وقف ترمیمی بل کے توسط سے اس حکومت کا مسلم دشمن چہرہ ایک بار پھر سے بے نقاب ہو گیا ہے۔
نریندر مودی حکومت نے 8 اگست کو 44 تبدیلیوں کے ساتھ 40 صفحات پر مشتمل وقف ترمیمی بل (2024) پارلیامنٹ میں پیش کیا۔ سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے سربراہ اکھلیش یادو کی قیادت میں اپوزیشن نے اس کی مخالفت کی اور اب اسےپارلیامانی کمیٹی کے پاس غوروفکر کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔
اکھلیش یادو اتر پردیش سے آتے ہیں، اور مانا جا رہا ہے کہ اگر یہ بل پاس ہو جاتا تو اس کا سب سے زیادہ اثر اسی ریاست پر پڑتا۔ یوپی میں سنی سینٹرل وقف بورڈ کے پاس سب سے زیادہ 210239 جائیدادیں ہیں اور شیعہ سینٹرل وقف بورڈ کے پاس 15386 جائیدادیں ہیں۔ وقف بورڈ، جیسا کہ بی جے پی چینلوں کے ذریعے مشتہر کیا گیا ہے، ان جائیدادوں کا مالک نہیں ہے بلکہ صرف ان کی نگرانی کرتا ہے۔
وقف کا مطلب ایک بندوبستی ہے، جس کے توسط سے مسلمان بیواؤں، یتیموں، اسکولوں، اسپتالوں، مدرسوں وغیرہ کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی زمین، منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادعطیہ کرتے ہیں۔ وقف کی دو قسمیں ہوتی ہیں، ایک وقف علی الاولاد ، بچوں کی فلاح وبہبود کے لیے، اور ایک وقف علی الخیر، عوام کی بھلائی کے لیے،جس میں ایک متولی مقرر کیا جاتا ہے۔ وقف کو کسی بھی حالت میں فروخت نہیں کیا جا سکتا، حتیٰ کہ ایک بار جائیداد وقف کے طور پر نامزد ہو جانےکے بعد مالک بھی اسے واپس نہیں لے سکتا۔ اس کے بعد، جائیداد خدا کو وقف ہو جائے گی۔ ہندوستان بھر میں 32 وقف بورڈ ہیں۔
وقف ایکٹ اور وقف املاک کو شریعت ایپلیکیشن ایکٹ 1937 کے توسط سے آئین ہند کے ذریعے تحفظ حاصل ہے۔ 1947 کے بعد 1954 کا پہلا وقف ایکٹ آیا، جس میں 1995 میں ترمیم کی گئی، اور بعد میں 2013 میں دوبارہ ترمیم کی گئی۔ یہ سب کچھ کانگریس کی قیادت والی حکومت نے کیاتھا، جس نے اسے مزید بااختیار بنا دیا تھا۔
یہی وہ اختیارات ہیں جنہیں مودی حکومت ختم کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کے اتحادی – جے ڈی یو کے نتیش کمار اور ٹی ڈی پی کے چندرابابو نائیڈو اس بل کے حامی ہیں۔
یہ بل آئین ہند کے آرٹیکل 12 سے 35 میں مضمربنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ان میں سے کئی آرٹیکل دوسرے آرٹیکل کے ماتحت ہیں، لیکن آرٹیکل 26 کسی بھی پابندی سے بالکل آزاد ہے۔ یہ مسلمانوں اور دیگر تمام مذہبی فرقوں کے لوگوں کو ‘امن عامہ، اخلاقیات اور صحت کے تحت آنے والے’ اپنے مذہبی امور کو منظم کرنے کی غیر مشروط آزادی کی اجازت دیتا ہے۔
وقف ترمیمی بل (2024) کے تحت حکومت ریاستی بورڈوں پر غیر مسلموں کو نامزد کرنا چاہتی ہے، وقف ٹریبونل اتھارٹی کی جگہ ضلع کلکٹر کو ایک ثالث کے طور پرمقرر کرنا چاہتی ہے، جو اس بات کی تحقیقات اور تصدیق کرے گا کہ کیا کوئی جائیداد وقف جائیداد ہے یا سرکاری زمین ہے۔
اس بل کی دفعات آرٹیکل 26 سے بالکل ہی مطابقت نہیں رکھتی ہیں، جو واضح طور پر مسلمانوں کو اجازت دیتی ہے، ’(اے) مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لیے اداروں کے قیام اور ان کے رکھ رکھاؤ کی، (بی) مذہبی امور میں اپنے خود کے معاملوں کو منظم کرنے کی ،(سی) منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی ملکیت اورقبضہ حاصل کرنے کی اور (ڈی) قانون کے مطابق جائیدادکو منظم کرنے کی۔’
اس کے تحت صدیوں سے ’استعمال کنندہ کے ذریعے وقف‘سے متعلق جائیدادوں کو بھی ناجائز قرار دیا جائے گا۔
اس ترمیمی بل سے پہلے ان جائیدادوں کو وقف سمجھا جاتا تھا اور ایسی جائیدادوں کو قبرستان، کربلا، مسجد وغیرہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ آرٹیکل 26 نے اپنی شق (ڈی) کے توسط سے مسلمانوں کوان پر مکمل خود مختاری فراہم کی۔
