بابری مسجد مذہب کے لیے نہیں، اقتدار حاصل کر نے کے لیے مسمار کی گئی تھی: آنند پٹوردھن

انٹرویو: ملک کے نامور ڈاکیومنٹری فلمسازآنند پٹوردھن نے 90 کی دہائی میں شروع ہوئی رام مندرتحریک کو اپنی ڈاکیومنٹری‘رام کے نام’میں درج کیا ہے۔ بابری انہدام معاملے میں خصوصی سی بی آئی عدالت کے فیصلے کے مدنظر ان سے بات چیت۔

انٹرویو: ملک کے نامور ڈاکیومنٹری فلمسازآنند پٹوردھن نے 90 کی دہائی میں شروع ہوئی رام مندرتحریک  کو اپنی ڈاکیومنٹری‘رام کے نام’میں درج کیا ہے۔ بابری انہدام معاملے میں خصوصی سی بی آئی عدالت کے فیصلے کے مدنظر ان سے بات چیت۔

آنند پٹوردھن، بابری مسجد، رام کے نام کو لےکر چھپا ایک ریویو۔(بہ شکریہ:فیس بک/http://patwardhan.com)

آنند پٹوردھن، بابری مسجد، رام کے نام کو لےکر چھپا ایک ریویو۔(بہ شکریہ:فیس بک/http://patwardhan.com)

آنند پٹوردھن ملک  کے ڈاکیومنٹری فلسازوں میں ایک معروف  نام ہیں۔ کئی نیشنل اور انٹرنیشنل ایوارڈ جیت چکے پٹوردھن سماجی، سیاسی  اورانسانی حقوق سے متعلق موضوعات پرفلمیں بنانے کے لیے جانے جاتے ہیں۔سال1978 سےفلمیں بناتےآ رہے پٹوردھن کی اہم فلموں میں‘کرانتی کی ترنگیں، ضمیر کے بندی، رام کے نام،فادر، سن اینڈ ہولی وار اور جئے بھیم کامریڈ جیسے نام شامل ہیں۔

نوے کی دہائی  میں شروع ہوئی  رام مندر تحریک کو انہوں نے اپنی ڈاکیومنٹری‘رام کے نام‘میں درج کیا ہے۔ رام مندر تحریک کو کور کرنے کے لیے پٹوردھن نے تب کافی وقت  ایودھیا میں بتایا تھا۔بتادیں کہ 75منٹ کی اس فلم میں بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر بنانے کے لیے چھیڑی گئی مہم اور اس سے بھڑکے تشدد، جس کا نتیجہ بابری انہدام کے طور پرسامنے آیا، اس کودکھایاگیا ہے۔

سال1992میں ریلیز ہوئی اس فلم کو نیشنل  فلم ایوارڈ کی بیسٹ انویسٹیگیٹو فلم کے زمرے میں تو ایوارڈ ملا ہی تھا، اس کو دو انٹرنیشنل ایوارڈبھی ملے تھے۔گزشتہ  بدھ کو خصوصی سی بی آئی عدالت نے 28 سال پرانے بابری انہدام معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے تمام 32 ملزمین کو بری کر دیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بابری مسجد انہدام کا واقعہ منصوبہ بندنہیں تھا۔ حالانکہ ڈاکیومنٹری بنانے کے لیے ایودھیا میں رہے پٹوردھن اس سے اتفاق نہیں رکھتے۔ عدالت کے حالیہ فیصلے کو لےکرمختلف  پہلوؤں پرآنند پٹوردھن سے وشال جیسوال کی بات چیت۔

بابری مسجد انہدام کو لےکر خصوصی سی بی آئی عدالت کے فیصلے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

‘رام کے نام’ ڈاکیومنٹری دیکھنے پر صاف پتہ چل جاتا ہے کہ یہ سب ایک سازش تھی۔ رام جنم بھومی کے پجاری مہنت لال داس ہی بتا رہے تھے کہ یہ لوگ جو کر رہے ہیں وہ صرف پیسہ پانے اوراقتدارمیں آنے کے لیے کر رہے ہیں، انہیں تو مذہب  سے بھی کوئی مطلب نہیں ہے۔

ڈاکیومنٹری ‘رام کے نام کا پوسٹر۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/آنند پٹوردھن)

ڈاکیومنٹری ‘رام کے نام کا پوسٹر۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/آنند پٹوردھن)

انہوں نے یہ بھی  بتایا کہ یہاں پر وشو ہندو پریشد(وی ایچ پی)کے لوگ کبھی پوجا کرنے کے لیے بھی نہیں آئے۔ یہ صرف ایک سیاسی  معاملہ ہے۔ لبراہن کمیشن کے سامنے ‘رام کے نام’ایک ثبوت کے طور پر رکھی گئی تھی۔

میں نے ایودھیا میں دیکھا کہ 20 سے زیادہ  ایسے مندر تھے جو کہتے تھے کہ رام یہیں پیدا ہوئے ہیں۔ اس کا مقصدیہی تھا کہ اگر آپ وہاں رام کے جنم کو ثابت کر دیں گے تو وہاں پر چڑھاوا زیادہ آئےگا، زیادہ دان ملےگا۔ مگر وی ایچ پی  نے ایک ہی جگہ کو رام جنم بھومی مانا کیونکہ وہاں مسجد تھی۔

بابری مسجد گرنے سے پہلے میں نے ‘رام کے نام’بنائی تھی۔ 1990 میں جب میں وہاں گیا تھا تب بھی کارسیوکوں نے مسجد گرانے کی کوشش کی تھی، لیکن تھوڑی بہت توڑ پھوڑ ہونے کے بعد مسجد بچ گئی تھی۔اس دوران ریاست  میں ملائم سنگھ یادو کی سرکار تھی، جو کارسیوکوں کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن دوسری طرف کارسیوکوں کی جانب  سے سابق پولیس چیف تھے، جو وی ایچ پی  کے ممبر بن گئے تھے۔

پولیس ان کی مدد کرنے میں ہی لگی تھی۔ اس دن مسجد بچ گئی تھی مگر کچھ لوگ مارے بھی گئے تھے۔ 2014 میں کوبرا پوسٹ نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا تھا، جس میں انہوں نے بابری کو گرانے والے کئی ملزمین  کے خفیہ کیمرے سے انٹرویو کیے تھے۔

اس ویڈیو میں کارکن کھل کر بول رہے تھے کہ انہیں پتہ تھا کہ اگر ان کے کچھ لوگ مارے جا ئیں گے تو اور بھی اچھا ہوگا۔ان کا ماننا تھا کہ اگر پولیس کی گولی باری میں کچھ جانیں گئیں، تو اس کا فائدہ ملےگا اور 1990 میں یہی ہوا۔ انہوں نے اپنے ہی کارسیوکوں کو جان بوجھ کر مروایا۔

کہا جاتا ہے کہ بابری مسجد انہدام کے بعد ہمارا سماج زیادہ فرقہ پرست ہوا ہے، آپ کی کیا رائے ہے؟

میں نے جب ‘رام کے نام’بنائی تھی، تب کم سے کم غریب، مظلوم  اورمحروم طبقہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی گڑبڑ ہو اور اسے مندر سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ ہم جب ایودھیا گئے تھے تب لوگ کہتے تھے کہ ہم تو ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں، ایک دوسرے کی شادی میں جاتے ہیں،تمام  چیزیں ایک ساتھ کرتے ہیں۔ ہمارے بیچ کوئی دنگافساد نہیں ہوتا ہے لیکن باہر کے لوگ آکر یہ سب کروا رہے ہیں۔

اس وقت ایسے جذبات تھے کہ باہر کے لوگ آکر ماحول خراب کر رہے ہیں۔ حالانکہ آج حالات  بدل چکے ہیں۔میں کہوں گا کہ فرقہ پرست  ہونے سے زیادہ اکثریت کا نشہ چڑھ گیا ہے۔ ابھی فرقہ وارانہ  دنگے نہیں ہوتے ہیں بلکہ پوگرام [Pogrom-کسی خاص کمیونٹی کو نشانہ بناکر ہونے والا قتل عام]ہوتے ہیں۔ کچھ ہوتا ہے، تو مسلمان زیادہ مارے جاتے ہیں۔

