آسام میں ایک کتاب کے اجرا کے دوران آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے بدھ کو کہا کہ آزادی کے بعد ملک کے پہلےوزیر اعظم نے کہا تھا کہ اقلیتوں کا دھیان رکھا جائےگا اور اب تک ایسا ہی کیا گیا ہے۔ ہم ایسا کرنا جاری رکھیں گے۔ سی اے اے کی وجہ سےکسی مسلمان کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
موہن بھاگوت(فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: آسام کے دو روزہ دورے پر راجدھانی گوہاٹی پہنچےآر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے بدھ کو کہا کہ سی اے اے اور این آرسی کا ہندو مسلمان بٹوارے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور کچھ لوگ اپنےسیاسی مفاد کے لیے ان دونوں معاملوں کوفرقہ وارانہ رنگ دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس شہریت قانون کی وجہ سے کسی مسلمان کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
بھاگوت نے ‘سٹیزن شپ ڈبیٹ اوور این آرسی اینڈ سی اے اے آسام اینڈ دی پالیٹکس آف ہسٹری’ (این آرسی اور سی اے اے آسام پر شہریت کو لےکر بحث اور تاریخ کی سیاست)نام کی کتاب کےاجرا کے بعد کہا، آزادی کے بعد ملک کے پہلےوزیر اعظم نے کہا تھا کہ اقلیتوں کا دھیان رکھا جائےگا اور اب تک ایسا ہی کیا گیا ہے۔ ہم ایسا کرنا جاری رکھیں گے۔ سی اے اے کی وجہ سےکسی مسلمان کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔’
بھاگوت نے نشان زد کیا کہ شہریت قانون پڑوسی ممالک میں استحصال کا شکارہوئے اقلیتوں کو تحفظ دے گا۔
انہوں نے کہا، ‘ہم آفات کے وقت ان ممالک میں اکثریتی طبقے کی بھی مدد کرتے ہیں، اس لیے اگر کچھ ایسے لوگ ہیں، جو خطروں اور خوف کی وجہ سے ہمارے ملک میں آنا چاہتے ہیں، تو ہمیں یقینی طور پر ان کی مدد کرنی ہوگی۔’
انہوں نے این آرسی کے بارے میں کہا کہ تمام ممالک کو یہ جاننے کا حق ہے کہ ان کے شہری کون ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘یہ معاملہ سیاسی شعبے میں ہے کیونکہ اس میں سرکار شامل ہے۔ لوگوں کا ایک طبقہ ان دونوں معاملوں کو فرقہ وارانہ رنگ دےکرسیاسی مفاد کی تکمیل کرنا چاہتا ہے۔’
بتا دیں کہ11 دسمبر 2019 کو پارلیامنٹ سے پاس سی اے اے قانون کے تحت ہندو، سکھ، جین، بودھ، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے ان لوگوں کو ہندوستان کی شہریت دی جائےگی، جو پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں مذہبی طور پر ہراسانی کی وجہ سے 31 دسمبر، 2014 سے پہلے ہندوستان آئے۔
سال 2019 میں جب سی اے اے لاگو ہوا تو ملک کے مختلف حصوں میں بڑے پیمانے پرمظاہرے ہوئے اور انہی مظاہروں کے بیچ 2020 کی شروعات میں دہلی میں دنگے ہوئے تھے۔
حالانکہ، سرکار نے 2019 میں لاگو سی اے اے کے تحت ضابطوں کو ابھی تک تیار نہیں کیا ہے۔
اس کے بجائے گزشتہ28 مئی کو مرکز کی مودی سرکار نے ایک
نوٹیفکیشن جاری کر گجرات، چھتیس گڑھ، راجستھان، ہریانہ اور پنجاب کے 13 اضلاع میں رہ رہے افغانستان، بنگلادیش اور پاکستان کے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہری کے طور پررجسٹریشن کرنے کے لیے ہدایت دی تھی۔
وہیں آسام میں این آرسی ہونے کے بعد وزارت داخلہ نے ایک پارلیامانی کمیٹی سے کہا ہے کہ پورے ملک میں این آرسی لاگو کرنے کے بارے میں مرکز نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
معلوم ہو کہ آسام کے شہریوں کی تیار حتمی فہرست یعنی کہ اپڈیٹیڈ این آرسی31 اگست، 2019 کو جاری کی گئی تھی، جس میں 31121004 لوگوں کو شامل کیا گیا تھا، جبکہ 1906657 لوگوں کو اس کے لائق نہیں مانا گیا تھا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)