کون ہیں جائنٹ کلر انجینئر رشید؟

ان انتخابات نے کم سے کم انجینئر کو دوبارہ زندہ کرکے کشمیر بھر میں ایک مقبول سیاست دان بنا دیا ہے، اور اس پیچیدہ سیاسی صورتحال میں انجینئر کی اس جیت نے جہاں امیدیں جگائی ہیں، وہیں اندیشے بھی پیدا کیے ہیں۔ اگر وہ ایسی تبدیلی لاسکیں، جہاں صاف و شفاف انتظامیہ کے علاوہ وہ نظریات سے بالاتر سبھی جماعتوں کو ایک متوازن سیاسی اور جمہوری فضا میسر کروا پائیں، توان کا آنا مبارک ہے۔

ان انتخابات نے کم سے کم انجینئر کو دوبارہ زندہ کرکے کشمیر بھر میں ایک مقبول سیاست دان بنا دیا ہے، اور اس پیچیدہ سیاسی صورتحال میں انجینئر کی اس جیت نے جہاں امیدیں جگائی ہیں، وہیں اندیشے بھی پیدا کیے ہیں۔ اگر وہ ایسی تبدیلی لاسکیں، جہاں صاف و شفاف انتظامیہ کے علاوہ وہ نظریات سے بالاتر سبھی جماعتوں کو ایک متوازن سیاسی اور جمہوری فضا میسر کروا پائیں، توان کا آنا مبارک ہے۔

انجینئر رشید

انجینئر رشید

حال ہی میں اختتام پذیر ہندوستان کے عام انتخابات میں اگر کوئی بڑا الٹ پھیر ہوا، تو وہ وادی کشمیر کے بارہمولہ—کپواڑہ کے حلقہ سے دہلی کے تہاڑ جیل میں پچھلے پانچ سالوں سے محبوس عبدالرشید شیخ المعروف انجینئر رشید کی کامیابی تھی، جس نے نہ صرف سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بلکہ پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون کو بھی ہرایا، جن کے متعلق عام تھا کہ ان کو نئی دہلی کی پشت پناہی حاصل ہے۔

ویسے ان انتخابات میں ایک اور الٹ پھیر بھی ہوتے ہوتے رہ گیا، وہ اتر پردیش کی وارانسی کی سیٹ سے وزیر اعظم نریندر مودی کا نتیجہ تھا، جو کافی جدو جہد کے بعد کانگریس کے امیدوار اجئے رائے سے معمولی فرق سے جیت گئے۔

پیشے سے انجینئر رشید سے میری ملاقات کالج کے دنوں سے ہے۔ پورے شمالی کشمیر میں 90کی دہائی کے اوائل تک دو ہی ڈگری کالج سوپور اور بارہمولہ قصبہ میں واقع تھے۔ اس لیے گریز، کرنا، لولاب یعنی دور دراز علاقوں سے طالبعلم کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان قصبوں کا رخ کرتے تھے۔

رشید نے بھی لنگیٹ، ہندواڑہ سے اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سوپور کالج میں داخلہ لیا تھا۔ جب میں کالج پہنچا، تو میرے اسکول کے تقریباً سبھی ساتھی میڈیکل یا انجینئرنگ کے شعبوں میں ایڈمیشن کی وجہ سے سرینگر یا  ہندوستان کے دیگر شہروں میں منتقل ہو گئے تھے۔ چونکہ رشید ہاسٹل کے بجائے ہمارے ہی محلے میں اپنے رشتہ دار کے ہاں مقیم تھا، اس لیے کالج کا ساتھی ملنے کی وجہ سے میرا اکیلاپن جلد ہی دور ہو گیا۔

وہ عبدالغنی لون کا نہ صرف سیاسی بلکہ ان کے، ان دنوں کے بائیں بازو کے نظریات کا بھی انتہائی معتقد تھا۔ اس لیے سوپور میں چونکہ جماعت اسلامی نظریاتی طور پر حاوی تھی، اس کا ساتھیوں کے ساتھ خاصا بحث و مباحثہ ہوتا تھا۔ مگر اس کی بحث و دلائل دینے کی لامتناہی برداشت اس کے وسیع مطالعہ اور ضدی طبیعت کو ظاہر کرتی تھی۔

خیر گریجویشن کے بعد میں جرنلز م کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے دہلی آگیا، کشمیر میں عسکری تحریک شروع ہو گئی اور ایک انارکی کی صورت حال کی وجہ سے سبھی تعلقات منقطع ہوگئے۔ مجھے معلوم بھی نہیں تھا کہ گریجویشن کے بعد اس نے سرینگر میں پالی ٹیکنک کالج میں داخلہ لیا ہے۔

ان دنوں سرینگر سے طاہر محی الدین کی ادارت میں ہفتہ وار چٹان خاصا مقبول اخبار تھا، جس کے اداریہ، تحقیقاتی رپورٹیں اور تجزیاتی کالم کشمیری صحافت کی جان ہوتے تھے۔ ان میں انجینئر رشید کے قلم سے نہایت ہی پرمغز تجزیاتی کالم شائع ہوتے تھے۔

ہندوستان—پاکستان اور کشمیر معاملات میں ایک طرح سے حرف آخر اے جی نورانی بھی ان کالمز سے استفادہ کرتے تھے اور فرنٹ لائن اور دیگر تحقیقی مقالوں میں اس کا حوالہ بھی دیتے تھے۔ چونکہ ان کو اردو پڑھنے میں دقت ہوتی تھی، وہ ممبئی سے جب دہلی آتے تھے، تو چٹان (جو ان کے پاس بذریعہ ڈاک آتا تھا) میں انجینئر رشید کے تجزیاتی کالمز مجھے ترجمہ کرنے کے لیے دیتے تھے یا کسی وقت اپنے سامنے ہی پڑھنے کو کہتے تھے، اور نوٹس لیتے تھے۔

میرے ذہن میں تو کالج کے رشید کی شبہہ دھندلی ہو چکی تھی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ انجینئر رشید کے نام سے وہی شخص چٹان کا کالم نگار ہے۔ ایک دہائی یا اس سے بھی زیادہ جب ایک روز میں سرینگر میں طاہر محی الدین سے ملنے چٹان کے دفتر گیا، تو انہوں نے کمرے میں موجود انجینئر رشید کا تعارف کرایا۔ تب معلوم ہوا کہ شیخ رشید ہی انجینئر رشید ہے۔

انجینئرنگ کی ڈگری لینے کے بعد وہ جموں کشمیر پروجکٹس کنسٹرکشن کارپوریشن (جے کے پی سی سی) میں سول انجینئر ہے۔

اس کی نوکری ملنے کا قصہ بھی کچھ کم دلچسپ نہیں تھا۔ کچھ عرصہ بیکار رہنے کے بعد اس کے علاقہ میں جے کے پی سی سی کسی نالے پر ایک چھوٹا سا پل بنا رہی تھی اور اس کو عارضی طور پر سپروائزر  بنایا گیا تھا۔ ایک روز کسی عسکری تنظیم سے تعلق رکھنے والے بندوق بردار وں نے چند سیمنٹ کی بوریاں ان کے حوالے کرنا کا مطالبہ کیا۔ اس نے ان کو مہینے کے آخری دن آنے کے لیے کہا، تاکہ جب اس کو مشاہرہ ملے گا، تو وہ سیمنٹ کی بوریوں کے بدلے ان کو نقد میں ادائیگی کرےگا۔

وہ پہلے سمجھے یہ کوئی دیوانہ ہے۔ مگرجب اس نے ان کو سنجیدگی کے ساتھ کہا کہ وہ امانت میں خیانت کا مرتکب نہیں ہوسکتا ہے، کیونکہ سیمنٹ کی یہ بوریاں حکومت کی اور عوام کی ہیں، تو انہوں نے اس کو اغوا کیا اور پھر کئی روز بعد کسی نالے کے کنارے ہی اس کو نیم مردہ چھوڑ دیا تھا۔

اس کے بازو اور ٹانگوں کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اس دوران سپروائزر کی عدم موجودگی کی وجہ سے پل پر کام رک گیا، جس کی شکایت سرینگر میں جے کے پی سی سی کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے پاس پہنچی۔ جب اس کو معلوم ہو اکہ کسی عارضی سپروائزر نے سرکاری سیمنٹ کی بوریوں کی خاطر اپنی ہڈیاں تڑوائی ہیں، تو اس کے ضمیر نے اس کو سیدھا اسپتال پہنچا دیا۔

جہاں اس نے پہلے تو اس واقعہ کی تصدیق کی،پھر رشید کو کہا کہ ٹھیک ہونے کے بعد اس کے دفتر میں آکر اپنی سرٹیفیکٹ وغیرہ جمع کرواکے تقرری کا پروانہ لے کرجائے۔ اس کو ٹھیک ہونے میں چھ ماہ  لگے۔

اسی دوران 2008 میں امرناتھ زمین قضیہ کو لے کر کشمیر میں محشر برپا ہوگیا تھا۔ اس کے فوراً بعد دسمبر میں اسمبلی انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہو گیا۔ سجاد غنی لون، جو پہلے ان انتخابات کو لڑنے کے لیے پر تول رہے تھے، نے بعد میں حریت کا ہی ساتھ دے کر بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ انجینئر لنگیٹ سے انتخابات لڑنے کا من بنا چکے تھے۔ سجاد نے ان کو باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ اس علاقہ میں سیکورٹی فورسزاور سرکاری بندوق برداروں نے ان کا ناطقہ بند کرکے رکھا ہوا ہے۔

