یوپی میں خواتین کےلیے 40 فیصدی سیٹوں کااعلان کرکے پرینکا گاندھی نے ایک طرح سے یہ صاف کر دیا ہے کہ کانگریس سیٹوں کی ایک بڑی تعداد پرانتخاب لڑےگی۔ یعنی دوسری پارٹیوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ یا اتحاد نہیں کرےگی۔خواتین کو بااختیار بنانےکے داؤ کو اس قدر تشہیر کے ساتھ کھیلنے کا تبھی کوئی تک بنتا ہے، جب آپ انتخابی جدوجہد میں اپنی موجودگی کو کو نمایاں طور پر بڑھائیں۔
آئندہ اتر پردیش(یوپی)اسمبلی انتخاب میں کانگریس پارٹی کے40فیصدسیٹوں پر خاتون امیدواروں کو اتارنے کےپرینکا گاندھی کے فیصلے نے ہلچل مچادیا ہے۔ اس میں ایک زوردار علامتی اشارہ ہے، لیکن یہ کسی بھی معنی میں منفرد نہیں ہے۔
یاد کیجیےنتیش کمار نےشعوری حکمت عملی کے تحت بہار میں خواتین رائے دہندگان کو فلاحی اسکیموں کی ایک طول طویل فہرست سےلبھایا تھا۔صوبے میں شراب بندی کا ان کا فیصلہ بنیادی طور پرخواتین ووٹروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔یہاں تک کہ انہوں نے خاتون امیدواروں کو 35 فیصدی ٹکٹ بھی دیے۔ جنتا دل یونائٹیڈ کے 43خاتون امیدواروں میں صرف 6 جیت پائیں۔
اس کے ٹھیک الٹ خاتون امیدواروں کو حال کےمغربی بنگال انتخابات میں کہیں زیادہ کامیابی ملی۔ ٹی ایم سی کے ایم پی ڈیریک او براین کہتے ہیں کہ پارٹی نے تقریباً40 فیصدی ٹکٹ خواتین کو دیے اور ان کی کامیابی کی شرح بھی یکساں طور پر اچھی تھی پارٹی کے فاتح امیدواروں میں 40 فیصدی خواتین تھیں۔
بہار میں جےڈی یو کے فاتح امیدواروں میں خاتون امیدواروں کا فیصدصرف 13 تھا، جبکہ انہیں کل 35 فیصدی ٹکٹ ملے تھے۔
یہاں یہ اعادہ ہو سکتا ہے کہ خاتون امیدوار ان صوبوں میں بہتر کرتے ہیں جہاں ان کا امپاورمنٹ اور ان کی خواندگی کی شرح زیادہ ہے۔اس تناظر میں ہندی بیلٹ کا مطالعہ کرنا انتہائی جانکاری دینے والا ہو سکتا ہے،جہاں کے سماجی اور سیاسی زندگی میں پدرانہ نظام اوراکثریت پرستی کا کاک ٹیل انتہائی اہم رول نبھاتا ہے۔
یہاں یہ بھی دھیان دلایا جانا چاہیے کہ ہندی بیلٹ کے بڑے حصے میں میں کل لیبر فورس میں خواتین کی شراکت داری کافی مایوس کن اکائی کےاعدادوشمار میں ہے۔تصور کیجیے بہار اور یوپی جیسےصوبوں میں روزگار میں شامل ہو سکنے والی100خواتین میں صرف 5 سے 8 ہی نوکری کے بارے میں سوچتی ہیں۔ جنوبی اور مشرقی صوبوں میں یہ تناسب کافی زیادہ ہے۔اس کا سیدھا اثر ان کی آزادی، امپاورمنٹ اور نتیجہ کے طور پر ان کے ووٹنگ پیٹرن پر پڑتا ہے۔
انتخابی تجزیہ کار اور لوک نیتی، سی ایس ڈی ایس کے شریک ڈائریکٹر سنجے کمار کے مطابق، خواتین نے حال کے سالوں میں ہی آزادانہ طریقےسےووٹ ڈالنا شروع کیا ہے۔ایک دہائی پہلےتقریباً15فیصدی خواتین ہی اپنے گھروالوں کے مردوں سے متاثر ہوئے بغیرآزادانہ طریقے سےووٹنگ کرتی تھیں۔
During 2019 Lok Sabha election, In #UP #women #turnout exceeded men turnout by 1%. #Goa women turnout was higher compared to men turnout by 2.5% and in #Manipur women turnout higher by 4.4%. Women #vote needs to be watched during Assembly #Elections2022. @csdsdelhi @LoknitiCSDS
— Sanjay Kumar (@sanjaycsds) October 22, 2021
سنجے کمار بتاتے ہیں کہ اب 50فیصدی سے کچھ زیادہ خواتین آزادانہ طریقے سے ووٹ ڈالتی ہیں۔ اور ایک دوسری سچائی ہے کہ جنوب مشرقی صوبوں اور ہندی بیلٹ کےصوبوں کے بیچ اس اعدادوشمار میں بھی کافی فرق ہوگا۔ خواتین کے ووٹنگ رجحان بے حدپیچیدہ ہیں اور انہیں سمجھنا آسان نہیں ہے۔ جو بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ خواتین پہلے کےمقابلے کہیں زیادہ بڑی تعداد میں ووٹنگ کر رہی ہیں۔ یہاں تک کہ تعداد کے لحاظ سے ووٹنگ میں وہ مردوں کو پیچھے چھوڑ دے رہی ہیں۔