آپ چاہے 2002 کو دیکھ لیجیے، 1984 دیکھ لیجیے یا پھر اس سال جو دہلی میں ہوا وہ دیکھ لیجیے۔ اقلیت زیادہ مارے گئے ہیں اور مارا کس نے ہے وہ ہم جانتے ہیں۔

‘رام کے نام’بنانے کے دوران ہم نے دیکھا تھا کہ وہاں بہت سے اکھاڑے تھے۔ وہاں کشتی وغیرہ کے ساتھ ہتھیار چلانے کی ٹریننگ دی جاتی تھی۔ انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ یہ اکھاڑے بہت پہلے سے ہیں کیونکہ وہاں بابری مسجد کو لےکر ہندو مسلم کا جھگڑا ہوتا رہتا تھا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔

(بہ شکریہ: ڈاکیومنٹری‘رام کے نام’/ویڈیوگریب)

(بہ شکریہ: ڈاکیومنٹری‘رام کے نام’/ویڈیوگریب)

حالانکہ، یہ جھگڑے شیو اور ویشنو فرقے میں ہوتے تھے۔ شیو اور ویشنو میں ہمیشہ ٹھنی رہتی تھی۔ آج کا ہندوتوا بنانے میں انہوں نے اس معنی  میں کامیابی حاصل کی ہے کہ شیو اور ویشنو کو ایک کیا ہے اور ان کا دشمن صرف مسلمان ہے۔

آج لوگوں میں یہی تصور بن گیا ہے کہ مسلمانوں نے جو ہمارے ساتھ 500 سال پہلے کیا ہم اس کا بدلہ لیں گے۔ میرا ماننا ہے کہ گاؤں میں آج بھی یہ اتنی گہرائی میں نہیں پہنچا ہے لیکن شہروں اور متوسط طبقے کےلوگوں میں یہ بہت گہرائی تک بس گیا ہے۔

خصوصی سی بی آئی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ بابری مسجد انہدام کے لیےملزم32رہنما نہیں بلکہ غیرسماجی عناصر ذمہ دار ہیں۔ آپ کا کیا کہنا ہے؟

اگر عدالت کہہ رہی ہے کہ یہ کام غیرسماجی عناصر نے کیا تو اس کا مطلب ہے کہ پورا سنگھ پریوار غیرسماجی ہے۔ انہوں نے ہزار بار بیان دیا ہے کہ مندر وہیں بنائیں گے۔ اس فیصلے کا یہ مطلب ہے کہ ہمارے ملک میں قانون کا راج  ختم ہو چکا ہے۔ ہم ہندو راشٹر بن چکے ہیں۔ جو اقتدارمیں ہیں وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم جو کریں گے سب چلےگا۔

سنگھ پریوار کی منصوبہ بندی  کی شروعات پرانی ہے۔ 1990 میں‘رام کے نام’بناتے وقت ہم نے ان مہنت کا انٹرویو لیا تھا، جنہوں نے خود اپنے ہاتھ سے 1949 میں ایک اندھیری رات میں مسجد میں گھس کر رام مورتیاں رکھی تھیں۔ ایودھیا کے ضلع مجسٹریٹ  نے مورتی ہٹانے سے انکار کیا اور بعد میں جاکر سنگھ کے ممبر بن گئے۔

اس کے بعد وی ایچ پی  نے بھیے پرکٹ کر پالا نام’سے ایک ویڈیو بھی بنوایا تھا، جس میں ایک چار سال کا بچہ بھگوان رام کی ایکٹنگ کرکے مسجد میں اچانک نمودار ہوتا ہے۔ اس کو‘منصوبہ بندی’ نہیں تو کیا کہیں گے؟دسمبر 1992 میں مسجد گرانے کا واقعہ تقریباً نو گھنٹے تک چلا۔ مکمل واقعہ  کیمرے میں قید ہواہے۔ یہ تمام(ملزم رہنما) وہاں موجود تھے۔ آپ تصویریں دیکھیے کہ وہ کیسے ہنس رہے ہیں۔

(بہ شکریہ: ڈاکیومنٹری ‘رام کے نام’/ویڈیوگریب)

(بہ شکریہ: ڈاکیومنٹری ‘رام کے نام’/ویڈیوگریب)

سال1989میں وی ایچ پی نے راجیو گاندھی کو دھوکہ دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ صرف سنگ بنیاد ڈالناچاہتے تھے جس کی اجازت راجیو گاندھی نے دی تھی۔ 6 دسمبر کے لیے انہوں نے کہا کہ وہاں وہ صرف جا ئیں گے اور کچھ توڑ پھوڑ نہیں کریں گے۔

ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ ان کے لوگ قابو میں نہیں ہیں، آر ایس ایس سے زیادہ ہمارے ملک میں(کارکنوں پر) قابو رکھنے والی کوئی تنظیم  نہیں ہے۔

ہندوستان  کا آئین سیکولرازم کی بات کہتا ہے، آج کے سماج میں اسے کہاں پاتے ہیں؟

میں نے جو ریسرچ کیا تھا اس کے مطابق1857 میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ ایک سمجھوتہ ہوا تھا جس کے مطابق اس احاطہ  میں مسلم نماز ادا کر سکتے تھے اور ہندو پوجا کر سکتے تھے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس کا ذکر ہے۔

یہ سمجھوتہ ہندوؤں کی جانب  سے بابا رام چرن داس اور مسلمانوں کی جانب  سے اس وقت کے ایک رئیس مسلم اچھن میاں نے کرایا تھا۔

سال1857کا مطلب ہے کہ آزادی کی پہلی لڑائی جب ہندو اور مسلمان دونوں انگریزوں کے خلاف متحد ہوکر لڑ رہے تھے۔ انگریز جب اس لڑائی کو جیت گئے، تب انہوں نے بابا رام چرن داس اور اچھن میاں دونوں کو پھانسی دے دی۔

وہی کام ہم آج کر رہے ہیں کہ جو لوگ سیکولر ہیں، ہندو مسلم اتحاد اورشہری حقوق  کے لیے لڑ رہے ہیں، انہیں جیل میں ڈالا جا رہا ہے جبکہ جو لوگ اس ملک  کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی  کو بگاڑنے میں لگے ہیں، اقلیتوں  کوہراساں  کر رہے وہ آج اقتدار میں ہیں۔

سال1990میں ایک نعرہ چلتا تھا ‘کن کن میں ویاپے ہیں رام،’ یعنی رام کسی ایک اینٹ یا ایک مندر میں نہیں، ہر چیز میں ہیں۔ اب انہوں نے اس کے پورے تصورکو بدل ڈالا ہے۔

بابری انہدام کے بعد جب اتر پردیش میں بی جے پی کی سرکار اقتدارمیں آئی تب اس نے پجاری لال داس کی سکیورٹی  ہٹا دی اور پھر ان کا قتل ہو گیا۔ گاندھی جی کا قتل ہوااور ایسے ہی سیکولرملک کے لیے لڑنے والے کئی اور لوگ مارے گئے۔

آپ ان قاتلوں  کا موازنہ کسی بھی مذہبی شدت پسند گروپ  سے کر سکتے ہیں لیکن میں انہیں دہشت گرد ہی کہوں گا۔

کیا لگتا ہے کہ بابری مسجد انہدام معاملے کو آگے لے جایا جانا چاہیے؟ کیا متاثرہ فریق انصاف  کی امید کر سکتے ہیں؟

مسلمان تھک گئے ہیں، ڈر گئے ہیں، اب وہ یہ جھنجھٹ نہیں چاہتے ہیں۔ عدالت میں اگر آگے معاملہ جاتا ہے تو سی بی آئی کس کے ہاتھ میں ہے؟ جب ملزم فریق  ہی ان کی طرف ہے توکیس پر فرق کیسے پڑےگا۔عدالتوں پر بھی اقتدارکا پورا پورا دباؤ دکھتا ہے۔ اہم  مدعوں پر ایک بھی فیصلہ لوگوں کےحق میں نہیں آیا ہے۔ جیسے امریکہ میں کووڈ 19 کے باوجود لوگ لڑنے سڑکوں پر اتر گئے ویسے ہی ہمیں بھی اترنا پڑےگا۔

انٹرنیٹ پر دباؤ بنانے سے کچھ نہیں بلکہ انٹرنیٹ پر ہمارا دباؤ کم ہے اور ان کا دباؤ زیادہ ہے۔ وہ لوگ ابھی انٹرنیٹ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ کئی بار میری ہی فلموں کو ایک طرح سے بین کر دیا یا عمر سے متعلق پابندی  لگا دی تاکہ اسے کم لوگ دیکھیں۔