الیکشن میں حصہ لینے سے ان کو سرکاری تحفظ کے علاوہ سرینگر میں رہائش ملے گی۔جب انہوں نے اسمبلی الیکشن لڑنے کے لیے اپنی نوکری چھوڑی تو ان کے پاس انتخابی مہم کے لیے صرف 17 دن باقی تھے۔  اس حلقہ سے انتہائی زیرک سیاسی لیڈران پی ڈی پی کے محمد سلطان پنڈت پوری اور نیشنل کانفرنس کے شریف الدین شارق انتخاب لڑ رہے تھے۔

سال 2005 میں، رشید کو اسپیشل آپریشن گروپ نے عسکریت پسندوں کی حمایت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور اس کے بعد تین ماہ اور 17 دن کے لیے جیل بھیج دیا۔

انہیں کارگو، ہمہامہ اور راج باغ کے انٹروگیشن سینٹر میں خاصی اذیتیں دی گئی تھیں۔

بعد ازاں مجسٹریٹ نے ان کے خلاف تمام الزامات کو خارج کر دیا۔بعد میں سرکاری بندوق برداروں کے ایک گروپ نے ان کوحراست میں لیا اور پانچ ماہ کے بعد تاوان ادا کرنے کے بعد رہا کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے ان کے والد کو کو گائے، بکری اور جائیداد بیچنی پڑی۔

 جب ان انتخابات کے نتیجے آگئے، تو انجینئر رشید نے پنڈت پوری کو 211 ووٹوں سے پچھاڑ دیاتھا، شارق تو تیسرے نمبر پر کافی پیچھے تھے۔ میرا خیا ل تھا کہ یہ ایک بار کی چمک تھی، بار بار کاٹھ کی ہنڈیاں تو نہیں چڑھتی ہیں۔ مگر اس دوران اس نے سیاست کو خاصی سنجیدگی سے لے کر علاقے میں نوجوانوں کا ایک نیٹ ورک بنادیا۔

اس علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ فوج کی طرف سے باشندوں کو جبری بیگار کے لیے لے  جانے کا تھا۔ ا س کے خلاف 1990ء سے 2003ء انہوں نے کئی بار قانونی جنگ لڑنے کی کوشش کی تھی۔ خود ان کے مطابق لنگیٹ کے ہر گاؤں سے چار سے آٹھ افراد پر مشتمل مختلف قافلے صبح سویرے تین بجے ہی ہاتھوں میں لالٹین لے کر 18 کلو میٹر لمبی سڑک پر اپنے اپنے گاؤں کے مقررہ مقام پر جمع ہوجاتے تھے۔

اس قافلے کا انتخاب بدنصیب گاؤں والے یوں کیا کرتے تھے کہ گاؤں کے ایک سرے سے شروع کرکے ہر گھر سے ایک فرد کو اپنی باری پر حاضر ہوناپڑتاتھا۔ گاؤں جس قدر بڑا یا چھوٹا ہو تا تھا اسی قدر دیہی باشندوں کی باری جلدی یا بدیر سے آیا کرتی تھی۔اس کا نام ‘کانوائے ڈیوٹی’رکھا گیا تھا۔

پروگرام کے مطابق رات یا صبح کے تین بجے پہلے سے مقررہ مختلف مقامات پر برلب سڑک لگ بھگ 200 افراد ایک ہاتھ میں لمبا ڈنڈا اور دوسرے ہاتھ میں لالٹین لے کر فوجی پارٹی کا انتظار کرتے تھے۔ جوں ہی فوجی پارٹیاں مرٹ گام، قلم آباد، ھرل، کوٹلری، چھوٹی پورہ اور لنگیٹ کے کیمپوں سے متعلقہ گاؤں کی ٹولی کے نزدیک لگ بھگ 300 فٹ کی دوری پر محوسفر ہوتی تھیں تو قافلے کو کوئی فوجی جوان زور سے حکم دیتا تھاکہ وہ بندروں کی طرح ہوا میں کئی چھلانگیں ماریں تاکہ وردی پوشوں کو یہ اطمینان حاصل رہے کہ قافلہ ’کانوائے ڈیوٹی‘ دینے والوں کا گروپ ہے اور یہ کہ ان کے پاس کوئی ہتھیار وغیرہ نہیں ہے۔

 چند چھلانگیں مارنے کے بعد جب فوجی جوان مطمئن ہوتے تھے کہ اچھل کود کرنے والے گاؤں والے ہیں، تو ان کو فوجی پارٹی کے آگے آگے جان ہتھیلی میں لے کر چلنے کا حکم دیا جاتا تھا۔ سڑک کے دونوں طرف گندی نالی ہو یا کوئی کھیت کھلیان، جنگل ہو یا قبرستان، باریک بینی سے اس بات کا پتہ لگانا پڑتا تھا کہ کہیں جنگجوؤں نے بارودی سرنگ تو بچھا کے نہ رکھی ہے۔

یہ سلسلہ لگ بھگ 20 دیہی بستی سے ہوتا ہوا علاقے کے آخری گاؤں تک جاملتا تھا۔ لگ بھگ صبح 9بجے تک ہر گاؤں کے عارضی فوجی پوسٹ پر فوجی جمعیت پہنچ جاتی تھی۔ اس کے بعد اگر متعلقہ ذمہ دارفوجی افسر کا موڈ ٹھیک ہوتا اور گرد ونوا ح میں جنگجوؤں کی موجودگی کا خطرہ بھی نہ ہوتا تو بیگار پر گئے بدنصیب دیہاتیوں کو صبح کا ناشتہ کرنے کے لیے لگ بھگ آدھے گھنٹے کے لیے گھرجانے کی اجازت ملتی تھی، اس کے بعد متعلقہ کیمپ میں جاکر اپنے اپنے شناختی کارڈ جمع کروانے ہوتے تھے۔

وہاں کوئی حوالداران کو مختلف ٹکریوں میں بانٹ کر مختلف کام انجام دینے کے لیے ڈیپوٹ کردیتاتھا۔ شامت تب آتی تھی جب کبھی سرینگر سے نوگام کی کانوائی راستے میں کسی حادثے یا جنگجوؤں کے حملے کی وجہ سے رات کے دویا تین بجے تک بھی نمودار نہ ہوجاتی تھی اور ان کا انتظار کر رہے یہ دیہاتی اللہ سے جنت مانگتے تھے اور نہ جہنم سے خلاصی کی دعا کرتے بلکہ فکریہ لاحق ہوتی تھی کہ کسی طرح کانوائے صحیح سلامت اپنی منزل مقصود کوپہنچ جائے۔پھر اگر بانہال سے لے کر ہندوارہ تک کسی جگہ کانوائے کے اوپر کوئی معمولی سا بھی پتھر پھینکا جاتا تھا تو نزلہ ان پر گرایا جاتا تھا۔

قانون ساز اسمبلی کا ممبر بننے کے بعد اپنی اسی ضدی طبیعت کی وجہ سے جب انجینئر نے روز ہی پر امن طور پر فوجی کیمپ کے باہر دھرنے دینے شروع کیے اور کبھی سرینگر میں، تو کبھی بارہمولہ میں اور اس جبری مزدوری کی کہانیاں میڈیا میں بھی چھپنے لگیں، تو اس کو موقوف کرادیاگیا۔ یہ اس علاقے کے مکینوں کے لیے ایک بڑی راحت تھی۔کپواڑہ یا دیگر کسی بھی علاقے کا کوئی بھی اسمبلی ممبر اس قدر رعایت اپنے ووٹروں کو دینے میں ناکام رہے تھے۔

اس میں کامیابی کے بعد اس نے اپنا رخ علاقے میں کورپشن کو ختم کرنے کے لیے موڑا۔لوگوں کو تاکید کی گی تھی، کہ جب بھی کوئی سرکاری اہلکار پیسے کے بدلے کام کرنے پر اصرار کرے، تو فوراً انجینئرکو فون پر مطلع کرے۔ اس کے لیے اس نے باضابطہ ایک گروپ بنایا ہوا تھا۔  منفرد انداز کے حامل، اکثر وہ اپنے حلقے کے دور دراز دیہاتوں کا سفر کرتے  تھے۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف وہ احتجاج کی قیادت کرتے تھے۔ تعمیراتی کاموں کے مقامات کا دورہ کرکے ان کو مکمل کرنے تک انتظامیہ کو پاؤں پر کھڑا رکھتے تھے۔

عوامی نمائندے کے عہدے کو انہوں نے ایک نئی تعریف دی۔ اس لیے 2010 اور پھر 2016 میں کشمیر میں ایک بار پھر انتفادہ برپا تھا، لنگیٹ ایک پر امن جزیرہ کی مانند تھا، جہاں رشید کی ہی قیادت میں لوگوں نے یکجہتی کے لیے جلسے جلوس تو نکالے، مگر اس علاقہ پر امن رہا۔

