ایم سی میں پڑھائے جانے والے چار بنیادی کورسزمیں سے ایک ہندی صحافت میں67 طالبعلم ہیں، جس میں سے 55طلبا نے آن لائن کلاسز کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔اسی طرح ریڈیو اینڈ ٹی وی(آرٹی وی)صحافت کے لگ بھگ تمام51 طلبا نے آن لائن کلاسز کابائیکاٹ کیا ہے۔ حالانکہ، انگریزی صحافت اور ایڈورٹائزنگ اینڈ پبلک ریلیشنزکے کچھ طلبا ہی کلاسز کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔
نئی دہلی کیمپس میں ہندی صحافت کی پڑھائی کر رہے سوربھ نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا، ‘ہم لوگ آف لائن کلاسز کی مانگ کر رہے ہیں کیونکہ سب کچھ آن لائن چل رہا ہے۔ ہمیں پریکٹیکل کرنے میں دقت آ رہی ہے۔ آن لائن کی اپنی حدیں ہیں۔ سمجھنے میں دقت ہوتی ہے، کلاس صحیح سے نہیں چل رہی ہوتی ہے، نیٹ ورک کی دقت ہوتی ہے، کئی لوگوں کے پاس لیپ ٹاپ نہیں ہے اور جب وہ موبائل سے جڑتے ہیں تو اس سے دقت ہوتی ہے۔’
سوربھ مزید کہتے ہیں،‘ان سب چیزوں کو دیکھتے ہوئے ہم نے مانگ کی تھی کہ پہلا سمسٹر آن لائن کر لیا ہے لیکن دوسرے سمسٹر سے ہم لوگوں کو کیمپس میں بلایا جائے۔ دھیرے دھیرے چیزیں معمول پر آرہی ہیں اس لیے ہمیں مرحلے وار طریقے سے ہی بلایا جائے۔’
وہ کہتے ہیں،‘اس سلسلے میں پہلے ہی ڈی جی سنجے دویدی سے مانگ کر چکے تھے اور انہیں اپنا ایک میمورنڈم بھی سونپا تھا۔ اس دوران ہم سے کہا گیا تھا کہ غور کرنے کے بعد بتایا جائےگا لیکن ہمیں کچھ بھی بتایا نہیں گیا۔’سوربھ کہتے ہیں،‘پچھلے پانچ دن سے کلاس کا بائیکاٹ کیے جانے کے بعد بھی ہم سے کوئی بات چیت نہیں کی جا رہی ہے۔آفیشیل گروپ میں بھی ہم نے پوچھا لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔’
انہوں نے کہا، ‘ہم نے اپنے کورس ڈائریکٹر آنند پردھان سے بھی اس بارے میں بات کی لیکن انہوں نے کہا کہ ابھی وبا ہے، حالات کو سمجھیے اور ابھی ہمارے پاس وزارت سے آرڈر نہیں ہے۔ ہم کبھی بھی کچھ بھی پوچھتے ہیں تو ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ ہم وزارت سے بات کر رہے ہیں۔’
انگریزی اور ایڈپی آر کے طلبا کے ساتھ نہ آنے پر سوربھ کہتے ہیں،‘دونوں کورس کے جب کچھ اسٹوڈنٹ آگے آئے تھے تب آئی آئی ایم سی انتظامیہ کے کچھ لوگوں نے انہیں فون کرکے دھمکی دی تھی کہ آپ لوگ پڑھنے آئے ہو یا یہ سب کرنے آئے ہو، آپ لوگوں کے مستقبل کے لیے یہ اچھا نہیں رہےگا۔ اس سے وہ لوگ تھوڑا ڈر گئے۔’
اس سے پہلے گزشتہ19 مارچ کو آئی آئی ایم سی میں ایک ہفتہ وار آن لائن پروگرام میں مرکزی وزیر گجیندر سنگھ شیخوات مہمان خصوصی کے طور پر شامل ہوئے تھے۔اس دن 20 سے زیادہ طلبا کو اس آن لائن پروگرام سے نکال دیا گیا تھا کیونکہ سیکنڈ سمسٹر کی آف لائن کلاس شروع کرنے کی مانگ کو لےکر احتجاج کرتے ہوئے طلبا نے گوگل پر اپنی پروفائل فوٹو (ڈی پی)بدل دی تھی۔
آن لائن پروگرام سے نکالے جانے کے بارے میں سوربھ بتاتے ہیں،‘اس وقت سے ہی ہم مانگ کر رہے تھے اور ہمیں کسی طرح کی یقین دہانی نہیں مل رہی تھی۔ تب ہم لوگوں نے ایک پوسٹر بنایا تھا جس میں لکھا تھا، ‘بائیکاٹ آن لائن کلاسز فارم سیکنڈ سمسٹر۔’ اس پوسٹر کو ڈی پی میں لگاکر ہم کلاس میں شامل ہوئے تھے۔ جتنے لوگوں نے اسے لگایا تھا انہیں آن لائن کلاس سے ہٹا دیا گیا تھا۔ آفیشیل گروپ میں جب ہم نے اس کے بارے میں پوچھا تھا تب بھی ہمیں کوئی جواب نہیں ملا تھا۔’
وہ آگے کہتے ہیں،‘اس شام کو جب ہماری کورس ڈائریکٹر سے بات ہوئی تھی تب انہوں نے کہا تھا کہ آپ اس ڈی پی کے ساتھ شامل ہوئے تھے جو کہ ایک احتجاج ہے اور آپ یہ نہیں کر سکتے ہیں۔ اسی لیے آپ کو نکالا گیا اور آپ کو کیوں نہ نکالا جائے؟’
انہوں نے آگے کہا،‘ہم لوگ بھی کووڈ 19 کو لےکرفکرمند ہیں لیکن آپ آئی آئی ایم سی فیس بک پیج پر جاکر دیکھیں گے تو ہر دوسرے دن ایک نیا ہفتہ عشرہ منایا جاتا ہے یا پروگرام منعقد ہوتا ہے جس میں 100 سے زیادہ لوگ باہر سے آکر شامل ہوتے ہیں اور ابھی امکا (آئی آئی ایم سی کے ابنائے قدیم کی ایسوسی ایشن)کا کنیکشن پروگرام بھی ہوا تھا۔ پروگرام میں کسی ضابطے پر عمل نہیں ہوتا ہے۔ ہمارا بھی مستقبل ہے اور اگر ہم کچھ نہیں سیکھ کر جا ئیں گے تو ہمارا کیا ہوگا؟’
ہندی صحافت کے ہی سوم شیکھر کہتے ہیں،‘ہمارا انتظامیہ سے کوئی اختلاف نہیں ہے، ہم اپنے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔ ہم روڈمیپ بھی دے رہے ہیں کہ آپ مرحلے وار طریقے سے ہمیں کلاس کرائیے۔ 30 بچوں کو دن میں تو باقی کو سیکنڈ ٹائم میں بلائیے۔’
سوم کہتے ہیں،‘انتظامیہ کو لگ رہا ہے کہ ہم صرف ہنگامہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔ ہماری آن لائن کلاسز صرف گوگل میٹ پر چل رہی ہیں جس میں نہ تو پروجیکٹر ہوتا ہے اور نہ رائٹنگ پیڈ ہے۔ نیٹ ورک کنیکشن میں بھی مشکلیں پیدا ہوتی ہیں۔ ہم تو ایک قابوکیا جا سکنے والاگروپ ہیں، جبکہ بہار میں انتخاب ہو چکا ہے اور پانچ ریاستوں میں انتخاب ہو رہے ہیں، وہاں تو بے تحاشہ بھیڑ ہے۔’
ہندی صحافت کے ہی ایک اور طالبعلم راجو کہتے ہیں،‘آف لائن کلاس شروع کرنے کو لےکر فروری سے ہی ہم نےاساتذہ سے بات کرنا شروع کر دی تھی اور پانچ اپریل سے ہم قریب 30 طلبا کیمپس میں دھرنا دینے جا رہے ہیں۔ ابھی میں اور کچھ دیگر طلبا کیمپس میں علامتی طور پر کچھ گھنٹے کے لیے روزانہ اپنی مانگوں کا پوسٹر بینر لےکر بیٹھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ کم سے کم پریکٹیکل کلاسز آف لائن ہوں۔’
وہ کہتے ہیں،‘ہندی اور آرٹی وی کے اکثر اسٹوڈنٹ دہلی آ چکے ہیں۔ ان میں سے کچھ جب روزانہ کالج جانے لگے تو کینٹین کی کرسیاں تک ہٹا دی گئیں۔ کئی بار تو ہم سے یہاں تک بولا گیا کہ جب پہلے ہی پراسپیکٹس میں آن لائن کلاس کی بات کی گئی تھی تب آپ لوگوں نے ایڈمشن لیا ہی کیوں۔ اب آپ لوگ ہم سے جوابدہی کیوں مانگ رہے ہیں؟’
سوربھ کی باتوں کی تصدیق کرتے ہوئے راجو کہتے ہیں،‘انگریزی اور ایڈپی آر کے طلبا نے بیچ میں کلاس بائیکاٹ کیا تھا لیکن ان پر بہت دباؤ ہے۔ وہاں سُر بھی دہیا میم اور گیتا میم نے فون کرکے بہت دھمکایا تھا، جس کے بعد وہ پیچھے ہٹ گئے تھے۔’
طلبا کی جانب سےکلاسز کے بائیکاٹ پرد ی وائر سے بات کرتے ہوئے آئی آئی ایم سی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے ستیش نمبودری پاد نے کہا، ‘مجھے لگتا ہے کہ کچھ لوگ آرٹی وی سے اور کچھ لوگ ہندی سے کلاس نہیں کر رہے ہیں۔ انگریزی میں 70 سے 80 فیصدی لوگ کلاس کر رہے ہیں اور ایڈپی آر کے لگ بھگ سبھی لوگ کلاس کر رہے ہیں۔ باقی ملیالم اور دیگر زبانوں میں ہم پتہ کر رہے ہیں۔ منگل کو ڈائریکٹر جنرل آئیں گے اس کے بعد ہم چرچہ کریں گے۔’
