
مالیگاؤں دھماکہ میں مسلمان ہی ہلاک اور زخمی ہوئے، اور اس کی ذمہ داری بھی مسلمانوں پر ہی عائد کرنے کی گھناؤنی کوشش کی گئی۔ تاہم، یہ ملک کا پہلا مقدمہ نہیں ہے،جس میں این آئی اے کو اپنی بے ایمانی کی وجہ سے شکست ہوئی۔ اور کیایہ اتفاق ہے کہ این آئی اے کوایسے بیشتر مقدمات میں ہار کا سامنا کرنا پڑا، جس میں ملزمین ہندوتھے اور بم دھماکوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والے مسلمان ؟

اوپر بائیں سے، نثار احمد سید بلال، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، پرگیہ ٹھاکر اور پرساد پروہت۔ پس منظر میں بلاسٹ کے بعد کی تصویر۔ (فوٹو: پی ٹی آئی اور اسپیشل ارینجمنٹ)
مالیگاؤں 2008 بم دھماکہ مقدمہ کا فیصلہ عوام کے سامنے آگیاہے، خصوصی این آئی اے عدالت کے جج اے کے لاہوٹی نے ناکافی ثبوت و شواہد کی بنیاد پر تمام ملزمین کو مقدمہ سے بری کر دیا ہے۔
میں یہاں بم دھماکہ متاثرین کی نمائندگی کرنے والے وکلاء کی ٹیم کے اہم رکن ہونے کی حیثیت سے جس نے ٹرائل کورٹ سے لےکر سپریم کورٹ تک اس مقدمہ کی پیروی کی ہے یہ بات نہایت ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ قومی تفتیشی ایجنسی نے مبینہ طور پراس مقدمہ کا ستیاناس کیاہے۔
دراصل ، شہید ہیمنت کرکرے نے جو پختہ شواہد جمع کیے تھے اس کی قومی تفتیشی ایجنسی نے نہ تو حفاظت کی اور نہ ہی اسے ایمانداری سے عدالت کے سامنے پیش کیا؛ یعنی انسدا د دہشت گرد دستہ (اے ٹی ایس)نے ملزمین سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر، رمیش اپادھیائے،سمیر کلکرنی، اجئے ایکناتھ رائیکر، کرنل پروہت، سدھارکر دھر دویدی اور سدھارکر اومکارناتھ چترویدی کے خلاف جو ثبوت اکٹھا کیے تھے انہیں اس طریقے سے ضائع کیا کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
خصوصی جج اے کے لاہوٹی نے اپنے فیصلے میں پیراگراف نمبر 1532/ میں تحریر کیا ہے کہ استغاثہ نے عدالت کے سامنے اہم گواہوں کوپیش نہیں کیا۔ان گواہوں کی عدم پیشی کا عدالت نے یہ مطلب نکالا کہ استغاثہ نے عدالت سے انہیں چھپایا ہے۔
عدالت کا یہ تبصرہ کافی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ ٹرائل کے دوران بم دھماکہ کے متاثرین نے بھی این آئی اے سے عدالت میں بھروسے مند گواہان کو پیش کرنے کی گزارش کی تھی، لیکن اس پر بھی این آئی اے نے توجہ نہیں دی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ 29ستمبر2008سے لےکر 31 جولائی2025کے درمیان اس مقدمہ نےمتعدد نشیب و فراز کا مشاہدہ کیا۔ریاست اور مرکز میں اقتدار کی تبدیلی کا اس مقدمہ پر سیدھا اثر پڑتا دکھائی دیا،اور یہ مقدمہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیے ووٹ بینک کا معاملہ بھی رہا۔
