بہار ایس آئی آر: ڈرافٹ ووٹر لسٹ میں مردہ قرار دیے گئے ووٹر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے

بہار کے بھوجپور ضلع کے آرہ اسمبلی حلقہ کے 41 سالہ منٹو پاسوان کو الیکشن کمیشن نے ایس آئی آر مہم کے تحت جاری کی گئی ڈرافٹ ووٹر لسٹ میں مردہ قرار  دے دیا  تھا۔ 12 اگست کو پاسوان سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔

بہار کے بھوجپور ضلع کے آرہ اسمبلی حلقہ کے 41 سالہ منٹو پاسوان کو الیکشن کمیشن نے ایس آئی آر مہم کے تحت جاری کی گئی ڈرافٹ ووٹر لسٹ میں مردہ قرار  دے دیا  تھا۔ 12 اگست کو پاسوان سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔

منٹو پاسوان، جنہیں بہار کے ڈرافٹ ووٹر لسٹ میں ‘مردہ’ قرار دیا گیا تھا۔ (فوٹو: ارینجمنٹ)

نئی دہلی: بہار کے بھوجپور ضلع کے آرہ اسمبلی حلقہ کے 41 سالہ منٹو پاسوان کو الیکشن کمیشن نے ریاست میں ووٹر لسٹ کی جاری اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر)مہم میں مردہ قرار دے دیا تھا۔ لیکن 12 اگست کو پاسوان سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔

پاسوان ان دو لوگوں میں سے ایک تھے،جنہیں انتخابی تجزیہ کار اور سماجی کارکن یوگیندر یادو نے عدالت میں پیش  کیا تھا۔ یوگیندر یادو  بہار میں ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کے جاری عمل کو چیلنج کرنے والے درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں۔ ان کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ کس طرح الیکشن کمیشن نے ووٹروں کے نام  غلط طریقے سے ہٹائے ہیں –  جوبڑے پیمانے پر لوگوں کے نام ہٹائے جانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

آرہ میں ڈرائیور کے طور پر کام کرنے والے پاسوان نے دی وائر کو بتایا کہ انہوں نے انیومریشن فارم بھرا تھا، پھر بھی ان کا نام کاٹ دیا گیا۔

انہوں نے کہا، ‘میں نے لوگوں سے سنا ہے کہ میرا نام کاٹ دیا گیا ہے اور مجھے مردہ قرار دے دیا گیا ہے۔ میں نے آن لائن شکایت درج کرائی اور ایک ویڈیو بھی بنایا۔ اب وہ بینک کے دستاویز، اسکول سرٹیفکیٹ اور میرا آدھار کارڈ مانگ رہے ہیں۔ نام کاٹتےہوئے کوئی دستاویز نہیں مانگا تھا، لیکن میرا نام شامل کرنے کے لیے ڈھیر سارے کاغذات مانگ رہے ہیں۔’

پاسوان ان 65 لاکھ ووٹروں میں شامل ہیں، جنہیں الیکشن کمیشن کی طرف سے 1 اگست کو شائع کردہ ڈرافٹ ووٹر لسٹ سے خارج کر دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق جن 65 لاکھ افراد کے نام خارج کیے گئے ہیں، ان میں سے 22 لاکھ ووٹرز  مردہ قرار دیے گئے ہے، 36 لاکھ مستقل طور پر منتقل ہو چکے ہیں یا ان کا پتہ نہیں چل سکا، اور سات لاکھ  لوگوں کے نام کئی جگہوں پر پائے گئے۔

پاسوان نے کہا کہ شکایت درج کرانے کے بعد ہی بوتھ لیول آفیسر (بی ایل او) ان کے گھر آیا۔ صرف انہیں  ہی نہیں کیرالہ میں کام کرنے والے ان کے بھائی کو بھی مردہ قرار دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘الیکشن کمیشن بہت عجلت میں ہے۔ انہیں دیکھنا چاہیے کہ کوئی شخص مر گیا ہے یا نہیں۔ وہ پڑوس میں پوچھ گچھ کریں۔ اگر کوئی کہے کہ فلاں فلاں مر گیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اصل میں مر ہی گیا ہے۔ میں نے 2014، 2019، 2020 اور 2024 کے انتخابات میں ووٹ دیا ہے۔ بی ایل او کبھی میرے گھر نہیں آیا۔ جب میرا نام کاٹا گیا اور شکایت درج کرائی گئی، تبھی بی ایل او میرے گھر آیا ۔’

الیکشن کمیشن کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل راکیش دویدی نے پاسوان کو عدالت میں پیش کرنے کے اقدام کو ‘ناٹک’ قرار دیا۔

دویدی نے کہا کہ اس ‘ناٹک’ کے بجائے یادو ووٹر لسٹ کو درست کروانے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ تاہم، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جوائےمالیہ باگچی کی بنچ نے کہا کہ ‘نادانستہ طور پرغلطی’ ہو سکتی ہے، جسے درست کیا جا سکتا ہے۔

پاسوان جیسے معاملات اور عدالت کی پہلے کی یقین دہانی کا حوالہ دیتے ہوئے کہ اگر ایس آئی آر کے دوران ووٹروں کو بڑے پیمانے پر خارج کیا گیا تو وہ مداخلت کرے گی، یادو نے کہا کہ ایسی صورتحال پہلے ہی شروع ہوچکی ہے۔

لائیولاء نے یادو کے حوالے کہا،’فہرست سے ووٹروں کو بڑے پیمانے پر حذف کرنے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ یہ تعداد 65 لاکھ سے کہیں زیادہ ہے۔ ایس آئی آرکے ساتھ اس میں اضافہ طے ہے۔ یہ ایس آئی آر کے نفاذ کی ناکامی نہیں ہے، بلکہ ایک منصوبہ ہے۔ جہاں بھی ایس آئی آر کو نافذ کیا جائے گا، نتائج وہی ہوں گے ۔’

پاسوان کو دہلی لانے والے اگیاون اسمبلی حلقہ سے سی پی آئی (ایم ایل) کے ایم ایل اے شیو پرکاش رنجن کے مطابق، آرہ میں کم از کم چار دیگر ہیں جنہیں مردہ قرار دیا گیا ہے لیکن وہ زندہ ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘ہمیں خدشہ تھا کہ الیکشن کمیشن کی جلد بازی سے غریبوں کے نام حذف ہو جائیں گے۔ ہم نے پرانی اور نئی ووٹر لسٹوں کے ساتھ بھوجپور ضلع کا چکر لگایا اور دیکھا کہ کس کے نام حذف کیے گئے ہیں۔ ہم نے مختلف گاؤں میں بوتھ لیول ٹیمیں تشکیل دیں۔ آرہ اسمبلی حلقہ میں چار لوگوں کے نام مردہ قرار دیے گئے ہیں جو زندہ ہیں۔’

رنجن نے کہا کہ اگرچہ یہ عمل ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کے لیے تھا، لیکن غریبوں کو پریشان کیا جا رہا  ہےاور انہیں دستاویز تلاش کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، اور اپنے گاؤں سے دور رہنے والے تارکین وطن مزدوروں کے نام ووٹر لسٹ سے نکالے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘جن لوگوں نے لگاتار انتخابات میں ووٹ دیا ہے، اب ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنا نام ووٹر لسٹ میں شامل کرنے کے لیے فارم 6 پر کریں۔ وہ اب نئے ووٹر بن جائیں گے، حالانکہ وہ پہلے بھی کئی انتخابات میں ووٹ دے چکے ہیں۔’

دریں اثنا، 12 اگست کو درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ الیکشن کمیشن ووٹرز پر شہریت ثابت کرنے کا بوجھ نہیں ڈال سکتا۔

رنجن نے کہا، ‘یہ عمل بند ہونا چاہیے۔ ہم نے 2024 میں 40 ممبران پارلیامنٹ کو لوک سبھا میں بھیجا ہے۔ وہ غیر قانونی نہیں ہیں، لیکن ووٹر غیر قانونی ہو گئے ہیں۔’

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