
پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد پاکستان کی حکمت عملی آرمی چیف، وزیر اعظم، خفیہ ایجنسی، اور خزانہ اور خارجہ کی وزارتیں طے کر رہی ہیں۔ حتمی فیصلوں میں کس کا کیا اور کتنا کردار ہوگا، تفصیل سے ملاحظہ کریں۔

گزشتہ 24 اپریل 2025 کو اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس کی صدارت پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کی۔ (تصویر: فیس بک/میاں شہباز شریف)
نئی دہلی:ہندوستان کے ساتھ کشیدگی کی موجودہ صورتحال میں پاکستان کے موقف کا فیصلہ جو مقتدرشخصیات کریں گی، ان میں آرمی چیف اور وزیراعظم اہم ترین مقتدر شخصیات ہیں۔ ان کے علاوہ اور کئی ادارے اور افراد ہیں، جو ایسے وقت میں پاکستان کی سکیورٹی پالیسی اور ردعمل کا فیصلہ کریں گے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر
پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر ملکی سلامتی اور خارجہ پالیسی پر خاص اثر رکھتے ہیں۔ مسئلہ اگر ہندوستان سے متعلق ہو تو آرمی چیف کی مداخلت مزید بڑھ جاتی ہے۔ کشمیر پر ان کے حالیہ تبصرے سخت اور جارحانہ رہے ہیں، جو فوج کے روایتی نقطہ نظر کا اعادہ تھے کہ پاکستان ہندوستان کی طرف سے کسی بھی فوجی کارروائی کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔
پاکستان کے اندر عدم اطمینان اور عدم تحفظ کی وجہ سے یہ فوج کی ساکھ اور حوصلے کے امتحان کا وقت ہے۔ ملک اور بیرون ملک کی نظریں جنرل منیر کی سرگرمیوں اور بیانات پر لگی ہوئی ہیں، کیونکہ فوج ہی پاکستان کا سب سے طاقتور ادارہ سمجھا جاتا ہے اور ہندوستان کے حوالے سے پالیسی سازی میں اس کا سب سے بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف
ہندوستان کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان ملک کی باضابطہ کمان وزیراعظم شہباز شریف کے پاس ہے، لیکن وہ پاک فوج کی مرضی پر منحصر ہیں۔ ملک کے مقبول ترین رہنما عمران خان اس وقت جیل میں ہیں اور شہباز کے بڑے بھائی اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کوسیاست سے الگ کر دیا گیا ہے۔ اس صورتحال میں شہباز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کے ہنگامی اجلاس بلا کر اپنی کابینہ کے ساتھ مشترکہ پالیسی بنانے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے اقوام متحدہ سے مداخلت کی اپیل کی ہے اور تمام فریقوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کو کہا ہے۔ انہوں نے پہلگام حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے الزامات کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ ملک اور دنیا دونوں ان کے قائدانہ انداز پر نظر رکھے ہوئے ہیں- کیا وہ سفارتی روابط برقرار رکھ پاتے ہیں، اندرونی حالات کو سنبھالتے ہیں اور عوامی دباؤ کے درمیان توازن قائم رکھ پاتے ہیں یا نہیں۔
قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی)
قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) پاکستان کا اہم پالیسی ساز ادارہ ہے، خاص طور پر سیکورٹی کے بحران کے دوران۔ اس میں اعلیٰ ملٹری اور سول حکام شامل ہوتے ہیں۔ پہلگام حملے کے بعد سے کمیٹی نے کئی میٹنگیں کی ہیں، جن میں سفارتی، فوجی اور انٹلی جنس سطح پر رابطہ کاری کی گئی ہے۔ اس کمیٹی میں پاکستان کا ردعمل، فوجیوں کی تعیناتی اور بین الاقوامی رابطے کی حکمت عملی طے کی جاتی ہے۔
جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) اور کور کمانڈر