اس کا کریڈیٹ سیکورٹی فورسز اور حکومت دونوں رشید کو دیتی تھیں۔ شاید کم ہی افراد کو معلوم ہوگا کہ 2012 میں جب  دہلی میں عام آدمی پارٹی کی بنیاد ڈالی گئی، تو اس کے کئی لیڈران نے اس کا خاکہ رشید کے حلقہ لنگیٹ پر تیارہی کیا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ دہلی کے سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا اور سومناتھ بھارتی نے رشید کے سیاسی ماڈل کو سمجھنے کے لیے کئی بار کئی دنوں تک لنگیٹ کے دیہاتوں کا دورہ کیا۔اسی کارکردگی کی وجہ سے وہ دوبارہ 2014 میں اسمبلی کے لیے منتخب ہوگئے۔

اسکرین شاٹ، بہ شکریہ الیکشن کمیشن

اسکرین شاٹ، بہ شکریہ الیکشن کمیشن

خیر اس بار شمالی کشمیر کے 18 اسمبلی حلقوں میں 14 میں انجینئر نے واضح برتری حاصل کی ہے، اس لیے اب تمام نگاہیں اسی سال ہونے والے اسمبلی انتخابات پر ہے۔ نئی حد بندی کی وجہ سے اب جموں و کشمیر اسمبلی میں کل نشستوں کی تعداد نوے ہے۔

عمر اور سجاد کے برعکس، جیل میں بند انجینئر کے بیٹے 23 سالہ ابرار رشید نے ایک مختصر مہم کی قیادت کی۔ اس کی ایک سادہ سی التجا تھی کہ اگر آپ میرے والد کو ووٹ دے سکتے ہیں جو دو بار اسمبلی میں عوام کی نمائندگی کر چکے ہیں تو وہ جیل سے باہر آسکتے ہیں۔ انتخابی مہم کے لیے لوگوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے اخراجات کے ذریعے ہر چیز کا انتظام کیا۔ جہاں آجکل کروڑوں روپے انتخابی مہم پر خرچ ہوتے ہیں، ان کی پارٹی کے افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے پوری مہم پر صرف 27  ہزار روپے خرچ کیے، جس سے ایک گاڑی کا پٹرول خریدا گیا۔

باقی خرچ لوگوں نے خود اٹھائے۔ اس انتخاب کو لے کرآنجہانی جارج فرنانڈیز یاد آتے ہیں۔بطور ٹریڈ یونین لیڈر اپنے پہلے انتخاب میں انہوں نے 1967 میں ممبئی میں بس دس ہزارروپے  کے فنڈسے کانگریس کے ایک قد آور لیڈر ایس کے پاٹل کر ہرایاتھا۔

تمام جماعتیں انجینئر کو بھول چکی تھیں۔ اس کی گرفتار ی کے خلاف کوئی آواز ہی نہیں اٹھاتا تھا۔ قومی تفتیشی ایجنسی یعنی این آئی کے مطابق رشید کو منی لانڈرنگ کے کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ مگر پانچ سالوں سے کیس کی ٹرائل ہی نہیں ہو رہی ہے۔

ویسے پارلیامانی نظام تو جنوبی ایشیاء نے اپنایا ہے، مگر امیدوار انتخابات لڑنے کے لیے خرچہ کہاں سے لائیں گے، اس پر کسی نے غور نہیں کیا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو کارپوریٹ ادارے پیسہ دیتے ہیں۔ اسی طرح ان کو بھی انتحابی مہم کے لیے ایک کاروباری شخصیت نے چندہ دیا تھا، جس نے دوسری جماعتوں کو بھی پیسہ دیے تھے، جو اب زیر عتاب ہیں۔ اب اس چندہ کی وجہ سے وہ معتبوب ہو گئے ہیں۔

ان انتخابات نے کم سے کم انجینئر کو دوبارہ زندہ کرکے کشمیر بھر میں ایک مقبول سیاست دان بنا دیا ہے۔

سال 1971میں کشمیریوں نے اسی طرح سرینگر حلقہ سے صحافی و ادیب شمیم احمد شمیم کی حمایت کی۔ جس نے اس وقت کے ایک بت سابق وزیر اعظم بخشی غلام محمد کو پاش پاش کرکے ایک تاریخ رقم کی تھی۔ مگر رشید کے برعکس وہ اس حلقہ پر اپنا عکس برقرار نہیں رکھ سکے۔ وہ جیت کے لیے بھی شیخ عبداللہ کے مرہون منت تھے۔ گو کہ پارلیامنٹ کے اندر ان کی کارکردگی سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے، مگر وہ عوامی مقبولیت حاصل نہیں کرسکے۔

کشمیر  کے آخری تاجدار یوسف شاہ چک کو جب مغل حکمرانوں نے پانچ صدی قبل قید اور بعد میں بسواک (بہار) جلاوطن کیا، محکوم و مجبورکشمیری قوم تب سے ہی کسی ایسی ہستی کی تلاش میں ہے، جو ان کو بیدردی ایًام سے نجات دلاسکے۔ کشمیر کی آخری ملکہ حبہ خاتون (زون) کی دلدوز شاعری، جس میں دہلی کے حکمرانوں کی بد عہدی اور اپنے محبوب (یوسف شاہ) کی مصیبتوں کی داستان درج ہے، کشمیری لوک ریت کا ایک جزو ہے۔اس مدت کے دوران اس مقہور قوم نے کئی ہستیوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا، مگر کچھ عرصہ کے بعد انکو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ غالب کا یہ شعر اس قوم پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے؛

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیزرو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں

سال 1930ء کی دہائی میں شیخ عبداللہ نے جب سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر ڈوگرہ حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو کشمیر قوم نے انکو سر آنکھوں پر بٹھایا۔کئی سال قبل جب کشمیر کے ایک معروف بیورکریٹ شاہ فیصل نے نوکری سے استعفیٰ دیکر سیاست کی پرخار وادی میں قدم رکھا۔تو ان کو سر پر بٹھایا۔ مگر وہ جلد ہی اس راہ سے فرار ہوگئے۔

اس پیچیدہ سیاسی صورت حال میں انجینئر کی اس جیت نے جہاں امیدیں جگائی ہیں، وہیں اندیشے بھی پیدا کیے ہیں۔اگر وہ ایسی تبدیلی لاسکیں، جہاں صاف و شفاف انتظامیہ کے علاوہ وہ نظریات سے بالاتر سبھی جماعتوں کو ایک متوازن سیاسی اور جمہوری فضا میسر کرواپائیں، توان کا آنا مبارک ہے۔ مگر یہ بھی یاد رہے کہ کشمیر عزت و وقار کا ایک قبرستان بھی ہے۔

شیر کشمیر کہلانے والے قد آور لیڈر کا حال یہ ہے کہ کشمیر یونیورسٹی کے نسیم باغ کیمپس کے بالمقابل ان کی آخری آرام گاہ پر سکیورٹی دستوں کا سخت پہرہ لگا ہوا ہے، تاآنکہ کوئی سرپھرا ہجوم اس کو نقصان پہنچا کر بے حرمتی کا مرتکب نہ ہو۔

ان حالات میں کیا  انجینئر رشید کشمیری قوم کی کشتی کو بھنور سے نکالنے کی سعی کریں گے یا شیخ عبد اللہ کی طرح اس کو مزید تند لہروں کے حوالے کریں گے؟ عوامی جلسوں میں شیخ عبدللہ لحن داؤدی میں اکثر اقبال کی مشہور نظم کے دو بند؛

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

پڑھ کر عوام پر وجد طاری کرتے تھے۔کیا انجینئرا قبال کے اس شعر کی عملی تفسیر بن کر اس خطے کو اْس منجھدار سے نکالنے کی کوشش کریں گی جس میں عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے پھنسے ہوئے ہیں۔ نہ صرف بدنصیب کشمیری قوم، بلکہ پورا جنوبی ایشیا ان کا ممنون احسان رہےگا۔

کشمیر میں عوام کا پچھلے انتخابات کے برعکس اس وقت بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کو ایک تاریخی واقعہ کے بطور پیش کیا جا رہا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ انتخابات میں ٹرن آؤٹ جمہوریت پر اعتماد کا اظہار ہے کیونکہ لوگوں نے بغیر کسی خوف کے اپنے آئینی حق کا استعمال کیا۔

سوال ہے کہ کیا جمہوری عمل صرف ووٹنگ میں حصہ لینا ہی ہے۔ ووٹنگ کے بعد اصل جمہوریت کا امتحان ہوتا ہے۔ امید ہے کہ ووٹنگ میں حصہ لینے کے بعد اور جمہوری عمل کا حصہ بننے کے بعد عوام کو اس کے بدلے جمہوری مراعات دیکر قد غنیں اٹھائیں جائیں گی اور تھوڑا سا آکسیجن فراہم کرایا جائے گا۔

یہ وقت ہی بتاپائے گا، کیا واقعی جمہوری عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔  ابھی فی الحال انجینئر رشید سمیت قیدیوں کی رہائی کا انتظار ہے۔

یہ مضمون 12 جون 2024 کو شائع کیا گیا تھا۔

Next Article

جموں و کشمیر: پاکستان ڈی پورٹ کی گئی خاتون کو واپس لانے کے عدالتی حکم کے خلاف وزارت داخلہ کی اپیل

مرکزی وزارت داخلہ نے جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی ہے، جس میں 62 سالہ خاتون کی واپسی کا حکم دیا گیا تھا۔خاتون کو  پہلگام حملے کے بعد پاکستان بھیج دیا گیا تھا، جبکہ وہ تقریباً چار دہائیوں سے لانگ-ٹرم ویزا پر ہندوستان میں رہ رہی تھیں۔