انتظامیہ کی طرف سےطلبا سے بات نہ کرنے کے سوال پر وہ کہتے ہیں،‘دیکھیے ان کا کچھ مدعا ہو سکتا ہے۔ باقی یونیورسٹیوں میں کیا طلبا سے بات کرکے فیصلہ لیا جا رہا ہے؟’
ہندی پکھواڑہ منعقد کرنے کے سوال پر وہ کہتے ہیں،‘ایک ادارہ کےطور پر اگر ہمیں کچھ کرنا ہے تو کرنا پڑےگا۔ ہندی پکھواڑہ کرانا سرکار کا فیصلہ ہے۔ روزانہ کی کلاس منعقد کرنا ان سب چیزوں سے الگ ہے۔ یہ انتظامیہ کا فیصلہ ہوتا ہے اور سرکار طے کرتی ہے کہ اداروں کو کتنا کھولنا ہے۔ اب دیکھیے سرکار کا کتنا دباؤ ہےاسکولوں کو بند کرنے پر۔’
انہوں نے آگے کہا، ‘آئی آئی ایم سی کا جو بھی فیصلہ ہےوہ بہت ہی صاف طریقے سے نوٹس میں بتا دیا گیا ہے۔ 100-200 بچہ کلاس میں ہو جا ئیں گے توپریشانی ہوگی۔ طلبا دباؤ نہیں بنا سکتے ہیں۔ ابھی بول رہے ہیں کہ کلاس کھولو، پھر کہیں گے ہاسٹل کھولیے، پھر کہیں گے کہ ہم تین تین لوگ رہیں گے۔ اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو آپ کیوں پڑھائی کر رہے ہو؟ ہم اتنی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس کا کچھ نہیں، ادھر آکر ہی پڑھائی کریں گے۔ ہم دباؤ میں تو کام نہیں کر سکتے ہیں۔ آپ کو پڑھنا نہیں ہے تو ٹھیک ہے۔’
وہیں،آئی آئی ایم سی کے ایک پروفیسر نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سے (کووڈ 19) ٹیچروں میں بھی بہت ڈر ہے۔ سب کا ماننا ہے کہ اگر کلاسز ہوں گی تو خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ خطرہ ہے تو سبھی کے لیے ہے۔ ابھی سینٹ اسٹیفن کالج میں ہی 20 بچہ اور کچھ ٹیچرس بھی متاثر ہوئے ہیں۔ ابھی جو نوٹس جاری کیا گیا ہے اس بیٹھک میں فیکلٹی کے ممبر سے لےکرریجنل ڈائریکٹر سبھی تھے۔
انہوں نے بتایا کہ اس میں یہ طے ہوا کہ پہلے علاقائی زبانوں اڑیا، مراٹھی، اردو کو کھولا جائے جس میں بچے کم ہیں۔ ان میں مشکل سے 12-15 بچہ ہوں گے۔ اپریل میں ان کو کھول دیا گیا۔ اگر مئی میں حالات ٹھیک رہیں تو ہندی، انگریزی، آرٹی وی اور ایڈپی آر جیسے باقی کورس کو بھی کھولا جائےگا۔ اس نظام کو شروع کرنے پر گفت وشنیدجاری ہے۔ حالانکہ طلبا کہہ رہے ہیں کہ ابھی کھولیے اور ہمیں آنے دیجیے۔ یہ بہت ہی تذبذب کی حالت ہے، ہمیں بھی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیسے ہوگا۔
دراصل، آئی آئی ایم سی نے سیکنڈ سمسٹر شروع ہونے سے ایک دن پہلے 29 مارچ کو ایک سرکولر جاری کیا تھا، جس میں مرحلے وار طریقے سے کلاسز شروع کرنے کے بارے میں جانکاری دی گئی تھی۔
اس میں کہا گیا تھا کہ پہلے ملیالم، مراٹھی، اڑیا اور اردو کی آف لائن کلاسز اپریل سے تجربہ کے طور پر شروع کی جائیں گی اور اگر سب کچھ ٹھیک رہا تب مئی سے اہم کورسوں کی کلاسز کو ہائبرڈ طریقے سے شروع کیا جائےگا جس میں آن لائن، آف لائن اور پریکٹیکلس شامل ہوں گے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو آف لائن کلاس میں شامل ہونے کی خواہش رکھنے والے طلبا کو اپنے والدین سے ایک رضامندی بھی دینی ہوگی اور طلبا کو بھی کووڈ 19 ضابطوں پر عمل کرنے کے لیے ایک فارم پر دستخط کرنا ہوگا۔ اس میں ہاسٹل کو بھی صرف باہری اور خاص کر طالبات کو دینے کی بات کی گئی ہے۔