
سپریم کورٹ نے اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کے سوشل میڈیا پوسٹ کو لے کر درج ایف آئی آر معاملے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی خصوصی تفتیشی ٹیم کو پھٹکار لگاتے ہوئے پوچھا کہ ایس آئی ٹی خود کو ہی گمراہ کیوں کر رہی ہے، جبکہ اس کی تحقیقات کا دائرہ صرف دو ایف آئی آر تک ہی محدود ہے ۔

علی خان محمود آباد اور سپریم کورٹ پس منظر میں۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ (16 جولائی) کو اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کے سوشل میڈیا پوسٹ پر درج ایف آئی آر معاملے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) کو پھٹکار لگاتے ہوئےپوچھا کہ ایس آئی ٹی خود کو ہی گمراہ کیوں کر رہی ہے۔
سماعت کے دوران عدالت نے سوال اٹھایا کہ ایس آئی ٹی خود کو ہی غلط سمت میں کیوں لے جا رہی ہے، جبکہ اس کی تحقیقات کا دائرہ صرف دو ایف آئی آر تک ہی محدود ہے ۔
معلوم ہوکہ علی خان محمود آباد کے خلاف ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن کی سربراہ اور بی جے پی یووا مورچہ کے جنرل سکریٹری یوگیش جٹھیری نے شکایت کی تھی۔ آپریشن سیندور پر محمود آباد کے سوشل میڈیا کے سلسلے میں ان کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا کی دفعہ 152 کے تحت ‘ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والی کارروائیوں’ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ان پر قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے، شہریوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ارادے سے دانستہ اور بدنیتی پر مبنی کام کرنے، مذہب، نسل، مقام پیدائش، رہائش، زبان، ذات یا برادری کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان تعصب یا دشمنی، نفرت یا بغض و عداوت کے جذبات کو فروغ دینے یا فروغ دینے کی کوشش کرنےکے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔
سوشل میڈیا پوسٹ میں محمود آباد نے ہندوتوا کے تضادات کو اجاگر کیا تھا
قابل ذکر ہے کہ 8 مئی کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے اشوکا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے صدر محمود آباد نے کرنل صوفیہ قریشی کی تعریف کرنے والے ہندوتوایوں کے تضاد کو اجاگر کیا تھا۔ محمود آباد نے کہا تھا کہ کرنل قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کی پریس بریفنگ ایک علامت کے طور پر اہم تھی، لیکن اسے زمینی حقیقت میں بدلنا ہوگا، ورنہ یہ محض منافقت ہے۔
اس کے بعدہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے دعویٰ کیا تھا کہ محمود آباد کے تبصرے نے ہندوستانی مسلح افواج میں خواتین افسران کی توہین کی ہے اور فرقہ وارانہ منافرت کو فروغ دیا ہے۔
اس سلسلے میں، ہریانہ پولیس نے 18 مئی کو محمود آباد کو پاکستان کے خلاف ہندوستان کے آپریشن سیندور پر ان کے تبصرے کے لیے سیڈیشن اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام کے تحت گرفتار کیا تھا۔
اس کے بعد 21 مئی کو سپریم کورٹ نے محمود آباد کو عبوری ضمانت دے دی تھی۔ جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس این کے سنگھ کی قیادت والی بنچ نے محمود آباد کے سوشل میڈیا پوسٹ کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔
اس معاملے پر ایک غیر معمولی نوٹ میں عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر طلبہ اور پروفیسر، جو بظاہر اشوکا یونیورسٹی کے ہیں، ‘کچھ بھی کرنے کی ہمت کرتے ہیں، تو ہم اسے قبول نہیں کریں گے، اگر وہ ہاتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہم جانتے ہیں کہ ان لوگوں سے کیسے نمٹناہے، یہ ہمارے دائرہ اختیار میں ہیں۔’
ایس آئی ٹی کی جانچ کا دائرہ صرف دو ایف آئی آر تک ہی محدود رکھا جانا چاہیے: سپریم کورٹ
اس سلسلے میں 28 مئی کو جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس دیپانکر دتہ کی بنچ نے ایس آئی ٹی کی تحقیقات کا دائرہ محدود کرتے ہوئے کہا کہ اسے صرف دو ایف آئی آر رپورٹوں تک ہی محدود رکھا جانا چاہیے۔
لائیو لا کے مطابق ، بدھ کو اس معاملے کی تازہ ترین سماعت کے دوران، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جوائےمالیہ باگچی کی بنچ نے ایس آئی ٹی سے پوچھا کہ وہ اپنے دائرہ کار کو کیوں بڑھا رہی ہے۔
بنچ نے یہ سوال اس وقت اٹھایا جب سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے محمود آباد کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ ایس آئی ٹی نے ان کے آلات ضبط کر لیے ہیں اور وہ ان سے پچھلے 10 سالوں میں ان کے غیر ملکی دوروں کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہی ہے۔
جسٹس کانت نے حکومت کی نمائندگی کرنے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو سے پوچھا، ‘ہم ایس آئی ٹی سے صرف یہ جاننا چاہتے ہیں… انہوں نے کس مقصد کے لیے آلات ضبط کیے ہیں؟ ہم انہیں بلائیں گے۔’
بنچ نے پوچھا کہ ایس آئی ٹی پہلی نظر میں ‘غلط سمت میں کیوں جا رہی ہے؟ انہیں پوسٹ کے مواد کی جانچ کرنی تھی۔’
سبل نے کہا کہ محمود آباد کو کم از کم چار بار طلب کیا گیا ہے۔ ایس آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محمود آباد نے ہر مرحلے پر تحقیقات میں تعاون کیا ہے۔
اس پر عدالت نے کہا کہ انہیں دوبارہ طلب نہیں کیا جانا چاہیے۔ جسٹس کانت نے کہا، ‘آپ کو ان (محمود آباد) کی نہیں،بلکہ ایک ڈکشنری( لغت) کی ضرورت ہے۔’