ہوشیار ،ایک کلک سے آپ کے وجود کو مٹایا جا سکتا ہے …

اگر شہریوں کے پاس ڈیٹا کی ملکیت نہ ہو، اگر آپ سے متعلق معلومات پر آپ کا آئینی حق نہ ہوتو حکومت بغیر کسی رکاوٹ کے مداخلت کرتی رہے گی اور ہم ایسے معاشرے میں تبدیل ہو جائیں گے جہاں آزادی صرف ڈیٹا بیس میں درج ہوگی۔ اور آپ کا وجود ایک کلک سے مٹ جائے گا۔

اگر شہریوں کے پاس ڈیٹا کی ملکیت نہ ہو، اگر آپ سے متعلق معلومات پر آپ کا آئینی حق نہ ہوتو حکومت بغیر کسی رکاوٹ کے مداخلت کرتی رہے گی اور ہم ایسے معاشرے میں تبدیل ہو جائیں گے جہاں آزادی صرف ڈیٹا بیس میں درج ہوگی۔ اور آپ کا وجود ایک کلک سے مٹ جائے گا۔

ڈیٹا میں تبدیلی یا حذف کرنے کے لیے ایک آزاد عدالتی عمل لازمی ہونا چاہیے۔ نگرانی شفاف اور جوابدہ ہونی چاہیے، اور شہریوں کو یہ جاننے کا حق ہونا چاہیے کہ ان کے بارے میں کیا ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ (علامتی تصویر؛مارکو ورچ/فلکر سی سی بی وائی 2.0)

ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں، جہاں کسی شخص کا وجود اس کے جسمانی وجود تک محدود نہیں ہے۔ آپ کا نام، چہرہ، انگلیوں کے نشان، آنکھ کی پتلی، بینک اکاؤنٹ، ووٹر آئی ڈی، آدھار نمبر، میڈیکل ریکارڈ، اور موبائل لوکیشن— یہ سب مشترکہ طور پرآپ کا ڈیجیٹل اوتار بناتے ہیں۔ ان سب کا سرورز پر اسٹور، اپڈیٹ اور تجزیہ کیا جاتا ہے، بغیر آپ کے کنٹرول کے۔ یہ حکومتوں، نجی کمپنیوں، اور اس تکنیکی انفراسٹرکچر کے تابع ہے، جو آپ کے لیے غیر مرئی ہے۔

یہ تبدیلی چپکے سے ہوئی ہے۔ پہلے شناخت کے لیے راشن کارڈ، پاسپورٹ یا ووٹر کارڈ جیسے دستاویز کافی تھے۔ اب یہ بایو میٹرک ڈیٹا اور ڈیجیٹل کوڈز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اب آپ کو مٹانے کے لیے نہ ہتھیار، نہ گرفتاری، نہ دھمکی کی ضرورت ہے۔ بس ڈیٹا بیس سے آپ کا ریکارڈ ہٹا دیا جائےتو آپ قانونی طور پر غائب ہو جائیں گے۔ آپ جسمانی طور پر موجود تو ہوسکتے ہیں،لیکن انتظامیہ، بینکوں اور اسپتالوں کی نظروں میں آپ کا کوئی وجود نہیں ہوگا۔

ووٹر لسٹ سے لاکھوں نام نکالے جانے کی خبریں اس کی ایک مثال ہیں۔ کہیں اسے ڈیٹا اپڈیٹ کہا جاتا ہے، لیکن درحقیقت بغیر کسی واضح وجہ یا معلومات کے ہزاروں لوگوں کو ایک ہی بار میں ووٹر لسٹ سے نکال دیا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف ووٹ کا حق چھین رہا ہے بلکہ آپ کے قانونی وجود کو بھی کمزور کر رہا ہے۔

آدھار جیسے مرکزی شناختی نظام سے جوڑ کر دیکھیں۔ اگر کسی دن آدھار ریکارڈ حذف کر دیا جائے تو عام شہری کیا کرے گا؟ عدالت میں بھی شناخت ثابت کرنے کے لیے دستاویز درکار ہیں اور جب آپ کا نام سرکاری ریکارڈ میں بھی نہ ہو تو ثبوت کہاں سے لائیں گے؟

