منموہن سنگھ کم گو، شائستہ مزاج اور نرم خو طبعیت کے مالک تھے اور انہیں بخوبی احساس تھا کہ کب، کہاں اور کتنا بولنا ہے۔ نہ انہوں نے کبھی میڈیا سے منہ چھپایا اور نہ ہی بے وجہ کے نعرے اچھالے۔ جب بھی موقع آیا اور ضرورت پڑی، پریس کانفرنس کی اور ہر سوال کا جواب دیا۔
یہ 1994-95 کی بات ہے۔ میں پہلی بار ایم ایل اے بنا تھا۔ میرے اسمبلی حلقہ میں اسٹیل فاؤنڈری کا ایک معاملہ مزدوروں کے توسط سے میرے پاس آیا۔ یہ غیر منقسم مدھیہ پردیش کی دوسری بڑی فاؤنڈری تھی اور مالی بحران سے دوچارتھی۔ معاملہ کچھ ایسا تھا کہ صرف مرکزی حکومت ہی کچھ کر سکتی تھی۔
میں نے یہ معاملہ درگ ایم پی اور اپنے سیاسی گرو چندولال چندراکر جی کے سامنے رکھا۔ انہوں نے کہا کہ میں فاؤنڈری کی انتظامیہ کے لوگوں کو لے کر دہلی پہنچ جاؤں۔ میں نے بات کی تو نہ صرف مزدور بلکہ مالکان بھی میرے ساتھ چلنے کو تیار ہو گئے۔ ہم پہنچے نارتھ بلاک میں وزارت خزانہ۔ اس وقت وزیر خزانہ تھےمنموہن سنگھ جی ۔ یہ منموہن سنگھ جی سے میری پہلی ملاقات تھی۔
اس وقت تک وہ معیشت کو نئی پٹری پر لا چکے تھے۔ اس کا چرچہ بہت تھا، لیکن اثر ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔
انہوں نے مسئلہ سنا۔ پہلے تو وہ اس بات سے خوش ہوئے کہ مسئلہ حل کرنے فاؤنڈری کے مالکان اور مزدور دونوں ساتھ آئے ہیں۔ انھوں نے شائستگی سے کہا کہ انھیں نہیں لگتا کہ وہ اس مسئلے کا کوئی حل تلاش کر پائیں گے۔ پھر فرمایا کہ،’ آپ لوگ آگئے تو میں ایک کوشش ضرور کروں گا۔’
انہوں نے متعلقہ بینک سے لے کر ریزرو بینک تک کئی مقامات پر فون کیا اور ہمارے سامنے ہی بات کی اور سب کو ہدایت دی کہ اگر قواعد و ضوابط میں کوئی گنجائش ہے تو مدد ضرور کی جائے۔
مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ لیکن فاؤنڈری کے مالکان اور مزدور خوش تھے کہ ملک کے وزیر خزانہ نے اتنی سنجیدگی سے کوشش کی۔ میرے لیے یہ سیاسی زندگی کا ایک سبق تھا۔ منموہن سنگھ جی کی سادگی، عاجزی اور کام کے تئیں ان کی لگن کی تصویر آدھے گھنٹے میں دل میں اتر گئی۔
تب تک وہ ملک میں معاشی انقلاب برپا کر چکے تھے۔ آنے والے سالوں میں جس طرح سے ملک کی معیشت بدلی اس سے یہ احساس ہوا کہ منموہن سنگھ نے خاموشی سے ملک کو بدل دیا ہے۔ اگلی دو دہائیاں ہندوستانیوں کے لیےکسی خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے کی طرح تھیں۔
لبرلائزیشن اور بازار کھولنے کے لیے ان پر بہت تنقید ہوئی اور وہ شائستگی سے جواب دیتے رہے۔ انہیں وزیر اعظم نرسمہا راؤ کی سرپرستی حاصل تھی اور انہیں یقین تھا کہ مستقبل کے لیے یہی راستہ ہے۔ ان کا دیرینہ ہدف ہندوستان سے لائسنس راج کا خاتمہ تھا۔ اور وہ ایسا کر چکے تھے۔
اس کے دس سال بعد جب ہماری لیڈر محترمہ سونیا گاندھی نے خود وزیر اعظم بننے کے بجائے منموہن سنگھ کا انتخاب کیا تو ملک حیران رہ گیا۔ اٹل بہاری واجپائی جیسےمقرر کے بعد منموہن سنگھ جیسے کم گو شخص؟ بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک اور خدشات پیدا ہوئے، بہت سے لوگوں نے بہت سی باتیں کہیں۔ لیکن منموہن سنگھ جی اس ملک کو بخوبی سمجھتے تھے۔
سال 2004 سے 2014 تک انہوں نے وزیر اعظم کے طور پر دو مدت مکمل کی۔اس بار وہ ملک کے عام لوگوں کو تحفظ اور حقوق فراہم کرنے کے راستے پر تھے۔ اس کا آغاز کسانوں کو ان کی فصلوں کی صحیح قیمت دینے سے ہوا۔ ان کے دور میں ایم ایس پی میں اضافہ ناقابل تصور تھا۔
یو پی اے کے دس سالوں میں منموہن سنگھ کی قیادت میں ایسے سات قوانین بنائے گئے جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ روزگار کا حق دینے والا قانون ‘منریگا’،بنای، خوراک، تعلیم اور صحت کا حق بھی ملا۔ زمین کے حصول کا قانون آیا۔ اور ملک میں شفافیت لانے کے لیے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ نافذ ہوا۔
منریگا اور ان قوانین کا مجموعی طور پر اثر یہ ہوا کہ ملک میں 14 کروڑ لوگ غربت کی زندگی سے باہر نکل آئے۔ کسانوں اور مزدوروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔ اور لوگوں کو معلوم ہوا کہ ترقی کسے کہتے ہیں۔ اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کیے بغیر جی ڈی پی کو دوہرے ہندسوں تک لے جانا بھی انہی کے حوصلے کی بات تھی۔ تبھی ہندوستان ایک مضبوط معیشت کے طور پر دنیا میں پہچانا گیا۔
منموہن سنگھ جی کم گو، شائستہ مزاج اور نرم خو طبعیت کے مالک تھے، لیکن وہ جانتے تھے کہ کب، کہاں اور کتنی بات کرنی ہے۔ نہ انہوں نےکبھی میڈیا سے منہ چھپایا اور نہ ہی بے وجہ کےنعرے اچھالے۔ جب موقع آیا اور جب بھی ضرورت پڑی، پریس کانفرنس کی اور ہر سوال کا جواب دیا۔
ایک ایسے وقت میں جب میڈیا یکطرفہ فیصلےسنارہا تھا، تب بھی انہوں نے شائستگی سے اتنا ہی کہا کہ انہیں امید ہے کہ تاریخ ان کا تجزیہ کرنے میں میڈیا کے مقابلے زیادہ فراخدلی کا مظاہرہ کرے گی۔
منموہن سنگھ جی آج نہیں رہے لیکن ان کا تجزیہ ان کے جیتے جی ہونے لگا تھا۔ اور ہر باشعور اہل وطن کے ذہن میں پشیمانی کا احساس تھا کہ انہوں نے سیاسی طور پرسازش کرنے والوں کے بہکاوے میں ان کے ساتھ ناانصافی کی۔
یہ ملک اور اس کی نسلیں منموہن سنگھ جی کو ممنویت کے ساتھ یاد رکھیں گی۔ اُن کو لاکھوں سلام۔
(بھوپیش بگھیل کانگریس کے سینئر رہنما اور چھتیس گڑھ کے سابق وزیر اعلیٰ ہیں۔)