گزشتہ28 مئی کو مرکزی حکومت نے 13اضلاع میں رہ رہے افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کے غیرمسلموں سے ہندوستانی شہریت کے لیےدرخواست طلب کرنے سےمتعلق نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ انڈین یونین مسلم لیگ کی جانب سے مانگ کی گئی ہے کہ جب تک سی اے اے کے آئینی جواز کوچیلنج دینے والی عرضی عدالت میں زیرالتواہے تب تک مرکز کو شہریت سے متعلق نئے فیصلے پر روک لگانے کی ہدایت دی جائے۔
نئی دہلی: گجرات، راجستھان، چھتیس گڑھ، ہریانہ اور پنجاب کے 13اضلاع میں رہ رہے افغانستان، بنگلادیش اورپاکستان کے غیر مسلموں سے ہندوستانی شہریت کے لیےدرخواست منگانے سے متعلق مرکز کےنوٹیفکیشن کو چیلنج دینے کے لیے انڈین یونین مسلم لیگ(آئی یوایم ایل)نے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔
عبوری درخواست میں دلیل دی گئی ہے کہ مرکزی حکومت اس بارے میں عدالت کو دی گئی یقین دہانی کے برخلاف قدم اٹھا رہی ہے، جو اس نے شہریت ترمیم ایکٹ(سی اے اے)، 2019 کے اہتماموں کے آئینی جوازکو چیلنج دینے کے لیے آئی یوایم ایل کی جانب سے دائر زیر التواعرضی کے بارےمیں دی تھی۔
درخواست میں کہا گیا کہ مرکزنے یقین دہانی کرائی تھی کہ سی اے اے کے ضابطے ابھی طے نہیں ہوئے ہیں، اس لیے اس پرروک لگانا ضروری نہیں ہے۔
سی اے اے کے تحت کے تحت افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے مذہبی طور پر استحصال کی وجہ سے ہندوستان آئے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا اہتمام ہے بشرطیکہ وہ 31 دسمبر 2014 تک ہندوستان آئے ہوں۔
تازہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ وزارت داخلہ نے جمعہ(28 مئی) کو شہریت قانون 1955 اور 2009 میں قانون کے تحت بنائے گئے ضابطوں کے موافق آرڈر کے اس سلسلے میں فوراً عمل درآمد کے لیے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، وہیں 2019 میں نافذسی اے اے کے تحت ضابطوں کو وزارت داخلہ نے ابھی تک تیار نہیں کیا ہے۔
عرضی کے مطابق، یہ غیرقانونی ہے اور قانون کے اہتماموں کے خلاف ہے۔بتا دیں کہ وزارت داخلہ نے شہریت قانون 1955 اور 2009 میں قانون کےتحت بنائے گئےضابطوں کے تحت اس آرڈرپر فوری عمل درآمد کے لیے اس بارے میں ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔
وزارت داخلہ کی نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے، ‘شہریت قانون 1955 کی دفعہ 16 کے تحت ملے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے قانون کی دفعہ پانچ کے تحت یہ قدم اٹھایا ہے۔ اس کےتحت مذکورہ صوبوں اور ضلعوں میں رہ رہے افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہری کے طور پررجسٹرکرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔’
خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، انڈین یونین مسلم لیگ نے اپنی عرضی میں کہا کہ مرکز نے سی اے اے کے آئینی جواز کو چیلنج دینے والی اس کی عرضی کی شنوائی کے دوران عدالت کے سامنے یقین دہانی کرائی تھی اور کہا تھا کہ شہریت ترمیم ایکٹ پر روک لگانے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ شہریت ترمیم ایکٹ کے ضابطے نہیں بنائے گئے ہیں۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ عرضی کے زیر التوا رہنے کے دوران حکومت ہندکےوزارت داخلہ نے آگے بڑھ کر 28 مئی کو آرڈرجاری کیا ہے جوواضح طورپر غیر قانونی ہے اور ایکٹ کے اہتماموں کے برعکس ہے۔عرضی میں جب تک سی اے اے کے آئینی جواز کو چیلنج دینے والی عرضی عدالت میں زیر التوا ہے، مرکز کو وزارت داخلہ کے ذریعے جاری 28 مئی کے آرڈر پر روک لگانے کی ہدایت دینے کی مانگ کی گئی ہے۔
عدالت نے فروری 2020 میں سی اے اے کے آئینی جواز کو چیلنج دینے والی عرضیوں پر مرکز سے جواب مانگا تھا۔اس سے پہلے عدالت نے 18 دسمبر2019 کو سی اے اے کےعمل درآمد پر روک لگانے سے انکار کرتے ہوئے اس کے آئینی جوازکی جانچ کا فیصلہ کیا تھا۔
عرضیوں پر شنوائی کرتے ہوئے عدالت نے 22 جنوری2020 کو یہ واضح کر دیا تھا کہ سی اے اے کےعمل درآمد پر روک نہیں لگائی جائےگی اور سرکار کو سی اے اے کو چیلنج دینے والی عرضیوں کا جواب دینے کے لیے چار ہفتے کا وقت دیا تھا۔
جب سال2019 میں جب سی اے اے نافذ ہوا تو ملک کےمختلف حصوں میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرہ ہوا اور انہی مظاہروں کے بیچ 2020 کی شروعات میں دہلی میں دنگے ہوئے تھے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)