بہار ’ووٹ بندی‘: وزارت داخلہ کو بھی شہریت کے دستاویزوں کی فہرست کا علم نہیں، لیکن ضد پر اڑا ہے کمیشن

بہار میں ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کو لے کر سپریم کورٹ میں بحث شہریت ثابت کرنے کے معاملے پر مرکوز ہوگئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق، اس کوشہریت کا ثبوت مانگنے کا اختیارہے۔ لیکن وزارت داخلہ ایسے دستاویزوں کی فہرست نہیں دے پا رہا  ہے جو شہریت کو ثابت کرتے ہوں۔

بہار میں ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کو لے کر سپریم کورٹ میں بحث شہریت ثابت کرنے کے معاملے پر مرکوز ہوگئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق، اس کوشہریت کا ثبوت مانگنے کا اختیارہے۔ لیکن وزارت داخلہ ایسے دستاویزوں کی فہرست نہیں دے پا رہا  ہے جو شہریت کو ثابت کرتے ہوں۔

السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر

نئی دہلی:  وزارت داخلہ بھی یہ بتانے کو تیار نہیں ہے کہ ہندوستانی شہریت ثابت کرنے کے لیے کون سے دستاویز  صحیح ہیں، لیکن الیکشن کمیشن اب بھی کہہ رہا ہے کہ وہ کچھ منتخب دستاویزوں کے ذریعے ہی کسی شخص کو ووٹ دینے کی اہلیت دے گا، یعنی اسے شہری تسلیم کرے گا۔

اس طرح بہار میں شروع ہوئی ووٹ اور شہریت کے حق پر بحث کی سماعت  سپریم کورٹ میں 13 اگست کو بھی جاری رہی ۔

عدالت  میں بحث ایس آئی آر کرانے کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو لے کر ہو رہی تھی۔

بدھ کو سینئر ایڈوکیٹ گوپال شنکر نارائنن نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ مغربی بنگال کو تین دن پہلے ہی ایس آئی آر نوٹس موصول ہوا  ہے اور اس معاملے میں ریاستی حکومت سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔

چونکہ ملک بھر میں خصوصی نظرثانی ہونے جا رہی ہے، اس لیے شہریت ثابت کرنے کا بوجھ ہر ووٹر پر آئے گا۔ لیکن وہ کون سے دستاویز ہیں، جن سے شہریت ثابت کی  جا سکتی ہے؟

درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوئے ابھیشیک منو سنگھوی نے بدھ کو دلیل دی کہ ایس آئی آرکے تحت، شہریت ثابت کرنے کا بوجھ ووٹروں پر ڈالا دیا گیا، جو غلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ طریقہ  سپریم کورٹ کے لال بابو حسین بنام الیکٹورل رجسٹریشن آفیسر (1995) کے فیصلے کے برعکس ہے، جس میں نئے اور موجودہ ووٹرز کے درمیان فرق کیا گیا تھااور الیکشن کمیشن کو موجودہ ووٹرز پر شہریت ثابت کرنے کا بوجھ ڈالنے سے روکا گیا تھا۔

لیکن بدھ کے دلائل کے دوران جسٹس جوائے مالیہ باگچی کے ایک تبصرہ نے توجہ مبذول کرائی۔ سنگھوی کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس باگچی نے کہا کہ بہار میں جاری ایس آئی آر میں شہریت ثابت کرنے کے لیے 11 دستاویزوں میں سے کسی کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، جبکہ بہار سے پہلے جھارکھنڈ میں  ہوئی ووٹر لسٹ کی سمری نظرثانی میں شناختی ثبوت کے طور پر صرف سات دستاویز کی اجازت تھی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ شہریت ثابت کرنے کے لیے متعدد دستاویز دستیاب ہونے کو ووٹروں کے مفاد میں مانا جائے گا، نہ کہ پابندی کے طور پر مانا جائے گا۔

کیا الیکشن کمیشن شہریت کا ثبوت مانگ سکتا ہے؟



ایس آئی آرکی شروعاتی تنقید نے ووٹرز پر شہریت ثابت کرنے کے بوجھ کو اجاگر کیا تھا۔ سوال یہ تھا کہ کیا الیکشن کمیشن کو شہریت مانگنے کا حق ہے؟ سپریم کورٹ نے بھی کہا  تھاکہ ‘شہریت کے معاملے کا فیصلہ وزارت داخلہ کو کرنا چاہیے نہ کہ الیکشن کمیشن کو۔’