اس مقدمہ میں چار مختلف پولیس محکموں نے تفتیش کی، جس میں مالیگاؤں پولیس، ناشک پولیس، مہاراشٹر انسداد دہشت گرد دستہ اور قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے)شامل ہے۔
قومی تفتیشی ایجنسی ایکٹ کی دفعہ 6 اور8 کے تحت این آئی اے نے 1 مارچ2011 کو یہ مقدمہ اے ٹی ایس سے اپنے ہاتھو ں میں لے لیا۔ایجنسی نے یہ مقدمہ از خود یعنی سو موٹو کے طور پراپنے ہاتھوں میں لیا تھااور پانچ سالوں تک اس کی تفتیش کی۔
یہ مقدمہ این آئی اے نے اے ٹی ایس سے اپنے ہاتھوں میں کیوں لیا؟ آج تک اس کی وجہ کسی کو بتائی نہیں گئی۔
سال 2016 میں این آئی اے نے خصوصی عدالت میں اضافی چارج شیٹ داخل کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ اس مقدمہ سے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا کوئی لینا دینا نہیں ہے اور ناشک کے دیولالی کیمپ سے آر ڈی ایکس کی برآمدگی کا اے ٹی ایس نے جو دعویٰ کیا ہے وہ مشکوک ہے۔
این آئی اے کی جانب سے اضافی چارج شیٹ داخل کیے جانے کے بعد یہ واضح ہوگیا تھا کہ یہ مقدمہ کس سمت جارہا ہے، لیکن بم دھماکہ متاثرین نے جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے توسط سے عدالت میں بطور مداخلت کار پیش ہونے کی گزارش کی جسے عدالت نے منظور کرلیا، حالانکہ ملزمین نے اس کی مخالفت کی تھی۔
سال 2016سے پہلے بم دھماکہ متاثرین نے اس مقدمہ میں کبھی مداخلت نہیں کی،کیونکہ اس وقت تک مقدمہ صحیح سمت میں جارہا تھا۔
یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ دھماکہ کے ان ملزمین نے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے یہ مقدمہ آٹھ سالوں تک چلنے نہیں دیا۔ مہاراشٹر اے ٹی ایس کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں الجھا کر رکھا۔
حالانکہ ان آٹھ سالوں میں انہوں نے جیل کی صعوبتیں برداشت کی ہوں گی، لیکن انہیں اقتدار کی تبدیلی کابہت بڑا فائدہ ملا اور یہ فائدہ ایسا ملا کہ آج ہم انہیں مقدمہ سے بری ملزم لکھنے پر مجبور ہیں،یہ اور واقعہ ہے کہ ہم نے یہ سارا کھیل اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے دیکھا۔
دراصل ،انڈین کریمنل جسٹس سسٹم میں متاثرین کے لیے وہ حقوق نہیں ہیں جو ویسٹرن اور امریکن جسٹس سسٹم میں ہیں۔
بم دھماکہ متاثرین نے ٹرائل کورٹ سے لےکر سپریم کورٹ تک ملزمین کا پیچھا کیا اور انہیں مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی مقدمہ سے ڈسچارج ہونے کی ان کی کوششوں کو ناکام بنایا اور انہیں 17 سالوں تک مقدمہ کا سامنا کرنے پر مجبور کیا۔
بم دھماکہ ملزمین اثر و رسوخ کی وجہ سے خصوصی این آئی اے عدالت کے معمولی سے معمولی آرڈر کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا کرتے تھے، بم دھماکہ متاثرین انصاف کی ا مید میں مقدمہ کی پیروی کرتے رہے۔
اس مقدمہ میں جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی نے ایک جانب جہاں متاثرین کی ہر طرح سے مدد کی، وہیں حقوق انسانی کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے مشہور سینئر ایڈوکیٹ بی اے دیسائی نے ہائی کورٹ اور ٹرائل کورٹ کی سینکڑوں سماعتوں میں پیش ہوئے اور ایک پیسہ بھی فیس نہیں لی حالانکہ ان کی یومیہ سماعت کی فیس لاکھوں میں ہوتی ہے۔
سینئر ایڈوکیٹ کی معاونت ایڈوکیٹ شریف شیخ، ایڈوکیٹ عبدالوہاب خان، ایڈوکیٹ عبدالمتین شیخ، ایڈوکیٹ انصارتنبولی، ایڈوکیٹ ہیتالی سیٹھ، ایڈوکیٹ کریتیکا اگروال نے و دیگر نے کی۔

نڈر خاتون وکیل استغاثہ روہنی سالیان، فوٹو: پی ٹی آئی
این آئی اے کی جانب سے اضافی چارج شیٹ داخل کیے جانے کے بعد اس وقت کی ایماندار اور نڈر خاتون وکیل استغاثہ روہنی سالیان پر این آئی اے نے دباؤ بنایا کہ وہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو مقدمہ سے ڈسچارج ہوجانے دیں کیونکہ سادھوی کے خلاف ثبوت کو مٹانے کے بعد دیگر ملزمین کی رہائی کا راستہ صاف ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔
لیکن روہنی سالیان نے این آئی اے کے سامنے جھکنے سے منع کردیا۔
صرف چارج شیٹ کی بنیاد پر کسی بھی ملزم کو سزا نہیں دی جاسکتی، اور جب تک یہ چارج شیٹ عدالت میں گواہوں کی زبانی گواہی کے ذریعے ثابت نہ ہوجائے، ملزمین کو سزا م ملنا ممکن نہیں۔
اس مقدمہ میں اے ٹی ایس نے ملزمین کے خلاف اسٹرانگ مٹیریل جمع کیے تھے، لیکن این آئی اے ان مٹیریل کو عدالت میں ثابت کرنے میں ناکام ثابت ہوا، کیونکہ اس مقدمہ کے انتہائی اہم گواہان منحرف ہوگئے۔
چوں کہ اس مقدمہ میں ڈائرکٹ ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ان ڈائرکٹ ثبوتوں یعنی سازشی میٹنگوں میں موجود گواہان کے بیانات کی بنیاد پر یہ مقدمہ ٹکا ہوا تھا، لیکن دوران گواہی عدالت میں ان میٹنگوں میں موجود تمام گواہان اپنے بیانات سے منحرف ہوگئے۔
رائے گڑھ قلعہ، ایس پی کالج پونے،بی ایم سی سی کالج پونے میں مختلف تاریخوں پر ہونے والی میٹنگ میں ملند جوشی راؤ،شریش داتے، امول داملے،ملند ناتو،نناد بیڈیکرموجو د تھے، ان کے بیانا ت کا اندراج اے ٹی ایس نے کیا تھا۔
دیولالی ناشک میں ہوئی میٹنگ میں نناد بڈیکر،امود دامولے،سومناتھ گنجل، رمیش سروے، یشپا بھڑانا، بھائی دلوی،بی ایل شرما، یہ سب گواہان بھی دوران گواہی عدالت میں اپنے سابقہ بیانات سے منحر ف ہوگئے۔
فرید آباد میٹنگ میں آر پی سنگھ،کرنل بی دھار، چیتن ڈھاکن،یشپال بھڑانا، بی ایلشرما موجود تھے، لیکن انہوں نے بھی عدالت میں ملزمین کے خلاف گواہی دینے کے ان کے حق میں گواہی دی۔
بھوپال اور کولکاتہ میٹنگ میں ہیمانی ساورکر،تپن گھوس، کرنل بی دھر موجود تھے، لیکن یہ بھی عدالت میں اپنے سابقہ بیانات سے منحرف ہوگئے۔
جبل پور میٹنگ میں ہیمانی ساورکر، مریم جیسوانی، کرنل دھار، پرساد دیوستھلی،اشوک کما ر چاؤلہ موجود تھے، لیکن عدالت میں یہ بھی اپنے سابقہ بیان سے مکر گئے۔
اندور میٹنگ میں پردیپ مکھرجی،گورو شرما،کاشی ناتھ کنہا لال بنرجی،وسنت دیوکر نے اپنے بیانات سے انحراف کیا۔
ناشک اور پنچ مڑھی میٹنگوں میں موجود کرنل شیلیس رائیکر،کیپٹن نتن جوشی، سنجیت پینڈھالکر،ہیمانی ساورکر،باپ ادتیہ دھر،راجن گائیدھانی، کیپٹن نتن جوشی موجود تھے جن کے بیانات کا اندراج اے ٹی ایس نے کیا تھا،لیکن دوران گواہی عدالت میں وہ بھی اپنے سابقہ بیانات سے منحرف ہوگئے۔
اجین میٹنگ میں مہندر بھٹناگر، سنیل واردے،سچن سونی موجود تھے جبکہ بھگور کیمپ میں ملند جوشی راؤ نے حصہ لیا تھا،لیکن ان تمام لوگوں نے عدالت میں جھوٹ نہ بولنے کی قسم کھاتے ہوئے جھوٹ بولا اور یکے بعد دیگرے اپنے سابقہ بیانات سے منحرف ہوتے رہے اور بجائے ان پر تادیبی کارروائی کرنے کے این آئی اے نے بم دھماکہ متاثرین کے وکلاء کی ہی شکایت کی کہ وہ ان کے کام میں خلل پیدا کررہے ہیں۔
اصل میں جس وقت یہ انتہائی اہم گواہ جو مقدمہ کی بنیاد تھے عدالت میں جھوٹ بول رہے تھے بم دھماکہ متاثرین کے وکلاء اس کی عدالت سے زبانی جوڈیشیل نوٹ کرنے اور این آئی اے سپرٹنڈنٹ آف پولیس سے تحریری شکایت کررہے تھے۔
سازشی میٹنگوں میں متذکرہ گواہوں کے ساتھ ملزمین بھی موجود رہتے تھے۔سازشی میٹنگوں کے گواہان کے منحرف ہونے سے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر پر عائد الزام کہ اس نے میٹنگ میں یہ بات کہی تھی کہ بم دھماکہ کرنے کے لیے وہ اپنی بائیک اور آدمی مہیا کرائے گی ثابت نہیں ہوسکا۔
ملزم سدھاکر دویدی نے ان سازشی میٹنگوں کی تفصیلات اپنے لیپ ٹاپ میں جمع کی تھی، لیکن عدالت نے تکنیکی بنیادوں پر کسی بھی الیکٹرانک ثبوتوں کو قبول نہیں کیا۔
سی آر پی سی کی دفعہ 164کے تحت مجسٹریٹ کے روبرو بیان دینے والے چھ گواہ اپنے بیانات سے منحرف ہو ئے ان کے خلاف بھی این آئی اے نے کوئی مقدمہ درج نہیں کیا۔
ان گواہان کے منحرف ہونے کے بعد ان کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کی بم دھماکہ متاثرین نے این آئی اے سے گزارش کی تھی جسے اس نے نظر انداز کردیا۔
اس مقدمہ کو بہت منظم طریقے سے کمزور کیا گیا جیسے عدالتی تحویل سے انتہائی اہم 13 دستاویزات پر اسرار طریقے سے غائب ہوگئے، جو آج تک نہیں ملے، یہ دستاویزات سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے اس مقدمہ میں ملوث ہونے کے اہم ثبوت تھے۔

پرگیہ سنگھ ٹھاکر۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
این آئی اے نے ان گمشدہ دستاویزات کے تعلق سے کوئی تفتیش نہیں کی، کوئی ایف آئی آر درج نہیں کرائی گئی، این آئی اے عدالت نے اپنے فیصلے کے پیراگراف نمبر 735میں اس کا ذکر کیا ہے۔
ان 13 بیانات میں سے 8 بیانات دینے والے گواہان کو بلایا گیا جو اپنے بیانات سے منحرف ہوئے، عدالت نے اپنے فیصلے میں تبصرہ کیا کہ استغاثہ نے ان گواہان کو دوران گواہی ان کے بیانا ت بتائے نہیں اور نہ ہی ان بیانات کو درج کرنے والے مجسٹریٹ کو گواہی کے لیے طلب کیا۔
تاہم، 28 اگست 2023 کو بم دھماکہ متاثرین نے این آئی اے کو خط لکھ کر مجسٹریٹ کو بطور گواہ عدالت میں طلب کرنے کی گزارش کی تھی جسے این آئی اے نے قبول نہیں کیا۔ ملزمین کے لیپ ٹاپ سے ڈاؤن لوڈ کی گئی سازشی میٹنگ کی تفصیلات جس سی ڈی میں محفوظ کی گئی تھی وہ سی ڈی عدالتی ریکارڈ میں ہونے کے باوجود کیسے ٹوٹی؟
اگر اس سی ڈی میں کچھ نہیں تھا تو پھر ملزمین کو دی گئی سی ڈی ملزمین نے عدالت میں کیوں نہیں پیش کی؟بم دھماکہ متاثرین نے اس تعلق سے سپریم کورٹ تک کوشش کی، لیکن این آئی اے کی عدم دلچسپی کی وجہ سے انہیں مایوسی ہاتھ لگی۔
عدالت نے اپنے فیصلے کے پیراگراف نمبر 808 میں اس کا ذکر کیا ہے کہ الیکٹرانک ریکارڈ عدالت میں ثابت کرنے کے لیے قانون شہادت کی دفعہ 65بی کے تحت سرٹیفیکٹ کا ہونانہایت ضروری ہوتا ہے جسے عدالت میں استغاثہ نے پیش نہیں کیااسی وجہ سے عدالت نے الیکٹرانک ثبوتوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ 65بی سرٹیفیکٹ استغاثہ دوران ٹرائل کسی بھی وقت عدالت میں داخل کرسکتا تھا، لیکن وہ ایسا نہیں کرسکا یعنی کہ استغاثہ کی کوتاہیوں کی وجہ سے انتہائی اہم الیکٹرانک شواہد ضائع ہوگئے۔
خصوصی عدالت کے جج نے پولیس اہلکاروں کی گواہیوں کو سرے سے خارج کردیا جبکہ انہیں دہشت گردی جیسے سنگین معاملے میں پولیس اہلکاروں کی گواہیوں کو بھی اہمیت دینی چاہیے تھی۔
منحرف گواہان کے بیانات کو عدالت نے ملزمین کے حق میں قراردیا، جبکہ ایسے سنگین معاملات میں منحرف گواہان کے بیانات کو تفتیشی کے افسران کے بیانات کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔
عدالت کو تفتیش میں ہوئی تکنیکی خامیوں کو نظر انداز کرنا چاہیے تھا، لیکن اس نے ان تکنیکی خامیوں کا سیدھا فائدہ ملزمین کو دیا، استغاثہ کی نرمی کا فائدہ عدالت نے ملزمین کو دیا جبکہ اسے متاثرین کے ساتھ انصاف ہو اس تعلق سے بھی سوچنا چاہیے تھا۔
اے ٹی ایس سے تفتیش اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد این آئی اے کے افسر اروند نیگی نے بھی اس مقدمہ کی کچھ دنوں تک تفتیش کی تھی اور انہوں نے ملزمین کے خلاف ثبوت اکٹھا کیے تھے، لیکن انہیں چارج شٹ داخل نہیں کرنے دیا گیا، کس کے دباؤ میں ارویند نیگی کو اپنی ذمہ داریوں سے ہٹایا گیا یہ سوال آج بھی اپنی جگہ قائم ہے۔
این آئی اے کی اضافی چارج شیٹ داخل کیے جانے اورایڈوکیٹ روہنی سالیان کے بیان کے بعد بم دھماکہ متاثرین نے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کرکے اس مقدمہ کی خصوصی تفتیشی ٹیم(ایس آئی ٹی) سے آزادانہ تفتیش کیے جانے کی گزارش کی تھی جس پریونین آف انڈیا نے اتفاق نہیں کیا تھا۔
