بہار ایس آئی آر: بے ضابطگیاں ہیں، اس لیے سوال ہیں

بہار میں ووٹر لسٹ کے اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر) پر تنازعہ جاری ہے۔ 1 اگست کو جاری کی گئی مسودہ فہرست سے 65 لاکھ نام ہٹائے گئے ہیں۔ اپوزیشن اس پورے عمل کے خلاف سڑکوں پر ہے۔ شہری حقوق کی تنظیموں نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ اس عمل کے شفاف نہ ہونے اور بعض طبقات کو نشانہ بنانے کے الزامات ہیں۔ ڈرافٹ لسٹ  کئی طرح کی بے ضابطگیوں کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔

بہار میں ووٹر لسٹ کے اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر) پر تنازعہ جاری ہے۔ 1 اگست کو جاری کی گئی مسودہ فہرست سے 65 لاکھ نام ہٹائے گئے ہیں۔ اپوزیشن اس پورے عمل کے خلاف سڑکوں پر ہے۔ شہری حقوق کی تنظیموں نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ اس عمل کے شفاف نہ ہونے اور بعض طبقات کو نشانہ بنانے کے الزامات ہیں۔ ڈرافٹ لسٹ  کئی طرح کی بے ضابطگیوں کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔

بہار-ایس آئی آرکے لیے چلائی گئی عوامی بیداری مہم میں خواتین۔(تصویر: ایکس/الیکشن کمیشن)

نئی دہلی: گزشتہ سوموار (11 اگست) کو راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں اپوزیشن کے رہنما – ملیکارجن کھڑگے اور راہل گاندھی –  سمیت اپوزیشن کے اراکین پارلیامنٹ بہار میں جاری ایس آئی آرکے خلاف احتجاج کر رہے تھے، اسی وقت انہیں دہلی پولیس نے حراست میں لے لیا ۔

اپوزیشن ایم پی پارلیامنٹ ہاؤس سے الیکشن کمیشن آف انڈیا کے دفتر تک مارچ کرنے والے تھے۔ لیکن انہیں ٹرانسپورٹ بھون کے قریب پولیس بیریکیڈز پر روک دیا گیا، جہاں انہوں نے احتجاجی دھرنا شروع کر دیا۔ سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے کہا، ‘ہم لوگوں کے ووٹ کا حق بچانے کے لیے بیریکیڈز کود رہے ہیں۔ …میں نے خود 18000 ہٹائے گئے ووٹوں کی فہرست دی ہے۔ الیکشن کمیشن نے حلف نامہ مانگا، ہم نے دیا، انہوں نے کارروائی نہیں کی۔’

معلوم ہو کہ ایس آئی آر کا عمل 25 جون کو شروع ہوا تھا۔ 1اگست کو مسودہ فہرست شائع کی گئی۔ دعوے اور اعتراضات داخل کرنے کی آخری تاریخ 1 ستمبر ہے۔30 ستمبر کو حتمی ووٹر لسٹ کی اشاعت کے ساتھ بہار میں ایس آئی آر کا عمل ختم ہو جائے گا۔

الیکشن کمیشن نے اس کا مقصد ووٹر لسٹ کو اپڈیٹ اور شفاف بنا، ڈپلیکیٹ ناموں، وفات پاچکے، مستقل طور پر منتقل یا ‘ناقابل شناخت’ لوگوں کے ناموں کو ہٹانا اور نئے اہل ووٹرز کو رجسٹر کرنا بتایا ہے۔ لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں اور ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر)جیسی تنظیموں نے کہا کہ اس میں ووٹروں کے نام بڑے پیمانے پر حذف کیے جا رہے ہیں۔ ناموں کو حذف کرنے کے عمل میں کوئی شفافیت نہیں ہے اور کمیشن نے حذف کیے گئے ناموں کی فہرست اور اس کی وجوہات کو عام نہیں کیا۔

