معاملہ فیروزآباد ضلعے کا ہے۔ اگست 2019 میں ملزم نے ایک نابالغ لڑکی سے ریپ کیا تھا۔ رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ ملزم لگاتار ان پر مقدمہ واپس لینے کے لئے دباؤ بناتے ہوئے دھمکیاں دے رہا تھا، لیکن شکایت کے باوجود پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
نئی دہلی:اتر پردیش کے فیروزآباد میں ریپ کے ایک ملزم نے نابالغ متاثرہ کے والد کا گولی مارکر قتل کر دیا۔ یہ واقعہ 11 فروری کی شام کا ہے۔ ایس ایس پی نے لاپروائی برتنے کے الزام میں ایک چوکی انچارج سمیت تین پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، فیروزآباد ضلع میں ریپ متاثرہ کے والد کے قتل کے ملزم کو اتر پردیش پولیس نے بدھ کی رات کو گرفتار کر لیا۔ پولیس نے کہا کہ تیس سالہ آچمن اپادھیائے عرف چھوٹو کو ایک انکاؤنٹر کے دوران بائی پاس روڈ کے پاس سے گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے بتایا، ‘ بائی پاس روڈ کے پاس ایک تلاشی مہم کے دوران موٹر سائیکل میں کچھ لوگ دکھے جب ان سے رکنے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے پولیس پر گولیاں چلا دی۔ پولیس کی جوابی فائرنگ میں آچمن اور ان کے ساتھی زخمی ہو گئے۔ ‘
متاثرہ کے رشتہ داروں نے الزام لگایا کہ ریپ کے ملزم، جس کا مجرمانہ ریکارڈ ہے، فیملی پر دباؤ ڈال رہا تھا اور متاثرہ کے والد کو مقدمہ واپس لینے کی دھمکی دے رہا تھا۔ فیملی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملزمین نے کچھ دن پہلے متاثرہ کی ماں کو فون کیا تھا اور 10 فروری سے پہلے معاملہ واپس نہ لینے پر والد کو جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔ اس کی شکایت کرنے کے بعد بھی پولیس نے کچھ نہیں کیا۔
حالانکہ پولیس نے ان الزامات سے انکار کیا ہے۔ اس معاملے میں کارروائی کرتے ہوئے فیروز آباد کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سچندر پٹیل نے منگل کو دو اسٹیشن ہاؤس افسروں کو ڈیوٹی میں لاپروائی برتنے کے لئے معطل کر دیا۔ ساتھ ہی متاثر ہ کی فیملی کو دھمکی بھرے کال کے بارے میں سینئر افسروں کو مطلع نہ کرنے کے لئے ایک سب انسپکٹر کو بھی معطل کر دیا۔
پولیس نے آچمن اپادھیائے اور تین نامعلوم مددگاروں کے خلاف قتل کے الزام میں ایف آئی آر درج کی تھی۔ ساتھ ہی اپادھیائے کی گرفتاری کی اطلاع کے لئے 50000 روپے کے انعام کا بھی اعلان کیا تھا۔
متاثرہ کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ متاثرہ کے والد سوموار شام کو جب گھر لوٹ رہے تھے تبھی راستے میں چار لوگوں نے ان کے ساتھ مارپیٹ کی۔ کلیدی ملزم نے مبینہ طور پر اس پر گولی چلائی۔ اس کے بعد چاروں وہاں سے بھاگ گئے۔ زخمی متاثرہ کے والد کو ضلع ہاسپٹل لے جایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے ان کو مردہ قرار دے دیا۔
اس واقعہ کے بعد مشتعل مرحوم کے رشتہ داروں نے ہاسپٹل میں مظاہرہ کیا اور پولیس کی غیر فعالیت اور ان کو تحفظ عطا کرنے میں ناکامی کا الزام لگایا۔ پولیس نے ان کو یقین دہانی دلایا تھا کہ ملزمین اور لاپرواہ پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائےگی۔
بتا دیں کہ گزشتہ سال اگست میں متاثرہ کے والد نے اپنی بیٹی سے ریپ کے معاملے میں ایف آئی آر درج کرائی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ اپادھیائے نے ان کی بیٹی کے ساتھ ریپ کیا تھا۔ جب متاثرہ نے چلانے کی کوشش کی تو ملزم نے دوپٹے سے اس کا گلا دبانے کی کوشش کی۔ مقامی پولیس تھانے میں ریپ، قتل کی کوشش اور اغوا کے الزام میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ پولیس نے ملزمین کے خلاف پاکسو قانون کے تحت بھی مقدمہ درج کیا ہے۔
ایک پولیس افسر نے کہا، ‘ جب ملزم فرار تھا، نومبر میں عدالت سے اجازت ملنے کے بعد پولیس نے اس کی جائیداد کو قرق کر لیا۔ اس کے خلاف گزشتہ سال ایک جارج شیٹ بھی دائر کی گئی تھی۔ ‘ وہیں متاثرہ کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ متاثرہ کے والد کی موت کی ذمہ دار پولیس ہے۔ اگر انہوں نے صحیح وقت پر کارروائی کی ہوتی، تو ایسا نہیں ہوا ہوتا۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق ،ریپ متاثرہ کے چچا نے بتایا، ‘ پولیس چاہے تو 24 گھنٹے میں آدمی کو زمین میں سے کھودکر لے آئےگی۔ پولیس کا تو یہ کام ہے، لیکن کچھ نہیں ہوا۔ زمین اس کو کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ جبکہ بار بار ہم بولتے تھے کہ وہ یہاں گھوم رہا ہے، وہاں گھوم رہا ہے۔ وہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس کا مکان بھی چند قدموں کی دوری پر ہے۔ لیکن پولیس انتظامیہ ہم سے بول رہا تھا کہ آپ اس کے پیچھے جائیے۔ اس کو پکڑئیے پھر ہمیں فون کیجیے، تب ہم وہاں آ جائیںگے۔ لیکن جب ہمیں ہی پکڑنا پڑےگا تو پولیس کا کیا کام ہوگا؟ اگر پولیس نے اس کو پکڑ لیا ہوتا تو متاثرہ کے والد کی جان نہیں جاتی۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ پانچ دن پہلے بھی فون پر دھمکی آئی تھی۔ ہم نے تھانے میں ایف آئی آر درج کرائی لیکن اس کے بعد بھی نہ کوئی یقین دہانی ملی اور نہ ہی پولیس کے ذریعے کوئی پختہ قدم اٹھایا گیا۔ ‘