علامتی تصویر، بہ شکریہ: ایکس / کشمیر پولیس

نئی دہلی: مرکزی وزارت داخلہ (ایم ایچ اے) نے جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کے اس حکم کے خلاف اپیل کی ہے، جس میں 62 سالہ رخشندہ راشد کی واپسی کا حکم دیا گیا تھا ۔ رخشندہ کو پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد پاکستان بھیج دیا گیا تھا، جبکہ وہ تقریباً چار دہائیوں سے لانگ-ٹرم ویزا(ایم ٹی وی)پر ہندوستان میں رہ رہی تھیں۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، وزارت داخلہ نے جسٹس راہل بھارتی کے 6 جون کے حکم کے خلاف ہائی کورٹ بنچ کے سامنے لیٹرز پیٹنٹ اپیل دائر کی، جس میں مرکزی ہوم سکریٹری کو راشد کو دس دنوں کے اندر ہندوستان  واپس لانے کی ہدایت کی گئی  تھی۔

منگل کو جج نے وزارت داخلہ سے تعمیلی رپورٹ  طلب کی اور وزارت کو اس معاملے پر اپنا جواب داخل کرنے کے لیے دس دن کا اضافی وقت دیا۔

خاتون کے وکیل انکور شرما نے اخبار کو بتایا کہ جج نے وزارت داخلہ سے تعمیل پر اصرار کیا، انہوں نے مزید کہا کہ اپیل دائر ہونے کے باوجود ابھی تک حکم پر کوئی روک نہیں ہے۔ اپیل کی سماعت بدھ کو چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ کرے گا۔

وزارت داخلہ نے کہا کہ 29 اپریل کو ملک بدری کے وقت ایل ٹی وی موجود نہیں تھا۔دوسری جانب راشد نے اپنی درخواست میں کہا تھاکہ انہوں نے جنوری میں ایل ٹی وی کی تجدید کے لیے درخواست دی تھی اور درخواست کبھی مسترد نہیں کی گئی۔

لانگ-ٹرم ویزا ہولڈر

گزشتہ 22اپریل کو پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے بعد – جس میں 26 لوگ مارے گئے تھے، وزارت داخلہ نے تمام پاکستانی شہریوں کے ویزے رد کر دیے اور انہیں 29 اپریل تک ملک چھوڑنے کو کہا۔

اس فیصلےمیں طویل مدتی ویزا رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ ہندوستانی شہریوں سے شادی شدہ پاکستانی خواتین کو بھی استثنیٰ دیا گیا تھا ۔

راشد دونوں زمروں میں آتی ہیں، پاکستانی شہری ہونے کے ناطے، ایک ہندوستانی سے شادی شدہ، لانگ-ٹرم ویزا پر جموں میں گزشتہ 38 سالوں سے مقیم ہیں، جس کی ہر سال تجدید کی جاتی ہے۔

انہوں نے 1996 میں ہندوستانی شہریت کے لیے درخواست دی تھی، لیکن اس درخواست پر ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔

حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا

راشد کی بیٹی فاطمہ شیخ نے کہا کہ ان کی والدہ کو 29 اپریل کو پولیس نے حقائق کو توڑ مروڑ کرہندوستان سے باہر نکال دیا۔

شیخ نے کہا، ‘ہمیں پہلگام دہشت گردانہ حملے سے دکھ ہوا ہے، لیکن میری والدہ کو کس بنیاد پر ہندوستان سے ڈی پورٹ کیا گیا؟ ہم نے جنوری میں طویل مدتی ویزا میں توسیع کے لیے درخواست دی تھی، پھر بھی پولیس کی جانب سے ‘ہندوستان چھوڑو’ نوٹس میں کہا گیا کہ ہم نے 8 مارچ کو درخواست دی تھی۔ 26 اپریل کو مجھے ایف آر آر او سے ای میل موصول ہوا کہ درخواست پر کارروائی کی جا رہی ہے،پھر بھی انہیں  29 اپریل کو ڈی پورٹ کیا گیا۔’

انہوں نےبتایا، ‘پھر 9 مئی کو مجھے دوبارہ ایک ای میل موصول ہوا کہ درخواست کو منظوری کے لیے اعلیٰ حکام کو بھیج دیا گیا ہے۔’

جلدبازی میں کارروائی

ان کی بیٹی نے بتایا کہ پولیس اہلکار صبح 7 بجے ان کے گھر کے باہر آئے اور راشد کو پنجاب کے اٹاری سرحدی چوکی پر لے گئے، جہاں سے انہیں ملک بدر کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا، ‘انہوں نے ہمیں اپنے وکیلوں سے بات بھی نہیں کرنے دی۔ وہ انہیں ملک بدر کرنے کی اتنی جلدی میں تھے۔ وہ ساری زندگی جموں میں رہی ہیں۔ وہ پاکستان میں کیسے زندہ رہے گی؟ وہاں مہنگائی بہت ہے، وہاں اس کا کوئی نہیں ہے۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی والدہ کا پاکستان میں کوئی رشتہ دار نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے تین ماہ سے وہ ایک چھوٹے سے ہوٹل میں اکیلی رہ رہی ہے اور ان کے پاس زیادہ پیسے نہیں ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ 6 جون کو جسٹس راہل بھارتی نے مرکزی ہوم سکریٹری کو کیس کے حقائق اور حالات کی غیر معمولی نوعیت کو دیکھتے ہوئے درخواست گزار کو پاکستان سے واپس لانے کا حکم دیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘انسانی حقوق انسانی زندگی کا سب سے مقدس حصہ ہیں اور اس لیے ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب آئینی عدالت کو کسی کیس کی میرٹ سے قطع نظر ایس او ایس جیسی رعایت دینا پڑتی ہے، جس پر وقت رہتے فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔’

Next Article

ایلون مسک اور امبانی کو سیٹلائٹ اسپیکٹرم: خدشات اور خطرات

ہندوستانی حکومت نے ایلون مسک کی اسٹارلنک اور امبانی کی جیو سمیت کچھ کمپنیوں کو سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس کی منظوری  دے  دی ہے، لیکن نیلامی کے بغیر ہوئے اس مختص  پر سوال اٹھائے جا رہے  ہیں۔ کیایہ الاٹمنٹ شفاف ہے؟ کیا اس سے قومی مفاد کو خطرہ ہے اور معاشی نقصان کا اندیشہ ہے؟

ایلون مسک اور امبانی کی کمپنیوں کو ہوئے سیٹلائٹ مختص سے  کئی سوال پیدا ہو رہے ہیں۔ | (بائیں سے) مکیش امبانی اور ایلون مسک، پس منظر میں اسٹارلنک سیٹلائٹ۔ (تصویر بہ شکریہ: ریلائنس/وکی پیڈیا اور برٹانیکا)

قومی سلامتی کو خطرہ ۔ معاشی نقصان کا اندیشہ۔ حکومت کے فیصلے میں شفافیت کا فقدان۔

یہ چند سوالات ہیں جو حکومت ہند کی جانب سے ایلون مسک کی کمپنی اسٹار لنک اور مکیش امبانی کی کمپنی جیو سمیت متعدد کمپنیوں کو سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کی باضابطہ منظوری کے بعد اٹھ رہے ہیں ۔ مرکزی حکومت نے ابھی تک یہ عام نہیں کیا ہے کہ کس بنیاد پر اور کن شرائط کے تحت اور کس شرح پر ان کمپنیوں کو لائسنس دیے گئے ہیں۔

این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے انڈین نیشنل اسپیس پروموشن اینڈ آتھرائزیشن سینٹر کے چیئرمین ڈاکٹر پون گوینکانے تصدیق کی کہ اسٹار لنک کے لیے زیادہ تر رسمی کارروائیاں مکمل کر لی گئی ہیں۔

ہندوستان جیسے وسیع ملک میں پہاڑی یا دور دراز کے علاقوں میں سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس یک انقلابی حل بن سکتی ہے۔ دنیا بھر میں اس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اکیلےا سٹار لنک   100 سے زیادہ ممالک کو سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس فراہم کر رہا ہے۔ لیکن ہندوستانی حکومت نے جس طرح سے کچھ کمپنیوں کو اس سروس کی منظوری دی ہے اس سے کئی سنگین سوال پیدا ہوتے ہیں۔

سب سے پہلا، مودی حکومت نے ان کمپنیوں کو لائسنس نیلامی کے عمل کے ذریعے نہیں، بلکہ محض ایک ایڈمنسٹریٹو آرڈر کے ذریعے  دیا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ عمل کتنا شفاف تھا کیونکہ حکومت کی طرف سے اس کی تفصیلات عام نہیں کی گئی ہیں۔

دوسری بات یہ کہ حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ اسٹار لنک اور دیگر ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کو جاری کیے جا رہے لائسنس کی شرائط کیا ہیں۔ اس سے جانبداری اور وسائل کے غیرشفاف مختص کا سوال اٹھتا ہے۔ غور طلب ہے کہ ٹیلی کمیونی کیشن ایکٹ 2023 میں کہا گیا ہے کہ سیٹلائٹ خدمات کے لیے اسپیکٹرم کا الاٹمنٹ نیلامی کے بجائے ‘ایڈمنسٹریٹو پروسس’ یعنی انتظامی فیصلے کے ذریعے کیا جائے گا۔

حکومت ہند کے سابق سکریٹری ای اے ایس شرما گزشتہ کئی مہینوں سے مرکزی حکومت کے کابینہ سکریٹری ڈاکٹر ٹی وی سومناتھن اور ٹیلی کمیونی کیشن ڈپارٹمنٹ کے سکریٹری نیرج متل کو خط لکھ کر اس موضوع پر سوال اٹھا رہے ہیں  ۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی اور قومی مفاد کو خطرہ

دی وائر سے بات کرتے ہوئے شرما نے کہا،’اسٹار لنک جیسی کمپنیوں کو براہ راست سیٹلائٹ اسپیکٹرم سونپنا سپریم کورٹ کے 2 جی اسپیکٹرم کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ اس طرح کے وسائل کی تقسیم ایک شفاف اور عوامی عمل کے ذریعے کی جانی چاہیے، نہ کہ بند دروازوں کے پیچھے۔’

سابق سکریٹری نے اس بات کو طے  کرنے کے لیے آزاد عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا کہ آیا اسپیکٹرم کی تقسیم نے قانون کی خلاف ورزی کی اور کیا حکومت نے اس عمل میں نجی کمپنیوں کو ناجائز فائدہ پہنچایا ہے؟

شرما اسے ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بھی مانتے ہیں۔ ‘اسٹار لنک کے امریکی فوج کے ساتھ روابط ہیں۔ انہیں ہندوستان میں سیٹلائٹ سے براہ راست نگرانی کرنے کی اجازت دینا قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے،’ وہ کہتے ہیں۔

سیٹلائٹ انٹرنیٹ جدید جنگ کا ایک اوزار بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ممالک غیر ملکی کمپنیوں کو سیٹلائٹ انٹرنیٹ فراہم کرنے پر پابندی لگا رہے ہیں۔ ایران کی پارلیامنٹ نے حال ہی میں اسٹار لنک پر پابندی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ اس اقدام کو ایران کی جانب سے امریکی اور اسرائیلی حملوں کے بعد بیرونی اثرات کو روکنے کی کوششوں کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔

روس اور چین میں بھی اسٹار لنک کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم، وال اسٹریٹ جرنل کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ پابندی کے باوجود اسٹار لنک انٹرنیٹ ٹرمینل روس میں بلیک مارکیٹ میں دستیاب ہیں، جنہیں خرید کر اسٹار لنک کی سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروس استعمال کی جا رہی ہے۔

اسٹار لنک انٹرنیٹ سروس یوکرین سے سوڈان تک تنازعات والے علاقوں میں فوری اور نسبتاً محفوظ رابطہ فراہم کرتی ہے۔ یہ سہولت ڈرون اور دیگر جدید فوجی ٹکنالوجی کے آپریشن میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے – جو آج جنگوں میں فیصلہ کن ثابت ہو رہی ہے۔ اسٹار لنک ڈیوائسز کے آسان اور تیز ایکٹیویشن ہارڈویئر کی وجہ سے ایلون مسک کا اسپیس ایکس بہت سے پرتشدد تنازعات کا حصہ بن جا رہا ہے۔

ہندوستان بھی اس کا خمیازہ بھگت چکاہے۔ پانچ ماہ قبل دی گارڈین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، منی پور میں عسکریت پسند گروپ حکومت کی انٹرنیٹ پابندی کو چکمہ دینے کے لیے اسٹار لنک کی سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس استعمال کر رہے ہیں۔ اسٹار لنک کی خدمات ابھی تک ہندوستان میں شروع نہیں کی گئی ہیں، لیکن منی پور سے متصل ملک میانمار میں اس کی اجازت ہے۔ میتیئی علیحدگی پسند عسکریت پسند تنظیم ‘پیپلز لبریشن آرمی آف منی پور (پی ایل اے)’کے ایک رہنما کے مطابق، جب تشدد شروع ہوا تو حکومت نے انٹرنیٹ کو بند کر دیا، تو انہوں نے انٹرنیٹ کے لیے اسٹار لنک ڈیوائسز کا سہارا لیا۔

سرکاری خزانے کو نقصان کا اندیشہ

چونکہ حکومت نے نہیں بتایا  ہے کہ اسپیکٹرم کس شرح پرسونپا گیا ہے، اس لیے ریونیو کے نقصان کا خدشہ ہے۔ نیز، جس طرح سے اسپیکٹرم الاٹ کیا گیا ہے اس سے اجارہ داری کا خطرہ بھی پیدا ہوتا ہے۔

شرماکہتے ہیں،’اسٹار لنک ہندوستان کے معروف ٹیلی کام آپریٹرجیواور ایئر ٹیل کے ساتھ ایک ‘کارٹیل’ بنا رہا ہے، جو انہیں سیٹلائٹ اسپیکٹرم پر اجارہ داری کی اجازت دے سکتا ہے – اور اس سے لاکھوں صارفین کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔’

حکومت شروع سے ہی اس معاملے پر شفافیت سے گریز کرتی رہی ہے۔ اس سال مارچ میں کانگریس کے رکن پارلیامنٹ منیش تیواری نے لوک سبھا میں وزیر مواصلات سے سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کے بارے میں سوالات پوچھے تھے۔ اس وقت حکومت نے کسی بھی درخواست گزار کی فہرست شیئر نہیں کی تھی۔

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ منیش تیواری نے وزیر مواصلات سے پوچھا تھا؛

الف- ہندوستانی حکومت سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کو کس طرح منظم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے؟

ب-جب اسپیکٹرم نیلامی کے بجائے انتظامی فیصلے کے ذریعے مختص کیا جائے گا، تو حکومت شفافیت، غیرجانبدار اورا سپیکٹرم کے بہترین استعمال کو کیسے یقینی بنائے گی؟

ج- خاص طور پر دور دراز علاقوں میں تیز رفتار انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر، ملک میں سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کو آسان بنانے اور ریگولیٹ کرنے کے لیے حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں؟

د-  حکومت نے سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کے غلط استعمال یا حفاظتی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے اختیار کیے گئے حفاظتی اقدامات کی نگرانی اور کنٹرول کرنے کے لیے کیا طریقہ کار وضع کیا ہے؟

 وزیر مملکت برائے مواصلات، ڈاکٹر پیمسانی چندر شیکھر نے جواب دیا تھاکہ یہ کمپنیاں ہندوستان میں رجسٹرڈ ہونی چاہیے اور تمام حفاظتی شرائط کی تعمیل ضروری ہے – جیسے کہ سیٹلائٹ گیٹ وے ہندوستان میں ہونا چاہیے، تمام ٹریفک وہیں سے ہو کر گزرے، اور سرحدوں پر بفر زون بنایا جائے۔

منیش تیواری کے سوالات

اس کے بعد ، اپریل 2025 میں، وینکٹیش نائک، ڈائریکٹر، کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشیٹو (سی ایچ آر آئی) نے ایک آر ٹی آئی درخواست دائر کی۔

آر ٹی آئی درخواست اور سی پی آئی او کا گول مول جواب

آر ٹی آئی کے ذریعے پوچھا گیا تھاکہ سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کی اجازت سے متعلق کیا شرائط ہیں؟ کن کمپنیوں نے اپلائی کیا، کن کن شرائط پر منظوری ملی۔

مرکزی حکومت نے ان کمپنیوں کے ناموں کا تو انکشاف کیا جنہیں سیٹلائٹ کے ذریعے انٹرنیٹ فراہم کرنے کا لائسنس دیا گیا، لیکن اس کے تحت استعمال ہونے والے معیارات، شرائط اور عمل کی وضاحت کرنے والے دستاویزات کو شیئر کرنے سے انکار کر دیا ۔

پہلی اپیل دائر کیے جانے کے بعد 28 مئی کو، فرسٹ درخواست گزار اتھارٹی نے اپنا حکم جاری کیا، جس میں ان کمپنیوں کی فہرست شیئر کی جنہیں لائسنس دیا گیا ہے، لیکن دیگر معلومات کو آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8(1)(ڈی) اور 8(1)(ای) کا حوالہ دیتے ہوئےروک دیا۔

یہ دفعات عام طور پر ‘تجارتی رازداری’ اور ‘وفادارانہ تعلقات’ کی بنیاد پر معلومات مہیا کرنے  سے روکنےکے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

جب ان سے ہندوستان میں سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں اور مذکورہ کمپنیوں کو جاری کردہ اجازت ناموں کی کاپیاں مانگی گئیں، تو حکومت نے کہا کہ یہ معلومات آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8(1)(ڈی) اور (ای) کے تحت خفیہ ہے اور فراہم نہیں کی جا سکتی۔

آر ٹی آئی کی دفعہ 8(1)(ڈی) اور (ای) کیا کہتی ہیں؟

آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8(1)(ڈی اور 8(1)(ای) کے تحت، کچھ معلومات عوامی معلومات کے دائرےمیں نہیں آتی ہیں اور ان کو شیئر کرنے سے منع کیا جا سکتا ہے۔

دفعہ 8(1)(ڈی)؛

اگر معلومات تجارتی رازداری سے متعلق ہے (جیسے کمپنی کی ٹکنالوجی یا کاروباری حکمت عملی)، ٹریڈ سیکریٹس یا دانشورانہ املاک اور اس کے افشاء سے کمپنی کی مسابقتی پوزیشن کو نقصان پہنچ سکتا ہے —  توایسی معلومات آر ٹی آئی ے تحت شیئر نہیں کی جاتی ہیں۔ سیکشن 8(1)(ای)؛

