مودی حکومت اور آر بی آئی نے چھوٹے کاروباری اداروں کو ہوئے نقصان کے بارے میں آدھا سچ اور جھوٹ بولا

نوٹ بندی اور جی ایس ٹی لائے جانے کے دو سال بعد مرکزی حکومت نے مائیکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں پر ان دونوں کے اثرات کے بارے میں پارلیامنٹ کو گمراہ کیا ۔ سرکار کی یقین دہانیوں سے متعلق پارلیامانی کمیٹی نے گمراہ کن بیانات اور مکمل سچ نہ بتانے کے لیے سرکار کی سرزنش کی تھی اور دونوں فیصلوں سے ہوئے نقصان کا فیکٹ چیک بھی کیا تھا۔

نوٹ بندی اور جی ایس ٹی لائے جانے کے دو سال بعد مرکزی حکومت نے مائیکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں پر ان دونوں کے اثرات کے بارے میں پارلیامنٹ کو گمراہ کیا ۔ سرکار کی یقین دہانیوں سے متعلق پارلیامانی کمیٹی نے گمراہ کن بیانات اور مکمل سچ نہ بتانے کے لیے سرکار کی سرزنش کی تھی اور دونوں فیصلوں سے ہوئے نقصان کا فیکٹ چیک بھی کیا تھا۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: rupixen.com/Pixabay)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: rupixen.com/Pixabay)

نئی دہلی : نومبر 2016 میں ، مرکزی حکومت نے اچانک بڑے کرنسی نوٹوں کےڈیمونیٹائزیشن (نوٹ بندی)کا اعلان کرکے پورے ملک کو حیران کر دیا۔ عام بول چال  کی زبان میں ‘نوٹ بندی’ کہے جانے والے اس قدم کی وجہ سے  ملک میں چل رہے 80 فیصد کرنسی نوٹ  راتوں رات واپس لے لیے گئے، جس سے ہندوستانی معیشت کو زبردست دھچکا لگا ۔

اس کےسات ماہ بعد، گڈز اینڈ سروسز ٹیکس ( جی ایس ٹی ) کے نفاذ سے معیشت کو دوسرا بڑا جھٹکا لگا ۔ جی ایس ٹی کو لاگو کرنے کے غلط طریقے سے ہندوستان کے مائیکرو ، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (ایم ایس ایم ای) کو شدید نقصان پہنچا ۔ ایم ایس ایم ای صنعتیں ہندوستان میں 10 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہیں اور ملک کی جی ڈی پی میں 30 فیصد کا بیش قیمتی  حصہ ڈالتی ہیں ۔

دو سال بعد، مرکزی حکومت نے مائیکرو ، چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں پر ان دو تباہ کن پالیسیوں کے اثرات کے بارے میں پارلیامنٹ کو گمراہ کیا ۔

حیرت انگیز طور پر ، ریزرو بینک آف انڈیا نے اپنے ہی شائع شدہ نتائج کے خلاف ایک پارلیامانی کمیٹی کے سامنے حکومت کا دفاع کیا۔ اس رپورٹ میں  بات ہوگی کہ کس طرح کم از کم ایک بار سرکار کی  یقین دہانیوں پر پارلیامانی کمیٹی نے حکومت کے جھوٹ کو پکڑا او غلط بیانیہ تشکیل دینے کے لیے اس کی  سرزنش کی۔

اگرچہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی ایسی کمیٹیاں دونوں ایوانوں میں کیے گئے وعدوں پر حکومت کی جوابدہی طےکرتی ہیں ، لیکن اس انویسٹیگیٹو سیریز سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بری طرح ناکام رہی ہیں۔

بڑے فیصلوں کا اثر

وزیر اعظم نریندر مودی نے اچانک نوٹ بندی کا اعلان کیا اور ملک کی بیشتر کرنسیوں کو ‘محض کاغذ کے ٹکڑوں‘ میں تبدیل کر دیا تھا ۔ اس اعلان کے دو سال بعد اور بالواسطہ ٹیکس نظام میں مکمل تبدیلی کے ایک سال بعد ، دسمبر 2018 میں راجیہ سبھا کے ایک رکن نے مرکزی وزارت خزانہ سے پوچھا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں  پر ان اقدامات کا کیا اثر پڑا ہے۔