چہرے کی شناخت کی ٹکنالوجی اس کنٹرول کو مزید گہرا کر رہی ہے۔ یہ ٹکنالوجی اب شہروں، ریلوے اسٹیشنوں، ہوائی اڈوں اور یہاں تک کہ محلوں میں بھی کیمروں میں موجود ہے۔ ایک بار جب آپ کا چہرہ ڈیٹا بیس میں داخل ہو جاتا ہے، تو سسٹم آپ کو ہر بھیڑ، ہر گلی، ہر ویڈیو میں تلاش کر سکتا ہے۔ آپ کہاں گئے، کس سے ملے، کتنا عرصہ ٹھہرے، سب کچھ درج  ہوتاہے۔ کئی ریاستوں میں پولیس اسے جرائم کی روک تھام کے لیے استعمال کر رہی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف مجرموں کا سراغ لگاتی ہے؟ نہیں، یہ سب دیکھ رہا ہے۔ چاہے آپ کسی ریلی، مظاہرے، یا رہائشی علاقے میں ہوں۔

سیاسی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے اس ٹکنالوجی کا استعمال اب عام ہو گیا ہے۔ اگر آپ کسی احتجاج میں شرکت کریں گے تو آپ کی تصویر ریکارڈ کی جائے گی۔ آپ کی شناخت الگورتھم کے ذریعے ڈیٹا بیس سے منسلک ہو جائے گی، اور آپ کو ممکنہ ‘شرپسند’ کے طور پر نشان زد کیا جا سکتا ہے، یہاں تک کہ کوئی جرم کیے بغیر۔ یہ نگرانی صرف کیمروں تک محدود نہیں ہے۔ آپ کا موبائل آپ کے جغرافیائی محل وقوع کو ریکارڈ کرتا رہتا ہے۔


ٹیلی کام کمپنیاں اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے آپ کی کالز، میسج میٹا ڈیٹا اور براؤزنگ ہسٹری محفوظ کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل ادائیگی آپ کے خرچ کرنے کی عادتوں کا  نقشہ بناتی ہے۔ سوشل میڈیا آپ کی رائے، فرینڈ سرکل، اور سیاسی جھکاؤ کی پیمائش کرتا ہے۔ یہ تمام ڈیٹا یکجا ہو کر آپ کااتنا درست پروفائل بناتا ہے کہ آپ کے خیالات میں معمولی سی تبدیلی بھی سسٹم کے ذریعے نوٹس کی جا سکتی ہے۔


یہ ڈیٹا صرف آپ کو سمجھنے کے لیے نہیں بلکہ آپ پر اثر انداز ہونے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اشتہاری کمپنیاں اسے منافع کے لیے استعمال کرتی ہیں، لیکن مقتدرہ کے ہاتھ میں یہ آپ کی رائے بدلنے، رویے کو کنٹرول کرنے، اور یہاں تک کہ انتخابات پر اثر انداز ہونے کا ہتھیار بن سکتا ہے۔

ڈیٹا ڈیلیٹ ہونے کا خطرہ اور بھی زیادہ ہے۔ اگر آپ کا بینک اکاؤنٹ غلطی سے بند ہو جاتا ہے، تو آپ کے پاس کاغذی دستاویز ہو سکتے ہیں۔ لیکن بایو میٹرک اور ڈیجیٹل شناخت کے معاملے میں، اگر ریکارڈ سرور سے حذف کر دیا جاتا ہے، تو آپ کے پاس کوئی فزیکل ثبوت نہیں رہے گا۔ آپ کی پنشن، میڈیکل ہسٹری، جائیداد کا ریکارڈ، سب کچھ غائب ہو سکتا ہے۔ یہ حذف  کرنے کا عمل کسی دشمن کی سازش نہیں بلکہ ‘انتظامی غلطی’ کہہ کر بھی انجام دیا جاسکتا ہے اور اسے درست کرنے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔

ڈیٹا بریچ  کا خطرہ بھی سنگین ہے۔ اگر کوئی سرکاری یا نجی ڈیٹا بیس ہیک ہو جاتا ہے، تو آپ کا چہرہ، فنگر پرنٹس، یا آنکھ کی پتلی کا پیٹرن چوری ہو سکتا ہے۔ ان کو پاس ورڈ کی طرح تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر یہ ڈیٹا غلط ہاتھوں میں آجاتا ہے تو اسے آپ کو پھنسانے یا بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

چہرے کی شناخت ہندوستان میں طاقت اور نگرانی کی نئی زبان بن رہی ہے۔ دہلی پولیس کے پاس اے آئی پر مبنی نظام ہے جو لائیو سی سی ٹی وی سے مشتبہ افراد کی شناخت کر سکتا ہے۔ تلنگانہ، وڈودرا، جے پور، چنئی اور حیدرآباد جیسے شہروں میں نگرانی کے نیٹ ورک تیزی سے بڑھے ہیں۔ یہ ٹکنالوجی ریلوے اسٹیشنوں، ہوائی اڈوں، بس اسٹینڈوں اور سرکاری اسکولوں تک پہنچ چکی ہے۔ اسے سکیورٹی اور سہولت کے نام پر فروخت کیا جاتا ہے، لیکن یہ آپ کی ہر سرگرمی کا مستقل ریکارڈ بناتا ہے، جسے کسی بھی ایجنسی کے ساتھ شیئر کیا جاسکتا ہے۔


