
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ بہار ایس آئی آر کے ڈرافٹ ووٹر لسٹ سے خارج کیے گئے ناموں کو اپنی ویب سائٹ پر ہٹانے کی وجوہات کے ساتھ شائع کرے۔ نیز، اس عمل کے لیے تسلیم شدہ دستاویزوں میں آدھار کو شامل کرے۔

سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن کی جانب سے بہارایس آئی آرکے جاری عمل کی اپلوڈ کی گئی تصویر۔ فوٹو: الیکشن کمیشن
نئی دہلی: بہار میں ایس آئی آرپر جاری تنازعہ اور الیکشن کمیشن کے خلاف بے ضابطگیوں کے الزامات کے درمیان سپریم کورٹ نے کمیشن سے کہا ہے کہ وہ اپنی ویب سائٹ پر ایس آئی آر کے بعد شائع کردہ ڈرافٹ ووٹر لسٹ سے خارج کیے گئے ناموں کے ساتھ ساتھ ان کے ہٹانے کی وجوہات بھی شائع کرے۔
لائیولاءکے مطابق ، سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ کمیشن اس عمل کے لیے تسلیم شدہ دستاویزوں کی فہرست میں آدھار کو بھی شامل کرے۔
یہ فیصلہ جمعرات (14 اگست) کو جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جوائے مالیہ باگچی کی بنچ نے تمام فریقین کی طویل سماعت کے بعد سنایا۔
عدالت نے کہا کہ تقریباً 65 لاکھ ایسے ووٹرز کی فہرست، جن کے نام 2025 کی ووٹر لسٹ میں ہیں، لیکن ڈرافٹ لسٹ میں شامل نہیں ہیں، کو ضلعی انتخابی افسران (ضلع وار) کی ویب سائٹ پر شائع کیا جائے۔ یہ معلومات بوتھ وار ہو گی، جسے ووٹر کے ای پی آئی سی نمبر سے دیکھا جا سکے گا۔
بنچ نے واضح کیا کہ ووٹرز کو آگاہ کرنے کے لیے اس فہرست میں نام شامل نہ کرنے کی وجہ بھی بتائی جائے۔
وسیع پیمانے پر تشہیر کی جائے
اس کے ساتھ ہی عدالت نے الیکشن کمیشن سے کہا کہ وہ اس فہرست کی اشاعت کے بارے میں بہار کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اخبارات کے ذریعے وسیع پیمانے پر مطلع کرے۔ اس کے علاوہ اس فہرست کو دوردرشن اور ریڈیو چینلوں پر بھی نشر کیا جانا چاہیے۔ اگر کسی ڈسٹرکٹ الیکشن آفیسر کا سوشل میڈیا پیج ہے تو وہاں بھی پبلک نوٹس لگایا جائے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ عوامی نوٹس میں یہ واضح طور پر لکھا ہونا چاہیے کہ متاثرہ شخص اپنے دعوے کے ساتھ آدھار کارڈ کی کاپی بھی جمع کر سکتے ہیں۔
عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ ہر بوتھ لیول آفیسر کو پنچایت دفتر میں نوٹس بورڈ پر بوتھ وار لسٹ چسپاں کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ ناموں کو حذف کرنے کی وجوہات بھی بتائی جائیں، تاکہ عام لوگ اسے دیکھ سکیں۔
سماعت کے دوران جسٹس باگچی نے کہا، ‘آپ ویب سائٹ پر مردہ، ٹرانسفر یا ڈپلیکیٹ ووٹروں کے نام کیوں نہیں ڈال رہے ہیں؟ ہم آپ پر تنقید نہیں کر رہے لیکن شفافیت سے ووٹرز کا اعتماد بڑھے گا۔ آپ ایک اضافی قدم کیوں نہیں اٹھاتے اور وجوہات کے ساتھ اس فہرست کو ویب سائٹ پر کیوں نہیں لگا دیتے، تاکہ لوگ اصلاح کر سکیں؟’
اس سے قبل بدھ (13 اگست) کو سماعت کے دوران وکیل پرشانت بھوشن نے سوال اٹھایا تھا کہ ووٹر لسٹ میں ہیرا پھیری کا الزام لگاتے ہوئے راہل گاندھی کی پریس کانفرنس کے ایک دن بعد الیکشن کمیشن نے اپنی ویب سائٹ سے ڈرافٹ لسٹ کے سرچ ایبل ورژن کو کیوں ہٹا دیا۔
الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ میں نام شامل کرنے کے لیے 11 دستاویز طے کیے ہیں، جن میں برتھ سرٹیفکیٹ شامل ہے، لیکن آدھار کارڈ، ووٹر آئی ڈی یا راشن کارڈ فہرست میں نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے سماعت کے ابتدائی دنوں میں ان دستاویزوں کو قبول کرنے کا مشورہ دیا تھا، لیکن کمیشن نے ایک جوابی حلف نامہ داخل کرکے اپنے موقف پر قائم رہنے کی بات کہی تھی۔