اس کے علاوہ وقف ٹریبونل کے بجائے اب ہر ضلع میں ضلع کلکٹر کو کسی مخصوص وقف جائیداد کے سلسلے میں واحد ثالث بنایا جائے گا۔ یعنی، اگر ضلع کلکٹر کو اس پراپرٹی کی نوعیت اور استعمال کنندہ کے بارے میں کوئی شک ہے، تو اس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ ڈسٹرکٹ کلکٹر کئی دہائیوں تک معاملے کو التوا میں رکھ سکتا ہے اور جب تک ڈسٹرکٹ کلکٹر کوئی فیصلہ نہیں لے لیتا اس وقت تک اس جائیداد کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
قبل ازیں اگر وقف بورڈ کو کوئی دعویٰ کرنا ہوتا تھاتو اسے تین سال کے اندر وقف ٹریبونل میں چیلنج کیا جاسکتا تھا اور اس کے فیصلے پر جائیداد یا تو وقف بورڈ کے پاس ہی رہتی تھی یا دوسرے فریق کو دے دی جاتی تھی۔ ڈسٹرکٹ کلکٹر کو اتنے بڑے اختیارات کیوں دیے گئے، جبکہ آرٹیکل 26 شق (سی) واضح طور پر کہتی ہے کہ ایسی جائیدادوں کی ملکیت کا حق، دستاویزوں کے ذریعےیااستعمال کرنے والے کے ذریعے، کسی بھی صورت میں چھینا نہیں جا سکتا۔ اس بل کے ذریعے اسے منسوخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلم اراکین کی نامزدگی آرٹیکل 26 کی خلاف ورزی ہے جو مسلمانوں کو مذہبی امور میں اپنے خود کے معاملوں منظم کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ وقف بورڈ کے نظم و نسق میں دو غیر مسلم ارکان کی نامزدگی سے پورا نظام متاثر ہوجائے گا۔
آرٹیکل 26 کی شق (اے) واضح طور پر بتاتی ہے کہ مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لیے قائم کیے گئے اداروں کو اس شخص کے جذبے اورخیال میں دیکھا جانا چاہیے جس نے جائیداد وقف کی ہو۔ غیر مسلم ارکان کی نامزدگی کے بعد یہاں ایک عجیب وغریب صورتحال پیدا ہو جائے گی، کیونکہ ایک چیز ایک کے لیے مذہبی اور خیراتی ہو سکتی ہے لیکن دوسرے کے لیے نہیں۔ ایسی جائیداد کو کسی اور طریقے سے استعمال کرنا عطیہ دہندگان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس قسم کی مداخلت پوری طرح سے غیرمناسب ہے۔
مودی حکومت ایک غیر مسلم کو چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) مقرر کر کے وقف بورڈ سے خود مختاری کا ہر قطرہ چھین لینا چاہتی ہے، جسے وقف ایکٹ کی دفعہ 26 کے تحت کافی اختیارات دیے گئے ہیں۔
سی ای او کو بورڈ کی جانب سے منظور کی گئی کسی بھی قرارداد پر عملدرآمد نہ کرنے کااختیار ہے ، اور وہ اسے ‘آرڈر یا قرارداد پر اپنے اعتراضات کے ساتھ ریاستی حکومت کو بھیج سکتا ہے، اور اس پر ریاستی حکومت کا فیصلہ حتمی ہوگا۔’ سی ای او بورڈ کے چیئرمین سے کہیں زیادہ طاقتور ہوجائے گا۔ اس بل کے بعد بورڈ کی ہر تجویز درمیان میں لٹک جائے گی۔
ایک آخری دھچکا جو مودی حکومت وقف بورڈ کو دینا چاہتی تھی، جو ممکنہ طور پر مسلسل غیر قانونی قبضوں کا دروازہ کھول سکتا ہے، وہ ہے م ایڈورس پوزیشن پر لاء آف لمیٹیشن کو ختم کرنا۔
اس بل کے نفاذ کے بعد بورڈ مخالف فریق کے ایڈورس قبضے کے بعد 12 سال گزر جانے کے بعد اپنا دعویٰ دائر کرنے کے حق سے محروم ہوجائے گا۔
انیس سو سینتالیس کے بعد،خصوصی طور پر پنجاب میں ایک عجیب صورتحال پیدا ہوئی، جہاں پاکستان ہجرت کرنے والے مسلمانوں نے بڑی تعداد میں مساجد وغیرہ چھوڑ دیا تھا، اور ایسی عمارتوں پر سکھوں کا قبضہ ہو گیا تھا۔ 2013 کی ترمیم کے بعد ایسی کئی عمارتیں مسلمانوں کو واپس کی گئی ہیں۔ مودی حکومت اس راستے کو روکنا چاہتی ہے۔
وقف مسلمانوں ایک خصوصی علاقہ ہے کیونکہ یہ صدیوں سے مسلمانوں کی جائیدادوں کے عطیات سے پیدا ہواہے، لیکن مودی حکومت اسے ہضم نہیں کر سکی۔
اس بل کے توسط سے حکومت کا مسلم دشمن چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہو گیا ہے۔
(حیدر عباس اتر پردیش کے سابق ریاستی انفارمیشن کمشنر اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔)