نہیں رہے معاشی اصلاحات اور آر ٹی آئی کے سرخیل؛ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کا انتقال

سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے انتقال پر اپنے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے صدر دروپدی مرمو نے کہا کہ ڈاکٹر سنگھ نے ہندوستانی معیشت کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں ملک کے لیےان کی خدمات اور بے داغ سیاسی زندگی کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے انتقال پر اپنے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے صدر دروپدی مرمو نے کہا کہ ڈاکٹر سنگھ نے ہندوستانی معیشت کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں ملک کے لیےان کی خدمات اور بے داغ سیاسی زندگی کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/منموہن سنگھ)

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/منموہن سنگھ)

نئی دہلی: سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نہیں رہے ۔ عمر سے متعلق بیماریوں کی وجہ سے دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) میں بھرتی ہوئے سنگھ  نے جمعرات کی رات تقریباً 10 بجے آخری سانس لی۔ وہ  92 سال کے تھے۔

ایمس نے 26 دسمبر کو دیر رات جاری ایک مختصر بیان میں کہا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ 26 دسمبر 2024 کو گھر میں اچانک بے ہوش ہو گئے۔ علاج فوری طور پر گھر پر شروع کیا گیا اور انہیں رات 8:06 بجے ایمس، نئی دہلی میں میڈیکل ایمرجنسی میں لایا گیا۔ تمام کوششوں کے باوجود انہیں  بچایا نہیں جا سکا اور رات 9:51 پر انہوں نے آخری سانس لی۔

خبر رساں ادارے پی ٹی آئی نے سرکاری  ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی آخری رسومات پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کی جائیں گی اور سات روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا جائے گا۔

برطانوی ہندوستان (اب پاکستان میں) کے صوبہ پنجاب کے گاؤں گاہ میں 1932 میں پیدا ہوئے منموہن سنگھ نے اسکول کی تعلیم پہلے اپنے گاؤں اور پھر پشاور میں حاصل کی اور 1947 میں آزادی اور تقسیم کے بعد ہندوستان آگئے۔ بٹوارے سے اجڑے لاکھوں دوسرے لوگوں کی طرح سنگھ کے خاندان کو بھی اپنے آپ کو ایک نئی جگہ پر آباد ہونے میں جدوجہد کرنی پڑی۔

منموہن سنگھ بنیادی طور پر معاشیات  کے ماہرتھے۔ انہوں نے کیمبرج میں تعلیم حاصل کی تھی، جہاں انہیں ممتاز ماہرین اقتصادیات جان رابنسن اور نکولس کلڈور کی رہنمائی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے آکسفورڈ میں ہندوستان کی برآمدی کارکردگی (ایکسپورٹ پرفارمنس)پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا۔ اس کے بعد وہ پڑھانے کے لیے ہندوستان واپس آئے، انھوں نے پہلے پنجاب یونیورسٹی میں پڑھایا اور پھر دہلی اسکول آف اکنامکس، دہلی یونیورسٹی میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا۔

معاشیات میں ان کی مہارت کا امتحان 1972 میں اس وقت ہوا جب وہ اندرا گاندھی کی وزارت عظمیٰ کے دوران مرکزی وزارت خزانہ کے چیف اکنامک ایڈوائزر مقرر ہوئے۔ اس وقت یشونت راؤ چوہان وزیر خزانہ تھے۔ اس کے بعد وہ متعدد دیگر اہم اقتصادی عہدوں پر فائز رہے جیسے فنانس سکریٹری، پلاننگ کمیشن کے ممبر اور ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر۔ سال 1991 میں وہ نرسمہا راؤ حکومت کے وزیر خزانہ بنے۔

وہ 1996 تک اس عہدے پر فائز رہے، اس دوران انہیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل ہوئی۔ انہوں نے معاشی اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع کیا – جو اس وقت متنازعہ تھا – جس نے بالآخر ہندوستانی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ روپے کی قدر میں کمی، صنعتی کنٹرول کے خاتمے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے دروازہ  کھولنا بڑے پیمانے پرانتشار کی وجہ بنا، جس کے ثمرات صرف بعد کی دہائیوں میں حاصل ہوئے۔

19 مئی 2004 کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے منتخب ہونے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو اس عہدے کی ذمہ داری سونپتے ہوئے اس وقت کے صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام۔ ساتھ میں کانگریس پارلیامانی پارٹی کی صدر سونیا گاندھی۔ (فائل فوٹو بہ شکریہ: حکومت ہند)

