کینیڈا میں ہوئے تشدد میں امت شاہ کے ملوث ہونے کے دعوے کو ہندوستان نے ’بے تکا‘ اور ’بے بنیاد‘ قرار دیا

ہندوستان نے کینیڈا کے نائب وزیر خارجہ کے اس دعوے کو 'بے تکا' اور 'بے بنیاد' قرار دیا ہے، جس میں وزیر داخلہ امت شاہ کو کینیڈین شہریوں کو قتل کرنے کی سازش میں 'ملوث' بتایا گیا تھا۔ ہندوستان نے کینیڈا کو وارننگ دی ہے کہ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات کے دو طرفہ تعلقات پر سنگین نتائج ہوں گے۔

ہندوستان نے کینیڈا کے نائب وزیر خارجہ کے اس دعوے کو ‘بے تکا’ اور ‘بے بنیاد’ قرار دیا ہے، جس میں  وزیر داخلہ امت شاہ کو کینیڈین شہریوں کو قتل کرنے کی سازش میں ‘ملوث’ بتایا گیا تھا۔ ہندوستان نے کینیڈا کو وارننگ دی ہے کہ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات کے دو طرفہ تعلقات پر سنگین نتائج ہوں گے۔

 (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@HMOfficeIndia/Wikimedia)

(تصویر بہ شکریہ: Facebook/@HMOfficeIndia/Wikimedia)

نئی دہلی: ہندوستان نے کینیڈا کے نائب وزیر خارجہ کے اس دعوے کو ‘بے تکا’ اور ‘بے بنیاد’ قرار دیا ہے،جس میں  وزیر داخلہ امت شاہ  کوکینیڈین شہریوں کو قتل کرنے کی سازش میں ‘ملوث’ بتایا گیا تھا۔

دراصل، 14 اکتوبر کو  امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ‘کینیڈا کے ایک اہلکار’ کے حوالے سے رپورٹ کیا تھا کہ کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کے خلاف مہم چلانے کا حکم امت شاہ نے دیا تھا۔ اس خبر کی وجہ سے ہندوستان اور کینیڈا دونوں میں کھلبلی مچ گئی، آخر ہندوستان کے وزیر داخلہ کا نام اخبار کو کس نے بتایا؟

اس سوال کا جواب 29 اکتوبر کو ملا۔ اس دن کینیڈا کے نائب وزیر خارجہ ڈیوڈ موریسن نے پبلک سیفٹی اور نیشنل سکیورٹی  کو لے کر بنی کینیڈا کی پارلیامانی کمیٹی کی سماعت کے دوران انکشاف کیا کہ انہوں نے ہی واشنگٹن پوسٹ کو تصدیق کی تھی کہ ہندوستان کے وزیر داخلہ امت شاہ کینیڈین  شہریوں کے قتل کی سازش میں ‘ملوث’ تھے۔

نائب وزیر خارجہ کے اس بیان پر اب ہندوستان  کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ ہندوستان نے کینیڈا کو وارننگ دی  ہے کہ ‘اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات کے دو طرفہ تعلقات پر سنگین نتائج ہوں گے’۔

سنیچر (2 نومبر) کو ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا، ‘ہم نے کل (1 نومبر) کینیڈین ہائی کمیشن کے نمائندے کو طلب کیا تھا۔ انہیں 29 اکتوبر کی پارلیامانی کارروائی کے حوالے سے ایک سفارتی نوٹ بھی دیا گیا ہے۔ نوٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت ہند ہندوستان کے مرکزی وزیر داخلہ کے خلاف نائب وزیر ڈیوڈ موریسن کی طرف سے کمیٹی کے سامنے لگائے گئے بے تکے  اور بے بنیاد الزامات کی سخت ترین الفاظ میں مخالفت کرتی ہے۔’

جیسوال نے مزید کہا، ‘یہ واضح ہو گیا ہے کہ کینیڈا کے حکام نے جان بوجھ کر ہندوستان کی شبیہ کو خراب کرنے اور دوسرے ممالک کو متاثر کرنے کی حکمت عملی کے تحت بین الاقوامی میڈیامیں  بے بنیاد الزامات کو لیک کیا تھا۔ … ایسے غیر ذمہ دارانہ اقدامات کے دو طرفہ تعلقات پر سنگین نتائج ہوں گے۔’

کینیڈا کی قومی سلامتی کی مشیر نتھالی ڈروئن نے ایک پارلیامانی کمیٹی کو بتایا تھا کہ اس کیس کے پس منظر پر واشنگٹن پوسٹ سے بات کرنا ہندوستانی  حکومت کی طرف سے پھیلائی جانے والی غلط جانکاری کو روکنے کے لیے میڈیا کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔

ہندوستانی  سفارت کار کی  نگرانی!

دو  نومبر کو بریفنگ کے دوران وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ کینیڈا کی حکومت ہندوستانی  سفارت کاروں کی نگرانی کروا رہی ہے اور ہندوستان  نے اس حوالے سے باقاعدہ احتجاج بھی درج کرایا ہے۔

جیسوال نے کہا، ‘ہمارے کچھ قونصلر افسران کو حال ہی میں کینیڈا کی حکومت نے مطلع کیا تھا کہ وہ آڈیو اور ویڈیو  نگرانی میں ہیں۔ ان  کی بات چیت کوبھی انٹرسیپٹ کیا گیا ہے۔ ہم نے باضابطہ طور پر حکومت کینیڈا سے احتجاج کیا ہے کیونکہ ہم ان اقدامات کو سفارتی اور قونصلر معاہدوں کی سنگین خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔’

‘تکنیکی باتوں  کا حوالہ دے کر کینیڈا کی حکومت اس حقیقت کا جواز پیش نہیں کر سکتی کہ وہ ہراساں کرنے اور دھمکی کے کام میں ملوث ہیں۔ ہمارے سفارت کار اور قونصلر عملہ پہلے ہی انتہا پسندی اور تشدد کے ماحول میں کام کر رہے ہیں۔ کینیڈا کی حکومت کی طرف سے یہ کارروائی صورتحال کو مزید بگاڑ دیتی ہے اور یہ سفارتی اصولوں اور طریقوں کے مطابق نہیں ہے۔’

اس ہفتے کے شروع میں جاری کینیڈین سائبر سکیورٹی رپورٹ کے جواب میں وزارت خارجہ نے کہا کہ ‘یہ ہندوستان پر حملہ کرنے کی کینیڈا کی حکمت عملی کی ایک اور مثال معلوم ہوتی ہے۔’

جیسوال نے کہا، ‘جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، ان کے سینئر عہدیداروں نے کھلے عام اعتراف کیا ہے کہ وہ ہندوستان کے خلاف عالمی رائے کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دیگر مواقع کی طرح بغیر کسی ثبوت کے الزامات لگائے گئے ہیں۔’

جیسوال نے کہا کہ اوٹاوا کی  پارلیامنٹ ہاؤس میں دیوالی کی تقریبات کی رد ہونے  کی اطلاعات کے بعد کینیڈا میں ماحول ‘عدم برداشت اور انتہا پسندی کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔’