یوپی: نوئیڈا ایس ایس پی کی رپورٹ میں اعلیٰ حکام پر ٹرانسفر کے بدلے پیسے لینے کاالزام

اتر پردیش کے نوئیڈا کے ایس ایس پی ویبھو کرشن کی طرف سے وزیراعلیٰ اور ڈی جی پی کو بھیجی گئی رپورٹ اس وقت عوامی ہو گئی جب ایک مبینہ ویڈیوسیکس چیٹ وائرل ہو گیا تھا۔ رپورٹ میں ایس ایس پی نے سینئر آئی پی ایس افسروں پرالزام لگایا تھا کہ وہ پیسے لےکر ٹرانسفر-پوسٹنگ کے ساتھ مقدموں اور گرفتاریوں کوبھی متاثر کرتے تھے۔ اس تعلق سے ڈی جی پی نے ایس ایس پی سے جواب مانگا ہے۔

اتر پردیش کے نوئیڈا کے ایس ایس پی ویبھو کرشن کی طرف سے وزیراعلیٰ اور ڈی جی پی کو بھیجی گئی رپورٹ اس وقت عوامی ہو گئی جب ایک مبینہ ویڈیوسیکس چیٹ وائرل ہو گیا تھا۔ رپورٹ میں ایس ایس پی نے سینئر آئی پی ایس افسروں پرالزام لگایا تھا کہ وہ پیسے لےکر ٹرانسفر-پوسٹنگ کے ساتھ مقدموں اور گرفتاریوں کوبھی متاثر کرتے تھے۔ اس تعلق سے ڈی جی پی نے ایس ایس پی سے جواب مانگا ہے۔

نوئیڈا ایس ایس پی ویبھوکرشن(فوٹو : یوٹیوب)

نوئیڈا ایس ایس پی ویبھوکرشن(فوٹو : یوٹیوب)

نئی دہلی: غلط طریقے سے ٹھیکہ لینے کے معاملے میں نوئیڈاکے سینئر پولیس سپرنٹنڈنٹ (ایس ایس پی)کی طرف سے حکومت کو بھیجے گئے خفیہ دستاویزمبینہ طور پر میڈیا میں لیک ہونے کے بیچ اتر پردیش کےڈی جی پی اوم پرکاش سنگھ نے کہا کہ ایس ایس پی سے پوچھا گیا ہے کہ انہوں نے وہ خفیہ جانکاری کیوں وائرل کی۔

ڈی جی پی نے یہاں پریس کانفرنس میں اس معاملے پر صورت حال کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ غلط طریقے سے ٹھیکہ لئے جانے کے معاملے میں ایس ایس پی نوئیڈا ویبھو کرشن نے جو خفیہ دستاویز بھیجے تھے، وہ میڈیا میں وائرل ہو گئے ہیں۔نوئیڈا کے ایس ایس پی ویبھو کرشن کے ذریعے تیار رپورٹ اس وقت عوامی ہو گئی جب ایک مبینہ ویڈیو سیکس چیٹ وائرل ہونے لگا تھا۔ کرشن نے کہا کہ ویڈیو کو چھیڑچھاڑ کیا گیا تھا اور یہ ان کے وقار کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش تھی کیونکہ انہوں نے اعلیٰ افسروں اور گرفتار صحافیوں سے جڑے ایک مجرمانہ سانٹھ گانٹھ کا پردہ فاش کرنے کی مانگ کی تھی۔

انہوں نے کہا ‘ ہم لوگوں کا ماننا ہے کہ ایس ایس پی نوئیڈا نے ایک غیر قانونی بات چیت کی۔ یہ سروس  اصولوں کے خلاف ہے، اس لئے ہم نے آئی جی میرٹھ سے کہا ہے کہ ان سے یہ پوچھا جائے کہ انہوں نے خفیہ دستاویز کو کیوں وائرل کیا یا اس کو کسی کو دیا۔’ سنگھ نے کہا کہ اس خفیہ خط، جس کی کاپی آپ کے پاس ہے، اس میں کئی چیزوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ اس میں اتل شکلا، سکینہ، محمد ذوہیب، وشنو کمارپانڈے، انوبھو بھلا اور امت شکلا سمیت چھ لوگوں کا ذکر کیا گیا، جو غلط دستاویزکی بنیاد پر ٹینڈر لینا چاہتے تھے۔

