مذہب کی بنیادپر فارنرس ٹربیونل کےسرکاری وکلاءکی تقرری سے پہلے ریاستی حکومت سرحدی اضلاع میں این آرسی سے باہر رہنے والے لوگوں کی شرح کو لےکر کئی بار اپنی تشویش کا اظہار کر چکی ہے۔
آسام کے وزیرخزانہ اور ریاست میں بی جے پی کے سب سے بااثررہنما ہمنتا بسوا شرما نے ٹھیک ایک سال پہلے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپ ڈیٹ ہوئے این آرسی میں بنگلہ دیش بارڈر کے پاس کےا ضلاع کے لوگوں کے باہر رہنے کی شرح کو لےکرتشویش کا اظہار کیا تھا۔
ان اضلاع کی ایکسکلوزن شرح 6-7 فیصدی تھی، جو لوگ خودمختاراضلاع میں رہتے ہیں، ان کی شرح 16فیصدی تھی۔ اس وقت شرما نے بنیادی طورپریہ بتایا تھا کہ بی جے پی اور ریاستی حکومت کو لگتا ہے کہ سرحدی ا ضلاع میں این آرسی میں گڑبڑیاں ہوئی ہیں۔بی جے پی اور ریاستی سرکار دونوں کی تب یہی مانگ تھی کہ سرحدی اضلاع دھبری، کریم گنج، ساؤتھ سلمارا اور ہیلاکاندی میں اپڈیٹیڈ این آرسی کے 20 فیصدی اعدادوشمار کی دوبارہ تصدیق کی جائے۔ آسام کے دیگر حصوں کے لیے وہ10فیصدی دوبارہ تصدیق چاہتے تھے۔
اس بارے میں این آرسی کا کیس سن رہی سپریم کورٹ کی بنچ کے سامنے ایک حلف نامہ بھی پیش کیا گیا تھا، جس کو بنچ نے اس وقت کے این آرسی کنوینر پرتیک ہجیلا کے یہ کہنے کہ پہلے ہی 27 فیصدی دوبارہ تصدیق ہو چکی ہے کے بعد خارج کر دیا تھا۔اب ستمبر 2020 میں آتے ہیں۔ گزشتہ آٹھ ستمبر کو دھبری میں کام کرنے والے سات مسلم اسسٹنٹ سرکاری وکلاء(اےجی پی)،جو مقامی فارنرس ٹربیونل(ایف ٹی)سے وابستہ تھے، ان کی خدمات ختم کر دی گئیں۔
ان اے جی پی کا کام ٹربیونل میں سرکار کی جانب سے کیس دائر کرنا ہوتا ہے۔ اب مسلم کمیونٹی سے آنے والے اکثراے جی پی کی جگہ بنگالی ہندو کمیونٹی کے وکیلوں کو ملی ہے۔میڈیا رپورٹس کی مانیں، تو گزشتہ سال آئی این آرسی کی فائنل فہرست سے باہر رہے 19 لاکھ لوگوں میں بڑی تعدادبنگالی ہندوؤں کی ہے، جو بی جے پی کا ووٹ بینک مانے جاتے ہیں۔
سرکار کی جانب سےگزشتہ دنوں جاری کیے گئے نوٹس کچھ اس طرح لکھے ہیں –
‘گورنرکی جانب سےپبلک سروسزکے مفاد میں 8 ستمبر کو جاری نوٹس کے مطابق، امین الاسلام اےجی پی، ایف ٹی1دھبری کی خدمات کو فوراً ختم کیا جاتا ہے۔ ریتوپرنا گہا کو امین الاسلام کی جگہ پر اےجی پی، ایف ٹی1دھبری مقرر کیا جاتا ہے۔’
اور یہی فارمیٹ چلتا رہتا ہے،
‘کمال حسین اے جی پی،ایف ٹی 2 دھبری کی جگہ گوکل چندر کرماکر کی تقرری ہوئی۔ ناصر علی منڈل اے جی پی،ایف ٹی 4 دھبری کی جگہ ادھیر چندر رائے کی تقرری، رابع الحق منڈل اے جی پی،ایف ٹی 5 دھبری کو ہٹاکر انندا پال کومقرر کیا گیا۔آفتاب الدین اے جی پی،ایف ٹی 8 دھبری کی خدمات ختم کرکے شنکر پرساد چکرورتی کومقرر کیا گیا۔’
اس ضلع کے ٹربیونل میں نئے مقرر کیےگئے اے جی پی میں صرف دو دیگر ہندوکمیونٹی سے ہیں۔2011 کی مردم شماری کے مطابق، اس ضلع میں کل آبادی کا 79.67 فیصدی حصہ مسلم کمیونٹی کے لوگ ہیں، وہیں ہندوؤں کافیصد19.92 ہے۔ذرائع کے مطابق، جن اے جی پی کو ہٹایا گیا ہے، وہ قانونی صلاح لے رہے ہیں اور ریاستی سرکار کے اس آرڈر کو عدالت میں چیلنج دے سکتے ہیں۔