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اس سے کچھ خاص طبقات اور علاقوں کے ووٹرز متاثر ہو سکتے ہیں۔ عدالت میں درخواستیں دائر کی گئی ہیں اور اس عمل کو لے کر سیاسی تنازعہ بھی چل رہا ہے۔

آخر 65 لاکھ لوگوں کے نام ڈیلیٹ کیوں  کیے گئے ؟

ایس آئی آر کے تحت 1 اگست کو شائع ہونے والی مسودہ فہرست سے پتہ چلتا ہے کہ 65 لاکھ ووٹروں کے ناموں کو حذف کر دیا گیا ہے۔ جب اے ڈی آر نے ان ووٹروں کے ناموں اور تفصیلات کو جاری کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے عدالت میں عرضی داخل کی تو کمیشن نے سپریم کورٹ سے کہا کہ ووٹر لسٹ سے حذف شدہ ووٹروں کے نام شائع کرنے کی اس کی کوئی قانونی ذمہ داری نہیں ہے۔

اے ڈی آر نے 5 اگست کو درخواست دائر کرتے ہوئے مطالبہ کیا  تھا کہ الیکشن کمیشن نہ صرف ان 65 لاکھ ووٹروں کے نام جاری کرے بلکہ ناموں کو ہٹانے کی وجوہات بھی بتائے۔ اس سے قبل الیکشن کمیشن نے اعلان کیا تھا کہ کل 7.89 کروڑ ووٹرز میں سے 7.24 کروڑ کو ڈرافٹ لسٹ میں شامل کیا گیا ہے، جبکہ باقی وفات پا چکے، مستقل طور پر منتقل اور لاپتہ پائے گئے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے کہا کہ اس نے ووٹروں کی بوتھ وار فہرستیں فراہم کی ہیں جن کے فارم سیاسی پارٹیوں کو موصول نہیں ہوئے ہیں تاکہ انہیں اس عمل میں ‘شامل’ کیا جا سکے اور وہ ان لوگوں تک پہنچ سکیں جن سے کمیشن کے بوتھ لیول افسران رابطہ نہیں کر پائے تھے۔

الیکشن کمیشن کا دعویٰ ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے اسے ووٹر لسٹ سے نام ہٹائے جانے کو لے کر کوئی  شکایت نہیں بھیجی ہے۔ لیکن دی وائر کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ بوتھ لیول ایجنٹوں نے اس سلسلے میں کمیشن کو خطوط لکھے، لیکن سب کو جواب نہیں ملا۔

آرہ اسمبلی سیٹ پر، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ – لیننسٹ) لبریشن کے بوتھ ایجنٹ نے 174 ووٹروں کے نام فہرست سے غائب پائے۔ انہیں نام ہٹائے  جانے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔

بوتھ ایجنٹ چندن کمار کا کہنا ہے کہ جن ناموں کو ہٹایا گیا ہے ان میں سے زیادہ تر معاشی طور پر کمزور پس منظر سے تعلق رکھنے والے ووٹرز ہیں۔ کچھ معاملات میں، مقامی انتخابی عہدیداروں نے کہا کہ وہ (ووٹر) نہیں مل سکے، اس لیے ان کے نام ہٹا دیے گئے۔ لیکن وہ اب بھی یہاں  موجودہیں۔

کمار نے دی وائر کو بتایا کہ ان کی پارٹی نے 8 اگست کو الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ ان ناموں کو دوبارہ شامل کیا جائے اور اس بات کی تحقیقات کی جائیں کہ انہیں کیسے ہٹایا گیا۔ لیکن الیکشن کمیشن نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

تاہم، بہادر پور اسمبلی حلقہ میں شکایت کے بعد فوری نوٹس لینے کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے۔

کس کس کے نام نکالے گئے؟

دی وائر کی ایک اور رپورٹ بتاتی ہے کہ جن دس اضلاع سے سب سے زیادہ نام ہٹائے گئے ہیں ان میں ریاست کے غریب ترین اور مسلم اکثریتی اضلاع شامل ہیں۔ ان اضلاع سے  لوگ بڑے پیمانے پر نقل مکانی بھی کرتے ہیں۔