تو سوال ہے کہ اگلے سال کی شروعات میں ہونے والے یوپی اسمبلی انتخاب میں پرینکا کیا کمال دکھا پائیں گی؟
پہلی بات،خواتین کے لیے40 فیصدی سیٹوں کااعلان کرکے پرینکا گاندھی نے ایک طرح سے یہ صاف کر دیا ہے کہ کانگریس پارٹی سیٹوں کی ایک بڑی تعداد پر انتخاب لڑےگی۔ یعنی دوسری اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ پارٹی کوئی سمجھوتہ یا اتحاد نہیں کرےگی۔
خواتین کو با اختیار بنانےکے داؤ کو اتنے پروپیگنڈہ کے ساتھ کھیلنے کا تبھی کوئی تک بنتا ہے، جب آپ انتخابی جدوجہد میں اپنی موجودگی کو قابل ذکر ڈھنگ سے بڑھائیں۔ساتھ ہی یہ اس بات کا بھی اعلان ہے کہ اب پرینکا آگے بڑھ کرسربراہی کرنے کو لےکر پرعزم ہیں، جبکہ 2017 میں ان کارول پردے کے پیچھے تال میل بٹھانے تک محدود تھا، جب کانگریس نے سماجوادی پارٹی کے ساتھ گٹھ بندھن میں انتخاب لڑا تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ اس بار کانگریس نے اکیلے چناؤ لڑنے کا من بنا لیا ہے۔امید ہے اکھلیش یادو بھی اسی راہ پر چلیں گے، جن کا 2017 میں کانگریس یا بی ایس پی کے ساتھ گٹھ بندھن کا تجربہ چھا نہیں رہا ہے۔
اصلی سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس نے خواتین ووٹروں کو اپنے پالے میں لانے کی کوئی ٹھوس حکمت عملی تیار کی ہے؟یا پھر یہ بس ایک بڑا خیال ہے، جس پر تفصیل سے غورکیا جانا ابھی باقی ہے؟ آنے والے مہینوں میں اس مہم سے کتنا سیاسی فائدہ ہوگا، یہ کہہ پانا ابھی مشکل ہے۔
ایک بات جو کانگریس کے حق میں ہے، وہ یہ ہے کہ صوبے میں بی جے پی ایک زبردست سرکار مخالف جذبے سے جوجھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ 35 سالوں سے زیادہ عرصے میں صوبےمیں کسی بھی مقتدرہ پارٹی کو دوسری مدت کار نہیں ملی ہے۔
پہلے ہی کئی سطحوں پرچیزیں بدل رہی ہیں۔لکھیم پورکھیری معاملے کے بعد کسانوں کے غصے کے مغربی اتر پردیش سے دوسرے حصوں میں پھیلنے،بی جے پی کے اندر غیریادو او بی سی رہنماؤں کے خم ٹھوکنے اور اشرافیہ کے ایک حصہ کی ناراضگی نے یقینی طور پر بی جے پی کی تشویش میں اضافہ کردیا ہے۔
پرینکا گاندھی کے خواتین کو بااختیار بنانےکے داؤ میں ان چیزوں میں ایک الگ جہت جوڑ نے کی صلاحیت ہے۔ لیکن اس کے لیے انہیں کانگریس کی تنظیم میں، یہ جیسی بھی ہے، جوش بھرنا ہوگا۔
کانگریس نےیقینی طور پرہی اتر پردیش کے انتخابی موسم میں ایک نیا ڈسکورس کھڑا کیا ہے۔ 2017 کے اسمبلی انتخاب میں40 فیصدی ووٹ حاصل کرنے والی بی جے پی یقینی طور پرہی ایک بڑھت کے ساتھ شروعات کر رہی ہے، کیونکہ یہ 8 سے 10 فیصدی ووٹوں کو گنوانے کی صورتحال میں بھی بکھرے اپوزیشن کی مہربانی سے ٹکر میں رہےگی۔
پرینکا گاندھی کی جانب سےدیا گیا‘لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں’، کا نعرہ اگر جادو کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو یہ اپوزیشن کے ووٹوں کو اور تقسیم کر سکتا ہے۔
سال 2017 میں کانگریس کو محض 7 فیصدی ووٹ ملے تھے۔ اس سطح سے یہ اپنے اپنے ووٹ فیصد میں کتنا اضافہ کر سکتا ہے اور یہ بی جے پی کی اہم حریف سماجوادی پارٹی کو کتنا نقصان پہنچائےگی یہ اتر پردیش انتخابات کی سرگرمیاں بڑھنے کے بعد اہم سوال ہوگا۔ صاف ہے یہ پرینکا گاندھی کے ذریعے کھیلا گیا اب تک کا سب سے بڑا سیاسی جوا ہے۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)