آر ٹی آئی کے سوال پر ریسرچ اسکالر کو ہندوستانی شہریت ثابت کرنے کو کہا گیا: رپورٹ

ماہر اقتصادیات امرتیہ سین کے پرتیچی (انڈیا) ٹرسٹ سے وابستہ ایک محقق صابر احمد نے آر ٹی آئی درخواست میں بنگال کے تمام میڈیکل کالجوں سے ان کے طلباء، اساتذہ اور انتظامی عملے کے سماجی طبقے سے متعلق ڈیٹا طلب کیا تھا۔ جواب میں ریاستی پبلک انفارمیشن آفیسر نے انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے کو کہا۔

ماہر اقتصادیات امرتیہ سین کے پرتیچی (انڈیا) ٹرسٹ سے وابستہ ایک محقق صابر احمد نے آر ٹی آئی درخواست میں بنگال کے تمام میڈیکل کالجوں سے ان کے طلباء، اساتذہ اور انتظامی عملے کے سماجی طبقے سے متعلق ڈیٹا طلب کیا تھا۔ جواب میں ریاستی پبلک انفارمیشن آفیسر نے انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے کو کہا۔

(السٹریشن: دی وائر)

(السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی: مغربی بنگال سے ایک غیر معمولی خبر سامنے آئی ہے کہ ایک محقق سے معلومات کے حق (آر ٹی آئی) ایکٹ کے تحت دائر سوال کا جواب حاصل کرنے سے پہلے اپنی ہندوستانی شہریت ثابت کرنے کو کہا گیا ۔

دی ٹیلی گراف کی ایک رپورٹ کے مطابق ، کلکتہ نیشنل میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل کے اسٹیٹ پبلک انفارمیشن آفیسر نے نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات امرتیہ سین کے پرتیچی (انڈیا) ٹرسٹ سے وابستہ ایک محقق صابر احمد سے بنگال میں  طبی انتظامیہ کے بارے میں معلومات کے لیے آر ٹی آئی درخواست دائر کرنے کے بعد انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے کو کہا۔

احمد، جنہیں  رپورٹ میں پرتیچی میں نیشنل ریسرچ کوآرڈینیٹر کے طور پر بتایا گیا ہے، نے بنگال کے تمام 23 میڈیکل کالجوں سے ان کے طلباء، اساتذہ اور انتظامی عملے کے بارے میں ڈیٹا طلب کیا تھا، جس میں ان کی سماجی کلاس جیسی تفصیلات بھی شامل تھیں۔

احمد نے اخبار کو بتایا کہ وہ طبی تعلیم اور انتظامیہ میں پسماندہ گروہوں کی نمائندگی کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔

انہوں نے ٹیلی گراف کو یہ بھی بتایا کہ انہوں  نے آر ٹی آئی کا لگاتار استعمال کیا ہے اور قانون کے نافذ ہونے کے بعد سے ریاست اور مرکزی حکومتوں کے مختلف محکموں میں 2500 سے زیادہ درخواستیں داخل کی ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے جب ان سے شہریت سے متعلق معلومات مانگی گئی ہیں۔

نیشنل میڈیکل کالج کے اسٹیٹ پبلک انفارمیشن آفیسر (ایس پی آئی او) نے 2 دسمبر کو آر ٹی آئی درخواست پر ردعمل  بھیجا، جس میں احمد سے اپنی ہندوستانی شہریت ثابت کرنے کو کہا گیا۔

ایس پی آئی او کے خط میں کہا گیا، ‘آپ کی آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں… نیچے  دستخط کنندہ یہ بتانا چاہیں گے کہ آپ نے مذکورہ درخواست میں یہ اعلان نہیں کیا ہے کہ آپ ہندوستان کے شہری ہیں۔ لہذا، جب تک آپ اپنی ہندوستانی شہریت کا ثبوت فراہم نہیں کرتے، ہم آپ کے سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔’

اس کے بعد احمد نے اپنے آدھار کارڈ کی ایک کاپی ایس پی آئی او کو بھیجی۔ رپورٹ میں کہا گیا، ‘6 دسمبر کو ایک اور خط آیا، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ (میڈیکل کالج) معلومات فراہم کریں گے کیونکہ درخواست گزار نے خود کو ریسرچ اسکالر قرار دیا تھا، لیکن آدھار کارڈ کو شہریت کا ثبوت نہیں سمجھا جاتا ہے۔’

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت کی ویب سائٹ پر یہ کہا گیا ہے کہ آر ٹی آئی کے تحت درخواست دیتے وقت شہریت کا کوئی ثبوت نہیں مانگا جاتا ہے، اور متعلقہ افسر سے ثبوت مانگنے کی توقع نہیں کی جاتی ہے۔

سرکاری ویب سائٹ پڑلکھاہے، ‘تاہم، بعض غیر معمولی حالات میں پی آئی او (یا ایس پی آئی او) ثبوت (شہریت کا) مانگ سکتا ہے، مثال کے طور پر اگر اس کے پاس یہ یقین کرنے کی وجہ ہے کہ درخواست کسی شہری کی طرف سے دائر نہیں کی گئی ہے یا اگر اس میں شک ہے کہ درخواست گزار ہندوستانی شہری ہے یا نہیں؟

احمد نے اخبار کو بتایا، ‘میرا سوال یہ ہے کہ میڈیکل کالج کے ایس پی آئی او کو یہ ماننے کی کیا وجہ تھی کہ میں ہندوستانی شہری نہیں ہوں یا میری شہریت پر شک ہے؟ کیا یہ میرا نام تھا، یا یہ معلومات سے انکار کرنے کی کوشش تھی؟’

احمد ایک معروف محقق ہیں جو ایک معروف ادارے سے وابستہ ہیں۔ ایک محقق نے کہا، ‘اگر انہیں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے تو سوچیں کہ عام لوگوں کا کیا حال ہوتا ہوگا۔’