اعظم خان کو الہ آباد ہائی کورٹ نے زمین پر قبضہ کرنے سے متعلق ایک معاملے میں ضمانت دے دی ہے، لیکن دو دیگر معاملوں کی وجہ سے انہیں جیل میں ہی رہنا پڑے گا۔
اعظم خان/ فوٹو: اے این آئی
نئی دہلی: سماج وادی پارٹی (ایس پی) لیڈر اعظم خان کو الہ آباد ہائی کورٹ نے منگل کو زمین سے متعلق ایک معاملے میں ضمانت دے دی۔
اے بی پی نیوز کی ایک خبر کے مطابق، اعظم خان کو جس کیس میں ضمانت ملی ہے وہ زمین پر قبضہ کرنے سے متعلق ہے۔ ان کے خلاف مزید دو مقدمات زیر التوا ہیں، جس کی وجہ سے ضمانت ملنے کے باوجود وہ فی الحال جیل میں ہی رہیں گے۔
بتا دیں کہ وہ 2020 سے سیتا پور جیل میں بند ہیں۔ اس بار انہوں نے جیل کے اندر سے ہی رام پور سیٹ سے اسمبلی الیکشن میں قسمت آزمایاہے۔ ان کی اہلیہ تزئین فاطمہ اور بیٹے عبداللہ اعظم خان نے ان کی انتخابی مہم کی ذمہ داری سنبھالی تھی۔
ہندوستان کے مطابق، الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کے جسٹس رمیش سنہا کی سنگل بنچ نے اعظم خان کو ضمانت دینے کی ہدایت دی ہے۔ اس معاملے میں اعظم خان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 505 (2) کے تحت چارج شیٹ داخل ہوئی ہے۔
اعظم خان، جو فروری 2020 سے جیل میں ہیں، ان کے خلاف بجلی چوری، بھینس-بکری چوری کرنے اور زمینوں پر قبضہ کرنے تک کے 87 مقدمات درج ہیں۔
غور طلب ہے کہ 8 فروری کو اعظم خان کو سپریم کورٹ سے عبوری ضمانت نہیں مل سکی تھی۔ اس سے قبل ان کے خلاف درج 87 مقدمات میں سے 84 میں انہیں ضمانت مل چکی تھی، انتخاب کے پیش نظر تین مقدمات میں عبوری ضمانت کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔
سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے معاملے کو دوبارہ متعلقہ عدالتوں کے سامنے پیش کرنے کو کہا تھا۔ عدالت نے امید ظاہر کی تھی کہ عدالت ضمانت کی درخواستیں کوجلد نمٹا دیں گی۔
درخواست میں توجہ مبذول کرائی گئی تھی کہ ان کے خلاف مقدموں میں جان بوجھ کر سست کارروائی کی جا رہی ہے تاکہ انہیں طویل عرصے تک جیل میں رکھا جا سکے۔
دی وائر نے گزشتہ ماہ اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ جن تین مقدمات میں انہیں ضمانت نہیں مل سکی تھی، ان میں غیر ضروری رکاوٹیں دیکھنے کو مل رہی ہیں، جہاں بعض اوقات مقدمے کی درخواست پراسرار طریقے سے غلط عدالت میں پہنچ جاتی ہے ، تو بعض اوقات عین شنوائی کے دن کیس کی فائل گم ہوجاتی ہے۔
واضح ہو کہ اعظم خان کے خلاف کل 87 مقدمے زیر التوا ہیں، جن میں سے84 ایف آئی آر 2017 میں بی جے پی حکومت بننے کے اگلے دو سالوں میں درج کی گئیں۔ 84 میں سے 81معاملے 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے ٹھیک پہلے اور بعد میں درج کیے گئے۔