ملک  کی موجودہ سیاست کے لیے کہیں نہ کہیں رام مندر تحریک کو بنیاد مانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی کے سہارے موجودہ قیادت کی زمین بنی۔ آپ اس پوری تحریک اور واقعات کوکیسے دیکھتے ہیں؟

ان کی دلیل ہے کہ رام مندر توڑکر بابری مسجد بنائی گئی تھی جبکہ جب بابری مسجد بنی، تب رام مقبول  ہی نہیں تھے۔ بابری کی تعمیر سے پہلے تو شیو اور دیگر مندر بنتے تھے۔

اصل رامائن والمیکی نےسنسکرت میں لکھی تھی، جسے بہت کم لوگ سمجھتے تھے۔ رام مندر کی مقبولیت کا دور تلسی داس کی  لکھی رام چرترمانس سے شروع ہوا اور یہی وہ وقت تھا جب بابری مسجد کی تعمیر ہوئی  تھی۔ اس کے بعد ہی رام مندر بننے شروع ہوئے۔ سب سے زیادہ  گہرائی میں جانے والے آثار قدیمہ کے ماہرین  کو وہاں بودھ دھرم سے متعلق آثار ملے تھے۔

(فوٹو بہ شکریہ: ڈاکیومنٹری رام کے نام/ویڈیوگریب)

(فوٹو بہ شکریہ: ڈاکیومنٹری رام کے نام/ویڈیوگریب)

اس سے پہلے جتنے بھی فیصلے آئے وہ اتنے غلط تھے کہ ہر فیصلے کے بعد میں حیران  رہ گیا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ بھگوان رام یعنی رام للا خود ایک فریق  ہیں اور انہوں نے اپنا ایک وکیل چنا ہے۔ بھگوان خود زمین پر آکر کیس لڑ رہے ہیں اور وہ رام للا کی ملکیت ہے۔ بھگوان کی ملکیت اگر اس دنیا میں ہو جائےگی تو ملکیت کا مطلب کیا رہ جائےگا۔

ابھی متھرا میں بھی ایک عرضی دائر کی گئی تھی کہ بھگوان کرشن کی ایک ملکیت ہے۔ ایک سیکولر ملک، جس میں ہمارا آئین  ہمیں سیکولر کہتا ہے، میں بھگوان کا درجہ اتنا گرا دیا کہ بھگوان زمین کا جھگڑا کر رہے ہیں!

رام کے نام’ کو لےکر ہوئے کچھ تجربے بتانا چاہیں گے

‘رام کے نام’جب بنی تب ہم نے اسے دوردرشن پر دکھانے کی بہت کوشش کی۔ تب بی جے پی  کی نہیں، کانگریس اور اس کے بعد وی پی سنگھ کی مشترکہ  محاذکی سرکاریں تھیں لیکن کسی نے نہیں سوچا کی ایسی فلم کو لوگوں تک پہنچانا چاہیے۔

اگر انہوں نے سوچا ہوتا کہ ہمارے ملک میں جو چل رہا ہے اور ایسی فلم چل جائےگی تو نفرت کم ہو جائےگی اور لوگوں کو سمجھ میں آ جائےگا کہ یہ پیسے اور اقتدار کے لیے کیا جا رہا ہے۔اس کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ ساری سیکولر سرکاریں آئی گئیں لیکن فلم نہیں دکھائی گئی۔

آخرکار، عدالت کے فیصلے کی وجہ سے ایک بار دوردرشن پر فلم آ پائی۔ وہ بھی بابری مسجد ٹوٹنے کے چار پانچ سال بعد۔ہم اپنے ملک میں سیکولراقدارکو بڑھاوا نہیں دیتے ہیں۔ وہ ہماری فلموں کو دبا دیتے ہیں جبکہ ہر طرح کی  ضعیف الاعتقادی  ٹی وی پر چلتی ہے۔ لوگوں کا ذہن برباد کر رہے ہیں۔

اس کے لیےصرف بی جے پی ذمہ دار نہیں بلکہ سیکولر لوگوں نے بھی اسے بڑھاوا نہیں دیا۔ کیرل اور بنگال میں لیفٹ  کی سرکاریں تھیں لیکن انہوں نے بھی ایسا کچھ نہیں کیا۔

Next Article

ہریانہ: ٹوپی کو لے کر ہوئے جھگڑے میں مسلم نوجوان کی موت، پولیس نے کہا – کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں

گزشتہ دنوں ہریانہ کے پانی پت میں بہار کے کشن گنج سے تعلق رکھنے والے مزدورفردوس عالم کی مذہبی ٹوپی کو لے کر ہوئے تنازعہ کے دوران حملے کے بعد موت ہو گئی۔ اہل خانہ نے اس کی وجہ ان کی مذہبی پہچان  بتائی ہے، جبکہ پولیس نے کسی بھی فرقہ وارانہ زاویے سے انکار کیا ہے۔

فردوس عالم (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: ہریانہ کے پانی پت میں 24 مئی کو ایک 24 سالہ مزدور فردوس عالم عرف اسجد بابو کی جان لیوا حملے میں موت ہوگئی۔ یہ واقعہ مذہبی ٹوپی کے حوالے سےہوئے جھگڑے کے بعد پیش آیا،  جو بعد میں پرتشدد ہو گیا۔

تاہم، پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعہ میں کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں ہے۔

فردوس بہار کے کشن گنج ضلع کا رہنے والا تھا اور پانی پت کی ایک فیکٹری میں درزی کا کام کرتا تھا۔ فردوس کے بھائی اسد نے بتایا کہ فردوس حال ہی میں شادی کرکے اپنی سسرال سے اپنے دوست شاہنواز کے ساتھ واپس لوٹ رہے تھے۔ رات 8 بجے کے قریب، سیکٹر 29 کے فلورا چوک کے پاس ان کی ملاقات ایک دکاندار شیشو لال عرف نریندر سے ہوئی، جو وہاں کریانہ کی دکان چلاتا ہے۔

اسد نے کہا، ‘اس نے میرے بھائی کی ٹوپی چھین کر پہن  لی اور مذاق اڑانے لگا۔ جب میرے بھائی نے اسے ٹوپی واپس کرنے کو کہا تو اس نے ٹوپی زمین پر پھینک دی۔’

اسد کے مطابق، فردوس نے لڑائی نہیں کی۔ اسد نے بتایا، ‘اس نے صرف غصے سے دیکھا اور پوچھا کہ ٹوپی کیوں پھینکی؟ اس پر نریندر غصے میں آگیا اور بولا، تو مجھ سے اس طرح  بات کیسے کر سکتا ہے؟’ اس کے بعد جب فردوس اپنی ٹوپی لینے کے لیے نیچے جھکے تو نریندر نے اس کے سر پر ڈنڈے سے وار کیا اور پوچھا کہ کیسا لگا۔ حملے کے بعد فردوس بے ہوش ہو گئے۔

شاہنواز نے بتایا کہ انہوں نے گھبراکر اسد کو فون کیا۔ اسد موقع پر پہنچے اور انہیں  مقامی سرکاری ہسپتال لے گئے، جہاں سے انہیں پی جی آئی روہتک ریفر کر دیا گیا۔ فردوس کی روہتک میں علاج کے دوران موت ہو گئی۔

اسد نے بتایا،’ میں 9 سال سے  درزی کا کام کر رہا ہوں، فردوس دو سال پہلے ہی آیاتھا۔ میں یہاں بہت زیادہ لوگوں کو نہیں جانتا ہوں ، تو فردوس اس دکاندار کو کیسے جانتا ہوگا۔’

اسد کا مانناہے کہ اس کے بھائی کو اس کی مذہبی پہچان  کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ انہوں نے کہا، ‘ان دنوں حالات ہی ایسے ہیں۔’

ملزم نریندر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این سی) کی کئی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے،جس میں دفعہ 103(1) (جان بوجھ کر کیا گیا قتل) بھی شامل ہے۔