اگر معلومات کسی شخص یا تنظیم کو کسی مخلصانہ تعلقات کے تحت موصول ہوئی ہیں — جیسے کہ کسی وکیل کو اس کے مؤکل سے موصول ہونے والی معلومات، بینک کلائنٹ کا رشتہ، وغیرہ— تو اس معلومات کا اشتراک نہیں کیا جا سکتا۔

اس کیس میں ان دفعات کا استعمال کیوں ہوا؟

ٹیلی کمیونی کیشن ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ کمپنیوں کی درخواست اور انہیں دی گئی منظوریوں کے دستاویز تجارتی رازداری (8(1)(ڈی) کے تحت آتے ہیں۔ اور یہ معلومات ایک مخلصانہ تعلق – 8(1)(ای) کے تحت دی گئی  ہیں۔

لیکن وینکٹیش نائک کا کہنا ہے کہ محکمہ کو یہ معلومات سرکاری کام کے تحت ملی ہیں، نہ کہ نجی  بھروسے کے تحت— اس لیے دفعہ 8(1)(ای) لاگو نہیں ہوتا ہے۔ یہ خدمات عوام کو فراہم کی جانی ہیں اور اسپیکٹرم ایک عوامی وسیلہ ہے- اس لیے کمپنیوں کو دیے گئے لائسنس اور شرائط شفاف ہونے چاہیے۔

وینکٹیش نائک نے محکمہ کے جواب کو ‘قانون کی خلاف ورزی’ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 4(1)(بی) (xiii) کے تحت لائسنس اور اجازت کے دستاویزات کو پبلک کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سپریم کورٹ بھی آر بی آئی بہ نام جینتی لال مستری کیس میں یہ واضح کر چکا ہے کہ حکومت کی طرف سے اپنے قانونی کاموں کے حصے کے طور پر جمع کی جانے والی کوئی بھی معلومات فیڈوشری نہیں ہے۔’

اس کیس میں آر بی آئی کا استدلال یہ تھا کہ وہ جو معلومات بینکوں سے اکٹھا کرتا ہے وہ ایک مخلصانہ تعلق کے تحت ہے، اس لیے اسے شیئر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا، ‘اگر کوئی محکمہ قانون کے تحت کمپنیوں سے درخواست یا معلومات لیتا ہے، تو وہ پرائیویٹ ٹرسٹ (وفادارانہ تعلقات) کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔ یہ عوام کے لیے دستیاب ہونا چاہیے۔’

اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ محکمہ ٹیلی کمیونی کیشن نے آر ٹی آئی کی دفعات کا غلط استعمال کرکے شفافیت سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ محکمہ ٹیلی کمیونی کیشن کی طرف سے دی گئی اجازت عوامی وسائل (اسپیکٹرم) سے متعلق ہے، جن کی خدمات عام لوگوں کو دی جانی ہیں۔

 ٹیلی کمیونی کیشن ڈپارٹمنٹ سے نہیں ملا کوئی جواب نہیں

 آر ٹی آئی کے ذریعے جن سوالوں کا جواب نہیں مل سکا تھا، انہیں اور کچھ اضافی سوالات کے ساتھ دی وائر نےمحکمہ ٹیلی کمیونی کیشن کے سکریٹری نیرج متل اور میڈیا ڈویژن کے ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل ہیمیندر کمار شرما کو ای میل پر سوالات بھیجے، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

Next Article

بہار ووٹر لسٹ ریویژن معاملہ: الیکشن کمیشن کے ساتھ میٹنگ کے بعد ’انڈیا‘ الائنس کے رہنما ’مایوس‘

بہار میں ووٹر لسٹ کے اسپیشل انٹینسو ریویژن کے خلاف ‘انڈیا’ الائنس کے وفد نے بدھ کی شام الیکشن کمیشن سے ملاقات کی۔ وفد میں شامل اکثر رہنماؤں نےاس میٹنگ کو  ‘مایوس کن’ اور ‘ناخوشگوار’ قرار دیا۔

کانگریس لیڈر ابھیشیک منو سنگھوی پریس سے خطاب کرتے ہوئے۔ (تصویر: اسکرین گریب)

نئی دہلی: بہار میں ووٹر لسٹ کے ‘اسپیشل انٹینسو ریویژن'(ایس آئی آر)کے خلاف اپنے احتجاج میں ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے، ‘انڈیا’ الائنس کے وفد نے بدھ (2 جولائی) کی شام کو الیکشن کمیشن سے ملاقات کی۔

زیادہ تر رہنماؤں نے اس ملاقات کو ‘مایوس کن’ اور ‘ناخوشگوار’ قرار دیا ۔

رپورٹ کے مطابق، ‘انڈیا’ الائنس نے بہار میں اسمبلی انتخابات سے چند ماہ قبل ایس آئی آر شروع کرنے کے الیکشن کمیشن کے اقدام کی مخالفت کی ہے۔

اپوزیشن اتحاد نے اس کی ٹائمنگ اور اس نوع کےمشق کی فزیبلٹی پر سوال اٹھایا ہے، جس کے تحت کمیشن کو بہار میں 7.75 کروڑ اہل ووٹروں کی تصدیق کرنے کی ضرورت ہوگی، ساتھ ہی  اس کی صلاحیت پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔

کچھ رہنماؤں نے یہ بھی الزام لگایا کہ یہ عمل، جو لوگوں پر خود کو اہل ووٹر ثابت کرنے کی ذمہ داری ڈالتا ہے، ‘بڑے پیمانے پر حق رائے دہی سے محرومی’ کا باعث بن سکتا ہے، خاص طور پر پسماندہ طبقوں کے لیے، جنہیں بہار جیسی پسماندہ ریاست میں اپنے اور والدین کے پیدائشی سرٹیفکیٹ بنانے کے لیے جدوجہد کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس سلسلے میں الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ایس آئی آر میں آدھار یا راشن کارڈ جیسے عام شناختی کارڈ کافی نہیں ہوں گے، اور لوگوں کو اپنی ‘جائے پیدائش’ ثابت کرنے کے لیے اپنے والدین کا پیدائشی سرٹیفکیٹ بھی دکھانا ہوگا۔

اپوزیشن لیڈروں نے یہ بھی بتایا کہ ریاست سے باہر رہنے والے لوگوں  کی ایک بڑی تعداد کو بھی اس مشق سے باہر رکھا جا سکتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے اعلان میں جلد بازی پر تشویش کا اظہار

بدھ کی شام میٹنگ کے فوراً بعد پریس کو بریفنگ دیتے ہوئے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ وفد نے الیکشن کمیشن کو تین نکات پیش کیے۔ اس میں 2003 کے بعد، جس کے بعد بہار میں ‘چار یا پانچ’ انتخابات ہوئے ہیں، پہلی ایس آئی آر رکھنے کے پیچھے کی منطق پر سوال اٹھایا گیا۔

انہوں نے پوچھا، ‘کیا وہ اصولوں کے خلاف تھے؟’ دوسرا، انہوں نے کہا کہ وفد نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے اعلان میں جلد بازی پر تشویش کا اظہار کیا۔

سنگھوی نے کہا، ‘یہ فیصلہ کیوں لیا گیا؟ اگر ایس آئی ارکی ضرورت ہے، تو یہ جنوری فروری میں کیا جا سکتا تھا۔ آپ نے اس کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا ہے۔ 7.75 کروڑ ووٹروں کی تصدیق کے لیے ایک ماہ کا وقت ہے۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘جب آپ نے 2003 میں ایسا کیا تھا تو اس کے ایک سال بعد عام انتخابات تھے۔ جب آپ نے یہ کام 2003 میں کیا تھا تو دو سال بعد اسمبلی انتخابات تھے۔ اب آپ کے پاس صرف ایک ماہ کا وقت ہے۔ یہ کافی نہیں ہے۔’

سنگھوی نے کہا کہ وفد نے دیہی علاقوں میں بہت سے لوگوں کے پاس پیدائشی سرٹیفکیٹ نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا اور پوچھا کہ آدھار یا راشن کارڈ کیوں قبول نہیں کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘پہلی بار آپ کہہ رہے ہیں کہ اگر کسی شخص کے پاس پیدائش کا سرٹیفکیٹ نہیں ہے تو اس کے نام پر غور نہیں کیا جائے گا۔ ایک زمرے میں، اگر آپ 1987 اور 2012 کے درمیان پیدا ہوئے ہیں تو آپ کو والدین کے پیدائشی سرٹیفکیٹ کی بھی ضرورت ہوگی۔ ہم نے کہا کہ بہار میں بہت سارے (غریب لوگ اور اقلیتی اور پسماندہ طبقے کے لوگ) ہیں۔ کیا وہ کاغذات کے لیے ادھر ادھر بھاگتے رہیں گے؟ یہ جمہوریت میں مساوی مواقع کے خلاف ہے۔’

قابل ذکر ہے کہ اس میٹنگ میں 11 پارٹیوں کے 20 لیڈروں نے شرکت کی، جبکہ ترنمول کانگریس کا کوئی لیڈر اس میٹنگ کے لیے دستیاب نہیں تھا۔

