اتر پردیش کے مظفر نگر لوک سبھا حلقہ کے تحت کھیڑا گاؤں میں منگل کو راجپوت برادری کی ایک مہاپنچایت نے سرکاری اسکیموں کو لاگو نہ کرنے، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، اگنی ویر یوجنا اور راجپوت سماج کی ‘توہین’ کے خلاف احتجاج میں بی جے پی امیدواروں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
نئی دہلی: اترپردیش کے مظفر نگر لوک سبھا حلقہ کے تحت کھیڑا گاؤں میں منگل کو راجپوت برادری کی ایک مہاپنچایت نے سرکاری اسکیموں کو لاگو نہ کرنے، بے روزگاری میں اضافہ، اگنی ویر یوجنا اور راجپوت کمیونٹی کی توہین کا حوالہ دیتے ہوئے احتجاج کے طور پر بی جے پی کے امیدواروں کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، کمیونٹی رہنماؤں نے کہا کہ بائیکاٹ کال کا اطلاق اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر نہیں ہوگا، جنہیں کمیونٹی نے اپنی آواز قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بی جے پی کی مرکزی قیادت ان کی بات نہیں سن رہی ہے۔
راجپوت کمیونٹی کی اکثریت والے سیوال خاص (باغپت)، سردھنا (میرٹھ) اور کھتولی (مظفر نگر) اسمبلی سیٹوں کے تحت آنے والے 24 گاؤں کے گروپ ‘چوبیسی’ کے ذریعے منعقد ایک مہاپنچایت کے دوران کمیونٹی لیڈروں نے مظفر نگر میں ایس پی امیدوار ہریندر ملک کو اپنی حمایت دینے کی بات کہی۔
حلقے کی دیگر لوک سبھا سیٹوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ اس امیدوار کو ووٹ دیں گے جو بی جے پی کو شکست دینے کی پوزیشن میں ہوگا۔ راجپوت برادری کے دو سابق وزرائے اعظم – وی پی سنگھ اور چندر شیکھر – کا حوالہ دیتے ہوئے رہنماؤں نے پوچھا کہ انہیں ابھی تک بھارت رتن کیوں نہیں دیا گیا۔
مہاپنچایت نے مظفر نگر فسادات کے سلسلے میں 2013 میں اسی زمین پر منعقد ہونے والی اسی طرح کی پنچایت کا بھی بار بار حوالہ دیا، کچھ راجپوت رہنماؤں کے مطابق، ‘جس نے ریاست میں بی جے پی کے عروج کی بنیاد رکھی’۔ انہوں نے مزید کہا، ’10 سال کے بعد یہی جگہ اور یہ پنچایت علاقے میں بی جے پی کے زوال کی وجہ بنے گی۔’
مہاپنچایت کے منتظمین میں سے ایک کسان مزدور تنظیم کے مظفر نگر ضلع صدر دیپک سوم نے کہا، ‘ٹھاکر سی ایم آدتیہ ناتھ کی پیروی کر رہے ہیں۔’
میرٹھ کے کھیڑا انٹر کالج کے ایک بڑے گراؤنڈ میں بھیڑ سے خطاب کرتے ہوئے دیپک نے کہا، ‘وہ (بی جے پی قیادت) یوگی جی کی بات نہیں سنتے ہیں۔ جوٹکٹ تقسیم کیے گئے کیا ان میں بابا (آدتیہ ناتھ) کا کوئی حصہ ہے؟ اگر بابا کی چلتی تو (کمیونٹی کو) سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ دہلی میں بیٹھے لوگ امیدواروں کو فائنل کرتے ہیں اور ان کا فیصلہ (وزیر دفاع) راج ناتھ سنگھ اور یوگی مہاراج پر مسلط کیا جاتا ہے کہ وہ جا کر عوام کو قائل کریں۔’
اسٹیج پر ایک بڑے پوسٹر پر ‘سوابھیمان مہاپنچایت’ لکھا ہوا تھا۔ پوسٹر کے ایک طرف ‘کنول کا پھول ہماری بھول’ گول دائرے میں لکھا گیا تھا اور دوسری طرف بی جے پی کے انتخابی نشان کو ‘ایکس ‘ لکھ کر کراس آؤٹ کیا گیا تھا۔
