
اسدالدین اویسی کا کہنا ہے کہ جب حکومت وقف (ترمیمی) بل پر جے پی سی کی رپورٹ پارلیامنٹ میں پیش کر رہی تھی، تو جئے شری رام کے نعرے لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ غریب مسلمانوں کے لیے یہ ترمیم کر رہی ہے، کیا ایسا کرنے کا یہی طریقہ ہے؟

اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@AIMIM)
نئی دہلی: بجٹ اجلاس کے آخری دن پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں میں جمعرات (13 فروری) کو مرکزی حکومت کی جانب سے وقف (ترمیمی) بل پر پارلیامنٹ کی مشترکہ کمیٹی (جے پی سی) کی رپورٹ پیش کرنے پرحزب اختلاف کے ارکان پارلیامنٹ کا ہنگامہ دیکھنے کو ملا۔
اپوزیشن نے الزام لگایا کہ ان کے اراکین کے اختلافی نوٹ کے کچھ حصے رپورٹ سے ہٹا دیے گئے ہیں۔ تاہم، بی جے پی کی قیادت والی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) حکومت نے اس کی تردید کی۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور حیدرآباد سے لوک سبھا کے رکن پارلیامنٹ اسد الدین اویسی، جو اس پارلیامانی کمیٹی کا حصہ تھے، نے انڈین ایکسپریس سے پینل کے کام کاج، اس کی رپورٹ اور اپوزیشن اراکین کے اختلافی نوٹ سمیت دیگر مسائل پر بات کی۔
پارلیامنٹ وقف کمیٹی کے کام کاج اور اس کی رپورٹ کے بارے میں اویسی نے کہا کہ کمیٹی کی کارروائی غیر منظم طریقے سے چلائی گئی۔ اسپیکر بی جے پی ایم پی جگدمبیکا پال نے اسٹیک ہولڈرز کو بلانے کے لیے اپنے استحقاق کا غلط طریقے سے استعمال کیا۔ ان کے کچھ ارکان دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں جبکہ کچھ پر قتل کا الزام ہے۔ وقف بل یا ایشو پر ان کی کیا حصے داری ہے؟
اس کے علاوہ کئی ایسے اداروں کو بلایا گیا جن کا وقف سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
مزید یہ کہ کمیٹی کی میعاد موجودہ بجٹ اجلاس کے آخری دن تک ہونی تھی، لیکن اس میں توسیع کر دی گئی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ چند گھنٹوں میں ممبران دستاویز کو پڑھ لیں اور اختلافی نوٹ دے دیں؟ یہ بتاتا ہے کہ وہ ہمارے اختلافی نوٹ نہیں چاہتے تھے جو غیر آئینی بل کی مذمت کرتے تھے۔
این ڈی اے اراکین کی تجویز کردہ ترامیم پر تبصرہ کرتے ہوئے، جنہیں کمیٹی نے منظور کر لیا ہے، انہوں نے کہا، ‘ہماری ترامیم بے کار ہوگئیں کیونکہ ہمارے پاس نمبر نہیں تھے جبکہ این ڈی اے اور بی جے پی کے پاس نمبر تھے۔ بی جے پی کے ارکان کی طرف سے پیش کی گئی ترامیم نے بل کو مزید خراب کر دیا ہے۔ سب سے بری بات یہ ہے کہ اس میں نہ صرف غیر مسلموں کو ممبران رکھا جا سکتا ہے بلکہ غیر مسلموں کو بھی وقف بورڈ میں نامزدگی کی بنیاد پر مقرر کیا جا سکتا ہے۔ یہ ظاہر کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ آپ مسلمان ہیں۔ یہ دکھانے کا کیا مطلب ہے؟ آپ کیسے ثابت کرتے ہیں کہ آپ مسلمان ہیں یا آپ مسلمان نہیں ہیں؟ کیا یہ قانون کی زبان ہے؟’
اویسی نے مزید کہا، ‘آپ ‘صارفین کے ذریعے وقف’ صرف اس وقت کہتے ہیں جب جائیداد تنازعہ میں نہ ہو اور وہ سرکاری کی نہ ہو۔ تنازعہ کی قانونی تعریف کیا ہے؟ کوئی بھی شخص زبانی یا درخواست دے کر تنازعہ اٹھا سکتا ہے۔ اس بل کے مطابق، اگر کوئی کلکٹر سے شکایت کرتا ہے کہ وقف املاک وقف املاک نہیں ہے اور اگر انکوائری کا حکم دیا جاتا ہے تو انکوائری مکمل ہونے تک وہ جائیداد وقف جائیداد نہیں رہے گی۔ اس کے لیے وقت کی کوئی حد نہیں ہے۔’
‘کلکٹر ایگزیکٹو کا ایک حصہ ہے۔ وہ سرکار کی جانب سے مقرر کردہ شخص ہے۔ یہ اختیارات کی علیحدگی کے اصول کی سنگین خلاف ورزی ہے اور یہ اس بات کی ایک مثال ہے کہ اس وقف کو صارف کی ترمیم کے ذریعے وقف کے مفادات کے خلاف کس طرح استعمال کیا جائے گا،‘ انہوں نے کہا۔
