یہ تراجم محض عبارت کی روانی یا ترجمہ پر اصل کے گمان جیسی مقبول خوش گمانیوں کی بھی تکذیب کرتے ہیں اور ایک نیا علمی محاورہ قائم کرتے ہیں جس کے لیے پروفیسر عبد الرحیم قدوائی داد و تحسین کے مستحق ہیں۔
انگریزی اور اردو کے معروف عالم اور مشہورمترجم عبد الرحیم قدوائی نے اقبال کے فکر و فن پر انگریزی میں تنقیدی مضامین کو سلیس اور با محاورہ اردو میں منتقل کیا ہے۔ اردو دنیا میں اقبال اب ایک صنعت (Industry)بن گئے ہیں کہ ان سے متعلق سینکڑوں کتابیں اور مقالے شائع ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں، تاہم اردو کے ادیب یہ نہیں جانتے کہ سخت گیر ناقد ہربرٹ ریڈ (جن کی تنقیدی بصیرت کا ذکر محمد حسن عسکری نے بھی کیا ہے) اور مشہور ناول نگار ای ایم فورسٹر کلامِ اقبال کا محاسبہ کس طرح کرتے ہیں۔ یہ حضرات ان کی شاعری کو کیا محض مشرقی ثقافت اور اقدارِ حیات کی ایک مرتعش پیش کش کے طور پر دیکھتے ہیں یا پھر یہ عالم اقبال کے عالمی اعتبارات اور انسانی درد مندی کے وسیع تر امکانات کو ایک نیا حسیاتی تناظر عطا کرتے ہیں۔پروفیسر عبد الرحیم کے تراجم ان نکات کو محیط ہیں اور مطالعہ اقبال کی تقریباً مخفی جہت کو شرح و بسط کے ساتھ واضح کرتے ہیں۔ اس کتاب میں مصنف نے اقبال کے دو مشہور انگریزی مضامین ”الجلیلی اور نظریہ وحدت مطلق“ اور ”بیدل برگساں کی روشنی میں“ کا اردو ترجمہ بھی شامل کیا ہے۔
اقبال نے برگساں کے حوالے سے لکھا ہے کہ انسان کے شعور کا اصل مسکن وقت ہے اور وقت ہمارے اندر موجود ہوتا ہے اور ہم وقت کے دائرے میں اسیر نہیں ہوتے (Time lies within us and we are not in time)۔ ماہ و سال کی گردش محض ایک خلق کردہ حقیقت ہے۔ وقت اصلاً آن واحد ہے اور اسے ماضی اور مستقبل میں منقسم کرنا ایک نوع کی خود فریبی اور سادہ لوحی ہے۔ اقبال نے لکھا ہے؛
برگساں کے نزدیک حقیقت عظمیٰ ایک سیل رواں یا مسلسل Becomingکا عمل ہے اور خارجی اشیا جو بظاہر ہمیں منجمد نظر آتی ہیں، دلچسپی کے ان خطوط کے سوا کچھ اور نہیں جو ہمارے ذہن نے اس روانِ مسلسل کے آرپار کھینچے ہیں، پیرایہئ بیان کو بدل کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ اشیا ایسا مجموعہ نجوم ہیں جو ہماری حرکت کی سمت کو متعین کرتی ہے اور حیات کے اس بحر ذخار کو عبور کرنے میں ممدثابت ہوتی ہے۔
پروفیسر قدوائی اقبال کے مضمون کے محض ترجمہ پر قانع نہیں رہے بلکہ انہوں نے مضمون میں مستعمل فلسفیانہ اصطلاحوں کی تشریح بھی بڑے دلنشیں اور علمی پیرایہ میں کی ہے۔ اقبال نے Becomingکی اصطلاح استعمال کی ہے۔ مضمون کے اختتام پر پروفیسر قدوائی نے اس اصطلاح کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے؛
Becoming سیل رواں کا تصور سب سے پہلے یونانی فلسفی Heractitusنے چھٹی صدی قبل مسیح پیش کیا تھا۔ اس تصور کی رو سے کائنات میں کسی شے کو ثبات یا استقلال نہیں۔ ہر شے مسلسل مبدل ہے اور اپنا قالب بدلتی رہتی ہے۔ فلسفے کے محاورے میں یہ ایک وجودیاتی تصور ہے۔
اس نوع کی تشریح نے اصل مضمون کی قرأت پذیری (Readability)اور افادیت کو دوچند کردیا ہے۔ غالب بھی بیدل سے بہت متاثر تھے اور انہوں نے اس کا جا بجا اعتراف بھی کیا ہے۔ سبک ہندی بیدل کی تخلیقی کاوشوں کا ثمرہ ہے۔ ‘حیرت’ایک پامال شعری موضوع ہے اور اسے آئینہ کی صفت قرار دیا جاتا ہے۔ اقبال نے اس ضمن میں برگساں کے افکار کا ذکر کرتے ہوئے بیدل کے ایسے اشعار نقل کیے ہیں جن میں حیرت کا لفظ استعمال ہوا ہے اور اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے ؛