میگھالیہ کے سابق کانگریس ایم پی وان سُک سیم نے پوچھا ، ‘دو سال کا جائزہ لینے پر  حالیہ رپورٹوں سے اشارہ ملتا ہے کہ مائیکرو اور چھوٹی کاروباری کمپنیاں ابھی بھی نوٹ بندی کے اثرات سے دوچار ہیں اور جی ایس ٹی نظام کی شروعات بھی کافی اتار چڑھاؤ بھری  رہی ہے۔‘

وزارت نے ان کے تمام سوالوں کا رُوکھا سا جواب دیا: ‘جانکاری اکٹھی کی جا رہی ہے۔ ‘

ایم ایس ایم ای پر نوٹ بندی کے اثرات کے بارے میں کانگریس کے اس وقت کے راجیہ سبھا ایم پی وان سُک سیم کی جانب سے پارلیامنٹ میں پوچھا گیاسوال ۔ ماخذ: https://sansad.in

ایم ایس ایم ای پر نوٹ بندی کے اثرات کے بارے میں کانگریس کے اس وقت کے راجیہ سبھا ایم پی وان سُک سیم کی جانب سے پارلیامنٹ میں پوچھا گیاسوال ۔ ماخذ: https://sansad.in

جیسا کہ اس سیریز میں پہلے ذکر کیا گیا ہے ، یہ ان فقروں اور جملوں میں سے ایک ہے جنہیں پارلیامنٹ کوکرائی  گئی یقین دہانی کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔ ایسی کسی بھی یقین دہانی کو تین ماہ کے اندر لاگو کیا جانا چاہیے۔ سرکار کی یقین دہانیوں پر ایک کمیٹی ایسی تمام یقین دہانیوں کی نگرانی کرتی ہے اور ان میں ہونے والی پیش رفت کی  مسلسل جانچ کرتی ہے۔

یہ کمیٹی ایک واچ ڈاگ ہے جو ایوانوں میں کیے گئے وعدوں کا احتساب کرتی ہے۔ اس عمل میں یہ کمیٹی متعلقہ وزارت کے حکام سے مل کر یقین دہانی کی پیش رفت کے بارے میں جانکاری طلب کرتی ہے۔

وزارت کسی بھی یقین دہانی کو پوری طرح سے ترک کر دینے کی درخواست بھی کر سکتی ہے یا مدت میں توسیع کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ کچھ معاملات میں حکومت نے یہ بھی دلیل دی ہے کہ وزیر کا بیان یقین دہانی ہے ہی  نہیں۔

اس سیریز کے پچھلے حصوں میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح پارلیامنٹ میں وزراء کے اعلانات پورے نہ ہونے والے وعدوں میں بدل جاتے ہیں۔ لیکن اس حصے میں ہم دیکھیں گے کہ کمیٹی اور عہدیداروں کے درمیان کس نوعیت کا بحث ومباحثہ ہوا ۔

اس بحث ومباحثہ سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے سچائی کو چھپانے کی کتنی کوشش کی ، لیکن اس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ کس طرح مرکزی حکومت اور ریزرو بینک نے اک ساتھ مل کر کمیٹی کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔

سرکاریں  اور نوکر شاہی پارلیامانی سوالوں کو بہت سنجیدگی سے لیتی ہیں۔ جوابوں کو وزراء خود منظوری دیتے ہیں۔ نوکر شاہی  کا ایک بڑا کمال یہ ہے کہ کس طرح جھوٹ بولے بغیر بہت زیادہ جانکاری دینے سےبچاجائے۔

‘جانکاری جمع کی جا رہی ہیں’ اسی ٹول باکس کاایک جملہ ہے۔

موجودہ معاملے میں، وزارت خزانہ نے ایم ایس ایم ای کمپنیوں کی کارکردگی کا ڈیٹا پارلیامنٹ کو فراہم کرنے میں تاخیر کی۔ 50 کروڑ روپے سے کم سالانہ کمانے والی کمپنیاں ایم ایس ایم ای کے زمرے میں آتی ہیں۔ حکومت تین ماہ کی ڈیڈ لائن میں جواب نہیں دے پائی۔

اس تاخیر کے باعث یقین دہانی کمیٹی نے حکومت کی سخت سرزنش کی۔ لیکن یہ آخری بار نہیں تھا جب کمیٹی نے اس یقین دہانی پر حکومت کی تنقید کی ہو۔ کمیٹی نے مدورائی اور ترواننت پورم کا دورہ کیا اور سرکاری افسران ، آر بی آئی اور بینکوں کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ ایم ایس ایم ای ایسوسی ایشنز سے ملاقات کی۔