اس کے بعد الیکشن کمیشن نے عدالت میں جوابی حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا تھاکہ اسے شہریت کا ثبوت مانگنے کا حق ہے؛

الیکشن کمیشن کو یہ جانچ کرنے کا اختیار حاصل ہے کہ مجوزہ ووٹر انتخابی فہرست میں اندراج کے لیے مطلوبہ معیار کو پورا کرتا ہے یا نہیں، جس میں اور باتوں کے ساتھ ساتھ آئین کے آرٹیکل 326 کے تحت شہریت کاتعین  کرنابھی شامل ہے۔ اس طرح کی جانچ آئینی طور پر لازمی ہے اور یہ واضح طور پر عوامی نمائندگی ایکٹ 1950(آرپی ایکٹ)کے تحت طے شدہ ہے۔ یہ اختیار براہ راست آرٹیکل 324 کوآرٹیکل 326 اور آر پی ایکٹ 1950 کی دفعہ 16 اور 19 کے ساتھ پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے۔

الیکشن کمیشن نے یہ بھی اشارہ کیا تھا کہ یہ بات پوری طرح درست نہیں ہے  کہ شہریت سے متعلق معاملات کو دیکھنے کا حق صرف مرکزی حکومت کو ہے ۔

اس نے کہا تھا کہ؛

شہریت ایکٹ، 1955 کی دفعہ  9 صرف ان صورتوں میں شہریت کے خاتمے سے متعلق ہے، جہاں کسی شخص نے رضاکارانہ طور پر کسی غیر ملک کی شہریت حاصل کی ہو، اور اس سلسلے میں مرکزی حکومت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ ہندوستان کے کسی شہری نے کب اور کیسے کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کی ہے۔ یہ صرف اس محدود مقصد کے لیے ہے کہ یہ مراعات مرکزی حکومت کو دی گئی ہے، اور دیگر تمام اتھارٹی کو اس سے باہر رکھا گیا ہے۔

شہریت سے متعلق دیگر پہلوؤں کی تحقیقات دیگر متعلقہ اتھارٹی اپنے مقاصد کے لیے کر سکتی ہیں، جن میں وہ بھی شامل  ہیں جو آئینی طور پر ایسا کرنے کے پابند ہیں، یعنی الیکشن کمیشن۔

کمیشن نے عدالت کو یہ یقین دلانے کی بھی کوشش کی کہ ‘ایس آئی آر مشق کے تحت، کسی شخص کی شہریت محض اس بنیاد پر ختم نہیں کی جائے گی کہ وہ ووٹر لسٹ میں اندراج کے لیے نااہل پایا گیا ہے۔’

عدالت کا موقف بدل رہا ہے؟



ایس آئی آرسے پہلے تک  خود کو نئے ووٹر کے طور پر رجسٹر کرنے کے لیے شہریت کا صرف سیلف ڈیکلیئریشن کافی ہوتا تھا۔ انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ ‘الیکشن کمیشن کا فارم 6، جو نئے ووٹروں کو رجسٹر کرتا ہے، اس میں اب تک صرف اس اعلان کی ضرورت تھی کہ درخواست گزار ہندوستانی شہری ہے – کسی دستاویزی ثبوت کی ضرورت نہیں تھی (صرف عمر اور پتہ کا ثبوت درکار تھا)’۔

لیکن بہار ایس آئی آر کے لیے ایک نیا اعلان نامہ شامل کیا گیا ہے، جس میں شہریت کا دستاویزی ثبوت فراہم کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے، جس کی سماعت جسٹس جوائے مالیہ باگچی اور جسٹس سوریہ کانت کی بنچ کر رہی ہے۔ بنچ کی سربراہی جسٹس سوریہ کانت کر رہے ہیں۔

حال ہی میں جسٹس سوریہ کانت نے سیلف ڈیکلیئریشن کے عمل پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے۔