دونوں اشعار کے پہلے مصرعے میں لفظ حیرت اپنے لغوی مفہوم میں استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ بیدل نے ہمیشہ جذبہئ حیرت کے نفسیاتی انسلاکات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے عدم حرکت اور قرار کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ ان کا مقصود یہ ہے کہ ہم اپنے اردگرد جو غیر متحرک مادہ دیکھتے ہیں وہ حقیقت سے بے گانہ ہے۔ یہ شراب کے جلوہئ رقصاں سے، جس کی پرواز معطل کردی گئی ہو، مشابہ ہے اور ہمارے لیے شراب سے بھرے ہوئے مینا کی طرح نظر آتا ہے۔
مشہور ناقد ہربرٹ ریڈ نے اپنے مضمون ”قارئین اور مصنفین“ میں وہٹمین کے تصور Divine Average، نطشے کے سپرمین (Superman) اور اقبال کے مردِ کامل کا موازنہ ان کی تخلیقات کے مرتکز آمیز مطالعہ کے ساتھ کیا ہے اور لکھا ہے کہ زندگی جہادِ آزادی ہے اور جہاد کا طریقہ انا کی تربیت ہے یا حضرت محمدکے الفاظ میں؛
تم اپنے آپ میں صفات خدا وندی پیدا کرو۔
یہ قول وہٹمین کے ان الفاظ کی یاد دلاتا ہے ؛
میں تکمیل شدہ اشیا کی انتہا ہوں اور آئینے میں خود اپنی شبیہ میں جلوہئ خدا وندی دیکھتا ہوں۔
نطشے نے اس مضمون کو اس طرح ادا کیا ہے؛
اے ہم نفس/ہم نشیں/ رفیق مخلوقات! خالق حقیقی تمہارا منتظر ہے۔
ہر مذہب میں تکمیلِ انا کا یہ یہ نظریہ ملتا ہے۔ انسان نفسیاتی اعتبار سے کسی ایسی الوہیت کو قبول نہیں کر سکتا جو خود اپنی ذات میں آشکارا نہ ہو۔ یہ ایک مادی حقیقت بھی ہے۔ وہٹمین یا نطشے کے بالمقابل اقبال کے ہاں اس حقیقت کا ادراک پایا جاتا ہے۔ وہٹمین کا Divine Average غیر واضح اور مبہم ہونے کے باعث کسی مثالی نمونے میں متشکل نہیں ہوتا۔ نطشے کا فوق البشر سماج دشمن ہونے کے علاوہ خلقی طور پر غیر حقیقی ہے لیکن اقبال کا مردِ کامل Divine Average بھی ہے اور ہمدم و دمساز بھی۔ یہ عبد بھی ہے اور معبود بھی“۔
پروفیسر قدوائی انگریزی کے نامور استاد ہیں اور رومانی شعرا، علی الخصوص بائرن، ان کے تفصیلی مطالعہ کا ہدف رہے ہیں۔ لہٰذا کیا ہی اچھا ہوتا اگر اردو کے عام قارئین کے لیے وہٹمین کے Divine Average کی بھی وضاحت کر دی جاتی۔
ای ایم فورسٹر نے بھی اپنے مضمون کے آخر میں ۱قبال اور ٹیگور کا تقابلی مطالعہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ ٹیگور کے نظریات ان کو زیادہ قابل قبول لگتے ہیں لیکن پھر بھی مطالعہ کے لیے اگر انتخاب کرنا ہو تو وہ اقبال کا ہی انتخاب کریں گے۔ فورسٹر کے مطابق ؛
وہ (اقبال) ہندوستان کے دو عظیم ثقافتی نمائندوں میں سے ایک ہیں مگر ان کے بارے میں ہماری لا علمی غیر معمولی حد تک ہے۔
آر اے نکلسن نے اسرارِ خودی کا ترجمہ کیا اور اس پر ایک مبسوط مقدمہ بھی لکھا تھا جس کا ترجمہ بھی شامل اشاعت ہے۔
مشہور جرمن مستشرق این میری شمل نے پروفیسر قدوائی کے مطابق اقبال سے متعلق 94 کتابیں اور مقالات تحریر کیے ہیں اور ان کے پانچ مضامین فکر اقبال میں پیغمبر اسلام کا مرتبہ، اقبال پر حلاج کا متصوفانہ اثر، اقبال کے کلام میں شیطان کا کردار، جرمنی اور اقبال اور اقبال اور گوئٹے کو اردو کا قالب عطا کیا گیا ہے۔
