ہندوستان کے سابق چیف جسٹس جسٹس این وی رمنا نے ایک تقریب میں کہا کہ 21ویں صدی کی حصولیابیوں کو سراہنے کی ضرورت ہے، لیکن بحیثیت قوم ہم اس سچائی سے انکار نہیں کر سکتے کہ کروڑوں ہندوستانیوں کے لیے بھوک، غربت، ناخواندگی اور سماجی عدم مساوات اب بھی ایک حقیقت ہے۔
نئی دہلی: ہندوستان کے سابق چیف جسٹس این وی رمنا نے اتوار کو کہا کہ عدالتوں کو غیر جانبدار ہونا چاہیے اور ان کے فیصلوں سے جمہوریت میں بہتری آنی چاہیے، لیکن بعض حالات میں عدالتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپوزیشن کا کردار ادا کریں یا ان کی جگہ لیں۔
کیپٹل فاؤنڈیشن سوسائٹی سے جسٹس وی آر کرشنا ائیر ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد اپنے خطاب میں جسٹس رمنا نے کہا کہ 1960 اور 1970 کی دہائی جدید ہندوستانی تاریخ کے سب سے چیلنجنگ دور تھے۔
انہوں نے کہا، اس دور میں پارلیامنٹ اور عدلیہ کے درمیان ٹکراؤ دیکھا گیا۔ پارلیامنٹ نے اپنی بالادستی برقرار رکھنے کی کوشش کی جبکہ سپریم کورٹ کی کوشش آئینی بالادستی برقرار رکھنے کی تھی۔
سابق سی جے آئی نے کہا کہ عدالتوں نے اس بات کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے کہ آئینی حقوق نے اپنے معنی نہیں کھوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالتوں نے اس نظریہ کو تقویت دی ہے کہ انصاف کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے ساتھ انفرادی ضروریات کو متوازن کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ملک ایک تحریری آئین کے تحت چلنے والی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر پھل پھول رہا ہے۔
آندھرا پردیش کے کرشنا ضلع کے پوناورم گاؤں کے ایک کسان خاندان سے تعلق رکھنے والے جسٹس رمنا 26 اگست کو 48ویں چیف جسٹس کے طور پر ریٹائر ہوئے تھے۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، تقریب میں سالانہ لیکچر دیتے ہوئے سابق سی جے آئی رمنا نے کہا، عدالتوں کو غیر جانبدار ادارہ ہونا چاہیے۔ جمہوریت کی ترقی میں مثالی طور پر عوام کا فیصلہ ہی اصلاح کا واحد راستہ ہے، لیکن بعض حالات میں یہ توقع کی جاتی ہے کہ عدالتیں اپوزیشن کا کردار ادا کریں گی یا ان کی جگہ لیں۔
یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ دہائیوں سے سپریم کورٹ کی طرف سے مختلف آراء سامنے آئےہیں، سابق سی جے آئی نے زور دے کر کہا کہ کسی ادارے کا ایک ہی آواز میں بولنا صحت مند جمہوریت کی علامت نہیں ہے اور عدالتی اداروں اور جمہوریت کے لیے بھی مختلف خیالات کا ہونا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ کے سابق جج اے کے پٹنائک کی صدارت میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں اڑیسہ کے وزیر اعلیٰ نوین پٹنائک سمیت کئی معززافراد نے شرکت کی، جنہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔
جسٹس رمنا نے کہا کہ ابھی ان کے لیے ‘ہندوستانی عدلیہ میں میرا تجربہ’ کے موضوع پر لیکچر دینا مناسب نہیں ہے کیونکہ وہ حال ہی میں چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ اس کے بجائے انہوں نے ’72 سالوں میں ہندوستانی عدلیہ کا سفر’ کے عنوان پر ایک لیکچر دیا۔
انہوں نے کہا، عدلیہ کو بطور ادارہ کسی ایک رائے کی بنیاد پر نہیں پرکھا جا سکتا۔ اسی طرح ملک کسی ایسے آئینی ادارے کی توقع نہیں کر سکتا جس میں ہمیشہ ایک ہی آواز میں بولنے والے 30 سے زیادہ آزاد آئینی اتھارٹی شامل ہوں۔
جسٹس رمنا نے کہا کہ عدلیہ کو پی آئی ایل سسٹم کے غلط استعمال سمیت کئی سوالات کی جانچ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے عدلیہ کو بڑھتے ہوئے مقدموں سمیت مختلف چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرنے کی ضرورت کا بھی اظہار کیا۔
انہوں نے مستقبل کی ضروریات کا سامنا کرنے کے قابل ہونے کے لیے ‘موجودہ کمیوں’ کے بارے میں بات کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ 21ویں صدی کی حصولیابیوں کو سراہنے کی ضرورت ہے، لیکن یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ 70 سال پہلے اٹھائے گئے جو مسائل ہمیں متاثر کر رہے تھے، وہ اب بھی ایک حقیقت ہیں۔
انہوں نے کہا، ایک قوم کے طور پرہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ بھوک، غربت، ناخواندگی اور سماجی عدم مساوات اب بھی کروڑوں ہندوستانیوں کے لیے ایک حقیقت ہے۔
سابق سی جے آئی نے مزید کہا، آج کا ہندوستان دوہری حقیقتوں کو ظاہر کرتا ہے – ایک طرف اونچی عمارتیں ہیں، جبکہ دوسری طرف لوگ اب بھی کچی بستیوں میں رہتے ہیں، جہاں بچے بھوکے سوتے ہیں۔ جب ہم خلاء، چاند اور مریخ پر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے ننھے ستارے (بچے) گلیوں، کچی آبادیوں، بستیوں اور دیہاتوں میں جدوجہد کر رہے ہیں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)