بنگلہ دیش: نوبل انعام یافتہ محمد یونس عبوری حکومت کی قیادت کریں گے، ہندوستانی سفارتی عملے کی وطن واپسی

بنگلہ دیش میں سیاسی افراتفری کے درمیان منگل کی رات کو اعلان کیا گیا کہ نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ دریں اثنا، سیکورٹی وجوہات کی بنا پر ہندوستانی سفارت کار اور ان کے اہل خانہ ملک چھوڑ کر ہندوستان واپس لوٹ آئے ہیں۔

بنگلہ دیش میں سیاسی افراتفری کے درمیان منگل کی رات کو اعلان کیا گیا کہ نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ دریں اثنا، سیکورٹی وجوہات کی بنا پر ہندوستانی سفارت کار اور ان کے اہل خانہ ملک چھوڑ کر ہندوستان واپس لوٹ آئے ہیں۔

محمد یونس۔ (تصویر بہ شکریہ: Wikimedia Commons CC BY-SA 3.0)

محمد یونس۔ (تصویر بہ شکریہ: Wikimedia Commons CC BY-SA 3.0)

نئی دہلی: بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے تختہ پلٹ کے بعد نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات محمد یونس ملک کی عبوری حکومت کی قیادت  کے لیے تیار ہیں۔

رپورٹ کے مطابق،  ڈیلی اسٹار نے یہ اطلاع صدر کی رہائش گاہ اور دفتر سے جاری ایک پریس ریلیز کے حوالے سے دی ہے۔

ڈیلی اسٹار کے مطابق، محمد یونس کو آگے کرنے کا فیصلہ صدر محمد شہاب الدین، تحریک کے اہم منتظمین اور بنگلہ دیش کے تینوں آرمی چیف کے درمیان ملاقات کے بعد کیا گیا۔

اس سے قبل خبر رساں ادارے اے ایف پی نے خبر دی تھی کہ یونس نے کہا کہ وہ بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کی قیادت کے لیے تیار ہیں۔

صحافی ڈیوڈ برگ مین کے مطابق، 84 سالہ ماہر اقتصادیات کے ایک معاون نے منگل (6 اگست) کو بتایا تھاکہ یونس ‘ عبوری حکومت کا سربراہ بننے کی طلبہ رہنماؤں کی درخواست پر متفق  ہوگئے ہیں۔’

معاون نے یونس کے حوالے سے کہا، ‘میں نے طلبہ رہنماؤں سے کہا کہ میں یہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہ وہ نہیں ہے جو میں کرتا ہوں، لیکن آپ نے جو کچھ کیا ہے اس کے بعد میں اس  درخواست کو کیسے رد کر سکتا ہوں؟’

قابل ذکر ہے کہ یونس، جنہیں اپنے مائیکرو فنانسنگ  کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو غربت سے نکالنے کا سہرا  دیا جاتا ہے، کو اس سال کے شروع میں لیبر قانون کی خلاف ورزی کے ایک کیس میں سزا سنائی گئی تھی۔ تب ان کے حامیوں نے کہا تھا کہ حسینہ کی جانب  سے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اس سے قبل منگل کو صدر شہاب الدین نے حسینہ واجد کی صدارت میں منتخب ہونے والی پارلیامنٹ کو رواں سال 7 جنوری کو تحلیل کر دیا تھا۔

صدر دفتر سے جاری ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ‘پارلیامنٹ کو تحلیل کرنے کا فیصلہ مسلح افواج کے تینوں سربراہوں، مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور امتیازی سلوک مخالف طلبہ تحریک کے رہنماؤں کے ساتھ صدر کی بات چیت کے بعد کیا گیا ہے۔ ‘

معلوم ہو کہ وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد حسینہ واجد فوجی طیارے میں ہندوستان پہنچی تھیں۔ مبینہ طور پر وہ برطانیہ جانا چاہتی ہیں، لیکن ہندوستان میں ان کا قیام مقررہ وقت سے زیادہ ہونے کا امکان ہے کیونکہ قوانین کے مطابق برطانیہ میں سیاسی پناہ کے لیے درخواست دینے والے شخص کو اس علاقے میں جسمانی طور پر موجود ہونا ضروری ہے۔

ڈیلی اسٹار کی رپورٹ کے مطابق، بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اے ایم ڈی محبوب الدین کھوکھون نے ہندوستان  سے حسینہ اور ان کی بہن شیخ ریحانہ کوجن کے ساتھ وہ ہندوستان  آئی تھیں، گرفتار کرنے  اور انہیں واپس بنگلہ دیش ڈی پورٹ کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔

دریں اثناء بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم اور حزب اختلاف کی اہم رہنما خالدہ ضیاء کو حسینہ کے ملک چھوڑنے کے ایک دن بعد جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔

معلوم ہو کہ حسینہ کے وزیر اعظم کے عہدے سےمستعفی  ہونے اور سوموار (5 اگست) کو بنگلہ دیش چھوڑنے کے فوراً بعد صدر شہاب الدین نے ضیاء کی رہائی کا حکم دیا تھا ۔

صدر کی پریس ٹیم نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے متفقہ طور پر بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی چیئرپرسن بیگم خالدہ ضیاء کو فوراً رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ طلبہ کے احتجاج کے دوران گرفتار کیے گئے تمام افراد کو رہا کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار نے 5 اگست کو قومی ٹیلی ویژن پر نشریات کے دوران اعلان کیا تھا کہ حسینہ واجد نے استعفیٰ دے دیا ہے اور فوج عبوری حکومت بنائے گی۔


یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش میں تختہ پلٹ: ہندوستان کو درپیش چیلنجز


ڈیلی ا سٹار کی رپورٹ کے مطابق،  2018 میں بدعنوانی کے الزام میں 17 سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد اب 78 سال کی ضیاء صحت کی خرابی کے باعث ہسپتال میں داخل ہیں۔

حسینہ کی سخت حریف سمجھی جانے والی ضیاء پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک یتیم خانے کے ٹرسٹ کو دیے گئے 250000 ڈالر کے غبن کے لیے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔

بی این پی نے کہا ہے کہ یہ مقدمات من گھڑت ہیں اور ان کا مقصد دو بار کی سابق وزیراعظم کو سیاست سے دور رکھنا ہے۔

ضیاء 1991-1996 اور بعد میں 2001-2006 تک بنگلہ دیش کی وزیر اعظم رہی ہیں۔ جبکہ وہ 1996 کے عام انتخابات میں بھی کامیاب ہوئیں، تب حسینہ کی عوامی لیگ سمیت بڑی اپوزیشن جماعتوں نے اسے غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ نتیجتاً ان کی حکومت نگران حکومت کے قیام سے صرف 12 دن تک چل سکی۔

ڈیلی اسٹار کی رپورٹ کے مطابق،  79 سالہ سابق وزیراعظم طویل عرصے سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں جن میں لیور سروسس، آرتھرائٹس، ذیابیطس اور گردے، پھیپھڑوں، دل اور آنکھوں سے متعلق مسائل شامل ہیں۔

دوسری جانب منگل (6 اگست) کو جاری کردہ ایک بیان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ اگر بنگلہ دیش کی عبوری حکومت بنتی ہے تو اسے لوگوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا ہو گا اورحسینہ کی معزولی سے پہلے ہوئے تشدد کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیے۔

ایمنسٹی نے کہا، ‘کسی بھی عبوری حکومت کے لیے کام کرتے ہوئے  پہلا حکم یہ ہونا چاہیے کہ لوگوں کے حق زندگی، آزادی اظہار اور پرامن اجتماع کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے، اور مزید تشدد کے امکانات کو کم کرنے کے طریقے تلاش کیے جائیں۔’

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ‘گزشتہ تین ہفتوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے 300 سے زائد افراد ہلاک، ہزاروں زخمی اور من مانی طور پر گرفتار ہوئے، اس کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیے۔ ذمہ دار پائے جانے والوں کو جوابدہ ہونا چاہیے اور تشدد کا نشانہ بننے والوں کو حکومت سے مکمل معاوضہ ملنا چاہیے۔

ہندوستانی سفارت کاروں کی وطن واپسی

دریں اثنا، بنگلہ دیش میں سیکورٹی وجوہات کی بنا پر ہندوستانی سفارت خانے کے کچھ ملازمین اور ان کے اہل خانہ رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑ کر ہندوستان واپس آگئے ہیں۔ وہیں، ڈھاکہ میں ہندوستانی ہائی کمیشن اب بھی فعال ہے اور لوگ ہنگامی صورت حال میں مدد کے لیے اس سے رابطہ کر سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ‘ڈھاکہ میں ہندوستانی  ہائی کمیشن سے غیر ضروری ملازمین اور ان کے اہل خانہ کی واپسی رضاکارانہ بنیادوں پر کمرشیل پروازوں کے ذریعے ہوئی ہے۔’

بتایا جا رہا ہے کہ وہ منگل کی رات سے واپس آنا شروع ہو گئے تھے۔ ہجوم کے خلل کی وجہ سے کئی پروازیں منسوخ یا تاخیر کا شکار ہونے کے بعد ڈھاکہ کے بین الاقوامی ہوائی اڈے نے منگل کو دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔

عوامی لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر افراتفری  دیکھنے کو مل رہی ہے، جہاں عبوری حکومت نے ابھی تک انتظامیہ کا کنٹرول نہیں سنبھالا ہے۔ عوامی لیگ سے وابستہ اداروں کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا گیا ہے۔

شیخ حسینہ کو اپنے 15 سالہ دور حکومت میں ہندوستانی حکومت کی ایک مضبوط اتحادی تصور کیا جاتا تھا، دونوں فریقوں نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ ان کے درمیان تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ گہرے ہیں۔ منگل کی رات دیر گئے اعلان کیا گیا کہ نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔

دوسری جانب سرکاری ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ تمام ہندوستانی سفارت کار ہندوستانی  ہائی کمیشن میں موجود ہیں جو مکمل طور پر کام کر رہا ہے۔ ڈھاکہ میں مرکزی مشن کے علاوہ، چٹ گانگ، راج شاہی، کھلنا اور سلہٹ میں چار ذیلی ہائی کمیشن ہیں۔ ان مقامات پر بھی موجودہ غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے عملے کے ارکان کے اہل خانہ بنگلہ دیش چھوڑ رہے ہیں۔

ایک روز قبل ہندوستانی  وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے پارلیامنٹ میں کہا تھا کہ ہندوستان توقع کرتا ہے کہ بنگلہ دیشی حکام اپنے سفارتی مشنوں کے لیے مناسب سیکورٹی کو یقینی بنائیں گے۔

سرکاری ذرائع نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ڈھاکہ میں سفارت خانہ مکمل طور پر کام کر رہا ہے اور ہندوستانی برادری سے رابطہ کرنے کے لیے قائم کی گئی تینوں ہیلپ لائنیں معمول کے مطابق کام کر رہی ہیں۔

بتادیں کہ بنگلہ دیش میں تقریباً 19000 ہندوستانی شہری ہیں جن میں 9000 طلباء شامل ہیں۔ تاہم جولائی میں ریزرویشن کوٹہ کے حوالے سے تحریک شروع ہونے کے بعد زیادہ تر طلباء ہندوستان واپس لوٹ گئے تھے۔