شیخ حسینہ نے جو پولنگ بوتھ پر نہیں ہونے دیا، وہ آخرکار سڑکوں پر ہوکر رہا

شیخ حسینہ کے خلاف ہوئی بغاوت صرف اسی صورت میں اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکتی ہے کہ وہ طلبہ کی بات سنے؛ یہ تحریک ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی تحریک ہے جس میں کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں ہوگا۔ کسی کے ساتھ کسی قسم کی تفریق نہیں کی جائے گی۔

شیخ حسینہ کے خلاف ہوئی بغاوت صرف اسی صورت میں اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکتی ہے کہ وہ طلبہ کی بات سنے؛ یہ تحریک ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی تحریک ہے جس میں کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں ہوگا۔ کسی کے ساتھ کسی قسم کی تفریق نہیں کی جائے گی۔

(تصویر بہ شکریہ: ڈھاکہ ٹریبیون)

(تصویر بہ شکریہ: ڈھاکہ ٹریبیون)

ہندوستان  میں پناہ حاصل کرنے والی شیخ حسینہ اپنے ملک کی حالت زار دیکھتے ہوئے کیا سوچتی ہوں گی؟ تشدد کا جو منظر سامنے ہے کیا اس کو دکھا کر یہ کہیں گی کہ مجھے عہدے سے ہٹانے کا مطلب یہی تھا؟ کہ میں اس تشدد کو روکنا چاہتی تھی؟

یا کیا شیخ حسینہ اپنا جائزہ لیتے ہوئےسوچ رہی ہوں گی کہ کاش میں نے ایک ہفتہ قبل طالبعلموں کا مطالبہ تسلیم کر  لیا ہوتا، کاش میں نے اپنے عوامی لیگ کے لوگوں کو طلبہ اور مظاہرین پر حملہ کرنے کے لیے سڑکوں پر نہ اتارا ہوتا! کاش! میں نے اسی وقت استعفیٰ دے دیا ہوتا! اگر ایسا ہوتا تو آج عوامی لیگ کے لوگوں پر حملہ نہ ہو رہا ہوتا!

ماہراقتصادیات محمد یونس کو نگراں حکومت کا سربراہ بنتے دیکھ کر وہ کیا سوچ رہی ہوں گی؟ جس شخص کو انہوں نے جیل میں رکھنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا، آج ملک کے نوجوان اسی شخص کو قیادت سنبھالنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ کیا ان کا دماغ پھر گیاہے؟

اپنے والد، بنگلہ دیش کے بانی سمجھے جانے والے شیخ مجیب الرحمن کا مجسمہ گرائے جانے کے دوران کیا وہ اپنے ہم وطنوں کو ان کی ناشکری کے لیے ان پر لعنت بھیج رہی ہوں گی؟ یا وہ سوچ پائیں گی کہ ان کے والد کی یادگار ان کے جرم کی وجہ سے مٹائی جا رہی ہے؟ شیخ مجیب کو صرف اپنی ملکیت  بنا کر، صرف خود کو ان  کا وارث بنا کر اور باقی لوگوں کو ان سے دور رکھ کر شیخ حسینہ نے شیخ مجیب کے ساتھ ناانصافی کی،مجیب شیخ حسینہ کی علامت بن کر  رہ گئے۔

کیا وہ یہ سوچ پا رہی ہوں گی کہ جب انہوں نے اپنے ناقدین اور مخالفین کو ‘رضاکار’ کہہ کر گالیاں دیں تو انہوں نے اس لفظ کو عزت بخش دی۔ ‘ہم کون ہیں رضاکار؟ کہتا کون ؟ تاناشاہ!’ کیا وہ اس نعرے سے جان چھڑا پائیں گی؟

آج وہ جو بھی کر رہی ہوں، شیخ حسینہ کے کرسی خالی کرنے اور ملک سے فرار ہونے کے بعد بھی بنگلہ دیش میں تشدد کا سلسلہ تھما نہیں ہے۔ 5 اگست سے پہلے تشدد مظاہرین کے خلاف تھا، اس کے بعد تشدد عوامی لیگ اور حکومت سے وابستہ لوگوں کے خلاف ہے۔ پچھلی حکومت سے وابستہ ہر علامت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شیخ مجیب کے مجسمے اور کئی یادگاروں کو گرانے کے مناظر دیکھ کر لوگ حیران ہیں۔