پولیس کا فرقہ وارانہ زاویہ سے انکار

تاہم، انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ، پانی پت پولیس نے اس واقعے کے پیچھے کسی بھی فرقہ وارانہ زاویہ سے انکار کیا ہے۔ رپورٹ میں انڈسٹریل سیکٹر 29 تھانے کے تھانہ انچارج (ایس ایچ او) سبھاش  کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے،’بالکل نہیں (جب فرقہ وارانہ زاویہ کے بارے میں پوچھا گیا))۔ ملزم نے صرف ٹوپی پہن کر  دیکھنا چاہا تھا، اسے شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ یہ مذہبی ٹوپی ہے۔ اس نے ٹوپی پہن کر پوچھا کہ یہ کیسی لگ رہی ہے، جس پر متوفی نے اسے لوٹانے کے لیے کہا۔اس کے بعد جھگڑا ہو گیا،معاملہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ تفتیش جاری ہے۔’

وہیں،کشن گنج کے کانگریس ایم پی محمد جاوید نے اس واقعہ کے بارے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس  پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ یہ صرف ہیٹ کرائم نہیں ہے، بلکہ ‘ریاستی سرپرستی ‘  میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ ہے۔

انہوں نے لکھا، ‘ہریانہ میں کشن گنج کے کوچادھامن کے اسجد بابو کو صرف اس لیے بے دردی سے قتل کر دیا گیا کیونکہ اس نے ٹوپی پہن رکھی تھی۔ یہ صرف ہیٹ کرائم نہیں، بلکہ ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی ہے۔ اس ٹارگٹ کلنگ کے لیے ہریانہ حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے۔ ہم تمام مجرموں کے خلاف سخت کارروائی اور متاثرہ خاندان کو 50 لاکھ روپے کے معاوضے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ کسی بھی مہذب معاشرے میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

ہندوپاک کشیدگی کے درمیان ’بائیکاٹ ترکیہ‘ کا مطلب کیا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے ترکیہ کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کا شاید ہی کوئی اثر ترکیہ پر پڑے گا۔ کیونکہ ترکیہ کی کل درآمدات میں ہندوستان کا حصہ صرف 0.2 فیصد ہے۔اسی طرح ہندوستان سے ترکیہ جانے والے سیاح کل سیاحوں کا صرف 0.6 فیصد ہیں۔

سودیشی جاگرن منچ کے اراکین کا جمعہ 16 مئی 2025 کو نئی دہلی میں ترکی کے خلاف احتجاج۔ تصویر: پی ٹی آئی

جموں و کشمیر کے پہلگام پہاڑو ں میں سیاحوں کی ہلاکت اور اس کے بعد پاکستان کے ساتھ محدود جنگ میں عالمی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق، ہندوستان میں سارا غصہ ترکیہ پر اتارا جا رہا ہے۔

کہیں تجارت یا سیاحت کا بائیکاٹ، تو کہیں ترکیہ کو فوجی طریقے سے گھیرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

حیرت تو یہ ہے کہ سرکاری ترجمان نے اس پاگل پن کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ نے پہلگام واقع کی مذمت نہیں کی۔ ایسی بے خبری بھی کیا۔ ترک وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر وہ بیان ا بھی بھی موجود ہے، جو 22اپریل کو ہی ریلیز کیا گیا تھا، جس میں پہلگام واقعہ کی  شدیدمذمت کی گئی تھی۔

وزیرا عظم نریندر مودی غالباًامریکی صدر جارج بش کے نو گیارہ حملوں کے بعد دنیا کو دیے پیغام کی کاپی کر رہے ہیں کہ یاتو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا خلاف ہیں۔ غیر جانبدار رہنے کا سوال ہی نہیں ہے اور جو خلاف ہیں، ان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ایسی دوٹوک باتیں سفارتی طور پر تو کسی سپر پاور کو بھی زیب نہیں دیتی ہیں۔ ہندوستان جیسے درمیانہ درجے کے پاور کے لیے جو ابھی ایک موثر ایشیائی علاقائی طاقت بننے کے  ابتدائی مراحل میں ہی ہے، یہ غیر حقیقت پسندانہ رویہ انتہائی نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔

ہندوستان کے اندر گودی میڈیا کے ذریعے عوام کو اپنی فوجی اور سفارتی کامیابیا ں بتاکر ایک جنون تو پیدا کیا جاسکتا ہے، مگر بین الاقوامی طور پر حقائق کو چھپانا ناممکن ہوتا ہے۔

سال 2019میں پلوامہ کے واقعہ کے بعد جس طرح کی حمایت ہندوستان کو حاصل ہوئی تھی،اس وقت واضح طور پر مفقود ہے۔ دنیا بھر کے فوجی ماہرین متفق ہیں کہ اس محدود جنگ کے دوران ہندوستان کے چند انتہائی جدید رافیل طیارے چینی طیاروں اور ان کی فراہم کردہ تکنیک کی وجہ سے گرائے گئے ہیں۔

اس لیے اگر پاکستان کو دفاعی ساز و سامان دینے کا معاملہ ہے، تو یہ غصہ چین پر نکالنا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہوتا جا رہا ہے کہ حملوں کی جانکاری ہونے کے باوجود اس کا سد باب کرنے کے بجائے، ہلاکتوں اور نقصان کے بعد ہی دنیا بھر میں پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا ڈھونڈورا پیٹا جاتا ہے اور داخلی طور پر اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

 ایک ملک میں حال ہی میں رپورٹروں اور تھینک ٹینک کے اسکالروں کے لیے ہندوستان نے بریفنگ کا انتظام کیا تھا۔  چونکہ اسی دن بائیکاٹ ترکیہ کا ٹرینڈ چل رہا تھا، اس لیے جب سوالات کیے گئے کہ اس ملک کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، تو بتایا گیا کہ پاکستان نے جو 300 سے 400 ڈرونز استعمال کیے، وہ مبینہ طور پر ترکیہ کی طرف سے فراہم کیے گئے تھے۔

اب اس محفل میں فوجی ماہرین بھی شامل تھے، تو انہوں نے ان ڈرونز کی تصویریں دکھانے کا مطالبہ کردیا۔ جو پریزنٹیشن دی جارہی تھی، اس میں صرف چینی ملٹری ڈرون نظر آرہے تھے۔

پوچھا گیا کہ کیا ترکیہ کے جدید ترین بیرکتر ٹی بی سیریز کا کوئی ملٹری ڈرون پاکستان نے استعمال کیا، تو جواب نفی میں تھا۔ لے دے کے بس اتنا پتہ چلا کہ پاکستان نے ترکیہ کے سونگر ڈرون نگرانی کے لیے استعمال کیے تھے۔ان کا رینج بھی زیادہ نہیں ہوتا ہے۔

اب اگر ان سے پوچھا جائے کہ نگورنو کاراباخ کی جنگ میں تو ہندوستان نے آکاش میزائل اور ڈیفنس سسٹم کے علاوہ جنگی جہاز اور دیگر ساز و سامان آرمینیا کو فراہم کر دیے تھے، وہ کس کھاتے میں آتا ہے؟ ترکیہ نہ آذربائیجان نے اس کو کبھی ایشو نہیں بنایا، تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔

 ویسے تو دنیا  بھر میں ترکیہ نے اپنے آپ کو ڈرون پاور کے بطور منوا لیا ہے۔ 15مئی کو جب یوکرین کے صدر ولادمیر زیلنسکی انقرہ میں تھے، تو اپنے ملک کے سفارت خانہ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 24فرروری 2022کو جب روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا، تو انہوں نے دارالحکومت کیف کے ایر پورٹ پر تقریبا ً قبضہ کر لیا تھا اور اگلے چند گھنٹوں میں وہ دارالحکومت پر قبضہ کرکے پورے ملک کوکنٹرول کرنے کے قریب تھے۔ جس چیز نے یوکرین کو بچایا اور جنگ نے طول کھنچا وہ ترکیہ کے بیرکتر ڈرون تھے۔

انہوں نے روسی ایر ڈیفنس سسٹم کو چکمہ دیکر روسی ٹینکوں کو اس حد تک تہس نہس کر ڈالا کہ ان کو پسپا ہونا پڑا۔ انہی ڈرونز نے شام، لیبیا، آذربائیجان، ایتھوپیا سمیت کئی محاذوں پر جنگ جیتنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن یہ بات اب طے ہے کہ پاکستان نے یہ ڈرونز استعمال نہیں کیے اور چینی ڈرونز پر ہی انحصار کیا ہے۔  جبکہ نگرانی اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کے مقصد سےترک ’سونگار‘ ڈرونز استعمال کیے۔