ایک مثال دیتے ہوئے اویسی نے کہا، ‘پارلیامنٹ کے سامنے والی مسجد کی مثال لیجیے، حکومت اور وقف کا دعویٰ ہے کہ یہ ان کی ہے۔ اب جب یہ بل قانون بن جائے گا اور حکومت فیصلہ کرے گی کہ یہ ان کی ملکیت ہے تو آپ کو مسجد پر ایک اسٹیکر چسپاں نظر آئے گا جس پر لکھا ہوگا کہ ‘یہ سرکاری جائیداد ہے اور آپ یہاں نماز نہیں پڑھ سکتے’۔ وقف املاک کو بچانے کے لیے یہ تمام ترامیم کیسے لائی جا رہی ہیں؟ اس کے بجائے، آپ انہیں چھیننا چاہتے ہیں۔ مزید برآں، ایک بار جب یہ قانون بن جاتا ہے، تو (وقف بورڈ کے) ارکان کی تقرری انتخابات کے بغیر کی جائے گی، جو کہ غیر جمہوری ہے۔ اس لیے آپ اپنے ارکان مقرر کر کے وقف املاک پر قبضہ کر لیں گے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بل آئین کے آرٹیکل 29 کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بنیادی حقوق ہیں جنہیں چھینا نہیں جا سکتا۔ جب ہندو، عیسائی اور سکھ جیسے دیگر مذاہب کے بورڈ واضح طور پر کہتے ہیں کہ جو لوگ مذہب کی پیروی نہیں کرتے انہیں اپنے بورڈ کا ممبر نہیں بنایا جا سکتا اور تنازعات کو نمٹانے کے لیے ان کے اپنے ٹربیونل ہیں، تو وقف ایکٹ 1995 میں ترمیم کے ذریعے اس کے بالکل برعکس کیا جا رہا ہے۔ یہ ترامیم نظریاتی نقطہ نظر سے لائی گئی ہیں۔ آپ صرف وقف بورڈ کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور کچھ نہیں بچے گا۔
متعدد اپوزیشن اراکین کے اختلافی نوٹ کو رپورٹ میں شامل نہیں کیے جانے کے دعوے پر اویسی نے کہا کہ جب ہم نے چیئرپرسن سے ملاقات کی تو انہوں نے جنرل سکریٹری کو ہدایت دی کہ وہ پینل کے لوک سبھا اراکین کے ساتھ بیٹھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ اگر کمیٹی کے لیے عمل کے طریقہ کار کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ہے، تو ترمیم شدہ ورژن کو حتمی رپورٹ میں شامل کیا جانا چاہیے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درج فہرست قبائل (ایس ٹی) اور ان کی زمینوں کو خطرہ ہے اور وزارت کو مناسب قانون سازی کے اقدامات کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔۔۔
‘میں نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ قانونی طور پر مسلمان قبائلی ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، آپ کے پاس لکشدیپ سے ایک ایم پی ہے (محمد فیضل) اور لداخ سے ایک ایم پی (محمد حنیفہ) ہیں جو قبائلی ہیں لیکن مسلمان ہیں۔ آپ ان کی مذہبی آزادی کو کیسے محدود کر سکتے ہیں؟ ہم پر اپنے اختلافی نوٹوں میں کمیٹی کے کام پر تنقید کرنے کا الزام لگایا گیا ہے اور اس کی آڑ میں ہمارے اختلافی نوٹوں کے کچھ حصے رپورٹ سے ہٹا دیے گئے ہیں،’ اویسی نے کہا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘کمیٹی پر یہ کیسی تنقید ہے؟ پارلیامانی طریقہ کار کہتا ہے کہ اگر کسی رکن کے اختلافی نوٹ میں ترمیم کی جائے تو اسپیکر کو مطلع کیا جانا چاہیے۔ چیئرمین نے اس معاملے میں کوئی اطلاع نہیں دی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چیئرمین وہی بلڈوزر چلانا چاہتے تھے جو حکومت چاہتی تھی۔ یہ بہت افسوسناک ہے۔ این ڈی اے کے پاس بل پاس کرنے کے لیے کافی تعداد ہے کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ اس کے اتحادی جے ڈی یو، ٹی ڈی پی اور ایل جے پی (رام ولاس) حکومت کے ساتھ ہیں۔ اپوزیشن کا روڈ میپ کیا ہے؟ ٹی ڈی پی، ایل جے پی (رام ولاس) اور [جے ڈی یو سربراہ] نتیش کمار کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ غیر آئینی ہے۔’
اویسی کہتے ہیں،’وہ وقف کو تباہ کرنے جا رہے ہیں اور اس عمل میں، مسلم اقلیتوں کے مفادات اور سیکولرازم کے تحفظ کی ان کی سطحی باتیں دھوکہ ثابت ہو رہی ہیں۔ وہ بری طرح بے نقاب ہوجائیں گے۔ خدا نہ کرے، اگر یہ بل قانون بن جاتا ہے، تو مسلمان ٹی ڈی پی کے سربراہ چندربابو نائیڈو، ایل جے پی (رام ولاس) کے صدر چراغ پاسوان اور نتیش کو ان کی دھوکہ دہی کے لیے معاف نہیں کریں گے۔’
بل کو روکنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کا کیا منصوبہ ہے، اس بارے میں اویسی نے کہا، ‘دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے اور حکومت کیا کرتی ہے۔ وہ جو کچھ بھی کر رہی ہے، اپنے نظریے کو آگے بڑھا رہی ہے۔ جب رپورٹ پارلیامنٹ میں پیش کی جا رہی ہے تو جئے شری رام کا نعرہ لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ ملک کو کیا بتاتا ہے؟ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ غریب مسلمانوں کے لیے یہ (وقف ایکٹ 1995 میں ترمیم) کر رہی ہے۔ کیا ایسا کرنے کا یہی طریقہ ہے؟’