شہریت دینے یا شہریت واپس لینے کاقانون پارلیامنٹ کو بنانا ہو گا۔ اس پر کسی بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ایک بار جب وہ قانون بن جاتا ہے اور اس کی دفعات کے تحت، اگر کسی کو شہری تسلیم کر لیا گیا ہے، تو ایسے شخص کو ووٹر لسٹ میں شامل کرنا اور فہرست سے اس شخص کو خارج کرنا جس کو شہریت نہیں ملی ہے اور جو شہری نہیں ہے، یہ کام کمیشن کو ہی کرنا ہو گا۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ شہریت کا فیصلہ صرف سیلف ڈیکلیئریشن کی بنیاد پر کرنا قانونی پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے اور مزید کہا کہ الیکشن کمیشن ان کی صداقت کی جانچ کر سکتا ہے۔

تو شہریت کیسے ثابت ہوگی؟

شہریت دینے اور لینے کا کام کرنے والی وزارت داخلہ کے پاس بھی اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں ہے۔

جی ہاں، مرکزی وزارت داخلہ نے منگل (12 اگست 2025) کو لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں یہ واضح نہیں کیا کہ ہندوستان میں شہریت ثابت کرنے کے لیے کون سے ‘قانونی دستاویزوں’ کی ضرورت ہے۔ وزارت نے کہا کہ شہریت کا تعین سٹیزن شپ ایکٹ 1955 اور اس کے تحت بنائے گئے قوانین سے ہوتا ہے۔

دراصل، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ-لیننسٹ) لبریشن ایم پی سداما پرساد نے وزارت سے دیگر سوالات کے علاوہ یہ بھی پوچھا تھا کہ ‘ہندوستان میں شہریت ثابت کرنے کے لیے کن زمروں کے درست دستاویزات کی تفصیلات حکومت کے پاس ہے۔’

ریاستی وزیر داخلہ نتیانند رائے نے ایک تحریری جواب میں کہا، ‘ہندوستان کی شہریت کا تعین شہریت ایکٹ 1955 کی دفعات اور اس کے تحت بنائے گئے قوانین کے مطابق کیا جاتا ہے۔’

قابل قبول دستاویزوں کی وضاحت کیے بغیر، جواب میں کہا گیا کہ شہریت ‘پیدائش (دفعہ 3)، نسب (دفعہ 4)، رجسٹریشن (دفعہ 5)، نیچرلائزیشن (دفعہ 6) یا علاقے کے انضمام (دفعہ 7) کی بنیاد پر حاصل کی جاسکتی ہے۔ شہریت کے حصول اور تعین کے لیے اہلیت کا معیار سٹیزن شپ ایکٹ 1955 اور اس کے تحت بنائے گئے قواعد کے مطابق ہے۔’

اس سے قبل، 5 اگست کو وزارت نے لوک سبھا کو بتایا تھا کہ شہریت ایکٹ، 1955 کے تحت مرکزی حکومت کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ ہر ہندوستانی شہری کو رجسٹر کرے اور انہیں قومی شناختی کارڈ جاری کرے۔

وزارت نے یہ جواب ترنمول کانگریس ایم پی مالا رائے کے اس سوال پر دیا تھا، جس میں انہوں نے ان کارڈوں کی تفصیلات طلب کی تھیں، جنہیں قانون کے مطابق ہندوستانی شہری کی شناخت کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔

قوانین میں کہا گیا ہے کہ قومی شناختی کارڈ ان شہریوں کو جاری کیے جائیں گے جن کی تفصیلات نیشنل رجسٹر آف انڈین سٹیزنز یا نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) میں درج ہیں۔

لیکن قومی سطح پر این آر سی تو ہوا نہیں ہے ، اور جس ایک ریاست (آسام) میں اس عمل کو مکمل کرنے کی کوشش کی گئی ، اس کا اب تک کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے ۔

واضح ہو کہ  سپریم کورٹ نے حال ہی میں الیکشن کمیشن کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا ہے کہ آدھار کارڈ کو شہریت کا ثبوت نہیں سمجھا جا سکتا ۔ اسی طرح بامبے ہائی کورٹ نے بھی کہا ہے کہ آدھار کارڈ کے ساتھ ساتھ پین کارڈ اور ووٹر شناختی کارڈ کو شہریت کا ثبوت نہیں مانا جا سکتا۔