لیکن اس سے زیادہ خوفناک ہے عام لوگوں کا قتل۔ سینکڑوں لوگ مارے جا چکے ہیں۔ ایک ہوٹل کو جلا دیا گیا جس کی وجہ سے اس میں مقیم درجنوں افراد ہلاک ہو گئے۔ پورے ملک میں تشدد برپا ہے۔ خبر ہے کہ کئی مندروں، ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کے مکانوں اور دکانوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شیخ حسینہ کی آمریت کے خلاف تحریک چلانے والے چھاتر منچ نے اس تشدد کی مذمت کی ہے، جماعت اسلامی کے سربراہ نے بھی تشدد روکنے کی اپیل کی ہے، کئی مسلم رہنما تشدد کے خلاف بول رہے ہیں۔ جیل سے نکلنے کے بعد سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء نے بھی تشدد بند کرنے کی اپیل کی ہے۔ مختلف سول تنظیمیں اس تشدد کے خلاف بول رہی ہیں۔ لیکن تشدد جاری ہے۔

ظاہر ہے کہ جو لوگ یہ تشدد کر رہے ہیں ان پر ان اپیلوں کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ کچھ لوگ اس تشدد کا جواز یہ کہہ کر پیش کریں گے کہ یہ شیخ حسینہ کی حکومت کے 4 اگست تک کے تشدد کے خلاف عوامی غصے کا اظہار ہے۔ ایسا نہیں ہے۔

بنگلہ دیش کی ‘ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل’ نے اپنے بیان میں درست لکھا ہے کہ آمریت کے خلاف تحریک میں سماج کے ہر طبقے کے لوگ شامل تھے، مسلمان، ہندو، سب اس کا حصہ تھے۔ ہر پیشے کے لوگ اس کا حصہ تھے۔ حکومت نے تشدد کے ذریعے اس تحریک کو دبانے کی کوشش کی۔ سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ ہزاروں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ لیکن اس سے اس تشدد کو جواز نہیں مل جاتا  جو 5 اگست سے جاری ہے جس میں 100 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں،اور سینکڑوں مذہبی مقامات کو تباہ کر دیاگیا ہے۔

کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ غصہ بنیادی طور پر عوامی لیگ سے وابستہ لوگوں کے خلاف ہے۔آخرکار آمریت مخالف تحریک کو دبانے کی کوشش صرف پولیس نے نہیں کی تھی، اس میں عوامی لیگ، اس کے طلبہ اور یوتھ آرگنائزیشن کے لوگ شامل تھے۔ پھر یہ فطری ہے کہ غصہ عوامی لیگ سے وابستہ لوگوں کے خلاف ہو۔ وہ ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ یہ دلیل بے کار ہے۔ طلبہ کی تحریک آمریت کے خلاف تھی، تشدد کے خلاف تھی۔ اگر اس کی آڑ میں تشدد جاری  ہے تو یہ تحریک کے ہی خلاف ہے۔

اپیلوں سے تشدد کا سلسلہ نہیں تھمے گا۔ اسے ریاست کے اختیارات سےہی روکا جا سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس وقت کوئی حکومت نہیں ہے، لیکن یہ فریضہ فوج کا ہے کہ وہ پرتشدد ہجوم کو کنٹرول کرے۔ وہ ہجوم کو اپنا ‘غصہ’ ظاہر کرنے کا موقع دے رہی ہے تو اسے اس تشدد کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی۔

بہر حال اس تشدد کی وجہ سے یہ کہنا غلط ہو گا کہ شیخ حسینہ کے خلاف عوامی تحریک اسلام پسند اور ہندوستان مخالف لوگ چلا رہے تھے۔ یہ کہنا بے ایمانی ہو گی کہ یہ تحریک جمہوریت کے لیے نہیں بلکہ بنگلہ دیش میں اسلامی ریاست کے قیام کے لیے چلائی جا رہی تھی۔ جو بھی بنگلہ دیش کو جانتا ہے، اسے معلوم  ہے کہ اس ملک کے نوجوان اور طلبہ —اور وہ مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے  ہیں، آمریت اور فوجی حکمرانی کو برداشت نہیں کرتے۔

