حیدر آباد میں خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل معاملے میں میڈیااداروں کے ذریعے متاثرہ کی پہچان اجاگر کرنے کو لےکر دہلی کے ایک وکیل نے عرضی دائر کی ہے۔ وزارت داخلہ کی ہدایت ہے کہ بنا عدالت کی اجازت کے کسی بھی حالت میں متاثرہ کا نام ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے حیدر آباد میں ایک خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے معاملے میں میڈیا اداروں پر متاثرہ کی پہچان اجاگر کرنے کو لےکر بدھ کومرکزی حکومت کو نوٹس جاری کر کےجواب مانگا ہے۔لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق، دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جی این پٹیل اورجسٹس سی ہری شنکر کی بنچ نے مرکزی حکومت، تلنگانہ حکومت، آندھر پردیش، دہلی،پریس کاؤنسل آف انڈیا(پی سی آئی)، فیس بک انڈیا، ٹوئٹر، نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈس اتھارٹی آف انڈیا، آپ انڈیا ڈاٹ کام، نیو انڈین ایکسپریس اور انڈیا ٹوڈےکو نوٹس جاری کرکے جواب مانگا ہے۔
دہلی کے ایک وکیل یش دیپ چہل نے عدالت میں عرضی دائر کر کے حیدر آباد میں ریپ اور قتل معاملے میں متاثرہ کی پہچان اجاگر کرنے کو لےکرمیڈیا اداروں پر قانون کی مبینہ خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔ چہلکے وکیل چراغ مدان اور سائی کرشن کمار کی طرف سے داخل عرضی میں الزام لگایا گیا ہے کہ ریاستی پولیس افسروں نے اور ان کے سائبر سیل نے متاثرہ اور ملزمین کی لگاتار پہچان اجاگر ہونے کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا۔
اس عرضی میں متاثرہ اور چاروں ملزمین کی پہچان اجاگرکرنے کو لےکر میڈیا پر سخت کارروائی کرنے کی مانگ کی ہے۔ اس معاملے میں اگلی سماعت 16 دسمبر کو ہوگی۔واضح ہو کہ جنوری 2019 میں مرکزی وزارت داخلہ نے پرنٹ، الکٹرانک یا سوشل میڈیا میں جنسی استحصال کے متاثرین کے نام کوچھاپنے یا شائع کرنے پر روک لگائی تھی۔
وزارت داخلہ کی اس ہدایت میں واضح کیا گیا تھا کہ کسی بھی حالت میں متاثرہ کا نام اجاگر نہیں کیا جا سکتا۔ نام تبھی عوامی ہوگا، جب وہ متاثرہ کے مفاد میں ہوگااور اس کا فیصلہ عدالت کرےگی۔ رشتہ داروں کے ذریعے دی گئی اجازت بھی قابل قبول نہیں ہوگی۔دفعہ 376 (ریپ کے لئے سزا)، 376 (اے) ریپ اور قتل، 376(اے بی) بارہ سال سے کم عمر کی خاتون سے ریپ کے لئے سزا، 376 (ڈی) (گینگ ریپ)، 376(ڈی اے) سولہ سال سے کم عمر کی خاتون پر گینگ ریپ کے لئے سزا، 376 (ڈی بی) (بارہ سال سے کم عمر کی خاتون پر گینگ ریپ کے لئے سزا) یا آئی پی سی کے 376 (ای) (ری پیٹ مجرموں کے لئے سزا) اور پاکسو کے تحت جرائم کی متاثرہ کا نام عوامی نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی میڈیا کے ذریعے اس کی اشاعت کی جا سکتی ہے۔
پولیس افسروں کو بھی ہدایت دی گئی ہے کہ تمام دستاویزوں کو بند لفافے میں رکھا جائے۔ اصلی دستاویزوں کی جگہ عوامی طور پر ایسے دستاویزوں کو پیش کریں، جس میں متاثر ہ کا نام تمام ریکارڈوں سے ہٹا دیا گیا ہو۔ اسکرال کے مطابق، حالیہ عرضی میں کہا گیا ہے کہ متاثرہ اور ملزمین کے نام،پتے، تصویر، کام کرنے کی جانکاریوں اور دیگر تفصیلات شیئر کرنا آئی پی سی کی دفعہ228 اے اور سپریم کورٹ کی ہدایتوں کی خلاف ورزی ہے۔
آئی پی سی کی دفعہ 228 اے کے مطابق بھی ریپ متاثرین اور سروائیور کی پہچان بنا منظوری کے اجاگر نہیں کی جا سکتی۔بنا اجازت پہچان اجاگر کرنے پر دو سال کی قید اور جرمانے کا اہتمام ہے۔ صرف متاثرہ کے نام کو ہی اجاگر نہیں کرنا بلکہ کسی بھی طرح کی جانکاری جس سے ریپ متاثرہ کی پہچان عوامی ہو، غیر قانونی ہے۔واضح ہو کہ دسمبر 2018 میں نپن سکسینہ بنام وزارت داخلہ کے معاملے میں سپریم کورٹ کے جسٹس مدن بی لوکر اور دیپک گپتا نے کہا تھا، ‘ مرنے والوں کی بھی اپنی عزت ہے۔ صرف موت کی وجہ سے کسی کی عزت کو پامال نہیں کیا جا سکتا۔ ‘
گور طلب ہے کہ گزشتہ 28 نومبر کی رات حیدر آباد شہر کے باہری علاقے میں سرکاری ہاسپٹل میں کام کرنے والی 27 سالہ ویٹرنری ڈاکٹر سے چار جوانوں نے ریپ کرکے اس کا قتل کر دیا تھا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)