سال 2025 میں نیشنل آٹومیٹید فیشیل ریکاگنیشن سسٹم(این اے ایف آر ایس) ملک بھر کے سی سی ٹی وی ، آدھار، پاسپورٹ، اور جرائم کے ریکارڈ کو مربوط کرنے کی سمت میں  گامزن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہی آپ کا چہرہ اسکین کیا جائے گا آپ کی پوری ڈیجیٹل ہسٹری، پتہ، آدھار، بینک اکاؤنٹ، سوشل میڈیا پروفائل، ظاہر ہو سکتے ہیں۔ ڈرون نگرانی اس کا نیا ہتھیار ہے۔ چہرے کی شناخت سے لیس ڈرون اتر پردیش، پنجاب اور دہلی میں بھیڑ کے انتظام اور جرائم کی روک تھام کے لیے تعینات ہیں۔


چین کا سوشل کریڈٹ اسکور سسٹم شہریوں کے چہرے، ادائیگی کے ریکارڈ اور سماجی سرگرمیوں کا تجزیہ کرتا ہے۔ کم اسکور کے نتیجے میں ٹرین ٹکٹ، قرض، یا نوکریوں سے انکار کیا جا سکتا ہے۔ روس میں ماسکو کا کیمرہ نیٹ ورک مظاہرین کو ٹریک کرتا ہے۔ یہ ٹکنالوجی امریکہ اور برطانیہ میں بھی پولیسنگ کا حصہ ہے، لیکن وہاں قانونی مزاحمت موجود ہے۔ ہندوستان کے پاس نہ تو شفاف قوانین ہیں اور نہ ہی آزاد نگرانی کا نظام۔ ڈیٹا پروٹیکشن قانون حکومت کو وسیع اختیارات دیتا ہے، عدالتی جائزہ کے بغیر ڈیٹا کو تبدیل یا حذف کیا جا سکتا ہے۔

جب حکومت کے پاس آپ کا مکمل ڈیجیٹل پروفائل ہو، تو وہ آپ کے حقوق کو کنٹرول کر سکتی ہے۔ اسے پہلے سیکورٹی، پھر انتظامی کارکردگی اور آخر میں سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا اس کا تیز ترین میڈیم ہیں۔ حکومتیں فیک نیوز کی روک تھام کے نام پر نگرانی کرتی ہیں، لیکن اس کا استعمال سیاسی مخالفت کو ٹریک کرنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔

ہندوستان  میں مزاحمت کا امکان ہے، لیکن وقت کم ہے۔ اگلے چند سالوں میں، یہ نیٹ ورک مکمل طور پر مربوط ہو جائے گا، اور ہر سرگرمی کا حقیقی وقت میں تجزیہ ممکن ہو سکے گا۔ تب حکومت ایک بٹن کے کلک سے شہریوں کو کنٹرول کر سکے گی۔اے ائی  کا پیش گوئی کرنے والا معیار اسے زیادہ خطرناک بنا دیتا ہے۔ یہ نہ صرف آپ کے اعمال بلکہ مستقبل کے امکانات کا بھی جائزہ لیتا ہے، اور بغیر کسی جرم کے آپ کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ڈیٹا شہری کی ملکیت ہونا چاہیے۔ آپ کو اپنی معلومات کا آئینی حق ہونا چاہیے۔ ڈیٹا میں تبدیلی یا حذف کرنے کے لیے ایک آزاد عدالتی عمل لازمی ہونا چاہیے۔ نگرانی شفاف اور جوابدہ ہونی چاہیے اور شہریوں کو یہ جاننے کا حق ہونا چاہیے کہ ان کے بارے میں کیا ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ یہ خیال کہ ‘میرے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے’ خطرناک ہے کیونکہ یہ حکام کو بغیر کسی رکاوٹ کے مداخلت کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

اگر ابھی اقدامات نہ کیے گئے تو ہم ایک ایسے معاشرے میں تبدیل ہو جائیں گے جہاں آزادی صرف ڈیٹا بیس میں درج ہوگی۔ ایک ہی کلک سے آپ کے وجود کو مٹا دیا جا سکتا ہے۔ بغیر مقابلے، بغیر احتجاج کے۔ یہ ڈیٹا آمریت کا دور ہے، اور اسے روکنے کے لیے وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔

(منوج ابھیگیان سپریم کورٹ میں وکیل ہیں۔)