یونین آف انڈیا نے سپریم کورٹ میں برسوں ایس آئی ٹی کے حق میں اپنا جواب داخل نہیں کیا، تقریباً آٹھ سالوں تک مقدمہ کو سپریم کورٹ میں لٹکائے رکھا۔اے ٹی ایس کی جانب سے کی جانے والی خامیوں پر بھی گفتگو ہونی چاہیے، این آئی اے کے پاس قانونی طو رپر یہ حق تھا کہ وہ ان خامیوں کو دو ر کرتی،این آئی اے اگر واقعی ملزمین کو سزا دلانے میں سنجیدہ ہوتی تو وہ پانچ سالوں میں اے ٹی ایس کی خامیوں کو دور کرلیتی، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔
سال 2018 میں خصوصی این آئی اے عدالت کے جج ونود پڈالکر نے ملزمین کی شدید مزاحمت اور مخالفت کے باوجود چارج فریم کیے جانے کا حکم جاری کیا۔
جس دن تمام ملزمین کے خلاف الزامات عائد کیے جانے تھے یعنی چارج فریم کیا جانا تھا۔ عدالت نے ملزمین کو صبح گیارہ بجے کمرہ عدالت میں موجود رہنے کی ہدایت دی تھی، یکے بعد دیگرے ملزمین عدالت میں اپنے وکلاء کے ساتھ پہنچ گئے تھے، لیکن ایک ملزم کو عدالت میں پہنچنے میں تاخیر ہورہی تھی یا وہ جان بوجھ کر تاخیر کررہا تھا، جج ونود پڈالکر نے اپنے اسٹاف کو حکم دیا کہ وہ ان کی کار لے جائے وی ٹی(سی ایس ٹی) اسٹیشن پر اور ملزم کو اس میں بٹھا کر فوراً عدالت لےکر آئے، عدالت آج چارج فریم کرکے رہے گی کیونکہ سپریم کورٹ نے مقدمہ کی سماعت شروع کیے جانے کا حکم دیا ہے۔
ملزمین چاہتے ہی نہیں تھے کہ ان کے خلاف چارج فریم کیاجائے اور انہیں ٹرائل کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جائے کیونکہ تمام ملزمین ضمانت پر رہا ہوچکے تھے۔
دراصل ملزمین چاہتے تھے کہ جس طرح مالیگاؤں 2006 مقدمہ میں ماخوذ کیے گئے بے قصور مسلم نوجوانوں کو مقدمہ کا سامنا کیے بغیر مقدمہ سے ڈسچارج کردیا گیا تھا،انہیں بھی اسی طرح کی راحت دی جائے۔
عدالت کی جانب سے چارج فریم کیے جانے کے باوجود ملزمین نے مقدمہ کو پٹری سے اتارنے کی بہت کوشش کی، جس میں سب سے اہم یہ تھا کہ ملزم سدھار کر دھردویدی نے دھماکہ میں ہلاک اورزخمی ہونے والوں کے میڈیکل سرٹیفیکٹ کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
سدھارکر دویدی نے عدالت کو کہا کہ وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ 29 ستمبر2008 کو مالیگاؤں میں بم دھماکہ ہوا تھا۔
ملزم کے اس انکار کے بعد 101 زخمیوں نے مالیگاؤں سے ممبئی کا سفر کرکے خصوصی عدالت میں اپنے زخم دکھائے، گواہی دیتے ہوئے کئی زخمیوں کی آنکھوں سے زارو قطار آنسو بہتے ہوئے بھی ہم نے دیکھا۔29 ستمبر کا واقعہ یاد کرکے یہ بے چارے لوگ رونے بلکنے لگ جاتے تھے۔
مالیگاؤں سے ممبئی آکر گواہی دینے کا ان زخمیوں کو سرکار کی جانب سے محض دو ڈھائی سو روپیہ ملتاتھا۔
بھلا ہو جمعیۃ علماء مہاراشٹر کا جس نے ان مظلوموں کی مدد کی اور آمدورفت اور ان کے قیام و طعام کا بندوبست کیا۔