سوم نے کہا، ‘مہاراج جی (آدتیہ ناتھ) بھی سردھنا (مظفر نگر) آئے تھے۔ انہوں نے صرف ایک بات کہی ہے کہ ‘ایک کھشتریہ کبھی بھی عزت نفس کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرتا۔’ اس لیے اس پنچایت کے ذریعے ہم مہاراج جی کو بھی یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم عزت نفس پر بالکل بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ احتجاج کے اس شعلے کو جو جل رہا ہے اگر ووٹ میں تبدیل نہ کیا گیا تو ہم منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ یہ وہی چوبیسی (24 گاؤں) ہے جہاں سے وہ (موجودہ بی جے پی ایم پی سنجیو بالیان) ووٹ حاصل کرتے تھے، اس بار وہ ہر جگہ سے ہاریں گے۔’
واضح ہو کہ سنجیو بالیان مظفر نگر لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی کے امیدوار ہیں۔
سہارنپور کے نانوتہ کے بعد یہ دوسری مہاپنچایت ہے، جہاں ٹھاکر لیڈروں نے ٹکٹوں کی تقسیم، نمائندگی اور اسکیموں کو نافذ نہ کرنے پر مرکزی حکومت کے خلاف برہمی کا اظہار کیا ہے۔
کسان مزدور تنظیم کے صدر پورن سنگھ نے کہا کہ کوئی بھی ‘راشٹرواد، پاکستان یا چین سے ڈرا کر ووٹ نہیں لے سکتا’۔ انہوں نے کہا، ‘ہم نے مودی کے اشو میدھ گھوڑے ‘400 پار’ کی اپیل کو پکڑ لیا ہے۔ اب ہم اسے لڑائی (انتخابات) کے بعد ہی چھوڑیں گے۔’
پورن سنگھ نے مزید کہا، ‘صرف راجپوت ہی نہیں، تمام 36 ذاتیں ہمارے ساتھ ہیں۔ ہمیں قوم پرستی، پاکستان یا چین سے ڈرا کر کوئی ووٹ حاصل نہیں کر سکتا۔ ہمارے آباؤ اجداد سرحدوں پر لڑے ہیں، ہمارے بھائی لڑ رہے ہیں، وہاں کوئی بی جے پی ایم پی یا ان کے خاندان کا کوئی فرد نہیں لڑتا۔’
پنچایت کے ایک اور اسپیکر اجئے سوم نے الزام لگایا کہ بالیان نے راجپوت برادری کو پریشان کیا ہے۔
اجئے سوم نے کہا، ‘کچھ لوگ ہمیں قوم پرستی سکھا رہے ہیں، لیکن وہ ذات پرستی کرنے لگے ہیں۔ ہم پیچھے رہ گئے اور یہ لوگ آگے بڑھ گئے۔ لیڈران او بی سی کے لیے اپنا کام گناتے ہیں لیکن بھول جاتے ہیں کہ 27 فیصد ریزرویشن وی پی سنگھ نے نافذ کیا تھا۔ انہیں بھارت رتن کیوں نہیں دیا گیا؟’
انہوں نے کہا کہ مسلم راجپوت بھی ان کے ساتھ ہیں۔
کیرانہ اور سہارنپور لوک سبھا سیٹوں کے لوگوں نے بھی مہاپنچایت میں حصہ لیا۔ دیگر تنظیموں جیسے کھشتریہ سبھا، کرنی سینا بھارت اور بھارتیہ کسان یونین (بھانو) نے بھی میٹنگ میں حصہ لیا۔
کھیڑا گاؤں کے رہنے والے 23 سالہ اجئے اس بات پر ناراض دکھائی دے رہے تھے کہ اسے پانچ سالوں میں پہلی بار یوپی پولیس بھرتی کے امتحان میں بیٹھنے کا موقع ملاتھا، لیکن پرچہ لیک ہو گیا۔
اجئے اب خاندان کے ڈیری کاروبار میں شامل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘بی جے پی ذات پات کی سیاست کر کے لوگوں کو آپس میں لڑا رہی ہے۔ لہٰذا فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایسی آمرانہ حکومت چلانے والے شخص کا تختہ الٹ دیا جائے۔ دس سال قبل اسی زمین پر ہونے والی پنچایت میں پھوٹ پڑگئی تھی۔ آج ہم تمام ذاتوں اور مذاہب کو ساتھ لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ آج ہم ایک ہیں۔’
مہاپنچایت میں حصہ لینے والی 40 سالہ ببلی شرما نے کہا، ‘2013 میں ایک پنچایت تھی جس نے بی جے پی کو آگے بڑھنے اور حکومت بنانے میں مدد کی تھی۔ لیکن بعد میں اس نے اعلیٰ ذاتوں کو نظر انداز کر دیا۔ یہاں نہ کوئی نوکری ہے اور نہ ہی کوئی کام کیا جا رہا ہے۔ لوگ اگنی ویر یوجنا کے خلاف ہیں۔ اب یہ زمین بی جے پی کے زوال کا سبب بنے گی۔ یوگی جی کو بولنے کی اجازت نہیں ہے۔’