کمیٹی جاننا چاہتی تھی کہ حکومت اتنا وقت کیوں لے رہی ہے جب کہ ‘صرف ایک کلک سے یہ معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں’۔

روایتی معیارات کے لحاظ سے یہ کافی سخت  زبان تھی ، خصوصی طور پر اس لیے کہ کمیٹی کی سربراہی اس وقت  کی حکومت کے اتحادی اے آئی اے ڈی ایم کے کے ایک رکن پارلیامنٹ کے پاس  تھی۔

پارلیامانی کمیٹی نے ایم ایس ایم ای پر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے اثرات سے متعلق اعداد و شمار فراہم کرنے میں تاخیر کے لیے حکومت کی سرزنش کی۔ ماخذ: سرکاری یقین دہانیوں پر کمیٹی کی 73ویں رپورٹ۔

پارلیامانی کمیٹی نے ایم ایس ایم ای پر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے اثرات سے متعلق اعداد و شمار فراہم کرنے میں تاخیر کے لیے حکومت کی سرزنش کی۔ ماخذ: سرکاری یقین دہانیوں پر کمیٹی کی 73ویں رپورٹ۔

وزارت خزانہ نے اپنی طرف سے دعویٰ کیا کہ وہ اب بھی آر بی آئی کے ذریعے اس موضوع پر معلومات جمع کر رہی ہے۔ پھر آر بی آئی کی باری تھی، جس  نے دو جملوں میں دو متضاد بیان دیے۔ دونوں حکومت کےدفاع کے لیے تھے۔

پہلے آر بی آئی نے کہا کہ کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ایم ایس ایم ای کمپنیاں متاثر ہوئی تھیں یا نہیں۔


یہ بھی پڑھیں: کیسے اڈانی کے مبینہ گھوٹالوں کی تحقیقات کے سلسلے میں پارلیامنٹ میں کیے گئے وعدوں سے مکرنا سرکار کا شیوہ ہے


میٹنگ کے منٹس کے مطابق ، آر بی آئی نے کمیٹی کو بتایا کہ ‘یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ  جس اثر کا رکن ( کانگریس ایم پی سیم ، جنہوں نے ایم ایس ایم ای پر منفی اثرات کے بارے میں پوچھا تھا) نے اپنے سوال میں ذکر کیا ہے، وہ ڈیمونیٹائزیشن کی وجہ سے تھا یا نہیں ؟‘

اگلے ہی جملے میں آر بی آئی حکام نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس ثبوت ہیں کہ ایم ایس ایم ای کمپنیاں متاثر نہیں ہوئی ہیں۔

میٹنگ کے منٹس کے مطابق ، آر بی آئی نے کہا کہ ‘ ڈیٹا پورے ملک میں اچھی ترقی کو ظاہر کرتا ہے ، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ نوٹ بندی نے ایم ایس ایم ای پر منفی اثر ڈالا ہے ۔’

آر بی آئی کا یہ بیان بینک کے ہی عہدیداروں کی جانب سے ایک سال قبل اگست 2018 میں شائع ہونے والے ایک پیپر میں کہی  گئی بات سے متضاد تھا ۔

اس پیپر  میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھاکہ ‘نوٹ  بندی کی وجہ سے ایم ایس ایم ای سیکٹر کے پہلے سے ہی سست رفتار کریڈیٹ گروتھ میں اور گراوٹ آئی ۔’

یہاں کریڈٹ گروتھ سے مراد وہ رقم ہے جو بینکوں کی طرف سے کاروباری اداروں  کو دی جاتی ہے۔ کریڈٹ کی اعلیٰ سطح کو اقتصادی ماہرین صحت مند معیشت کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ چونکہ یہ دکھاتا ہے  کہ کمپنیوں کے پاس سرمایہ کاری اور اپنے کاروبار کو بڑھانے کی صلاحیت اور رجحان زیادہ ہے۔ کریڈٹ میں گراوٹ  سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمپنیاں بینکوں سے قرض لینے میں احتیاط سے کام لے رہی ہیں۔ سود کے ساتھ قرض کی ادائیگی کے لیے زیادہ  کمائی  کرنے  کی ان کی صلاحیت کے بارے میں خدشات سے یہ خوف پیدا ہوتا ہے۔

آر بی آئی کے پیپر میں بتایا گیا تھا کہ نوٹ بندی کے بعد کے چار مہینوں کے دوران ( پچھلے سال کے مقابلے ) ایم ایس ایم ای کریڈٹ گروتھ منفی تھی ۔

ایم ایس ایم ای سیکٹر کو حال ہی میں دو بڑے جھٹکے لگے ہیں؛ نوٹ بندی اور گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) ۔ مثال کے طور پر ، ٹیکسٹائل- ملبوسات اور جواہرات – جیولری دونوں سیکٹر میں کانٹریکٹ ورکرز کو مبینہ طور پر نقصان کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ کمپنیوں نے ڈیمونیٹائزیشن کے بعد پیسہ دینا  کم کر دیا ،’ پیپر میں  کہا گیا۔

بلاشبہ ، ہمیشہ کی طرح آر بی آئی نے اس پیپر  کو ایک نوٹ  کے ساتھ شائع کیا کہ یہ مصنفین کے خیالات ہیں نہ کہ سینٹرل بینک کے۔اس ترکیب کا استعمال آر بی آئی اور کئی  دوسرے ادارے اکثر کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے، وہ اہم تحقیقی نتائج کو شیئر کر سکتے ہیں ، اور ان نتائج سے پیدا ہونے والے کسی بھی سیاسی طوفان سے بچ  کر نکل سکتے ہیں۔

اس پیپر  کے شائع ہونے کے ایک سال بعد ، آر بی آئی کے اہلکار اب پارلیامانی کمیٹی کے سامنے ایم ایس ایم ای سیکٹر کے مسائل کو نوٹ بندی سے الگ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

تاہم، دلچسپ بات یہ ہے کہ آر بی آئی کے جواب میں ایم ایس ایم ای پر جی ایس ٹی کے اثرات کا کوئی ذکر نہیں تھا ، لیکن مذکورہ پیپر  میں اس کے بارے میں یقینی طو رپر  بات کی گئی تھی۔پیپر  میں، آر بی آئی کے حکام نے پایا تھا کہ جی ایس ٹی کے نفاذ سے کئی مہینوں تک اس طرح کے کاروبار کی برآمدات میں کمی واقع ہوئی۔ ملک کی برآمدات میں ایم ایس ایم ای کی  حصے داری  40 فیصد ہے۔

پارلیامانی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والے آر بی آئی اہلکار نے ان تجاویز کو مسترد کر دیا کہ نوٹ بندی کا ایم ایس ایم ای پر منفی اثر پڑا ہے۔ اسی طرح ، کمیٹی کو اپنے جواب میں، پبلک سیکٹر بینکوں کے نمائندوں نے کسی بھی مستقل نقصان کے الزامات کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے ان فیصلوں سے پیدا ہونے والی مشکلات کو ‘عارضی’ قرار دیا ، اور اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے مارچ 2018 تک ایم ایس ایم ای کمپنیوں کے کریڈٹ گروتھ میں ‘ریکوری’ کی طرف اشارہ کیا ۔

حالانکہ یہ بات درست  تھی، لیکن حکومت تصویر کا ایک ہی رخ دکھا  رہی تھی۔

ایم ایس ایم ای کمپنیوں کے نان پرفارمنگ اثاثوں ( این پی اے ) کی شرح میں اضافہ ہوگیا  تھا۔ این پی اے ایسے قرضوں کو کہا جاتا ہے جن کی ادائیگی ممکن نہ ہو۔ اگست 2018 کے آر بی آئی کے پیپر میں کہا گیا ہے کہ ‘ نجی اور پبلک سیکٹر دونوں بینکوں کے ایم ایس ایم ای سیکٹر سے متعلق این پی اے وقت کے ساتھ بڑھے ہیں ۔’

کریڈٹ انفارمیشن ایجنسی ٹرانس یونین سیبل کا ایم ایس ایم ای اسٹرینتھ انڈیکس مارچ 2018 کی  بیس لائن کی بنیاد پر اس شعبے کی صحت کی پیمائش کرتا ہے ۔ اس کے مطابق، اس شعبے کی صحت دسمبر 2019 تک مسلسل گرتی رہی۔

مارچ 2020 میں کووڈ  19 وبا کی آمد کے ساتھ ایم ایس ایم ای سیکٹر کو ایک اور شدید دھچکا لگا ۔

