مہاراشٹر کے جلگاؤں میں مسجد کے قریب ڈی جے بجانے پر فرقہ وارانہ تشدد

پولیس کے مطابق، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب جلگاؤں سے ناسک ضلع کےوانی تک نکالا گیا ایک مذہبی جلوس پالدھی گاؤں سے گزرا۔ اس سلسلے میں دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، جن میں ہندو کمیونٹی کے 9 اور مسلم کمیونٹی کے 63 افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔ وہیں،45 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

پولیس کے مطابق، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب جلگاؤں سے ناسک ضلع کےوانی تک نکالا گیا ایک مذہبی جلوس پالدھی گاؤں سے گزرا۔ اس سلسلے میں دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، جن میں ہندو کمیونٹی کے 9 اور مسلم کمیونٹی کے 63 افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔ وہیں،45 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

جلگاؤں ضلع میں دو گروپوں کے درمیان فرقہ وارانہ تصادم کے دوران پتھراؤ بھی کیا گیا۔ (فوٹو  بہ شکریہ: اے این آئی)

جلگاؤں ضلع میں دو گروپوں کے درمیان فرقہ وارانہ تصادم کے دوران پتھراؤ بھی کیا گیا۔ (فوٹو  بہ شکریہ: اے این آئی)

نئی دہلی: مہاراشٹر کے جلگاؤں ضلع کے پالدھی میں منگل (28 مارچ) کی رات کو ایک مسجد کے سامنے ڈی جے کے ساتھ ایک مذہبی جلوس نکالے جانے کے بعد فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق،یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ے جلگاؤں سے ناسک ضلع کے وانی تک نکالا گیا ایک مذہبی جلوس پالدھی گاؤں سے گزرا۔

پولیس نے بتایا کہ مسجد کے سامنے بجنے والے ڈی جے میوزک پر بحث کی وجہ سے  جھگڑا ہوا، جو پتھراؤ میں بدل گیا۔

مقامی لوگوں نے الزام لگایا ہے کہ مسلمانوں کے گھروں کو لوٹا گیا اور ان کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ تاہم پولیس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

جلگاؤں کے ایس پی ایم راجکمار نے کہا، ‘یہ ایک ڈنڈی (مذہبی جلوس) تھا، جسے ناسک ضلع کے جلگاؤں سے وانی تک لے جایا جا رہا تھا۔ جلوس (شوبھا یاترا)میں میوزک بج رہا تھا۔ جلوس کے مسجد پار کرنےپر میوزک بندہو گیا تھا۔ تاہم جب جلوس کے مسجد پار کرنے کے بعد میوزک دوبارہ شروع ہوا تو جلوس پر پتھراؤ کیا گیا۔

خبر رساں ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے جلگاؤں کے ایس پی نے کہا، ‘ہم نے اب تک 45 لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ تشدد میں 4 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ صورتحال اب پرامن ہے اور علاقہ کنٹرول میں ہے۔

اتفاق سے، جب یہ واقعہ پیش آیا، اس وقت ایس پی اور دیگر سینئر ضلع پولیس افسران اس قصبے میں تھے، جو جلگاؤں سے 14 کلومیٹر دور واقع ہے۔

پولیس نے کہا کہ دونوں فریقوں کے درمیان پتھراؤ ہوا لیکن جلد ہی امن و امان بحال ہو گیا۔

پولیس نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ ہنگامہ آرائی اور سرکاری اہلکاروں پر حملے کے الزام میں اب تک دو مقدمات درج کیے گئے ہیں، جن میں نو ہندو اور 63 مسلمانوں کو نامزد کیا گیا ہے۔

ایک مقامی باشندے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی انڈین ایکسپریس کو بتایا، مسجد ایک پولیس چوکی کے بالکل قریب واقع ہے۔ اس کے باوجود آس پاس کے بہت سے مسلمانوں کے گھروں پر حملے اور لوٹ مار کی گئی۔

پولیس حکام نے بتایا کہ گزشتہ چند دنوں سے فرقہ وارانہ طور پر حساس مقامات پر ڈی جے کے ساتھ نکالے جانے والے مذہبی جلوسوں کو لے کر کشیدگی بڑھ رہی ہے۔