ان 10 اضلاع میں سے چار – پورنیہ، کشن گنج، سیتامڑھی اور سہرسہ – بہار کے غریب ترین اضلاع میں سے ہیں (کثیر جہتی غربت کے پیمانے پر)۔

پورنیہ ان دس اضلاع میں دوسرا بڑا ضلع ہے، جہاں سے سب سے زیادہ نام حذف کیے گئے ہیں۔ نوٹ کریں کہ پورنیہ  بہار کے دس سب سےبڑے مسلم اکثریتی اضلاع ، دس غریب ترین اضلاع اور تیزی سےنقل مکانی کرنے والے اضلاع میں شامل ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ ضلع ریاست کے ٹاپ پانچ درج فہرست قبائل (ایس ٹی) اکثریتی اضلاع میں بھی شامل ہے۔

ایک اگست کو جاری ڈرافٹ ووٹر لسٹ کے مطابق، سب سے زیادہ نام حذف کیے جانے والے ٹاپ ٹین اضلاع کی فہرست میں شامل ہیں؛

گوپال گنج(15.09فیصد)

پورنیہ(12.07فیصد)

کشن گنج(11.82فیصد)

مدھوبنی(10.44فیصد)

بھاگلپور(10.19فیصد)

سہرسہ(9.45فیصد)

سیتامڑھی(9.32فیصد)

سمستی پور(9.02فیصد)

سارن(8.71فیصد)

شیوہر(8.69فیصد)

یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بہار کے ان اضلاع سے زیادہ نام ہٹائے گئے ہیں، جو معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ ہیں۔

کئی  طرح کی بے ضابطگیاں

دی رپورٹرز کلیکٹو کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اتر پردیش کے ایک ہزار سے زیادہ ووٹروں کو بہار کی والمیکی نگر سیٹ کے لیے نئی ووٹر لسٹ میں غیر قانونی طور پر جوڑ دیا گیا ہے اور ان کی تفصیلات دونوں ریاستوں کی ووٹر لسٹوں میں بالکل یکساں ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے ہزاروں نام ملے ہیں جو بہار کی نئی ووٹر لسٹ اور یوپی کی فہرست دونوں میں درج ہیں، لیکن ان کی تفصیلات میں معمولی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

اس طرح مشکوک، جعلی یا ڈپلیکیٹ ووٹرز کی تعداد 5000 سے تجاوز کر جاتی ہے۔ ان سب کے پاس دو مختلف ریاستوں میں دو مختلف ای پی آئی سی نمبر (ووٹر شناختی نمبر) ہیں۔ یہ غیر قانونی ہے اور اس سے جعلی یا غلط ووٹ ڈالے جا سکتے ہیں۔

اس  رپورٹ  سےایس آئی آر کی ایک بڑی خامی کا پتہ چلتا ہے، کیونکہ اگر یہ سارا عمل ووٹر لسٹ کو بہتر بنانے اور اس میں موجود تمام تضادات کو دور کرنے کے لیے اپنایا گیا تھا، تو پھر اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے نام ووٹر لسٹ میں کیسے آئے جن کے نام دیگر ریاستوں میں بھی درج ہیں؟

یہ واحد بے ضابطگی نہیں ہے۔

نیوز لانڈری کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ بہار میں 2,92,048 ووٹروں کے گھر کے نمبر ‘0’، ’00’ اور ‘000’ کے طور پر رجسٹرڈ ہیں۔ اس پر بہار کے چیف الیکٹورل آفیسر (سی ای او) کے دفتر کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ووٹر لسٹ میں ایسی ‘غلطیاں’ آ جاتی ہیں۔