مائیکرو ،ا سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز (ایم ایس ایم ای) کی وزارت کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ انہوں نے بھی اس سیکٹر پر نوٹ بندی کے اثرات کا اندازہ نہیں لگایا ہے۔

تاہم ، وزارت نے ایم ایس ایم ای ایسوسی ایشنز کے ساتھ اپنی میٹنگوں کا ذکر کیا ، جس میں نوٹ بندی کی مبینہ طور پر تعریف کی گئی تھی ۔

وزارت کے اہلکار کے مطابق ‘ ان تنظیموں نے نوٹ بندی کا خیر مقدم کیا تھا ۔’

سرکاری اعلانات کو قبول کرنے میں احتیاط برتتے ہوئے یقین دہانی کمیٹی نے اس دعوے کا فیکٹ چیک کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ان کا ردعمل جاننے کے لیے تمل ناڈو اور کیرالہ میں چھ مختلف ایم ایس ایم ای ایسوسی ایشنز سے ملاقات کی۔


یہ بھی پڑھیں: خفیہ ایجنسیوں کے مشورے پر مرکزی حکومت نے رائٹ ٹو پرائیویسی بل کو تار تار کر دیا


کیرالہ ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ ایسوسی ایشن کے سربراہ نے کمیٹی کو بتایا ، ‘ کساد بازاری کی وجہ سے ہزاروں ہوٹل بند ہو گئے ۔‘ دریں اثنا ، تمل ناڈو کے سیلم واقع مبنی ایم ایس ایم ای ایسوسی ایشن نے کہا کہ چھوٹے کاروباری اداروں کے پاس پیسے کی اتنی کمی ہوگئی ہے کہ ان کے لیے اپنی ای ایم آئی یا ماہانہ قسطیں ادا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

مدورائی کی ایک ایسوسی ایشن نے کہا کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بعد برآمدات میں بھی کمی آئی ہے۔ یہ حقیقت 2018 کے آر بی آئی پیپر میں بھی سامنے آئی تھی ۔ اسی طرح ، رائس  مل اور لکڑی کے مینوفیکچررز نے نوٹ بندی کے بعد آمدنی میں زبردست کمی کے بارے میں بتایا۔

کمیٹی نے آر بی آئی کے امید افزا نقطہ نظر اور ایم ایس ایم ای کمپنیوں کے تجربات کے درمیان تضادات کو اجاگر کیا۔ میٹنگ کے منٹس کے مطابق ، کمیٹی نے کہا ، ‘ ایم ایس ایم ای سیکٹر کے نمائندوں نے اس کے سامنے پیش ہوکر کہا کہ وہ نوٹ بندی سے حقیقی طور پر متاثر ہوئے ہیں ۔’

ڈیڈ لائن میں کئی بار توسیع کے بعد،  یقین دہانی کو بالآخر مکمل طور پر نافذ سمجھا گیا۔ تاہم،کمیٹی کو دی گئی مخصوص معلومات کی وجہ سے یہ  نتیجہ اخذ ہوا،یہ پتہ نہیں لگایا جا سکتا ۔

پارلیامنٹ میں وزارت خزانہ اور ایم ایس ایم ای وزارت دونوں کو معیشت ، خاص طور پر چھوٹے پیمانے کی صنعتوں پر نوٹ بندی کے اثرات کے حوالے سے مزید سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔

حال ہی میں ، اگست 2023 میں ، دونوں وزارتوں نے واضح کیا کہ ان میں سے کوئی بھی معیشت یا ایم ایس ایم ای پر نوٹ بندی کے اثرات کا اندازہ نہیں لگا رہا ہے۔

کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی انڈیا ریٹنگز اینڈ ریسرچ کے ایک سروے میں پتہ چلا ہے کہ 2015-16 اور 2022-23 کے درمیان 63 لاکھ ایم ایس ایم ای کمپنیاں بند ہوئیں ، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں 1.3 کروڑ نوکریاں چلی گئیں۔ ایجنسی نے اس تباہی کے لیے نوٹ بندی ، جی ایس ٹی اور کووڈ 19 کی وبا کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔

یہ وعدے بھی پورے  نہیں ہوئے

مالی سال کی ری شیڈولنگ

اپنی پہلی مدت کے آغاز میں وزیر اعظم نریندر مودی نے وزارت خزانہ سے ہندوستان کے مالیاتی کیلنڈر کا جائزہ لینے اور اس کا دوبارہ تصور کرنےکوکہا تھا۔ یہ بی جے پی حکومت کی طرف سے مبینہ طور پر ہندوستانی حکومت کو ‘ ڈی کالونائز ‘(نوآبادیاتی جبر سے آزاد) کرنے کی ایک اور کوشش تھی۔

کیلنڈر سال کے برعکس،  مالی سال کا استعمال بجٹ ، اکاؤنٹنگ اور ٹیکس وغیرہ کے لیےکیا جاتا ہے۔ یونین بجٹ آپ کو بتاتا ہے کہ حکومت آئندہ مالی سال کے آخر تک کتنا خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اسی طرح ، کاروباری اداروں کو اسی وقت تک اپنے سالانہ مالیاتی گوشوارے جمع کروانے ہوتے ہیں۔

وزیر اعظم کی تجویز یہ تھی کہ مالیاتی کیلنڈر کو بھی جنوری سے دسمبر  کرنے یا اکتوبر نومبر کے دوران دیوالی سے شروع ہونے پرغور کیا جائے ۔ اس وقت مالی سال اپریل سے شروع ہوتا ہے۔

ان کی تجویز کے بعد، وزارت نے فوری طور پر جولائی 2016 میں ایک ماہرین پر مشتمل ایک  پینل تشکیل دیا ۔ اس پینل کو ملک کے ٹیکس نظام ، کاشتکاری کے موسم اور یونین  بجٹ سے متعلق امور وغیرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے مالی سال کا تعین کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔

سات اپریل ، 2017 کو ، اس وقت کے بی جے پی ایم پی ابھیشیک سنگھ نے وزارت سے پوچھا، ‘زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک سے الگ،  مالی سال اپریل — مارچ کے دوران ہونے سے جو تکلیف ہوتی ہے، کیا وہ  اس سے واقف ہیں ؟ ‘

سنگھ نے یہ بھی پوچھا کہ کیا حکومت مالی سال کو بڑھانے پر غور کرے گی۔ اس وقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے ایوان کو بتایا کہ یہ بہت سے لوگوں کی تجویز ہے ، اور یہ جاننے کے لیے 2016 میں ایک پینل تشکیل دیا گیا تھا کہ یہ کتنا عملی ہوگا ۔

انہوں نے پارلیامنٹ کو کمیٹی کی تجاویز کے بارے میں نہیں بتایا۔ لیکن ان کے جواب نے ایک بحث چھیڑ دی۔

اس وقت کے کانگریس ایم پی کمل ناتھ نے حکومت سے کہا کہ وہ اس ماہر پینل کے نتائج کو شیئر کرے۔ وہ یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ حکومت حتمی فیصلہ کب لے گی۔

جواب میں جیٹلی نے اس معاملے کو ٹال دیا۔ انہوں نے ایوان کو بتایا کہ اس کے لیے’انتہائی وسیع مشاورت اور سوچ بچار کی ضرورت ہے ۔’ انہوں نے کہا کہ حکومت اپنا ذہن بنا رہی ہے اور فیصلہ لینے کے بعد پینل کی سفارشات جاری کی جائیں گی۔

دوسرے لفظوں میں ، ان کا مطلب یہ تھا کہ ماہرین کے پینل کی رپورٹ کو اس کے بعد پبلک کیا جائے گا جب حکومت یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا اس کی سفارشات کو اپنانا ہے یا نہیں۔

وزارت خزانہ نے کمیٹی سے مالی سال تبدیل کرنے کی یقین دہانی ختم کرنے کی درخواست کی۔ ماخذ: حکومتی یقین دہانی کمیٹی کی 69ویں رپورٹ

وزارت خزانہ نے کمیٹی سے مالی سال تبدیل کرنے کی یقین دہانی ختم کرنے کی درخواست کی۔ ماخذ: حکومتی یقین دہانی کمیٹی کی 69ویں رپورٹ

