ایسے میں جب ملک میں خواتین کی کوئی حقیقی نمائندگی ہی نہیں بچی اور حکومت میں ویمن پاور کی مثال مانی جانے والی نام نہاد رہنما بی جے پی رہنماؤں یاحامیوں کے ذریعے کئےاستحصال کے کئی معاملوں پر منھ سلکر بیٹھ چکی ہیں، تو کیسےحکومت سے کسی انصاف کی امید لگائی جائے؟
ملک میں، خاص طور پر اتر پردیش میں کچھ دنوں پہلے ہوئے اور مین اسٹریم میڈیا میں جان بوجھ کر ان دیکھا کئے جانے والے واقعات کے بارے میں سوچتے ہوئے ایک خیال بڑی شدت سے دل میں آیا کہ جن کی بیٹی، بیوی یا بہن نہ ہوں، ان میں حساسیت کا فقدان ظاہری طور پربھی نظر آجاتا ہے۔ اس سوچکے پیچھے کچھ اور بھی حقائق ہیں، جن پرتوجہ دینے سے بات واضح ہوتی ہے۔ ایک طرف جہاں ملک کی خاتون-مرد آبادی کے تناسب میں خاص اصلاح نہیں دکھ رہی(یہ پورے پچاس فیصد پر بھی نہیں پہنچ سکا ہے)، وہیں دوسری طرف آئے دن کئی طریقوں سے لڑکیوں اور خواتین کے حوصلے کو گرانے والے حادثات بھی ہو رہے ہیں۔
خاص طور پر اتر پردیش، بہار اور مدھیہ پردیش سے اب بھی روزانہ ملنے والی خبروں میں لڑکیوں اور خواتین، یہاں تک کہ چھوٹی بچیوں پر ہونے والی زیادتیوں کےواقعات زیادہ تعداد میں ہیں۔ چاہے وہ گینگ ریپ کے ویڈیو وائرل کئے جانے کی بات ہو،ریپ کے ملزم کوبچانے کی جدو جہد میں متاثرہ کو ہی نشانہ بناکر جیل میں ڈالنے کی یا متاثرہ لڑکی کو ہی راستے سے ہی ہٹا دینے کی، نشانے پر خواتین ہی ہیں۔ اتر پردیش کے تناظر میں بات کریں تو ایسے مدعوں پر وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا نہ کوئی بیان آتا ہے اور نہ ہی یقین دہانی۔ کارروائی ہوتی تو ہے، پر انصاف کے بجائے پارٹی کے ان قصوروار رہنماؤں کے الزامات کو ہلکا کرنے کی سمت میں زیادہ لگتی ہے، چاہے وہ چنمیانند معاملے میں اب تک کی کارروائی ہو یا کلدیپ سینگر معاملےمیں گرفتاری۔
ظاہر سی بات ہے کہ انصاف میں جان بوجھ کر لگائی جانے والی یہ دیری متاثرہ لڑکی کے لئے ہر طرح سے مایوسی یا ڈپریشن کی وجہ بنتی چلی جاتی ہے اور ایسے میں متاثرہ کی خوداعتمادی بھی ختم ہونے لگتی ہے۔ لمبی قانونی لڑائی نہ صرف ڈرا دیتی ہے، بلکہ ساتھ دینے والوں کی یا تو ہمت توڑ دیتی ہے یا ان کو لالچ یا ڈر کا شکاربنا دیتی ہے۔ فیملی کو مسلسل دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایک طرح کے سماجی بائیکاٹ کا بھی۔ آج پہلے کی طرح لوگ غلط باتوں کی سامنے آکر مخالفت کرنے کے بجائے اپنے غار میں چھپ جانے اور جھگڑے-جھنجھٹ سے بچنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔
ڈر اور پروپیگنڈہ نے متاثرہ کی خود اعتمادی اور ہمت کو ہی نہیں، سماج کےتانے-بانے کو بھی تار-تار کیا ہے کیونکہ کسی خاص پارٹی سے الگ لائن پر سوچنے والوں پرلوگ بڑی بےشرمی سے ٹوٹ پڑتے ہیں اور توہین آمیز زبان کی تمام حدود پارکر جاتےہیں، جس سے باعزت آدمی غصہ ہو کر یا خود کو اکیلا پاکر میدان چھوڑنے کو ہی عزت بچانا مان لیتا ہے۔اتر پردیش کے انہی معاملوں کو ایک الگ نظر سے دیکھیں تو ایک خیال یہ بھی آتا ہے کہ گھر میں اگر بہن، بیوی یا بیٹی ہو، تب مرد عام طور پر ان کی پریشانیاں بھی سمجھ سکتے ہیں اور خواتین کے تئیں احساس بھی رکھتے ہیں۔
جبکہ یوگی آدتیہ ناتھ سنیاسی ہونے کی وجہ سے فیملی سے تو دور لیکن سیاست کے مرکز میں رہے ہیں اور جب بھی ریاست کی کوئی بیٹی حکومت کے سامنے اپنی تباہی کےبعد مدد کی فریاد لگاتی ہے، ایسے میں ایک طرح کی غیرحساسیت ہر بار دکھتی ہے۔پر اسی طرح کی شدید بےرحمی تب بھی دکھنے لگی ہے جب ہندوستان کی ان بیٹیوں پر ہوئی زیادتیوں پر پورا ملک بات کر رہا ہوتا ہے لیکن ملک کے وزیر اعظم یاان کے دفتر سے کوئی بیان یا یقین دہانی نہیں آتی اور نہ ہی متاثرہ کا حوصلہ بڑھانےاور اس کی لڑائی لڑ پانے کے لئے کوئی تعاون ہی مل پاتا ہے۔