مقامی جمعیۃ علماء کے احباب نے ان کی رہنمائی کی، کئی مہینوں تک ان زخمیوں کے ساتھ سفر کیا اس امید کے ساتھ کہ انہیں انصاف ملے گا۔
زخمیوں کے علاوہ بھی مالیگاؤں سے ڈاکٹر سعید فارانی،ڈاکٹر سعید فیضی وغیرہ نے خصوصی این آئی اے عدالت میں گواہی دی۔
نچلی عدالت سے لےکر سپریم کورٹ آف انڈیا نے بم دھماکہ متاثرین کو ہر موڑ پر اس مقدمہ میں مداخلت کرنے کی اجازت دی۔یہی وجہ تھی کہ ملزمین کو نہ چاہتے ہوئے بھی مقدمہ کا سامنا کرنا پڑااور اب مقدمہ سے رہا ہونے کے بعد بھی انہیں ہائی کورٹ میں مقدمہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کیونکہ این آئی اے اپیل داخل کرے یا نہ کرے بم دھماکہ متاثرین آزادانہ طور پر اپیل داخل کرنے کے مجاز ہیں اور ان سب باتوں کو ہائی کورٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا،جن کی وجہ سے انہیں مقدمہ سے رہائی ملی۔مقدمہ سے بری ہوجانے کے بعد فی الحال ملزمین کے دوبارہ واپس جیل جانے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔
ملزمین نے ایک جانب جہاں بم دھماکہ ہوا اسے ماننے سے انکار کیا وہیں کچھ ملزمین نے اسے اسٹوڈنٹس اسلام مومنٹ آف انڈیا(سمی) سے جوڑنے کی کوشش کی اور کہا کہ جس جگہ بم دھماکہ ہوا تھا اس جگہ سیمی کا دفتر ہے۔
لہذا بم دھماکہ سیمی سے جڑ ے ہوئے لوگوں (مسلمانوں) نے کیاہے، لیکن خصوصی این آئی اے عدالت نے ملزمین کے اس دعوے کو خارج کردیا۔
این آئی اے عدالت نے اپنے فیصلے کے پیراگراف نمبر 119 میں اس کا ذکر کیا ہے۔
بم دھماکوں میں مسلمان ہی ہلاک اور زخمی ہوئے اور اس کی ذمہ داری مسلمانوں پر ہی عائد کرنے کی گھناؤنی کوشش کی گئی، نچلی عدالت کے فیصلے کے بعد فرقہ پرستوں کا سڑکوں پر جشن منانا اور ریاست کے چیف منسٹر اور دیگر اعلیٰ عہدیداران کا فیصلے کا خیر مقدم کرنا متاثرین کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔
مالیگاؤں 2008 بم دھماکہ مقدمہ یہ ملک کا ایسا پہلا مقدمہ نہیں ،جس میں این آئی اے کو اپنی بے ایمانی کی وجہ سے شکست ہوئی۔ اور کیا یہ اتفاق ہے کہ این آئی اے کوایسے بیشتر مقدمات میں ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس میں ملزمین ہندوتھے اور بم دھماکوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والے مسلمان تھے؟ مثلاً مکہ مسجد بم دھماکہ مقدمہ،سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ، جالنہ پورنا مسجد بم دھماکہ و دیگر شامل ہیں۔
بہرحال،نچلی عدالت کا فیصلہ ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے اور اس مختصر سے مضمون میں اس کا مکمل جائزہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
(شاہد ندیم حقوق انسانی کے وکیل اور جمعیۃ علماہند،مہاراشٹر لیگل ایڈ کمیٹی کے قانونی معاون ہیں۔ )