یہی نہیں ڈرافٹ لسٹ میں بہت سے لوگوں کے نام ڈاٹ (.) ہیں۔ نیوز لانڈری کو بہار کے روہتاس اسمبلی حلقہ کے پولنگ بوتھ نمبر 106 کی ووٹر لسٹ میں ‘ڈاٹ’ سے شروع ہونے والے 10 ووٹروں کے نام ملے۔ ان میں سے سات ووٹروں کے والد کے نام بھی ڈاٹ ہیں۔ ایک عورت کا نام ڈاٹ ہے جس کی شادی ایک ایسے شخص سے ہوئی جس کا نام بھی ڈاٹ ہے۔ ان تمام کی عمریں 26 سے 28 سال کے درمیان ہیں اور مکان نمبر 1 میں ایک ساتھ رہتے ہیں۔

دینک بھاسکر نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ مظفر پور میں 269 ووٹر اور جموئی میں 247 ووٹر ایک ہی پتے پر رہتے ہیں۔ پٹنہ کے وارڈ-36 کی فہرست میں 18 مُردوں کے نام دیکھے گئے ہیں ۔

اٹھ رہے سوال

ایک  اگست کو جب ایس آئی آر کا پہلا مرحلہ ختم ہوا تو الیکشن کمیشن نے اسے ‘بے مثال، شفاف اور منصفانہ ٹیم ورک کی عظیم مثال’ قرار دیتے ہوئے اپنی پیٹھ تھپتھپائی۔ لیکن الیکشن کمیشن کھل کر ان بے ضابطگیوں کو تسلیم  کرتا  ہوانظر نہیں آتا۔

ماہرین نے پہلے ہی پیش گوئی کر دی تھی کہ ایسی صورتحال پیدا ہو گی۔

انتخابی عمل پر نظر رکھنے والی تنظیم اے ڈی آر کے شریک بانی پروفیسر جگدیپ چھوکر نے ابتدائی طور پر الیکشن کمیشن کی طرف سے مقرر کردہ ڈیڈ لائن کو ناقابل عمل قرار دیا تھا ۔ ان کا خیال تھا کہ اتنے کم وقت میں اس عمل کو صحیح طریقے سے مکمل کرنا حقیقت سے بالاتر ہے۔

شہریت ثابت کرنے کا دباؤ

ایس آئی آر کا عمل شروع سے ہی متنازعہ تھا کیونکہ اس کے ذریعے الیکشن کمیشن ووٹرز کی شہریت کی شناخت کر رہا تھا۔ جبکہ پہلے ایسا نہیں کیا جاتا تھا۔

آخری بار 2003 میں جب ‘خصوصی گہری نظرثانی’ کی گئی تھی، تب بوتھ لیول افسران گھر گھر جا کر ‘کاؤنٹنگ پیڈ’ کے ذریعے خاندان کے سربراہ سے  تفصیلات بھرواتےتھے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کہتی ہے کہ ‘الیکشن کمیشن کے فارم 6 میں، جو نئے ووٹروں کا اندراج کرتا ہے، اب تک صرف اس اعلان کی ضرورت تھی کہ درخواست دہندہ ایک ہندوستانی شہری ہے – کسی دستاویزی ثبوت کی ضرورت نہیں تھی (صرف عمر اور پتہ کا ثبوت درکار تھا)’۔

لیکن اس بار الیکشن کمیشن نے عدالت میں کہا کہ اسے شہریت کے بارے میں پوچھنے کا حق ہے اور اس پورے عمل کے دوران لوگوں سے ایسے دستاویز مانگے گئے، جن سے ان کی شہریت ثابت ہو۔ الیکشن کمیشن نے ایسے 11 دستاویز کے آپشن دیے تھے۔ لیکن ان میں آدھار کارڈ اور ووٹر شناختی کارڈ کو تسلیم نہیں کیاگیا۔

جب اس کا مطالبہ کرتے ہوئے عدالت میں ایک عرضی دائر کی گئی اور عدالت نے کمیشن سے آدھار کارڈ اور ووٹر شناختی کارڈ کو دستاویز میں شامل کرنے کو کہا تو کمیشن نے انکار کردیا۔ اس دوران میڈیا رپورٹس میں مسلسل یہ بات سامنے آ رہی تھی کہ دیہی عوام کے پاس آدھار کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