اس دعویٰ کی پو ل کھلنے کے بعد بتایا گیا کہ ناراضگی کی وجہ کراچی میں ترک جنگی بحری جہازوں کی آمد اور اسلام آباد میں ترک فوجی طیارے کی لینڈنگ ہے۔ جن کی تصاویر پاکستانی فوج کے ٹوئٹر ہینڈل سے شیئر ہوگئی۔ دراصل جنگی بحری جہاز کوریا سے روانہ ہوکر استنبول کی طرف رواں تھا اور ایندھن لینے کے لیے کراچی میں رک گیا تھا۔

انقرہ میں ذرائع کا کہنا ہے کہ 7 مئی کو جب ہندوستان نے پاکستان کے اندر میزائلوں سے حملہ کیا، تو تو ترک صدر رجب طیب اردوان نے جنوبی ایشیا کے امور سے متعلق اپنی حکمراں جماعت آق پارٹی اور قریبی مشیروں کے ساتھ ایک اہم اجلاس بلایا۔

ذرائع نے بتایا کہ یہ اجلاس محض 10 منٹ جاری رہا اور صدر کا پیغام نہایت واضح تھا: ضبط و تحمل اپنایا جائے اور خطے میں امن یقینی بنایا جائے۔

انقرہ اور استنبول میں موجود ذرائع کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پرامن تعلقات ترکی کے اسٹریٹجک مفاد میں ہیں، لیکن اگر مکمل جنگ چھڑ جاتی ہے تو عسکری روابط کو مدنظر رکھتے ہوئے ترکیہ کے پاس پاکستان کی حمایت کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ ماضی میں پاکستان کی فضائیہ نے ترکیہ کی مدد کی ہے، خواہ وہ 1973 میں یونان کے ساتھ قبرص کی جنگ ہو یا شام کے حالیہ تنازعات۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے ترکیہ کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کا شاید ہی کوئی اثر ترکیہ پر پڑے گا۔ کیونکہ ترکیہ کی کل درآمدات میں ہندوستان کا حصہ صرف 0.2 فیصد ہے۔اسی طرح ہندوستان سے ترکیہ جانے والے سیاح کل سیاحوں کا صرف 0.6 فیصد ہیں۔

جو چیزیں ہندوستان سے آتی ہیں جیسے باسمتی چاول وغیرہ، وہ پاکستان سے بھی دستیاب ہے۔ اگر ترکیہ جوابی اقدام کرتا ہے، تو اس سے ہندوستانی معیشت کو زیادہ نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ تجارت کا  بیلینس ہی ہندوستان کی طرف ہے۔

مزید یہ کہ تقریباً 200 بڑی بھارتی کمپنیوں کے دفاتر استنبول، ازمیر اور انتالیہ میں ہیں، جہاں سے وہ یورپ میں اپنی تجارت کو کو کنٹرول کرتی ہیں۔ ترکی چونکہ یورپی کسٹمز یونین کا رکن ہے، اس لیے ہندوستانی کمپنیوں کو یہاں کام کرنے میں لاگت میں بچت ہوتی ہے۔

پندرویں صدی میں عثمانی اور مغلیہ سلاطین میں خط و کتابت سے لے کر مشترکہ صوفی روایات اور لسانی مماثلتوں تک،  غیر منقسم ہند-ترک تعلقات کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ 1912 میں بلقان کی جنگوں کے دوران،  ڈاکٹر ایم اے انصاری جو بعد میں مسلم لیگ اور پھر انڈین نیشنل کانگریس کے صدر بنے — زخمی ترک سپاہیوں کا علاج کرنے کے لیے ایک طبی مشن لے کر ترکیہ پہنچے۔

ان کے ساتھ علی گڑھ کالج کے طالبعلم  عبد الرحمان صمدانی عرف پشاوری بھی تھے — جنہوں نے اپنا سب کچھ بیچ کر ترکوں کی مدد کرنے کے لیے استبول جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ان کے باقی ساتھی مشن مکمل کرکے تو واپس ہندوستان آگئے، مگر وہ ترکیہ میں ہی مقیم رہے۔وہ مصطفیٰ کمال اتا ترک کے قریبی رفیق بنے اور گیلی پولی کی جنگ میں حصہ لیا۔

جب اتا ترک نے انادولو نیوز ایجنسی قائم کی تو وہ اس کے پہلے رپورٹر مقرر ہوئے۔ ان کا تعلق ایک ایسے کشمیری خاندان سے تھا جو بارہمولہ سے پشاور ہجرت کر گیا تھا۔

ان کے چھوٹے بھائی محمد یونس گاندھی خاندان کے قریبی تھے اورہندوستان میں کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے، کئی ممالک میں سفیر، اور انڈیا ٹریڈ پروموشن آرگنائزیشن کے سربراہ بھی رہے۔ غیر منقسم ہندوستان  میں ترکیہ کے لیے جو امدادی فنڈ جمع ہوا، اس سے ‘ایش بینک’قائم ہوا — جو آج بھی ترکیہ کے بڑے بینکوں میں شمار ہوتا ہے۔

کم لوگ  ہی جانتے ہوں گے کہ 20ویں صدی کے وسط تک لداخ میں لداخی کے بعد ترک زبان کا ہی استعمال ہوتا تھا۔  لیہہ کے ارغون مسلمان — جو ترک تاجروں کی نسل سے ہیں — آج بھی وسطی ایشیا اور ترک رسم و رواج، ناموں اور اشیاء کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ترک ارغون  غلام رسول گلوَان کے  نام پر ہی  گلوَان وادی منسوب ہے، اور ترک سلطان سعید خان، کے نام پر  لق دق صحرا کا نام دولت بیگ اولدائی  رکھا گیا۔

چند ماہ قبل ترکیہ دورہ پر آئے ہندوستان کے  اسٹریٹجک امور کے معروف  ماہر سی راجہ موہن نے حقیقت پسندی اور فوری توجہ کی ضرورت پرزور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ترکیہ اور ہندوستان دونوں اکیسویں صدی کی بااثر علاقائی طاقتیں ہیں، اس لیے دونوں ایک دوسرے سے دور نہیں رہ سکتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر چہ ترکیہ کی طرف سے کشمیر کے ذکر اور پاکستان کی حمایت کرنے سے ہندوستان میں ناراضگی پائی جاتی ہے، تو ترکیہ بھی ہندوستان کی طرف سے آرمینا کو ہتھیار سپلائی کرنے اور قبرص پر یونانی موقف کی حمایت کرنے سے تشویش ظاہر کرتا ہے۔

لہذاطویل مدتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے، دونوں ممالک کو ان چپقلشوں کو درکنار کرتے ہوئے بین الاقوامی معاملات پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی راہیں ڈھونڈنی ہوں گی۔سینئر سفارت کار ایم کے بھدرکمار، جو انقرہ میں ہندوستان کے سفیر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ  ترکیہ اور پاکستان کے درمیان عسکری تعلقات واقعی موجود ہیں، مگر یہ تعلق ہندوستان کے لیے چین کی پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک قربت جتنا خطرناک نہیں۔ انہوں نے ہندوستانی لیڈروں پر واضح کیا کہ سفارتی امور پر جذباتی ردعمل سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے تزویراتی مفاد کو مقدم رکھیں۔

ترکیہ کی ابھرتی عالمی حیثیت کے پیش نظر، دنیا کے لیے اسے نظرانداز کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔مثال کے طور پر، ترکیہ اس وقت روس اور یوکرین کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ ترکیہ کے ڈرون نے روسی صدر ولادمیر پوتن کے یوکرین پر قبضہ کرنے کے پلان کو خاک میں ملا دیا۔ مگر وہ پھر بھی ترکیہ کو ہی قابل اعتماد ثالث گر دانتے ہیں۔وہ مودی کی طرح روٹھے نہیں۔

اردوان نے بیک وقت دونوں ملکوں سے دوستی برقرار رکھی ہے۔ شام میں بشارالاسد کی برطرفی اور جلاوطنی ترکیہ کی عسکری اور سفارتی حکمتِ عملی کی بڑی کامیابی مانی جاتی ہے۔ ترکیہ ایک یوریشیائی مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے، یوکرین میں ثالثی کے علاوہ وہ وسطہ ایشاء نیز افریقہ اور جنوبی امریکہ میں ایک بڑے رول میں سامنے آرہا ہے۔ ہندوستان اگر اپنی معیشت اور اثر و رسوخ کو پر امن طور پر وسعت دینا چاہتا ہے تو اسے خارجہ پالیسی میں ردعمل سے ہٹ کر فعال حکمت عملی اپنانی ہوگی۔

 انقرہ یلدرم بیازیت یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے اسکالراور مصنف پروفیسر عمیر انس کا کہنا ہے کہ ہندوستان-پاکستان کی حالیہ محدود جنگ ترکیہ کی پالیسی پر خاصی اثر انداز ہو گئی ہے۔ تر کیہ کی نظر میں اب جنوبی ایشیا ایک ‘سکیورٹائزڈ’ یعنی سکیورٹی مرکز خطہ ہے، جہاں اس کی اپنی سلامتی بھی جڑی ہوئی ہے۔

ان کے مطابق انقرہ اور ریاض میں خاموش اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ پاکستان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور اس کی ملٹری پاور کا تحفظ ناگزیر ہے۔ اسلام آباد اب نیٹو سے باہر ترکی کا سب سے اہم دفاعی شراکت دار بن چکا ہے۔لیکن اس تعلق کی بھاری قیمت ہندوستان کی ناراضگی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ترکیہ نے طویل عرصے تک پاکستان کے ساتھ تعلقات میں ابہام برقرار رکھا اور ہندوستان سے بھی قریبی روابط قائم رکھنے کی کوشش کی۔ ترکیہ نے ہندوستان کو ایک پیشکش کی تھی، کہ پاکستان سے تعلقات کی بحالی، بشمول کشمیر تنازع کا پرامن حل کے بدلے میں وہ ہندوستان کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری میں حصہ لے گا۔ اس مقصد کے لیے صدر اردوان نے کئی سطحوں پر ہندوستان کو آمادہ کرنے کی کوشش کی، لیکن اکثر یہ کوششیں سفارتی تناؤ کی نذر ہوگئیں۔

پروفیسر انس کے مطابق 2019 سے 2022 کا عرصہ ترکی-ہندوستان تعلقات کابد ترین دور کہلایا جا سکتا ہے، جب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف میڈیا مہمات چلا رکھی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی تھی۔ ہندوستان کی حکمران جماعت کے نظریاتی بیانیے میں’انڈیا فرسٹ’ کا نعرہ گونجنا شروع ہو گیا تھا۔

مطلب یہ کہ ہندوستان کے مفادات ہر چیز پر مقدم ہیں۔ نئی دہلی کے حقیقت پسند تجزیہ کار اکثر اس نعرے کی تشریح ‘انڈیا اکیلا’ کے طور پر کرتے ہیں، یعنی ہندوستان تنہا اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا۔

یہ موقف گجرال ڈاکٹرائن سے متصادم ہے، جو ہندوستان کے ہمسایہ ممالک کو بلا مشروط مدد فراہم کرنے کی بات کرتا تھا۔۔مگر 2022 کے بعد ہندوستان اور ترکیہ نے تعلقات پر از سر نو غور کرنا شروع کیا تھا۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے پاس ترکیہ سے متعلق کوئی جامع پالیسی نہیں۔محض وقتی ردعمل اور لین دین پر مبنی تعلقات، جو ایک ابھرتی ہوئی طاقت ترکیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

سفارت کاری کے آئینے میں دیکھا جائے، تو ترکیہ صرف پاکستان کا دوست نہیں، اور ہندوستان صرف یونان یا آرمینیا کا حلیف نہیں  ہوسکتا ہے۔ اب وقت ہے کہ بیانیہ بدلا جائے۔ ‘بائیکاٹ ترکی’ کے بجائے پیغام ہونا چاہیے؛ ‘روابط بحال کرو، مکالمہ کرو اور نئے تعلقات  تعمیر کرو۔’

آج دونوں — ہندوستان اور ترکیہ — خطے کی کلیدی طاقتیں ہیں جو عالمی نظام میں نئے کردار کی تلاش میں ہیں۔ ایک پر امن ہندوستان، جو علاقائی مسائل کا حل پر امن طریقے سے سلجھانے پر یقین رکھتا ہو، وقت کی ضرورت ہے۔

چین ایک معاشی پاورتبھی بنا جب اس نے اپنی سرحد پر بیشتر ممالک کے ساتھ تنازعات سلجھائے۔ہندوستانی لیڈروں کو جان لینا چاہیے کہ قدیم تہذیبیں وقتی تنازعات کی بنیاد پر خود کو محدود نہیں کر سکتیں۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ ایک خول میں بند رہنے اور گھمنڈ و غرور میں مبتلا ہونے کے بجائے افکار و خیالات کے تبادلے سے اپنا مستقبل تراشیں۔

Next Article

محمود آباد کے بہانے اب اشوکا یونیورسٹی پر حملہ

محمود آباد کے بہانے اب اشوکا یونیورسٹی پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ کیا ہم اس ادارے سےامید کر سکتے ہیں کہ یہ ہارورڈ کی طرح حکومت کے سامنے اٹھ کرکھڑا ہوجائے؟ شاید وہ روایت یہاں نہیں ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ اس بار پھر سے اس ادارے کے آقا بی جے پی کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی قربانی دے دیں گے۔

(اسکرین گریب بہ شکریہ: یوٹیوب/اشوکا یونیورسٹی)

اب یہ بات آہستہ آہستہ واضح ہوتی جا رہی ہے کہ علی خان محمود آباد کے بہانے اشوکا یونیورسٹی کو گھیرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا اس پر پوری طرح  قبضہ کر لیا جائے گا؟ کیا یہ جے این یو کی طرح برباد کر دیا جائے گا؟

اس خدشے کی  وجہ ہے۔ اس بار آر ایس ایس کی تنظیمیں، بی جے پی، سرکاری ادارے، سب مل کر اشوکا یونیورسٹی پر حملہ کر رہے ہیں۔ خبرہے کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے قومی کمیشن نے تین ماہ قبل اشوکا یونیورسٹی کیمپس میں دو طالبعلموں کی موت کے معاملے میں وضاحت کے لیے ہریانہ پولیس اور انتظامیہ کو نوٹس بھیجا ہے۔ اس نے یہ کام کسی کی شکایت پر کیا ہے۔

کمیشن کے خط میں کہا گیا ہے کہ ‘شکایت کنندہ نے الزام لگایا ہے کہ 14 اور 15 فروری کو اشوکا یونیورسٹی کے دو طالبعلموں کی المناک موت نے ممکنہ ادارہ جاتی کوتاہی کے بارے میں شدید تشویش پیدا کی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، ایک طالبعلم کی خودکشی سے موت  کا اندازہ ہے، جبکہ دوسرے طالبعلم کی لاش چند ہی گھنٹے بعد یونیورسٹی کے گیٹ کے قریب غیر واضح اور مشتبہ حالات میں پائی گئی۔’

کمیشن کے مطابق، ‘شکایت کنندہ نے واقعات کے ارد گرد شفافیت کی تشویشناک کمی کو اجاگر کیا، جس میں مبینہ خودکشی نوٹ کے مواد کو ظاہر نہ کرنا بھی شامل ہے۔ مزید برآں، یونیورسٹی کے مینٹل ہیلتھ سپورٹ سسٹم، سیکورٹی پروٹوکول، اور کیمپس کے مجموعی ماحول سے متعلق اہم سوال  بھی تھے۔’

یہ سب کچھ نارمل لگ سکتا ہے اگر ہم یہ نہ دیکھنا چاہیں کہ مرنے والوں کی عمریں 21 اور 19 سال تھیں اور انہیں کسی بھی طرح بچوں کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ کمیشن کے دائرہ اختیار سے باہر کا معاملہ ہے، حالانکہ یہ اپنے آپ میں تشویشناک ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں اس کمیشن نے بچوں کے حقوق کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس حکومت کے ناقدین پر بار بار حملہ کیا ہے۔ ہرش مندر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس نوٹس کے بہانے اشوکا یونیورسٹی کے ادارہ جاتی عمل کی تحقیقات شروع کی جائیں گی اور اسے کنٹرول  میں لینے کی کوشش کی جائے گی۔

اس نوٹس کا وقت بھی کم اہم نہیں ہے۔ یہ علی خان کے مقدمے کے عین درمیان میں آیا ہے۔ اس طرح کے واقعات پچھلے 11 سالوں میں کئی کیمپس میں پیش آئے ہیں۔ کیا کمیشن نے ہر جگہ اس انداز سے متحرک ہونے کا ثبوت دیاہے؟

اس نوٹس سے پہلے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے طلبہ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے یونیورسٹی کے خلاف احتجاج کیا۔ پریشداس بات پر ناراض ہے کہ یونیورسٹی نے علی خان کی رہائی پر راحت کا اظہار کیوں کیا اور اب تک ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ علی خان کو معطل یا برخاست کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

اگرچہ احتجاج میں بہت کم لوگ تھے، لیکن معلوم ہوا ہے کہ یونیورسٹی نے پریشد کو دو تین دن بعد جواب کی یقین دہانی کرائی ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ آر ایس ایس کے ترجمان ‘آرگنائزر’ نے بھی اسی بہانے اشوکا یونیورسٹی کے خلاف لکھا ۔ علی خان کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا مطلب یہی ہوگا کہ اشوکا یونیورسٹی ان کے خیالات سے متفق ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکومت ہند کی وزارت تعلیم نے اشوکا یونیورسٹی کے کچھ اکیڈمک پروگراموں میں ریزرویشن کو لے کر بھی سوال اٹھائے ہیں۔

علی خان کے خلاف برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہریانہ اسٹیٹ ویمن کمیشن کی چیئرپرسن نے اشوکا یونیورسٹی کو کھری -کھوٹی سنائی تھی اور اسے دھمکی بھی دی تھی۔

یہ بھی یوں ہی نہیں ہوا کہ علی خان کے معاملےکی سماعت کے دوران جسٹس سوریہ کانت نے اشوکا یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ کو احتجاج کرنے پر دھمکی دی۔ اس کا کوئی موقع نہیں تھا۔ کیا اشوکا یونیورسٹی انتظامیہ اس زبانی دھمکی کو طلبہ  اور اساتذہ کو نظم و ضبط کے لیے استعمال کرے گی؟

علی خان محمودآباد کے تبصرے میں خیالی طور پرخاتون مخالف اور سیڈیشن ڈھونڈ کر ان پر حملہ کیا جا رہا ہے، وہ اب اشوکا یونیورسٹی پر حملے میں بدل گیا ہے۔ اس کا  مطلب کیاہے؟

ہندوتوا تنظیمیں اشوکا یونیورسٹی کو بھی اسی طرح شک و شبہ دیکھتی ہیں جس طرح جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو ۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو بھی ملک دشمن کہہ کر گھیر لیا گیا ۔ اس کے زیادہ تر اساتذہ آزاد خیال تھے، یہ حقیقت آر ایس ایس کو مسلسل پریشان کرتی رہی۔ اس کے نصاب نوجوانوں میں لبرل سوچ کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور وہ ہندو راشٹر واد کے ناقد تھے۔

جے این یو ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں کے لیے ایک ماڈل تھا۔ اگرچہ یہ تعداد اور حجم میں دہلی یونیورسٹی سے چھوٹا تھا، لیکن اس کا تعلیمی وقار زیادہ تھا۔ اسے ختم کرنا ضروری تھا۔ اسی طرح اشوکا یونیورسٹی بھی ایک بہت چھوٹا ادارہ ہے، لیکن کئی وجوہات کی بنا پر علمی اور اکیڈمک دنیا میں اس کی علامتی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ یہ آر ایس ایس کے ثقافتی تسلط کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اس علامت کو ختم کرنا ضروری ہے۔

جے این یو کو بھی ملک دشمن کہہ کر بدنام کیا گیا۔ اس کے بعد اس کے کردار کو بدلنے کی کوشش کی گئی۔ اسے سرکاری طور پر کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ ہندوتوا دی وائس چانسلر مقرر کرکے جے این یو کو تباہ کیا گیا۔ دہلی یونیورسٹی کو بھی آہستہ آہستہ تباہ کر دیا گیا ہے۔ یہ سب سے پہلے وائس چانسلر کی تقرری اور پھر اساتذہ کی تقرری کے ذریعے کیا گیا۔ اب، ایسے اساتذہ کی کافی تعداد ہے جو ہندوتوا یا دائیں بازو کے ہیں۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثر نااہل بھی ہیں۔

اشوکا یونیورسٹی میں ایسے اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ہے جنہیں اپنی سوچ میں ترقی پسند یا لبرل کہا جا سکتا ہے۔ ان کی وجہ سے یونیورسٹی کا نصاب بھی لبرل ازم کی اقدار کو فروغ دیتا ہے۔ اس کے طلبہ بھی زیادہ تر لبرل اقدار کی پیروی کرتے ہیں۔ ابھی انہوں نے علی خان کی حمایت کی ہے۔ لیکن اس کے منتظمین پر ترقی پسندی یا لبرل ازم کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔

پچھلے 10 سالوں میں انہوں نے بارہا ان اساتذہ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا ہے جن کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی یا آر ایس ایس نے ناراضگی ظاہر کی۔ 2016 میں انتظامیہ نے کشمیر سے متعلق ایک بیان پر دستخط کرنے پر راجندرن نارائنن اور دو اکیڈمک اہلکاروں سورو گوسوامی اور عادل مشتاق شاہ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا۔ اس کے بعد وائس چانسلر پرتاپ بھانو مہتہ کو بھی اشارہ کیا گیا کہ وہ عہدہ چھوڑ دیں کیونکہ ان کی موجودگی سے ادارے پر حکومت کی سفاک نگاہیں بنی رہیں گی اور وہ اس کے کام کاج میں  رکاوٹیں پیداکرے گی۔

ان کے استعفیٰ کے بعد انتظامیہ یہ کہتی رہی کہ پرتاپ نے یہ کام اپنی مرضی سے کیا ہے۔ اس کے بعد، ابھی کچھ دن پہلے، اقتصادیات کے پروفیسر سبیہ ساچی داس کو ان کی ملازمت سے اس لیے نکال دیا گیاکہ انہوں نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات پر ایک اکیڈمک پیپر جاری کیا تھا، جو بی جے پی کوناگوار گزرا تھا۔

اساتذہ کو سزا دیتے ہوئے انتظامیہ نے ہر بار یہ دلیل دی کہ اشوکا یونیورسٹی کی بقا ہندوستان کے لیے بہت ضروری ہے اور اگر اس کے لیے اساتذہ کو قربانی دینی پڑتی ہے تو یہ جائز ہے کیونکہ اشوکا یونیورسٹی ہندوستان کے نالج کیمپس کے لیے ضروری ہے۔ بڑے مقصد کے لیے سب کی قربانی ضروری ہے۔ یعنی یونیورسٹی بذات خود ایک ایسا مقدس مقصد ہے کہ اس کے لیے ان اقدار کو بھی نظر انداز کیا جا سکتا ہے جن کا اشوکا یونیورسٹی دعویٰ کرتی رہی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ اسے اپنی ترقی کے لیے، زمین، پانی اور بجلی کے لیے سرکار کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ایک دو اساتذہ نہ ہوں تو کیا تبدیلی آ جائے گی؟

تو کیا اس بار بھی علی خان کی قربانی دے کر اشوکا یونیورسٹی اپنے لیے کچھ اورمہلت طلب کر لے گی؟ یا اس بار بی جے پی اور آر ایس ایس اس سے مطمئن نہیں ہوں گے اور ان کا مطالبہ کچھ اوربڑا ہوگا؟ کیا وہ انتظامیہ کے لیے اپنا آدمی چاہیں گے؟ کیا وہ یونیورسٹی کی فکری سمت میں تبدیلی کا مطالبہ کریں گے؟ یونیورسٹی انتظامیہ کا کیا موقف ہوگا؟

ہم اشوکا یونیورسٹی کے بورڈ سے ہارورڈ کی طرح حکومت کے سامنے کھڑے ہونے کی امید نہیں کر سکتے۔ وہ روایت یہاں نہیں ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس بار پھر سے وہ بی جے پی یا حکومت کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی قربانی دیں گے۔