سال 1952 سے لے کر 1971 تک اور اس کے بعد بھی طلبہ نے ہمیشہ ملک میں جمہوریت کی واپسی کے لیے کوشش کی ہے ،اس لحاظ سے شیخ حسینہ کی آمرانہ حکومت کچھ زیادہ ہی چل گئی  تھی۔

شیخ حسینہ کی آمریت کے خلاف کھڑے ہونا کوئی ہنسی مذاق کی بات نہیں تھی، طلبہ کو سرکاری گولیوں کا سامنا کرنا پڑا اور سینکڑوں مارے گئے۔ اسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ شیخ حسینہ کے ملک سے فرار ہونے کے بعد تشدد کے درمیان انہوں نے واضح طور پر اس کو قبول کیا، پارلیامنٹ پر ہوئے حملے میں لوٹا گیا ہتھیار برآمد اور جمع کروائے، مندروں اور ہندوؤں کے گھروں کی حفاظت کی۔

طلبہ کی وجہ سے ہی فوج آج تک اس انقلاب پر قبضہ نہیں کر سکی۔ ان کی درخواست پر محمد یونس نے عبوری حکومت کی سربراہی کا فیصلہ کیا ہے۔ طلبہ سے اس تحریک کا کریڈٹ چھیننا اور اسے کسی سازش کا نتیجہ قرار دینا شیطانی ذہن کی پیداوار ہے۔

شیخ حسینہ سے ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے ہندوستان میں بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ان کی قیادت میں ملک نے نمایاں طور پراقتصادی ترقی حاصل کی تھی۔ انہوں نے ملک کو سیکولر بنا کررکھا  تھا۔ لیکن لوگ محض اقتصادی زندگی نہیں گزارتے۔ حقیقی انسانی زندگی جمہوری زندگی ہے۔ آپ دو روٹی  دے کر میری آزادی نہیں چھین سکتے۔ شیخ حسینہ 15 سال سے یہی کر رہی تھیں۔ انہوں نے انتخابات کو مذاق بنا دیا تھا۔ آج جو نوجوان سڑکوں پر تھے انہوں نے کبھی اپنے حق رائے دہی کا استعمال ہی نہیں کیا تھا۔ شیخ حسینہ نے جو پولنگ بوتھ پر نہیں ہونے دیا، وہ آخرکار سڑکوں پر ہو کر رہا۔

آج کل ہندوستان جیسے ملک میں اس بات کو سمجھنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ اسی لیے بہت سے لوگ بنگلہ دیش کے آزادی پسند طلبہ کو سرپھرا کہہ رہے ہیں۔

طلبہ آمریت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ جمہوریت کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ لیکن بعد کا سفر کیسا ہوگا، اس کا فیصلہ سماج کے باقی طبقات کو کرنا ہے۔

ایک بینکر اور تاجر تنویر حیدر خان نے ’ڈھاکہ ٹریبیون‘ میں درست لکھا ہے کہ جب آرمی چیف سے پوچھا گیا کہ وہ مذاکرات کے لیے کس کو بلائیں گے تو انھوں نے دو بار ’جماعت اسلامی‘ کا نام کیوں لیا۔ ایسی  جماعت جسے عوام نے پچھلے تمام انتخابات میں مسترد کر دیا ہے! ان کا یہ سوال بھی جائز ہے کہ فوج نے امن و امان برقرار رکھنے میں چستی کیوں نہیں دکھائی؟

محمد یونس نے کہا ہے کہ ملک میں امن و امان کی بحالی اولین ترجیح ہو گی۔ شیخ حسینہ کے خلاف ہوئی بغاوت اسی صورت میں اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکتی ہے جب وہ طلبہ کی بات سنیں؛ یہ تحریک ایک ایسا معاشرہ بنانے کی تحریک ہے جس میں کسی قسم کا امتیاز نہیں ہوگا۔ کسی کے ساتھ کسی قسم کی تفریق نہیں کی جائے گی۔

ہم امید کریں کہ بنگلہ دیش کے لوگ اپنے طالبعلموں کو سن رہے ہیں۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)