یتی نرسنہانند نے ایک انٹرویو میں کہا تھا … سپریم کورٹ، اس آئین میں ہمیں کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ یہ آئین اس ملک کے سو کروڑ ہندوؤں کو کھا جائے گا… جو لوگ اس نظام، سیاستدانوں، اس پولیس، فوج اور سپریم کورٹ پر بھروسہ کر رہے ہیں، وہ سب کتے کی موت مرنے والے ہیں۔
نئی دہلی: ہندوستان کے اٹارنی جنرل (اے جی) کے کے وینوگوپال نے شدت پسند ہندوتوا لیڈریتی نرسنہانند کے خلاف سپریم کورٹ کی توہین کامقدمہ چلائے جانےکی اجازت دے دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، سماجی کارکن شچی نیلی نے اٹارنی جنرل کو خط لکھ کر اس سلسلے میں اجازت مانگی تھی۔ انہوں نے سپریم کورٹ اور آئین کے خلاف نرسنہانند کے ذریعےدیے گئے بیان کو بنیاد بنایا تھا۔
شچی نیلی نے ٹوئٹر پر اے جی کی طرف سے انہیں لکھے گئے خط کی کاپی شیئر کرتے ہوئے اس کی تصدیق کی ہے۔
I have sought consent from the AG KK Venugopal to initiate contempt of court proceedings against Yati Narsinghanand for his abhorrent statements against the Constitution and the SC.
Any attempt to undermine the authority of India’s institutions must be dealt with seriousness. https://t.co/cgquXOMBXG pic.twitter.com/szeYpKV4Vt
— Shachi Nelli (@nellipiercing) January 14, 2022
اے جی کو لکھے اپنے خط میں نیلی نے نرسنہانند کی طرف سے وشال سنگھ نامی شخص کو دیے گئے انٹرویو میں نرسنہانند کے تبصرے کو آئین اور سپریم کورٹ کے لیے توہین آمیز قرار دیا تھا۔
اپنے خط میں شچی نے لکھا تھا کہ مذکورہ انٹرویو 14 جنوری 2022 کو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا، جس میں نرسنہانند نے کہا تھا کہ جو لوگ سپریم کورٹ میں یقین رکھتے ہیں ، وہ سب کتے کی موت مر یں گے۔
مذکورہ انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے شچی نے لکھا تھاکہ جب نرسنہانند سے ہری دوار دھرم سنسد کی کارروائی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا،…سپریم کورٹ، اس آئین میں ہمیں کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ یہ آئین ہندوؤں کو کھا جائے گا، اس ملک کے 100 کروڑ ہندوؤں کوکھا جائےگا۔اس آئین کو ماننے والے سب مارے جائیں گے۔ جو لوگ اس نظام پر، سیاستدانوں پر، اس پولیس میں، فوج میں اور سپریم کورٹ میں بھروسہ کر رہے ہیں، وہ سارے کتے کی موت مرنے والے ہیں۔
ان سطروں کا تذکرہ اے جی نے اپنے خط میں بھی کیا ہے۔
وینوگوپال نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ نرسنہانند کا بیان عام لوگوں کی نظروں میں سپریم کورٹ کے وقار کو مجروح کرنے کی براہ راست کوشش ہے۔ یہ یقینی طور پرہندوستان کی سپریم کورٹ کی توہین ہوگی۔
وینوگوپال نے توہین عدالت کی ایکٹ1971 کی دفعہ 15 اور توہین عدالت کے عمل کے ضابطہ کے اصول3(اے)کے تحت مقدمہ چلانے کی اجازت دی ہے۔
وینوگوپال کو لکھے گئے سچی کے خط میں کہا گیا ہے کہ نرسنہانند کے تبصرے ادارے کے وقار اور سپریم کورٹ کے حقوق کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شچی نے مذکورہ تبصرے کو آئین اور عدالتوں کی سالمیت پر توہین آمیز تبصرہ اوربے بنیادحملوں کے ذریعے انصاف میں مداخلت کی ایک نفرت انگیز اور کھلی کوشش قرار دیا تھا۔
نرسنہانند اس وقت پولیس کی حراست میں ہیں، انہیں دو معاملوں میں ہری دوار پولیس نےگرفتار کیا ہے۔ ان کی ضمانت کی عرضی بھی عدالت نے مسترد کر دی ہے۔
ایک معاملہ ہری دوار دھرم سنسد سے متعلق ہے جہاں مسلمانوں کے قتل عام کی کال دی گئی تھی اور نرسنہانند اس تقریب کے منتظمین میں سے ایک تھے اور انہوں نے خودقابل اعتراض بیانات دیے تھے، جن میں کہا گیا تھا کہ ہندو مذہب کے تحفظ کے لیے ‘ہندو پربھاکرن’ بننے والے شخص کو ایک کروڑ روپےانعام دیں گے۔
وہیں، دوسرا معاملہ خواتین پر ان کے ذریعے نازیبا اور قابل اعتراض تبصروں سے متعلق ہے۔