سنگھوی نے یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن نے کمیشن کے دفتر آنے والے تمام لیڈروں کو میٹنگ میں شرکت کی اجازت نہیں دی۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن نے پہلے صرف پارٹی سربراہوں سے ملاقات کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی، لیکن دباؤ کے بعد اس نے ہر پارٹی کے دو لیڈروں کو اپنے دفتر کے اندر جانے کی اجازت دی۔

سنگھوی نے کہا، ‘کچھ لوگوں کو باہر انتظار کرنا پڑا۔ ہم نے اس معاملے پر شکایت کی ہے اور الزام لگایا ہے کہ یہ جمہوریت کے خلاف ہے۔’

ایس آئی آر آرٹیکل 326 اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 کی دفعات کے مطابق: الیکشن کمیشن

قابل ذکر ہے کہ یہ میٹنگ تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہی، جس میں مبینہ طور پر لیڈروں نے چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار اور الیکشن کمشنر سکھبیر سنگھ سندھو اور وویک جوشی سے ملاقات کی۔

وفد میں کانگریس کے رہنما جئے رام رمیش، ابھیشیک منو سنگھوی، پون کھیڑا اور پارٹی کے بہار کے سربراہ راجیش رام، بہار کے رہنما اکھلیش پرساد سنگھ، راشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیامنٹ منوج کمار جھا ، سماج وادی پارٹی کے ہریندر ملک ، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شرد چندر پوار) کی فوزیہ خان، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے جان برٹاس، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ-لیننسٹ) لبریشن کے دیپانکر بھٹاچاریہ اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ڈی راجہ شامل تھے۔

اس سے پہلے دن میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ بہار میں ایس آئی آرمنصوبہ کے مطابق اور 24 جون 2025 کو جاری کردہ احکامات کے مطابق’ بہتر ڈھنگ سے جاری ہے، اور لوگوں سے ‘کسی بھی غلط معلومات پھیلانے’ پر توجہ نہ دینے کی اپیل کی۔

کمیشن نے یہ بھی کہا کہ 243 الیکٹورل رجسٹریشن افسران، 38 ڈسٹرکٹ الیکشن افسران، نو ڈویژنل کمشنروں اور بہار کے چیف الیکٹورل افسر کی جانب سے تقریباً ایک لاکھ بوتھ سطح کے افسران اور ایک لاکھ رضاکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔

‘انڈیا’ الائنس کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کے بعد ای ٹی وی سے بات کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے ایک اہلکار نے کہا کہ وفد میں شامل کئی رہنماؤں کو ‘بغیر وقت لیے’ میٹنگ میں شرکت کی اجازت دی گئی تھی، کیونکہ کمیشن نے آخر کار ہر پارٹی کے دو نمائندوں سے ملنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

اہلکار نے کہا کہ ایس آئی آر آرٹیکل 326 اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 کی دفعات کے مطابق ہے۔

تاہم، جئے رام رمیش نے بعد میں ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ‘(الیکشن کمیشن) نے خود کو اس طرح سے کنڈکٹ کیا ہے جو ہمارے جمہوری نظام کی بنیاد کو کمزور کرتا ہے’۔

انہوں نے کہا، ‘الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے۔ یہ اپوزیشن کی طرف سے سماعت کی درخواستوں کو باقاعدگی سے مسترد نہیں کر سکتا۔ اسے آئین کے اصولوں اور دفعات پر عمل کرنا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے صوابدیدی اصول نہیں بنا سکتا، جیسے کہ شرکت کرنے والے افرادکے عہدے طے کرنایا کتنے لوگ شرکت کر سکتے ہیں یاکون  مجاز ہے کون نہیں۔’

نئے اصول الجھن پیدا کرنے والے: جئے رام رمیش

کانگریس لیڈر رمیش نے مزید کہا، ‘جب وفد نے ان نئے قواعد کو من مانی اور الجھن پیدا کرنے والا قرار دے کر مسترد کر دیا، تو الیکشن کمیشن نے ہمیں بتایا کہ یہ ‘نیا’ کمیشن ہے۔ ہم یہ سوچ کر کانپ اٹھتے ہیں کہ اس ‘نئے’ کمیشن کی حکمت عملی کیا ہے؟ ہم کتنے اور ماسٹر اسٹروک کی توقع کر سکتے ہیں؟ نومبر 2016 میں وزیر اعظم کی نوٹ بندی نے ہماری معیشت کو تباہ کر دیا۔ اب، جیسا کہ ایس آئی آر میں دکھایا گیا ہے، بہار اور دیگر ریاستوں میں الیکشن کمیشن کی ‘ووٹ بندی’ ہماری جمہوریت کو تباہ کر دے گی۔’

میٹنگ کے بعد سوالات کا جواب دیتے ہوئے منوج کمارجھا نے کہا، ‘ہم سب نے بہار کے بارے میں اپنی تشویش ان کے سامنے رکھی ہے… میں نے انہیں آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو کا ایک خط سونپا ہے۔ یہ عوام کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی سازش ہے…’

انہوں نے کہا، ‘اگر کسی مشق کا مقصد شمولیت کے بجائے اخراج ہے، تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں… جب ہم نے پوچھا کہ جو مشق (ایس آئی آر) 22 سالوں میں نہیں ہوئی… وہ اب کیوں ہو رہی ہے؟… زیادہ تر لوگوں کے پاس اہلیت ثابت کرنے کے لیے درکار دستاویز نہیں ہیں…’

ڈی راجہ، بھٹاچاریہ اور خان  جیسے دیگر لیڈروں نے بھی کہا کہ یہ عمل بہت سے غریب لوگوں کو بغیر کسی غلطی کے بھی حق رائے دہی سے محروم کر سکتا ہے کیونکہ ان کے پاس پیدائشی سرٹیفکیٹ یا میٹرک سرٹیفکیٹ نہیں ہوسکتے ہیں، جو ان کی تاریخ پیدائش ثابت کرنے کے لیے قابل قبول ہیں۔

زیادہ تر لیڈروں نے یہ بھی محسوس کیا کہ الیکشن کمشنروں نے ان کی طرف سے اٹھائے گئے خدشات کے بارے میں معاندانہ رویہ اپنایا اور ایس آئی آرمشق کے بارے میں پوری طرح سے  مثبت  بنے رہے۔

Next Article

بہار: تیجسوی یادو نے ووٹر لسٹ کے رویژن کو لے کر الیکشن کمیشن کی منشا پر سوال اٹھائے

بہار اسمبلی انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ پر اسپیشل انٹینسو ریویژن شروع کیا ہے۔ آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو نے کمیشن کی منشا پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ کیسی نظرثانی ہے، جہاں ہر ہفتے نئے آرڈر آتے ہیں اور پرانے آرڈر بدل دیےجاتے ہیں؟ کیا کمیشن  خود ہی طے نہیں کر پا رہا ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟

آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو۔تصویر بہ شکریہ: ایکس /تیجسوی یادو

نئی دہلی: بہار اسمبلی انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ پر اسپیشل انٹینسو ریویژن شروع کیا ہے ، جس میں 2003 کے بعد شامل ووٹروں سے شہریت کا ثبوت طلب کیا جا رہا ہے۔ اس کے تحت تمام رائے دہندگان کی تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش کی تصدیق کی جائے گی۔

الیکشن کمیشن کی اس مہم نے بہار میں ایک بڑی سیاسی بحث چھیڑ دی ہے۔ راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) اور بہار اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو نے الیکشن کمیشن کی منشا پر سوال اٹھائے ہیں۔

ایکس پر ایک طویل پوسٹ میں انہوں نے کہا، ‘ہم دیکھ رہے ہیں کہ ووٹر لسٹ اسپیشل انٹینسیو ریویژن 2025 کے نام پر بہار میں ایک ایسی مہم چلائی جا رہی ہے، جو پوری طرح سےکنفیوژن، غیر یقینی اور جابرانہ رویے سے بھری ہوئی ہے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ 27 جون کو ان کی پریس کانفرنس کے بعد سے اب تک الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کی اس خصوصی مہم کے دوران کئی بار رہنما خطوط تبدیل کیے ہیں، کبھی اہلیت کی تاریخ میں تبدیلی، کبھی دستاویز کی نوعیت میں تبدیلی، کبھی عمل کی مدت میں تبدیلی۔

انہوں نے سوال کیا کہ ‘یہ کیسا ریویو ہے، جہاں ہر ہفتے نئے آرڈر آتے ہیں اور پرانے آرڈر تبدیل کیے جاتے ہیں؟ کیا کمیشن خود ہی طے نہیں کر پا رہا ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟ کیا اس ساری مہم کا پلان کسی سیاسی جماعت کے ساتھ شیئر کیا گیا؟ کیا کوئی آل پارٹی میٹنگ ہوئی؟ کیا یہ یکطرفہ اور خفیہ انتخابی ‘صفاف صفائی’ نہیں ہے؟

