بلقیس کیس: قصورواروں کی سزا معافی پر سپریم کورٹ نے مرکز اور گجرات حکومت کو نوٹس بھیجا

بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے رشتہ داروں کے قتل کے 11 مجرموں کی قبل از وقت رہائی کے خلاف عرضی کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ملزمین نے جو کیا، اس کے لیے ان کو سزا ملی۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ معافی کے حقدار ہیں اور کیا یہ معافی قانون کے مطابق دی گئی؟

بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے رشتہ داروں کے قتل کے 11 مجرموں کی قبل از وقت رہائی کے خلاف عرضی  کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ملزمین  نے جو کیا، اس کے لیے  ان کو سزا ملی۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ معافی کے حقدار ہیں اور کیا یہ معافی قانون کے مطابق دی گئی؟

گودھرا جیل سے باہر نکلتے  مجرم۔ (فوٹو بہ شکریہ: اسکرین گریب/ٹوئٹر/یوگیتا بھیانا)

گودھرا جیل سے باہر نکلتے  مجرم۔ (فوٹو بہ شکریہ: اسکرین گریب/ٹوئٹر/یوگیتا بھیانا)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو مرکز اور گجرات حکومت سے بلقیس بانو کےساتھ گینگ ریپ  اور ان کے خاندان کے سات افراد کے قتل کے معاملے میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے 11 مجرموں کی رہائی کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی پر اپنا جواب داخل کرنے کو کہا۔

چیف جسٹس (سی جے آئی) این وی رمنا کی سربراہی والی بنچ نے عرضی پر مرکز اور ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا اور عرضی گزاروں سے کہا کہ وہ سزا میں چھوٹ پانے والے مجرموں کو کیس میں فریق بنائیں۔ عدالت نے معاملے کو دو ہفتے بعد سماعت کے لیے درج کیا ہے۔

گجرات حکومت کی معافی کی پالیسی کے تحت اس سال 15 اگست کو گودھرا کی  جیل سے 11 مجرموں کی رہائی سےسنگین معاملوں میں اس طرح کی راحت کے موضوع  پر بحث شروع ہوگئی  ہے۔

یہ عرضی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ (سی پی آئی-ایم) لیڈر سبھاشنی علی، صحافی ریوتی لال اور کارکن روپ ریکھا رانی نے سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔

ٹی ایم سی ایم پی مہوا موئترا کی طرف سے بھی قصورواروں کی معافی کے خلاف ایک اور عرضی  دائر کی گئی تھی۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق، سپریم کورٹ نے اس کی سماعت کے لیے رضامندی ظاہر کی ہے۔

غور طلب  ہے کہ گجرات کی بی جے پی حکومت کی طرف سے اپنی معافی کی پالیسی کے تحت مجرموں کو معافی دینے کے بعد بلقیس بانو گینگ ریپ  اور ان کے خاندان کے سات افراد کے قتل کے معاملے میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے11 مجرموں کو گودھرا کی  جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔

ایسا کہا گیا تھاکہ ان مجرموں کو سپریم کورٹ کی ہدایت پر غور کرنے کے بعد رہا کیا گیا تھا۔

ان مجرموں نے 15 سال سے زیادہ کی قید کاٹ لی تھی، جس کے بعد ایک مجرم نے اپنی قبل از وقت رہائی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اس پر سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو اس معاملے پر غور کرنے کی ہدایت دی تھی۔

تاہم، دی ہندو کے مطابق، جمعرات کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت نے انہیں رہا کرنے کے لیے نہیں کہا تھا، صرف پالیسی کے مطابق ان کی  سزا معافی پر غور کرنے کوکہا تھا۔

لائیو لاء کے مطابق، جسٹس رمنا نے واضح کیا کہ ،میں نے کہیں پڑھا تھا کہ عدالت نے سزامعافی کی اجازت دی ہے۔ نہیں، عدالت نے صرف غور کرنے کو کہاتھا۔

عدالت نےزور دے کر کہا،ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا ذہن کا استعمال کیاگیایا نہیں۔اس عدالت نے ان کی رہائی کا حکم نہیں دیا، صرف ریاست سے کہا کہ وہ پالیسی کے مطابق سزامعافی پر غور کرے۔

بنچ میں جسٹس اجے رستوگی اور جسٹس وکرم ناتھ بھی شامل تھے۔ جسٹس رستوگی نے عرضی گزار کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل سے پوچھا، صرف اس لیے کہ ان کافعل خوفناک تھا، یہ کہنا کافی ہے کہ انھیں دی گئی چھوٹ غلط ہے؟

عدالت نے پوچھا کہ ہر روز عمر قید کے مجرموں کو سزامعافی دی جاتی ہے، (اس معاملے میں)  استثنیٰ کیا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ جسٹس رستوگی اور وکرم ناتھ اس بنچ کا حصہ تھے جس نے مئی 2022 میں فیصلہ سنایا تھا کہ کیس میں سزا معافی کا عدالتی دائرہ اختیار گجرات ہے اور وہی  اپنی پالیسی کے مطابق اس پر غورکرے۔

سماعت کے دوران سبل نے مسلم آبادی کی نقل مکانی،بے تحاشہ ریپ  اور قتل وغیرہ سے متعلق خوفناک حقائق کا ذکر کیا۔

تاہم بنچ نے ان سے کہا کہ وہ اس معاملے کو سزامعافی تک ہی محدود رکھیں۔

جسٹس رستوگی نے کہا، جو بھی انہوں نے کیا، اس کے لیے  انہیں  سزا ملی۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ سزامعافی کے  حقدار  ہیں؟ ہمیں صرف اس بات کی فکر ہے کہ کیا معافی قانون کے اصولوں کے مطابق تھی۔