وہ یہ نہیں بھی کر سکتے ہیں۔ میں کم از کم ایک ایسے اسکول منتظم کو جانتا ہوں جس نے دائیں بازو کے دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار کیا، اسکول پر حملہ اس لیے کیا گیا تھاکہ اس نے اپنے طلبہ کو پڑھنے کے لیے کچھ کتابیں تجویز کی تھیں اور ہندوتوا کے حامیوں کواس پر اعتراض تھا۔ اسکول میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ دھمکیاں دی گئیں۔ لیکن اسکول کے منتظم نے کہا کہ وہ کتابوں کی فہرست میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے۔ اگر انتظامیہ نے اسے سکیورٹی فراہم نہیں کی تو وہ اسکول بند کرنے کو ترجیح دیں گے۔ ابھی اسکول چل رہا ہے۔

کیا اشوکا یونیورسٹی کے سرپرستوں میں یہ کہنے کی ہمت ہے کہ اگر انہیں ان کے مقاصد کے مطابق کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تو وہ ادارے کو بند کرنے کو ترجیح دیں گے؟ وہ شاید ہی ایسا کر سکیں۔

لیکن ہم ان کی بزدلی پر کتنی ہی لعنت بھیجیں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس نے یہ صورتحال پیدا کی ہے۔ اگر اشوکا یونیورسٹی بچ جاتی ہے اور جے این یو کی طرح ختم ہوجا تی ہے تو اس کے ذمہ دار وہی  ہیں۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)

Next Article

کرناٹک میں بی جے پی لیڈر نے ڈپٹی کمشنر سے پوچھا – کیا وہ پاکستان سے ہیں؛ کیس درج

کرناٹک میں ایک احتجاج کے دوران بی جے پی لیڈر این روی کمار نے ڈپٹی کمشنر فوزیہ ترنم پر کانگریس کے اشارےپر کام کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ لگتا ہے کہ وہ پاکستان سےآئی ہیں۔ ان پرمسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکانے اور دیگر الزامات کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔

کرناٹک بی جے پی لیڈر این روی کمار۔تصویر: X.com/@nrkbjp

نئی دہلی: کرناٹک قانون ساز کونسل میں اپوزیشن کے چیف وہپ اور بی جے پی لیڈر این روی کمار پر ڈپٹی کمشنر فوزیہ ترنم کے خلاف ان کے ‘پاکستان’ سے متعلق تبصرے پر مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینے سمیت مختلف الزامات کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔

دکن ہیرالڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق ، 24 مئی کو بی جے پی کے احتجاج کے دوران روی کمار نے آئی اے ایس افسر ترنم پر کانگریس پارٹی کے اشارے  پر کام کرنے کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ ‘ وہ پاکستان سے آئی ہوئی لگتی ہیں۔’

بی جے پی نے قانون ساز کونسل میں قائد حزب اختلاف چالاوادی نارائن سوامی کے ساتھ ‘بدسلوکی’کے الزامات کے خلاف احتجاج کا اہتمام کیا تھا۔ بی جے پی نے دعویٰ کیا کہ انہیں ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس میں بند کر دیا گیا تھا جبکہ کانگریس کے حامیوں نے انہیں  گھیر لیا تھا۔

احتجاج میں حصہ لیتے ہوئے روی کمار نے ڈپٹی کمشنر ترنم سے پوچھا کہ کیا وہ پاکستان سے آئی ہیں۔

ان کے بیان کے بعد دتاتریہ اکلاکھی نامی شخص کی شکایت پر روی کمار کے خلاف مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکانے اور پولیس افسران کو غلام کہتے ہوئے توہین آمیز زبان استعمال کرنے کے الزام میں  مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ان پر درج فہرست ذات کے لوگوں اور ضلع انچارج وزیر پریانک کھڑگے کو دھمکی دینے اور ان کی توہین کرنے کا بھی الزام ہے۔

سوموار (26 مئی) کو مسلم خواتین لیڈروں نے کلبرگی کے پولیس کمشنر شرنپا ایس ڈی کو ایک میمورنڈم پیش کیا اور پولیس سے بی جے پی لیڈر کے خلاف کارروائی کرنے کی اپیل کی۔

مسلم خواتین رہنماؤں کے وفد نے کہا، ‘یہ نفرت اور تعصب کا معاملہ ہے۔ یہ ان کے وقار اور حب الوطنی پر براہ راست حملہ ہے۔’

Next Article

راہل گاندھی نے کہا – ’ناٹ فاؤنڈ سوٹیبل‘ کہہ کر ایجوکیشن اور قیادت سے دور رکھنا ایک نیا منوواد

دہلی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے طلبہ کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران راہل گاندھی نے کہا کہ ڈی یو میں 60 فیصد سے زیادہ پروفیسر کے ریزرو عہدوں کو ‘ناٹ فاؤنڈ سوٹیبل’ (این ایف ایس) قرار دے کر خالی رکھا گیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پسماندہ طبقات کے اہل امیدواروں کو جان بوجھ کر ‘نااہل’ ٹھہرایا جا رہا ہے۔

راہل گاندھی نے کہا کہ ‘دہلی یونیورسٹی میں پروفیسروں کے 60 فیصد سے زیادہ اور ایسوسی ایٹ پروفیسروں کے 30 فیصد سے زیادہ ریزرو عہدوں کو ‘ناٹ فاؤنڈ سوٹیبل(این ایف ایس)قرار دے کر خالی رکھا گیا ہے۔’ (تصویر بہ شکریہ: ایکس)

نئی دہلی:  لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے دہلی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین(ڈی یو ایس یو) کے طلبہ سے ملاقات کے دوران کہا کہ ‘ شیڈیولڈ کاسٹ (ایس سی)، درج فہرست قبائل (ایس ٹی) اور دیگر پسماندہ طبقات (اوبی سی) کے اہل امیدواروں کو جان بوجھ کر ‘نااہل’ ٹھہرایا جا رہا ہے – تاکہ وہ ایجوکیش اور قیادت سے دور رہیں۔’

راہل گاندھی نے اپنے ایکس ہینڈل پر اس ملاقات کا ویڈیو ٹوئٹ کیا ہے۔ ویڈیو میں کانگریس ایم پی طلبہ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

ویڈیو کے ساتھ ڈالے گئے کیپشن میں وہ لکھتے ہیں، ‘دہلی یونیورسٹی میں پروفیسروں کی 60 فیصد سے زیادہ اور ایسوسی ایٹ پروفیسروں کی 30 فیصد سے زیادہ ریزرو پوسٹوں کو ‘ناٹ فاؤنڈ سویٹبل (این ایف ایس)’قرار دے کر خالی رکھا گیا ہے۔ این ایف ایس اب نیا منوادہے۔’

بتادیں کہ ‘منواد’ کا مطلب ہے وہ سوچ یا نظام، جو پرانے’منوسمرتی’ کے اصولوں پر عمل کرتا ہے۔

طلبہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘یہ کوئی استثنیٰ نہیں ہے، یہی سازش ہر جگہ چل رہی ہے، آئی آئی ٹی ہو یا سینٹرل یونیورسٹی، این ایف ایس آئین پر حملہ ہے۔ این ایف ایس سماجی انصاف کے ساتھ دھوکہ ہے۔ ‘

ویڈیو میں وہ طلبہ سے کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان کی تاریخ دلتوں، قبائلیوں اور پسماندہ طبقات کی بھی تاریخ ہے۔ انہیں اپنی پہچان کے لیے جو کچھ برداشت کرنا پڑا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ لیکن ہندوتوا کےمنصوبے کی بنیاد ہی یہی ہے کہ ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی برادریوں کی تاریخ کو مٹا  دیا جائے۔’

راہل گاندھی نے امبیڈکر کے اس بیان کو دہراتے ہوئے – مساوات کے لیے تعلیم سب سے بڑا ہتھیار ہے – کہا کہ ‘مودی حکومت اس ہتھیار کو کند کرنے میں لگی ہوئی ہے۔’

جب ایک طالبعلم نے ریزرویشن پر سوال پوچھا تو اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ‘ریزرویشن ایک حق ہے۔ اور کانگریس کے اقتدار میں آنے کے بعد اس پر لگائی گئی 50 فیصد پابندی ہٹا دی جائے گی۔’