دھبری ضلع میں10ایف ٹی ہیں۔ دیگر ٹربیونل میں ہوئی تبدیلیوں کے بیچ ایک ٹربیونل ایف ٹی 6 میں سرکاری وکیل کا عہدہ خالی تھا، لیکن 8 ستمبر کی نوٹیفکیشن کے مطابق سجیت کمار ساہا کو یہاں اے جی پی مقرر کیا گیا ہے۔دی وائر نے سروس سے ہٹائے گئے ایک اے جی پی سے رابطہ کیا، جنہوں نے نام نہ ظاہر کرنےکی شرط پر بتایا کہ سرکار نے انہیں اس بارے میں بنا کوئی پیشگی اطلاع دیےیہ قدم اٹھایا ہے۔
انہوں نے بتایا،‘ہمیں اس بارے میں پہلے کوئی نوٹس نہیں دیا گیا تھا۔ ہماری خدمات قانون اور بیوروکریٹک ضابطہ کے ساتھ ختم کی جانی چاہیےتھی۔ مجھےبے حد افسوس ہے اور میں مایوس ہوں اور مجھے اب تک اس کے پیچھے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی ہے۔ میں مارچ 2016 سے اپنی خدمات دے رہا تھا، مارچ 2017 میں ہمیں سرکار کی جانب سے ایڈوانس ٹریننگ بھی دی گئی تھی۔ اس کے بعد 2019 میں بھی ہمیں ایف ٹی کورٹ میں کیسے کیس داخل کرنا ہے، اس کی دوبارہ ٹریننگ دی گئی۔’
انہوں نے آگے بتایا،‘ہم میں سے کچھ نے ہمارے ٹرمنیشن آرڈر کو لےکر وکیلوں سے بات کرنا بھی شروع کر دیا ہے اور ہمارا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ ان کی صلاح پر منحصر ہوگا۔ اگر ہمارا کیس قانونی اور مضبوط ہوگا، تو ہم عدالت بھی جا سکتے ہیں۔ ہم نے اس بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں لیا ہے۔’
گوہاٹی کے ایک وکیل امن ودود نے اس نوٹیفیکیشن کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا تھا۔ دی وائر کےرابطہ کیے جانے پر انہوں نے بتایا،‘ایف ٹی آئین کے سب سے اہم حق کو لےکر فیصلہ سناتے ہیں کسی بھی شخص کی شہریت کا حق، جسے اکثر باقی حق پائے جانے کا حق کہا جاتا ہے۔ ایف ٹی اکثر غیرجانبدارانہ شنوائی کے معیار پر کھرے نہیں اترتے ہیں، اور سرکار کا یہ(مذہب کی بنیادپر وکیلوں کو الگ کرنے کا)رویہ صاف دکھاتا ہے کہ انہیں غیرجانبدارانہ شنوائی کی پڑی ہی نہیں ہے۔’
دھبری کے وکیل مسعود زمان اس قدم کو ایف ٹی کورٹ کا ‘سنگھی کرن’ہونا کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،‘یہ بہت مایوس کن ہے کہ زیادہ تر اے جی پی کو ایسے اچانک بنا کوئی پیشگی اطلاع دیے بدل دیا گیا۔ یہ ایف ٹی کو الگ رنگ میں رنگنے کی کوشش ہے۔ مجھے اس کا افسوس ہے کیونکہ یہ سات اے جی پی کچھ سالوں سے کام کر رہے تھے۔’
کانگریس ایم ایل اے اوراپوزیشن کے رہنما دیب برت سیکیہ نے بھی اس قدم کو افسوس ناک بتایا۔ انہوں نے کہا کہ جن کو ہٹایا گیا ہے، انہیں اقلیتی کمیشن سےرابطہ کرنا چاہیے۔دیب برت نے کہا، ‘آئینی قدروں کے مطابق ضابطوں پر عمل کیا جانا چاہیے اور سبھی باتیں انہی اصولوں پر مبنی ہونی چاہیے۔ خدمات کو ایسے ختم نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔’
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)