ایسا سب سے پہلے کٹھوعہ کے ریپ کیس میں دکھا تھا، جب وزیر اعظم کی لمبی خاموشی نے حیرت میں ڈالا تھا۔ لیکن حیران ہو جانے کی بات تو یہ ہے کہ سماج کےمختلف طبقوں کے لوگوں میں اس بات پر غصہ یا تکلیف، دونوں ہی دکھائی نہیں دئے۔ ایک بات اور بڑی ابھر کر سامنے آتی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں ویمن امپاورمنٹ پر کھانے کے دانت الگ ہیں اور دکھانے کے الگ۔ صرف سیلبرٹی خواتین کوویمن امپاورمنٹ کے برانڈ ایمبیسڈر کی طرح پروجیکٹ کرنے والی پارٹی ان کے دکھاوے کو ہر بار بھناتی ہے۔
اگر تجزیہ کریں، تو صاف دکھتا ہے کہ ان میں سے اسی فیصد سیلبرٹی خاتون رہنماؤں نے پارٹی کے ہر ایونٹ جیسے صفائی مہم، یوگا ڈے میں تو بڑھ-چڑھکر حصہ لیا ہے، جن کی تصویریں بھی خوب وائرل ہوئیں یا کی گئیں، لیکن ان کے اپنے علاقے میں انہوں نے کسی صحیح کام میں ہاتھ نہیں لگایا اور کوئی پہل بھی نہیں کی۔ انہوں نے مرکزی حکومت کی ہی ملک گیر اسکیموں کو اپنے حصے کی خدمات بتاکرانتخاب میں جیت حاصل کی اور باقی مدد ‘مودی فیکٹر’نے کر دی۔
ایسے میں جبکہ خواتین کی ملک میں کوئی حقیقی نمائندگی بچی ہی نہیں اور جب حکومت میں ویمن امپاورمنٹ کی مثال مانی جانے والی نرملا سیتارمن، اسمرتی ایرانی، کرن کھیر، میناکشی لیکھی جیسی نام نہاد رہنما، ان بچیوں پر بی جے پی کے رہنماؤں یا حامیوں کے ذریعے کئے جسمانی استحصال کے کئی معاملوں پر منھ سلکر بیٹھ چکی ہیں، تو کیسے حکومت سے کسی بھی طرح کے انصاف کی امید لگائی جائے؟ ایک نیا ٹرینڈیہ بھی دکھنے لگا ہے کہ بی جے پی حمایت یافتہ خواتین کو ہی پروجیکٹ کیا جا رہا ہے، ان کو ہی الگ الگ شعبوں میں انعام دےکر ویمن امپاورمنٹ کی مثالوں کے طور پر امپاورمنٹ کے برانڈ کی طرح پیش کیا جا رہا ہے۔
یہ ایوارڈیافتہ خواتین اکثر ہی آگے چلکر یا تو پارٹی کا حصہ بن جاتی ہیں یا پھر احسان سے اتنا دب جاتی ہیں کہ غلط کو غلط کہہ سکنے کی بات ہی ان کو غلط لگنے لگتی ہے۔ یعنی کہ یہ خواتین ملک کی دیگر خواتین اور بچیوں پر ہونے والے مظالم کوجاننے کے بعد بھی اپنے دل میں متاثرہ کے تئیں احساس نہیں رکھ پاتیں کیونکہ اس سےاپنے مفاد کو خطرہ ہو سکتا ہے، جو ان کو منظور نہیں ہے۔
ان سے الگ سوچ رکھنے والی خواتین زیادہ با صلاحیت ہونے کے بعد بھی حاشیےپر رکھی جا رہی ہیں اور اگر وہ آواز اٹھاتی بھی ہیں، تو وہ اتنی طاقتور نہیں ہوپاتی۔ اگر سن بھی لی گئی، تو ان پر ذاتی حملے کئے جانے لگتے ہیں اور ان کی کردارکوہی رذیل یا گھٹیا بتا دیا جاتا ہے۔ صرف کچھ خواتین اور بچیاں ، جو اپنے دم اور فیملی کے سمبل کی بنیاد پر ہدف حاصل کر لیتی ہیں، کی کامیابیوں کو ہم ہندوستان میں ویمن امپاورمنٹ کا دستخط نہیں مان سکتے۔ ضرورت ہے کہ بڑے بڑے نفیس ہندی الفاظ سے اپنی تقریر کو کامیاب کرنے والی حکومت کے آنے والے قدم اس ملک کی بیٹیوں کے حوصلے کو کامیاب کریں۔
حکومت میں وزیر کاعہدہ اور رسوخ رکھنے والی خاتون قیادت سے بھی امید ہے کہ صرف کرسی بچانے کے لئے کام نہ کریں، بلکہ آج جب وہ اس جگہ پر پہنچ چکی ہیں، تو ملک کی محروم اور مظلوم خواتین کو محفوظ کرنے اور ان کو اپنی لڑائی کے لئے مضبوط بنانےکی راہ میں حکومت سے سختقانون بنانے کا مطالبہ کریں۔ تب ہی خواتین کی حالت میں اصلاح آ سکےگی اور وہ ایک شہری کے طور پر برابری پرآ سکیںگی، استحصال اور جبر استبداد سے بچ سکیںگی اور اپنی لڑائی بھی مضبوطی سے لڑ سکیںگی۔
(انوما آچاریہ ہندوستانی فضائیہ کی پہلےخاتون لاجسٹکس بیچ کی ریٹائر ونگ کمانڈر ہیں۔)