راولپنڈی میں جنرل ہیڈ کوارٹر پاکستان آرمی کا آپریشنل اور اسٹریٹجک پلاننگ سینٹر ہے۔ یہاں آرمی چیف کی جانب سے بلائی گئی کور کمانڈر کانفرنس میں ملک کے اعلیٰ فوجی افسران مل کر خطرے کا جائزہ لیتے ہیں اور حکمت عملی طے کرتے ہیں۔
انہی ملاقاتوں میں فوج کی پوزیشن، لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر تعیناتی اور قومی سلامتی پالیسی کا خاکہ طے کیا جاتا ہے۔ ان کمانڈروں کا اجتماعی اثر و رسوخ اتنا زیادہ ہے کہ ان کی رائے اکثر عوام کی منتخب کردہ حکومت پر حاوی ہو جاتی ہے۔
نیشنل کمانڈ اتھارٹی اور اسٹریٹجک پلانز ڈویژن
پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کا کنٹرول نیشنل کمانڈ اتھارٹی (این سی اے) کے پاس ہوتا ہے، جس کے سربراہ وزیراعظم ہیں، لیکن اس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان، آئی ایس آئی کے سربراہ اور اہم وزراء شامل ہوتے ہیں۔
اس کی ایگزیکٹو برانچ سٹریٹجک پلانز ڈویژن (ایس پی ڈی) ہے، جس کا سربراہ ایک اعلیٰ فوجی افسر (اس وقت لیفٹیننٹ جنرل یوسف جمال کے پاس ہے)۔ یہ شاخ جوہری ہتھیاروں کی تعیناتی، تکنیکی دیکھ بھال اور آپریشنل سیکورٹی کو یقینی بناتی ہے۔
اگرچہ رسمی طور پر این سی اے کی سربراہی جمہوری طور پر منتخب حکومت کرتی ہے، لیکن حقیقت میں فوج – خاص طور پر آرمی چیف، ایس پی ڈی اور کور کمانڈر – جوہری پالیسی اور استعمال کے بارے میں حتمی فیصلہ لیتے ہیں، خاص طور پر بحران کے وقت۔
آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل محمد عاصم ملک
لیفٹیننٹ جنرل محمد عاصم ملک پاکستان کی سب سے طاقتور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ کشیدگی کی صورت میں آئی ایس آئی کا کردار بہت اہم ہو جاتا ہے۔ یہ ایجنسی انٹلی جنس جمع کرنے، خفیہ آپریشنز اور اسٹریٹجک منصوبہ بندی میں شامل رہتی ہے۔
آئی ایس آئی کے سربراہ قومی سلامتی کونسل (این ایس سی) اور نیشنل کمانڈ اتھارٹی (این سی اے) کے مستقل رکن ہوتے ہیں۔ وہ داخلی سیاست اور سول ملٹری تعلقات میں بھی گہرا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ عہدہ کسی بھی قومی بحران میں سب سے اہم ہو جاتا ہے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب
محمد اورنگزیب،جو ایک سابق بینک آفیشل ہیں، اب پاکستان کے وزیر خزانہ ہیں۔ پاکستان کی کمزور معیشت اور بین الاقوامی قرضوں پر انحصار کے پیش نظر وزیر خزانہ کا کام اور بھی اہم ہو گیا ہے۔
ان کا کام دفاعی شعبے کے لیے وسائل کو متحرک کرنا، بین الاقوامی اقتصادی تعلقات کو منظم کرنا اور بحران کے وقت بازار اور مالیاتی شراکت داروں کو بھروسہ دلانا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ طویل عرصے تک جاری کشیدگی اور تعطل میں اقتصادی حدود اکثرپاکستان کے اختیارات کو محدود کر دیتی ہیں، جس سے ملک کے ردعمل اور بیان بازی دونوں کی تشکیل میں وزیر خزانہ کا کردار اہم ہوتا ہے۔
وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار
وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار جو نائب وزیر اعظم بھی ہیں، پاکستان کی سفارتی حکمت عملی کی قیادت کر رہے ہیں۔ وہ بین الاقوامی اداروں، اقوام متحدہ اور اتحادی ممالک سے رابطہ رکھتے ہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ اپنے سفارت خانوں اور ہائی کمیشنوں کے ذریعے پاکستان کی پوزیشن واضح کر رہی ہے اور بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حال ہی میں وزارت نے چین کے ساتھ وسیع مشاورت کی ہے۔