19 مئی 2004 کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے منتخب ہونے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو اس عہدے کی ذمہ داری سونپتے ہوئے اس وقت کے صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام۔ ساتھ میں کانگریس پارلیامانی پارٹی کی صدر سونیا گاندھی۔ (فائل فوٹو بہ شکریہ: حکومت ہند)

سال 2004 میں جب کانگریس کو اٹل بہاری واجپائی کی قیادت والی بی جے پی پر حیرت انگیز فتح کے بعد حکومت بنانے کا موقع ملا، تو کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی نے منموہن سنگھ کو پارٹی کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد ساری زندگی منموہن سنگھ پر ‘ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر’ کا ٹیگ لگا رہا، جہاں ناقدین نے سونیا گاندھی پر پردے کے پیچھے سے ان کی حکومت چلانے کی  کڑی تنقید کی۔

تاہم، ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ سسٹم منموہن سنگھ جیسے ٹیکنو کریٹک لیڈر کے لیے موزوں تھا، جو معیشت کے لیے اپنے وژن کو عملی جامہ پہنانے کے خواہشمند تھے۔ تاہم، ان کے پاس سیاسی بصیرت بھی تھی، جس کی وجہ سے انھوں نے بڑے اقدامات کیے، خاص طور پر خارجہ پالیسی کے محاذ پر، جس نے کبھی کبھی سونیا گاندھی اور وسیع تر کانگریس پارٹی کو بے چین بھی کیا۔

پارٹی کے اندر اختلافات کے باوجود وہ  ہندوستان  اور امریکہ کو قریب لائے اور 1974 میں اپنے پہلے ایٹمی تجربے کے بعد سے ملک میں جوہری علیحدگی اور ٹکنالوجی کی ممانعت کے نظام کو کامیابی سے ختم کیا۔ جولائی 2005 میں انہوں نے اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے ساتھ سول نیوکلیئر معاہدے کیے، جس کی وجہ سے نیوکلیئر سپلائرز گروپ نے ہندوستان  کے ساتھ جوہری تجارت پر سے پابندی اٹھا لی، اور شاید یہ ان کی سب سے اہم سفارتی کامیابی تھی۔

سنگھ نے اس بات کو یقینی بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا کہ جی20 عالمی معیشت کو 2008 کے مالیاتی بحران سے نکالے۔

یہ منموہن سنگھ کا ہی چہرہ تھا جس نے 2009 کے عام انتخابات میں متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) کی حکومت کو فتح دلائی، جبکہ اپوزیشن بی جے پی نے نومبر 2008 میں ممبئی میں پاکستان کے لشکر طیبہ کے دہشت گردانہ حملوں کو ان کی  کمزوری کے ثبوت کے طور پر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

وزیر اعظم کے طور پر ڈاکٹر سنگھ نے تین بڑی اصلاحات متعارف کروائیں جو ملک نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں: معلومات کا حق قانون، مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ (منریگا) اور ترمیم شدہ اراضی حصول قانون۔

منریگا اس دیہی بحران کا جواب تھا، جسے واجپائی حکومت نے ‘انڈیا شائننگ’ کے نعرے سے چھپانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن ان کی دوسری میعاد ٹیلی کام سپیکٹرم اور کوئلے کی کان کنی کے لیز کی تقسیم پر تنازعات کی زد میں رہی، اپوزیشن بی جے پی اور میڈیا کے ایک بڑے حصے نے ڈاکٹر سنگھ پر سرکاری خزانے کو بھاری نقصان پہنچانے کا الزام لگایا۔ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (سی اے جی) کی رپورٹ کی وجہ سے ان الزامات کو اعتبار حاصل ہوا، حالانکہ بطور وزیر اعظم انہوں نے اپنے ہی ٹیلی کام وزیر – ڈی ایم کے کے اے راجہ کو فوری طور پر 2G گھوٹالے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کر وایا تھا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت شروع کیے گئے تمام مجرمانہ مقدمات نریندر مودی کے وزیر اعظم کے دور میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچے، جس کی وجہ سے تمام ملزمان کو بری کر دیا گیا۔

منموہن سنگھ کا دور اس لیے بھی اہم تھا کہ وہ ملک کے وزیر اعظم بننے والے اقلیتی برادری کے پہلے فرد تھے۔ یہ حقیقت اس لیے بھی اہم ہے کہ ایک سکھ ہونے کے ناطے انھوں نے 31 اکتوبر 1984 کو اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی اور شمالی ہندوستان کے دیگر شہروں میں ہوئے سکھوں کے قتل عام ، جسے شروع کرنے کا الزام بھی کانگریس پر ہی تھا، کے لیے معافی مانگی تھی۔ سکھ مخالف فسادات پر ناناوتی کمیشن کی رپورٹ کے فوراً بعد 12 اگست 2005 کو پارلیامنٹ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا:

‘مجھے سکھ برادری سے معافی مانگنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔ میں نہ صرف سکھ برادری سے بلکہ پورے ہندوستان سے معذرت خواہ ہوں کیونکہ 1984 میں جو کچھ بھی ہوا وہ ہمارے آئین میں درج قوم پرستی کے تصور کے خلاف ہے۔’

ان کی معافی ایک سیاست دان کی طرف سے، خاص طور پر وزیر اعظم کے عہدے پر فائز شخص  کے لیے ایک غیر معمولی عمل تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے کمیشن کی طرف سے نامزد سینئر کانگریس لیڈر جگدیش ٹائٹلر کو برطرف کرنے کا ان کا فیصلہ تھا۔

اس وقت امریکی سفارت خانے کے ایک کیبل میں کہا گیا تھا، ‘وزیراعظم کی طرف سے معافی مانگنے اور گاندھی خاندان سے دیرینہ تعلقات رکھنے والے وزیر کے جبری استعفیٰ نے ان ہندوستانیوں کو چونکا دیا ہے جو اپنے لیڈروں سے صرف خراب  توقع  ہی رکھتے تھے۔ وزیر اعظم کے سیاسی جسارت کے اس غیر معمولی قدم کو لمبے وقت تک ہندوستان کے مذہبی ہم آہنگی کے طویل سفر میں اخلاقی وضاحت کے ایک اہم لمحے – تقریبا گاندھیائی –  لمحے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔’

ڈاکٹر سنگھ کے انتقال پر صدر دروپدی مرمو، وزیر اعظم نریندر مودی اور ملک اور بیرون ملک کےتمام  لیڈروں نے غم کا اظہار کیا ہے۔

ایکس پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے صدر مرمو نے لکھا ، ‘سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ جی ان کمیاب سیاست دانوں میں سے ایک تھے جنہوں نے تعلیم اور ایڈمنسٹریشن کی دنیا میں یکساں قدرت کے ساتھ کام کیا۔ عوامی دفاتر میں اپنے مختلف کرداروں میں، انہوں نے ہندوستانی معیشت کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں ملک کی خدمت، ان کے بے عیب سیاسی کیریئر اور ان کی خاکساری کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا…’

ان کے ساتھ مختلف تصاویر شیئر کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا ہے، ‘ہندوستان اپنے سب سے معزز رہنما ڈاکٹر منموہن سنگھ جی کے انتقال سے غمزدہ ہے۔ ایک عام پس منظر سے آتے ہوئے وہ ایک مشہور ماہر اقتصادیات بن گئے۔ وہ مختلف سرکاری عہدوں پر فائز رہے، جن میں وزیر خزانہ کا عہدہ بھی شامل ہے، اور انہوں نے گزشتہ برسوں میں ہماری اقتصادی پالیسی پر گہرا نشان چھوڑا۔ پارلیامنٹ میں ان کی مداخلتیں بھی بہت عملی تھیں۔ ہمارے وزیر اعظم کے طور پر انہوں نے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے وسیع پیمانے پر کوششیں کیں۔’

انہوں نے مزید کہا کہ ‘ڈاکٹر منموہن سنگھ جی اور میں اس وقت باقاعدگی سے بات کرتے تھے جب وہ وزیر اعظم تھے اور میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا۔ ہم گورننس سے متعلق مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا کرتے تھے۔ ان کی ذہانت اور عاجزی ہمیشہ نظر آتی تھی۔ غم کی اس گھڑی میں میری تعزیت ڈاکٹر سنگھ کے اہل خانہ، ان کے دوستوں اور ان گنت مداحوں کے ساتھ ہے۔ اوم شانتی۔’

منموہن سنگھ کے انتقال پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کانگریس کے صدر ملیکارجن کھڑگے نے کہا کہ ہندوستان نے ایک دور اندیش سیاست دان، بے داغ ایماندار رہنما اور قدآور ماہر معاشیات کو کھو دیا ہے۔

کانگریس کے سابق صدر اور لوک سبھا میں اس وقت اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے ڈاکٹر سنگھ کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اپنے سرپرست سے محروم ہو گئے۔

منموہن سنگھ کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ گرشرن کور اور تین بیٹیاں – اپندر سنگھ، دمن سنگھ اور امرت سنگھ ہیں۔