ایودھیا کی سبھا جھوٹ اور ادھرم کی بنیاد پر بنائی گئی ہے، کیونکہ جس کو اس کے درباری سچائی کی جیت کہتے ہیں، وہ دراصل فریب اور زبردستی کی پیداوارہے۔ عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ درباری بھول جاتے ہیں کہ اسی عدالت نے 6 دسمبر کے ایودھیا—کانڈ کو جرم قرار دیا تھا۔
مہابھارت کا ایک اشلوک ایودھیا کی آئندہ تقریب کی اچھی توضیح کرتا ہے۔
‘وہ سبھا نہیں جہاں بزرگ نہ ہوں، وہ بزرگ نہیں جو مذہب کی بات نہ کہے، وہ مذہب نہیں جس میں سچائی نہ ہو اور وہ سچائی نہیں جس میں فریب ہو۔’
یہ اشلوک ‘ادیوگ پرو’ کے تحت آتا ہے، جب بدور علم و حکمت کی بات کرتے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ گیتا پریس گورکھپور سے شائع ہونے والے ‘سمپورن مہابھارت’ میں یہ اشلوک ایک اور اہم مقام پر بھی دیا گیا ہے۔ دروپدی کو کرو سبھا میں زبردستی لے آیا گیا ہے۔ دروپدی وہاں موجود معززین سے سوال کر رہی ہیں اور اس سبھا کے جواز اور ممبران کی پرہیزگاری اور تقویٰ پر سخت سوال کر رہی ہیں۔چیرہرن کے واقعے کے دوران گیتا پریس کے مدیر اس اشلوک کو بریکٹ میں، گویا ایک فوٹ نوٹ یا حواشی کی طرح رکھ دیتے ہیں۔
ان سطروں کے آئینے سے آپ ایودھیا کی تیاریوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ہزاروں کروڑ کی سرمایہ کاری کے بعد اس شہر کا کایاپلٹ ہوگیا ہے۔ لیکن جو لوگ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ 22 جنوری کو ایودھیا ایک روحانی سبھا میں تبدیل ہو جائے گی، ان سے یہ پوچھنا چاہیے کہ اس سبھا کے عظیم الشان آسن پر ہندوستان کے معزز بزرگوں کو بٹھایا جائے گا؟ کیا اس سبھا کے منتظمین اس تہذیب کی عظیم قدروں کو اختیار کرتے ہیں؟ کیا ان بزرگوں نے دھرم اور سچائی کی حفاظت کے لیے اپنی زندگی قربان کی ہے؟
ان میں سے ایک ہیں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ، جن پر تمام سنگین مقدمے لگتے رہے ہیں، جن کے بارے میں خود ان کی پولیس کی رائے بہت اچھی نہیں ہوتی تھی اور جو بیہودہ گوئی اور مجرمانہ تشدد کے لیے مشہور ہیں۔ ایک اور ہیں ، اس ملک کے وزیر اعظم، جنہوں نے نرگسیت کی ایسی نایاب مثالیں قائم کی ہیں، جو سروور اور ساگر پر گرتے اپنے عکس سے اس قدر مسحور ہیں کہ نرگس بھی شرمندہ ہو جائے۔ کیا یہ ایسے بزرگ ہیں جنہوں نے دھرم کا ساتھ دیا اور فریب سے پاک زندگی گزاری ہے؟
ایودھیا کی یہ سبھا جھوٹ اور ادھرم کی بنیاد پر بنائی گئی ہے، کیونکہ جس کو اس کے درباری حق کی فتح کہتے ہیں، وہ دراصل فریب اور زبردستی کی پیداوار ہے۔ عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ درباری بھول جاتے ہیں کہ اسی عدالت نے 6 دسمبر کے ایودھیا—کانڈ کو جرم قرار دیا تھا۔ گیتا پریس کے محاورے میں کہیں، تو ایودھیا آج ایک کرو سبھا بن گئی ہے جس کے اسٹیج پر ہندوستانی تہذیب کا چیر ہرن ہورہا ہے۔
ایودھیا تقریب کی دیومالائی وضاحت یہاں اس لیے کرنی پڑی کہ ہندوستانی حکمران آئین کو کمتر سمجھتے ہیں اور شاستروں کی آڑ میں جھوٹ کا پرچار کرتے ہیں۔ آپ کو ان کے ساتھ اسی زبان میں بات کرنی ہوگی جو وہ سمجھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سنسکرت گرنتھوں کا کوئی بھی عام قاری اس تقریب کی مخالفت کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
ہندوستانی سماج پر ایودھیا تحریک کے تباہ کن اثرات کو سمجھنے کے لیے آپ اس عقیدت مند خاندان کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔
ساٹھ کی دہائی میں، اتر پردیش میں پرورش پانے والا ایک بچہ رام چرت مانس کے ذریعے پڑھنا سیکھ رہا تھا۔ اس کے والد ایک مشہور ہنومان مندر کے پجاری تھے اور دادی اسے رام چرت مانس کی چوپائی پڑھ کر سنانے کو کہا کرتی تھیں۔ جب بچہ اچھے سے چوپائی سنا دیتا، دادی اسے اکنی یا دوانی دیتیں۔ اس طرح دادی بچے کے اندر رام اور رام کتھا کی قدریں پیدا کر رہی تھیں۔ بچے کو بہت جلد اس گرنتھ کے تمام ابواب حفظ ہوگئے۔
بدقسمتی سے اس کی والدہ کا جلد انتقال ہو گیا اور تین چھوٹے بھائیوں کی ذمہ داری اس سترہ سالہ لڑکے پر آ گئی۔ اس طرح بڑے بیٹے نے اپنے آپ کو خاندان کے مریادا پرشوتم کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا۔ اس خاندان کے مسلمانوں سے گہرے اور قریبی تعلقات تھے۔ دودھ والا فخرالدین، گھر کی عورتوں کے کپڑے سلنے والا ماسٹر محفوظ، مردوں کے سفاری سوٹ سلنے والا ماسٹر شہاب الدین- آگے چل کر چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے کو ہمسایے کی ایک مسلمان لڑکی سے پیاربھی ہوا۔ایودھیا تحریک نے اس خاندان کو ایک آن میں مسخ کر دیا۔
رام چرت مانس کی چوپائیوں کے ساتھ پلا بڑھا وہ شریف آدمی جس نے اپنی پہلی تین دہائیاں ہم آہنگی کے ساتھ مثالی زندگی گزاری تھی، اس کو اچانک اپنے پڑوسیوں سے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ اس خاندان کی روزمرہ کی زندگی میں پرتشدد سیاست داخل ہوگئی۔میں اس خاندان کا عینی شاہد ہوں اور یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ ہندوستان کے ان گنت خاندانوں کی کہانی ہے۔
ایودھیا تحریک کی غیر مذہبی صورت کو ثابت کرنے کے لیے میں نے دو ثبوت پیش کیے ہیں – ایک شاستر سے اور ایک ذاتی۔ ایک اور ثبوت ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایودھیا کی سبھا جھوٹ پر قائم کی گئی ہے۔
پچھلے ہفتوں میں شائع ہونے والی کئی خبریں 6 دسمبر کی کہانیاں بیان کرتی ہیں۔ لیکن ان تمام خبروں سے ایک اہم حقیقت غائب ہے۔ ایودھیا کانڈ کے اس باب کو تین مختلف عینی شاہدین نے الگ الگ مواقع پر خاکسار کے سامنے بیان کیا ہے۔
چھ دسمبر کو جب ایک پرتشدد ہجوم نے گنبدوں پر چڑھ کر ڈھانچہ کو گرایا تو ایک گنبد کے نیچے واقع رام للا کی مورتی بھی ملبے میں مل گئی۔ دسمبر 1949 میں ظاہر ہونے والی مورتیوں کو کار سیوکوں نے کئی دہائیوں بعد تباہ کر دیا تھا۔ جن رام للاکے لیے دہائیوں سے لڑائی چل رہی تھی، انہیں ان کے ہی سپاہیوں نے مٹی کر دیا۔
اکتوبر 2016 میں، میں نے یہ سوال بجرنگ دل کے بانی اور اس وقت کے بی جے پی ایم پی ونئے کٹیار سے پوچھا، جو ایودھیا کانڈ کے ایک اہم کمانڈر اور عینی شاہد تھے۔ اس ریکارڈیڈ انٹرویو میں انہوں نے مجھ سےکہا، ‘ڈھائی گھنٹے میں سب کچھ ختم ہو گیا۔ ایک ایک اینٹ چلی گئی… لاکھوں لوگ تھے… ایک ایک مٹھی لے کر چلے گئے۔ بچا کیا وہاں؟ کچھ نہیں بچا۔’
اور تب آپ کو فلسفی رام چندر گاندھی کے لفظ یاد آتے تھے۔ ایودھیا کانڈ کے بعد انہوں نے ایک منفرد کتاب ‘سیتا کی رسوئی’ لکھی۔ جس لمحے ہندوؤں نے سولہویں صدی کی مسجد کو اپنا دشمن تسلیم کر لیا، ایک ایسا دشمن جس کے تئیں آپ نفرت سے بھرے ہوئے ہیں، وہ لمحہ ‘ادویت کا واٹر لو’ تھا۔ ادویت فلسفہ، یعنی یہ احساس کہ میرا کوئی اور نہیں، کہ ساری کائنات میرا ہی عکس ہے، ہندوستانی تہذیب کا بنیادی اصول ہے۔ اپنشد اس اصول کو ‘تت توم آسی’ کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ 6 دسمبر کو ہندوستانی تہذیب اپنی فیصلہ کن جنگ ہار گئی تھی۔
کیا رام کو معلوم تھا کہ ان کی ناقابل تسخیر نگری کرو سبھا بن جائے گی؟
(آشوتوش بھاردواج آزاد صحافی اور مصنف ہیں۔)