دہلی: چرچ میں پریئر کے دوران عیسائیوں پر حملہ، بائبل کے صفحے پھاڑے

واقعہ طاہر پور علاقے کے سیون پریئر ہاؤس میں پیش آیا۔ عیسائیوں کا الزام ہے کہ کچھ لوگ آئے اور پریئر کو روک دیا، وہاں مارپیٹ اور توڑ پھوڑ کی، ساتھ ہی اشتعال انگیز نعرے بھی لگائے۔ اس کے بعد جب کمیونٹی کے لوگ ایف آئی آر درج کرانے گئے تو تقریباً سو لوگوں کے ہجوم نے تھانے کا گھیراؤ کرکے کئی گھنٹے تک نعرے بازی کی۔

واقعہ طاہر پور علاقے کے سیون پریئر ہاؤس میں پیش آیا۔ عیسائیوں کا الزام ہے کہ کچھ لوگ آئے اور پریئر کو روک دیا، وہاں مارپیٹ  اور توڑ پھوڑ کی، ساتھ ہی اشتعال انگیز نعرے بھی لگائے۔ اس کے بعد جب کمیونٹی کے لوگ ایف آئی آر درج کرانے گئے تو تقریباً سو لوگوں کے ہجوم نے تھانے کا گھیراؤ کرکے کئی گھنٹے تک نعرے بازی کی۔

جی ٹی بی نگر انکلیو تھانہ۔ (تصویر: یاقوت علی/دی وائر)

جی ٹی بی نگر انکلیو تھانہ۔ (تصویر: یاقوت علی/دی وائر)

نئی دہلی: اتوار (20 اگست) دہلی کے جی ٹی بی انکلیو پولیس اسٹیشن کے باہر بجرنگ دل، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) سے تعلق رکھنے والے 100 سے زیادہ لوگ جمع ہوئے اور ‘جئے شری رام’ کے نعرے لگائے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسیحی برادری کے لوگ تھانے کے اندر ان  کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔

ان لوگوں نے الزام لگایا ہے کہ بجرنگ دل کےلوگوں نے پریئر کے دوران ان پر لاٹھیوں سے حملہ کیا۔ ایک شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا، ‘ہر اتوار کو جب ہم چرچ میں پریئر کے لیے جاتے ہیں، ہم خوف میں ہی مبتلا رہتے ہیں – ہم پر حملہ کیے جانے کے خوف میں۔’

بجرنگ دل  کے کچھ لوگ  تھانے کے اندربھی  موجود تھے اور جئے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے۔

بتایا گیا ہے کہ اتوار کی صبح تقریباً 10.30-11 بجے طاہر پور علاقے میں واقع سیون پریئر ہاؤس  میں لوگ پرے کر رہے تھے،جب اچانک کچھ لوگ اسپیکر لے کر اندر داخل ہوئے۔ اسپیکر سے ‘ہندو راشٹر بنائیں گے، جئے شری رام’ کا اعلان کیا جا رہا تھا۔

واقعے کے ایک عینی شاہد شوم کا کہنا ہے کہ ‘وہ عمارت میں بغیر اجازت داخل ہوئے اور ہمیں یہ کہہ کرپریئر روکنے کے لیے کہا کہ یہ ملک اب سیکولر نہیں رہا، یہاں اب  قانون بدل گیا ہے۔’

شوم ان چند لوگوں میں سے ایک تھے جو مدد کے لیے پولیس اسٹیشن پہنچے۔ عیسائی برادری کے متعدد افراد نے دی وائر کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ عمارت میں داخل ہونے والے افراد تلواروں اور لاٹھیوں سے لیس تھے اور انہوں نے بائبل  کے صفحے بھی  پھاڑے۔

شوم کہتے ہیں،’انہوں نے ہم پر لاٹھیوں سے حملہ کیا، جس میں کئی لوگ زخمی ہوئے ہیں۔‘ زخمی لوگوں  میں شوم کی بہن اور کئی دوسری خواتین  شامل ہیں۔

تین خواتین، جنہوں نے اپنی شناخت ظاہر کرنے سے گریز کیا، دعویٰ کیا کہ انہیں بجرنگ دل کے مردوں نے  پیٹا اور ان کے کپڑے نکالنے کی بھی کوشش کی گئی۔

عیسیٰ مسیح کی تصویر کا ٹوٹا ہوا کانچ۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

عیسیٰ مسیح کی تصویر کا ٹوٹا ہوا کانچ۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

دی وائر کے ذریعے حاصل کیے گئے ویڈیو فوٹیج میں چرچ میں وسیع پیمانے پر توڑ پھوڑ نظر آتی  ہے، جس میں ایک پھٹی ہوئی بائبل اور عیسیٰ مسیح کی کانچ کے فریم میں لگی تصویر بھی خراب حالت میں نظر آ رہی  ہے۔

تھانے کے باہر نعرے لگانے والوں میں انمول بھی شامل تھے، جو آر ایس ایس کے کارکن ہیں۔ انہوں نے دی وائر کو بتایا،’وہ ہندو اکثریتی علاقے میں پریئر کیوں کر رہے تھے؟ ہمارا تہوار رکشا بندھن چند دنوں میں آنے والا ہے اور ہم اپنے علاقے میں تبدیلی  مذہب کی پریئرنہیں ہونے دیں گے۔’

بعد میں تھانے کے باہر کھڑے اس گروہ نے چیختے چلاتے  ہوئے یہ دعویٰ کرنا شروع کیا کہ ‘ان پر پہلے حملہ کیا گیا تھا اور مذہب تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی تھی، جو  وہ کامیاب نہیں ہونے دیں گے’۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئے پادری ستپال بھاٹی نے کہا، ‘میں کیا کہہ سکتا ہوں؟ جب اس ملک میں لوگ اپنی ہی سرزمین پر محفوظ نہیں تو پھر زندہ رہنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ ہم یہاں 13 سال سے پریئر کر رہے ہیں اور مجھےکبھی  آج جیسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مسیحی برادری مسلسل دہشت میں ہیں، انہیں اپنی جان کا ڈر ستاتا  ہے۔’

خبر لکھے جانے تک اس معاملے میں ایف آئی آر درج نہیں کی گئی تھی، جبکہ عیسائی برادری اتوار کی صبح سے ہی ایسا کروانے کی کوشش کر رہی تھی۔

بتادیں کہ یونائیٹڈ کرسچن فورم (یو سی ایف) کی جانب سے شائع کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2014  کے بعدسے عیسائیوں پر حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

ان کی رپورٹ کے مطابق،  2014 میں گرجا گھروں پر 147 حملے ہوئے اور یہ تعداد تقریباً ہر سال بڑھتی  رہی ہے۔ سیاست ڈیلی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ گزشتہ سال عیسائیوں کے خلاف 599 حملے ہوئے اور 2023 کے پہلے 190 دنوں میں کمیونٹی پر 400 حملے ہوئے۔

یو سی ایف کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2023 میں عیسائیوں کے خلاف 23 ریاستوں میں تشدد ہوا ہے، جس میں اتر پردیش 155 واقعات کے ساتھ سرفہرست ہے، اس کے بعد چھتیس گڑھ ہے، جہاں84 ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)