کمیشن اور اس کے عزائم سوالوں کی زد میں

یادو نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن بہار میں ووٹروں کی گہرائی سے نظرثانی کیوں کر رہا ہے اس کے پیچھے دیے گئے دلائل، انہیں پڑھنے کے بعد کمیشن اور اس کے ارادے سوالوں کی زد میں آ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘کمیشن کا کہنا ہے کہ رائے دہندگان کی آخری بار نظرثانی سال 2003 میں کی گئی تھی، اس کے بعد ریاست میں شہرکاری، معلومات کا وقت پر اپڈیٹ نہ ہونا اور فرضی اور غیر ملکی شہریوں کے ناموں کا فہرست میں اندراج جیسے مسائل سامنے آئے۔ ایسے میں کمیشن نے ایک بار پھر پوری ریاست میں اسپیشل انٹینسو ریویژن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دیے گئے پروگرام کے مطابق، نظر ثانی کا کام 1 جولائی 2025 کی اہلیت کی تاریخ کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر شہرکاری، معلومات کا وقت پراپڈیٹ نہ ہونا اور فہرست میں فرضی اور غیر ملکی شہریوں کے نام درج ہونے جیسے مسائل کی وجہ سے ووٹر لسٹ کی مکمل نظرثانی کرنا ضروری ہو گیا ہے تو پھر یہ عمل ایک دو سال پہلے کیوں شروع نہیں کیا گیا تاکہ افراتفری نہ ہو۔  بہار اسمبلی کا الیکشن نومبر 2025 میں ہو جانا ہے تو الیکشن سے دو ماہ قبل صرف 25 دنوں کے اندر اس طرح کی مکمل نظر ثانی کیسے ممکن ہوگی؟

یادو نے کہا کہ کمیشن کہہ رہا ہے کہ بی ایل او ووٹر کی رہائش گاہ پر تین بار جائیں گے۔ اگر ووٹر دیے گئے پتے پر نہیں ملا تو اس کا نام ووٹر لسٹ سے حذف کر دیا جائے گا۔ مکمل نظرثانی کے لیے ووٹرز کا خود موجود ہونا ضروری ہے۔

بہار کے لوگوں کے پاس مانگے گئے 11 دستاویز نہیں ہیں

انہوں نے مزید کہا کہ ‘کمیشن کے اس اصول کا شکار وہ لوگ ہوں گے جو اپنی روزی کمانے کے لیے طویل یا مختصر مدت کے لیے گھر سے دور چلے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ عام طور پر انتخابات کے وقت اپنے گاؤں-گھر لوٹتے ہیں۔ ووٹ ڈالتے ہیں۔  کچھ دن  چھٹیاں مناتے ہیں۔ پھر وہ اپنے کام پر لوٹ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو فزیکل ویری فکیشن کے دوران ہی ووٹر لسٹ سے خارج کر دیا جائے گا۔ انہیں کاغذات دکھانے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی غریب آدمی اپنا کام چھوڑ کر دوسری ریاست سے گھر آکر ووٹنگ کے لیے اپنی تصدیق کروائے۔ ایسے لوگوں میں قبائلی، دلت، پسماندہ اور اقلیتی برادریوں کے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔’

آر جے ڈی لیڈر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جو 11 دستاویز مانگے گئے ہیں وہ بہار کے لوگوں کے پاس نہیں ہیں اور دیے گئے دلائل ’بے حسی‘ کو ظاہر کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘2 دسمبر 2004 کے بعد کے ووٹروں کو اپنے شناختی کارڈ کے ساتھ ساتھ اپنے والدین  کا شناختی کارڈ بھی جمع کرانا ہوگا۔ آدھار کارڈ اور راشن کارڈ شناختی کارڈ کے طور پر قابل قبول نہیں ہوگا۔’

انہوں نے کہا، ‘الیکشن کمیشن کی جانب سے 11 دستاویز کو تسلیم کیا گیا ہے جنہیں دستیاب کرایا جا سکتا ہے۔ اب میں الیکشن کمیشن، بہار حکومت اور حکومت ہند سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ بہار میں ان 11 دستاویز کا فیصد کتنا ہے؟’

انہوں نے ووٹر لسٹ کی خصوصی نظرثانی کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ وقت کی حد پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ 26 جولائی تک بی ایل او کو ہر ووٹر کے گھر گھر جاکر گنتی کے فارم کی تقسیم، جمع اور گھر گھر تصدیق کرنا ہوگی۔ لیکن 6 دن گزر جانے کے بعد بھی 99.99 فیصد مقامات پر یہ عمل شروع نہیں ہوا۔ اب 19 دن رہ گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بہار میں مانسون نے زور پکڑ لیا ہے۔ ندیوں میں پانی کی سطح بڑھ گئی ہے۔ لوگوں نے ندی کے ساحلی علاقوں سے محفوظ مقامات کی تلاش شروع کر دی ہے۔ بہار کا 73 فیصد علاقہ سیلاب سے متاثر ہے۔ ان علاقوں میں دلت/پسماندہ/انتہائی پسماندہ اور اقلیتی طبقے کے زیادہ تر لوگ رہتے ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ خصوصی نظرثانی کا عمل ووٹر لسٹ سے ان کے نام نکالنے کی سازش ہے؟

Next Article

جے این یو اسٹوڈنٹ نجیب کی گمشدگی کے معاملے میں کلوزر رپورٹ کو عدالت کی منظوری، کہا – سی بی آئی کی جانچ میں کوئی کمی نہیں

جے این یو کے طالبعلم نجیب احمد کی گمشدگی کےتقریباً آٹھ سال بعد دہلی کی ایک عدالت نے اس معاملے میں سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ کو منظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی نیا ثبوت سامنے آتا ہے تو اس کیس کو دوبارہ کھولا جا سکتا ہے۔ نجیب 15 اکتوبر 2016 سے لاپتہ ہیں۔

نجیب احمد کے اہل خانہ معاملے کی تحقیقات میں تیزی کا مطالبہ کرتے ہوئے ۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے سوموار (30 جون) کو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طالبعلم نجیب احمد کے معاملے میں مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کی جانب سے دائر کی گئی کلوزر رپورٹ کو منظور کر لیا ہے ۔ نجیب 15 اکتوبر 2016 سے لاپتہ ہیں۔

ستائیس سالہ نجیب احمد جے این یو ہاسٹل سے لاپتہ ہوئے تھے۔ لاپتہ ہونے سے ایک دن پہلے اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد(اے بی وی پی) کے کچھ ارکان کے ساتھ ان کی مبینہ جھڑپ ہوئی تھی۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، راؤز ایونیو کورٹ کے ایڈیشنل چیف جوڈیشل مجسٹریٹ جیوتی مہیشوری نے کہا، ‘ہاسٹل انتخابات جیسے حساس ماحول اور جے این یو جیسے کیمپس میں اس طرح کی جھڑپ اور بحث ومباحثہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے، لیکن صرف اس بنیاد پر یہ سمجھنا مناسب نہیں ہے کہ نوجوان طالبعلم کسی ساتھی طالبعلم کو غائب کرنے جیسا قدم اٹھا سکتے ہیں ، خاص طور پر جب ریکارڈ پر ایساکوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔’

سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ کو قبول کرتے ہوئے عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر مستقبل میں کوئی نیا ثبوت سامنے آتا ہے تو کیس کو دوبارہ کھولا جا سکتا ہے۔

عدالت نے کہا، ‘یہ عدالت اس ماں کے درد کو سمجھتی ہے جو 2016 سے اپنے بیٹے کی تلاش میں ہے، لیکن اس معاملے میں جانچ ایجنسی یعنی سی بی آئی کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں کوئی لاپرواہی نہیں پائی گئی ہے۔ ہر مجرمانہ تفتیش کی بنیاد سچائی کی تلاش ہوتی ہے، لیکن بعض معاملات میں تمام تر کوششوں کے باوجود تحقیقات کسی ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچ پاتی ہیں۔’

معلوم ہو کہ سی بی آئی نے اس معاملے میں سال 2018 میں کلوزر رپورٹ داخل کی تھی ، جس کے خلاف نجیب کی والدہ فاطمہ نفیس نے عدالت میں عرضی داخل کی تھی ۔ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ سی بی آئی نے نو مشتبہ افراد کے کردار کی صحیح طریقے سے تفتیش نہیں کی۔

سی بی آئی نے عدالت کو بتایا کہ مشتبہ افراد کے کال ڈیٹیل ریکارڈ کی جانچ کی گئی لیکن نجیب کی گمشدگی سے متعلق کوئی ثبوت نہیں ملا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا،’اگرچہ 14 اکتوبر 2016 کی رات نجیب احمد کے ساتھ مارپیٹ اور دھمکیوں کے الزامات گواہوں کی گواہی سے ثابت ہوتے ہیں، لیکن ریکارڈ پر ان واقعات اور 15 اکتوبر 2016 کو ان کے لاپتہ ہونے کے واقعے سے متعلق کوئی براہ راست یا قرائنی شہادت ریکارڈ میں نہیں ہیں۔’

معلوم ہو کہ نجیب 15 اکتوبر 2016 کو جے این یو کے ماہی مانڈوی ہاسٹل سے غائب ہوئے تھے ۔ واقعہ سے ایک رات قبل ان کا اے بی وی پی سے وابستہ کچھ طلبہ کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا۔ جب واقعہ کے سات ماہ گزرنے کے بعد بھی دہلی پولیس کو اس معاملے میں کوئی جانکاری نہیں ملی تو ہائی کورٹ نے 16 مئی 2017 کو کیس کی جانچ سی بی آئی کو سونپ دی ۔

تاہم، بعد میں سی بی آئی نےشواہد کے فقدان کے باعث معاملے کی جانچ بند کر دی تھی۔