تین سال گزر گئے۔ رپورٹ کو نہ تو پبلک کیا گیا اور نہ ہی پارلیامنٹ میں پیش کیا گیا۔ دسمبر 2021 میں مودی حکومت نے پارلیامانی کمیٹی سے اس یقین دہانی کو ہٹانے کی درخواست کی۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ماہرین کے پینل کے اس معاملے پر غور و خوض کے پانچ سال بعد بھی حکومت اس معاملے پر ‘ غور ‘ کر رہی تھی ۔ حکومت نے کہا کہ اس معاملے میں اتنا لمبا عرصہ لگا کیونکہ اس فیصلے کے ‘معیشت کے تمام شعبوں پر دور رس اثرات ہوں گے ۔’

پارلیامانی کمیٹی نے حکومت کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔ حکومت اب اپنی تیسری مدت میں ہے ، اور یہ یقین دہانی گزشتہ 86 ماہ سے زیر التوا ہے۔

نہیں کھلے گا پنڈورا باکس

پچھلی دہائی کے دوران وقتاً فوقتاً ایسے انکشافات ہوتے رہے ہیں جو امیروں اور طاقتوروں کی ٹیکس چوری کو بے نقاب کرتے ہیں۔ ان انکشافات سے پتہ چلا کہ کس طرح ہندوستان کے امیر ترین لوگوں نے ٹیکس سے بچنے کے لیے اپنی دولت بیرون ملک جمع کر رکھی ہے۔ ان انکشافات سے لوگوں میں غم و غصہ پھیل گیا۔ اس غیر اعلانیہ جائیداد کو کالا دھن مانا جاتا ہے۔

اقتدار میں آنے سے پہلے اور بعد میں نریندر مودی نے بارہا کالے دھن کے خلاف جنگ چھیڑنے کا وعدہ کیا ہے۔

سال 2016 میں پناما پیپرز اور 2017 میں پیراڈائز پیپرز کے بعد، اکتوبر 2021 میں اس طرح کے ایک اور انکشاف کی خبر آئی تھی جسے پنڈورا پیپرز کا نام دیا گیا تھا ۔

سات  دسمبر 2021 کو ان انکشافات نے پارلیامنٹ میں مودی حکومت کو سوالوں کے گھیرے میں لا کھڑا کیا۔

کمیٹی نے حکومتی اعداد و شمار کو یقین دہانی کی تکمیل ماننے سے انکار کر دیا۔ ماخذ: حکومتی یقین دہانیوں پر کمیٹی کی 77ویں رپورٹ

کمیٹی نے حکومتی اعداد و شمار کو یقین دہانی کی تکمیل ماننے سے انکار کر دیا۔ ماخذ: حکومتی یقین دہانیوں پر کمیٹی کی 77ویں رپورٹ

بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ سشیل کمار مودی نے وزارت خزانہ سے پوچھا کہ پناما اور پیراڈائز پیپرز کی تحقیقات کے بعد کتنی غیر اعلانیہ  دولت کا پتہ چلا ہے اور حکومت اس سے کتنی رقم برآمد کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ انہوں نے ہندوستانیوں اور این آر آئیز کی تعداد کے بارے میں بھی پوچھا، جنہیں تازہ ترین پنڈورا پیپرز کے انکشافات کے بعد نوٹس دیا گیا تھا۔

وزارت نے پچھلے انکشافات کے بارے میں کچھ جانکاری دی اور اعتراف کیا کہ پنڈورا لیک میں ہندوستانی شہریوں کے نام بھی تھے۔

حکومت نے ان ناموں کا انکشاف نہیں کیا لیکن پارلیامانی کمیٹی کو بتایا کہ پنڈورا پیپرز میں 200 ہندوستانیوں کے نام تھے۔ وزارت نے تحقیقات کی کوئی تفصیلات بھی نہیں بتائیں۔ ملوث افراد کا نام لیے بغیر بھی پارلیامنٹ کو تحقیقات کی صورتحال سے آگاہ کیا جا سکتا تھا۔ لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا۔

اس پر کمیٹی نے حکومت کو گھیرا۔ دسمبر 2023 میں، اس نے حکومت سے ‘اب تک کی تحقیقات میں ہونے والی پیش رفت کی تفصیلات فراہم کرنے کو کہا’۔ جولائی 2024 میں بھی یہ یقین دہانی التوا میں ہے، جبکہ بیرون ملک سے تمام ‘کالا دھن’ واپس لانے کا وعدہ کرکے آئے وزیر اعظم مودی تیسری بار زمام اقتدار سنبھال رہے ہیں۔

(یہ رپورٹ دی رپورٹرز کلیکٹو  پر شائع ہوئی ہے۔)