اقبال کے کلام میں ابلیس کو اساسی اہمیت حاصل ہے اور اس ضمن میں سب سے اہم مثال ان کی نظم ’جاوید نامہ‘ ہے جس میں اقبال نے اس نقطہ نظر کو پیش کیا ہے کہ شیطان بظاہر حکم عدولی کا مرتکب ہونے کے باوجود درحقیقت وحدت خداوندی کا اثبات کرتا ہے۔ شمل کے نزدیک کلام اقبال میں شیطان محض عقل یا مادہ پرستی یا جبریت یا آدم دشمنی کا مرادف نہیں بلکہ اس کردار کے تانے بانے متعدد ماخذ سے ملتے ہیں۔ مثلاً مسلم صوفیا کی تصانیف، یورپی شعرا اور مفکرین (جیکب بوہمے، گوئٹے، ملٹن اور نطشے) اور بالآخر اقبال کے ہاں شیطان عشق سے بے خبر مغربی دنیا پر علامیہ ہے لیکن اس مقام پر یہ نکتہ ذہن نشیں رکھنا چاہئے کہ اسلامی، یہودی اور عیسائی روایات کے مطابق بھی شیطان مجسم شر نہیں اور وہ خدا کا نہیں بلکہ انسان کا دشمن ہے۔شیطان ایک ایسی قوت ہے جس کے خلاف مزاحمت انسان کے ارتقا کے لیے ناگزیر ہے۔
انگریزی اور اردو ادبیات کے مشہور عالم پروفیسر اسلوب احمد انصاری کے انگریزی مقالہ ‘اقبال کا تصورِ خدا’کا اردو ترجمہ اس اہم نکتہ کی بڑی خیال انگیز تعبیر پیش کرتا ہے۔
کتاب کا آخری باب ‘اقبال کے فن کی عظمت’ایک مغربی کتابیات کے حوالے سے اس لحاظ سے بے حد اہمیت کا حامل ہے کہ کلام اقبال کے تراجم، ان کے افکار و نظریات اور تخلیقی ہنر مندی کی عالمی سطح پر حیرت انگیز پذیرائی کی پوری تفصیل دستاویزی شواہد کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ پروفیسر قدوائی نے بلجیم کے مشہور اشاعتی ادارے پیٹرس سے شائع ہونے والی مبسوط کتابیات کا تفصیلی تعارف پیش کیا ہے جو تین مغربی محققوں ڈیٹر ٹیلیو، فرانسس لیلمن اور ڈبلیو ایم کلیویرٹ نے مرتب کی ہے۔ مصنف کے مطابق یہ کتابیات 8642 اندراجات پر مشتمل ہے جو انگریزی اوردیگر یورپی زبانوں میں اقبال کی نگارشات کے تراجم اور ان کے فلر و فن کو محیط تنقیدی کتب اور مقالات کا مختصر تعارف اور تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ اس کتابیات سے یہ اطلاع بھی ملتی ہے کہ کلام اقبال کے تراجم جرمن، فرانسیسی، اطالوی، ڈچ، چیک اور روسی وغیرہ میں ہو چکے ہیں۔
پروفیسر قدوائی نے لکھا ہے کہ ایک نہیں بلکہ کئی ممتاز مستشرقین مثلاً اے آر نکلسن، اے جے آر بیری، وی جی کیرنن اور ڈیوڈ میٹھیوز نے کلام اقبال کو انگریزی میں منتقل کیا ہے۔ یورپی مفکرین اور علما کے ذکر کے بعد مصنف نے لکھا ہے کہ یہ امر خوش کن ہے کہ دانائے فرنگ کے دوش بدوش برادران وطن کے ہاں بھی اقبال کے فکر و فن سے متعلق شغف ملتا ہے۔ اس کتابیات میں ملک راج آنند، جگن ناتھ آزاد، ہیرالال چوپڑا، راج موہن گاندھی، سسر کمار گھوش، گوپی چند نارنگ، اندرجیت لال، بلراج پوری، چمن لال رینا، پی ٹی راجو، تارا چرن رستوگی، اقبال سنگھ، سچدانند سنہا، کے این سود اور راجیند ورما کی اقبال پر انگریزی تصانیف کا ذکر کیا گیا ہے۔
یہ کتاب مضامین کے انتخاب، تراجم میں سہولت اظہار، حواشی اور تعلیقات کی جامعیت اور مغرب میں اقبال فہمی کے نئے گوشوں کو وا کرتی ہے اور اقبال سے متعلق ایک نیا مبسوط تحقیقی بیانیہ مرتب کرتی ہے۔ تراجم کی زبان میں موضوع کی مناسبت کا خاص لحاظ رکھا گیا ہے۔ یہ تراجم محض عبارت کی روانی یا ترجمہ پر اصل کے گمان جیسی مقبول خوش گمانیوں کی بھی تکذیب کرتے ہیں اور ایک نیا علمی محاورہ قائم کرتے ہیں جس کے لیے پروفیسر عبد الرحیم قدوائی داد و تحسین کے مستحق ہیں۔
(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)