قابل ذکر ہے کہ دی وائر نے ایک مضمون میں اطلاع دی ہے کہ اس سال جون میں مرکزی وزارت داخلہ نے سزا یافتہ قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں ریاستوں کو ہدایات جاری کی تھیں۔ یہ رہنما خطوط ہندوستان کی آزادی کے 75ویں سال کے لیے تیار کی گئی ایک خصوصی پالیسی کے تحت جاری کیے گئے تھے۔

رہنما خطوط کے مطابق، قیدیوں کو 15 اگست 2022، 26 جنوری 2023 (یوم جمہوریہ) اور 15 اگست 2023 کو خصوصی چھوٹ دی جانی تھی۔ تاہم رہنما خطوط میں واضح کیا تھاگیا کہ عمر قید کی سزا پانے والے اورریپ کے مجرموں کو قبل از وقت رہائی کا حق نہیں ملے گا۔

ایسے میں اس فیصلے کے بعد کئی ماہرین نے سوال اٹھائے ہیں کہ کیا گجرات حکومت نے بلقیس بانو کیس کے قصورواروں کو رہا کرنے میں مرکزی رہنما خطوط کی خلاف ورزی کی ہے؟

واضح ہو کہ رہائی کی سفارش کرنے والے پینل کے ایک رکن بی جے پی ایم ایل اے سی کے راؤل جی نےریپسٹ کو ‘اچھے سنسکاروں’  والا ‘برہمن’ بتایا تھا۔

 گجرات حکومت کے اس فیصلے پر وائبس آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے بلقیس نے کہا تھا، یہ سال 2022 ہے لیکن میں وہی خوف، عدم تحفظ اور ناامیدی محسوس کر رہی ہوں جیسا 2002 میں محسوس کر رہی  تھی۔ اچانک ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ بدلا ہی نہیں  ہے۔ یہ 2002 جیسا ہی لگ رہا ہے۔

سال 2002 میں پیش آئے اس  واقعے کے لیے طویل قانونی جنگ لڑنے والی بلقیس نے کہا تھا کہ اب ان میں صبر ہے نہ ہمت۔ انہوں  نے کہا، میں بہت مایوس ہوں۔ ہم ہار گئے۔

انہوں نے مزید کہا، آزادی کا دن ہمارے لیے بری خبر لے کر آیا۔ میری آزادی، حقوق، تحفظ سب چھین لیے گئے۔ میرا ہر چیز سے بھروسہ اٹھ گیا ہے۔ اب آپ کو لگتا ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی میری مدد کر سکتا ہے؟ ہاں، میں اپنی لڑائی  ہار چکی  ہوں۔

قصورواروں کو رہا کرنے کے گجرات حکومت کے فیصلے کی اپوزیشن جماعتوں سمیت سماجی اور شہری حقوق کے کارکنوں نے مذمت کی ہے۔

اس کے علاوہ سینکڑوں خواتین کارکنوں سمیت 6000 سے زائد افراد نے سپریم کورٹ سے مجرموں کی سزا کی معافی کے فیصلے کو رد کرنے کی اپیل کی ہے۔

وہیں،یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم  (یو ایس سی آئی آر ایف) نے 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کےلیے قصوروار ٹھہرائے گئے 11 افراد کی ‘غیر منصفانہ’ رہائی کی سخت مذمت کی ہے۔

غورطلب  ہے کہ 27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس کے کوچ میں تشدد کے بعد 59 کار سیوکوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہونے والے تشدد کے دوران بلقیس بانو، جو اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، اپنی بچی اور دیگر 15 افراد کے ساتھ اپنے گاؤں سے بھاگ گئی تھیں۔

تین  مارچ 2002 کو داہود ضلع کے لمکھیڑا تعلقہ کے رندھیک پور گاؤں میں بلقیس کے خاندان پر درانتی، تلوار اور لاٹھیوں سے لیس 20-30 لوگوں کے ہجوم نے حملہ کیا تھا۔ یہاں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا، جبکہ ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا۔ دیگر چھ لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

بلقیس کے اس معاملے کو لے کر قومی انسانی حقوق کمیشن پہنچنے کے بعد سپریم کورٹ نے سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا۔ کیس کے ملزمان کو 2004 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

مقدمے کی سماعت احمد آباد میں شروع ہوئی تھی، لیکن بلقیس بانو نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ گواہوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، ساتھ ہی سی بی آئی کے جمع کردہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اگست 2004 میں کیس کو ممبئی منتقل کر دیا۔

بتادیں کہ 21 جنوری 2008 کو سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 11 ملزمین کوعمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انہیں تعزیرات ہند کے تحت ایک حاملہ خاتون کی عصمت دری، قتل  کی سازش کرنے ، قتل اور غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔

خصوصی عدالت نے دیگر سات ملزمین کو ثبوت کے فقدان میں بری کر دیا۔ وہیں مقدمے کی سماعت کے دوران ایک ملزم کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد 2018 میں، بمبئی ہائی کورٹ نےملزمین کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے سات لوگوں کو بری کرنے کے فیصلے کو پلٹ دیا تھا۔

بلقیس نے اس وقت کہا تھا،سپریم کورٹ نے میرے درد، میری تکلیف  اور 2002 کے تشدد میں کھوئے ہوئے میرے آئینی حقوق کو واپس حاصل کرنے کی میری جدوجہد کو سمجھا۔ حکومت کے ہاتھوں کسی بھی شہری کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، جس کا فرض ہماری حفاظت  کرناہے۔

اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپے معاوضہ، سرکاری نوکری اور رہائش فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)