انہوں نے بتایا، ‘ داخلہ محکمے نے حکومت کی سطح پر تفتیش کروائی اور ان کے خلاف کارروائی کروائی گئی۔ ان میں سے دو کو جیل بھیجا گیا ہے،جبکہ دو نے عدالت سے راحت  لے لی ہے، جبکہ باقی فرار ہیں۔ ‘انہوں نے بتایا کہ گزشتہ اگست میں نوئیڈا میں پانچ صحافیوں کے خلاف گینگسٹر ایکٹ کی کارروائی ہوئی تھی۔ صحافت کی آڑ میں افسروں کوبلیک میل کرنے والوں پر پولیس کے ذریعے ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس بارے میں ایس ایس پی نوئیڈا نے تمام  حقائق  کی جانکاری اور کچھ دیگر خفیہ دستاویز یوپی حکومت،داخلہ محکمہ اور پولیس صدر دفتر کو بھیجے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ اس کی جانچ‌کر رہے میرٹھ کے ڈی جی پی نے گزشتہ 26 دسمبر کو تفتیش کے لئے 15 دن کا اور وقت مانگا جو ان کودے دیا گیا ہے۔سنگھ نے بتایا،’اسی بیچ، ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوا ہے،جس کے تعلق سے ایس ایس پی نوئیڈا نے ایک مقدمہ سیکٹر 20 تھانے میں درج کرایا ہے۔جب ہمیں یہ پتہ چلا تو ہم نے اس مقدمہ کو غیر جانبدارانہ تفتیش کے لئے ہاپوڑ منتقل کر دیا ہے جو وہاں کے ایس پی کے ماتحت ہوگا۔ آئی جی میرٹھ قریب سے اس کی نگرانی کریں‌گے،تاکہ حقائق کی صحیح جانکاری کے ساتھ تفتیش ہو سکے۔’

ڈی جی پی نے کہا کہ میڈیا میں انکشاف ہوئے اس خفیہ دستاویز میں کئی اور لوگوں کے نام بھی شامل تھے اور ابھی ایجنسیوں سے اس آڈیو کلپ کی صداقت جانچنی پڑے‌گی۔ انہوں نے کہا کہ  تمام چیزوں کی تصدیق  ضروری ہے۔ ہم نے سائبر کرائم کی مدد لی ہے اور ایس ٹی ایف کی بھی مدد لے رہے ہیں۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، میرٹھ رینج کے آئی جی آلوک سنگھ نے کہا، ایس ایس پی گوتم بدھ نگرحال ہی میں عوامی کئے گئے خفیہ دستاویز کےمواد کے تعلق سے ڈی جی پی کے حکم کا جواب دیں‌گے۔ اے ڈی جی میرٹھ زون اور میں رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کی ایک تفتیش کریں‌گے، جبکہ کچھ دنوں پہلے سامنے آئےایس ایس پی کے مبینہ طور پر چھیڑچھاڑ کے ویڈیو کی ایک الگ تفتیش کی جا رہی ہے۔باقی سوالوں کے جواب ہم تفتیش شروع کرنے کے بعد دیں‌گے۔

ویڈیو سامنے آنے کے ایک مہینے پہلے آلوک نے وزیراعلیٰ اورڈی جی پی کے دفتر میں ایک خفیہ رپورٹ بھیجی تھی۔ اس میں انہوں نے سینئر آئی پی ایس افسروں اور صحافیوں کے درمیان سانٹھ گانٹھ کا الزام لگایا تھا جو کہ پیسے لےکرٹرانسفر-پوسٹنگ کے ساتھ مقدموں اور گرفتاریوں کو بھی متاثر کرتے تھے۔

کرشن نے یہ رپورٹ پولیس افسروں کے بارے میں فرضی خبریں شائع کرنے، غیر قانونی زمین کے قبضے میں شامل ہونے، کام کروانے کے بدلے پیسے مانگنےاور دھمکی دینے کے بارے میں مبینہ طور پر فرضی خبریں شائع کرنے کے معاملے میں گوتم بدھ نگرپولیس کے ذریعے صحافیوں سشیل پنڈت، ادت گوئل، چندن رائے اور نتیش پانڈے کی گرفتاری کے بعد تیار کی تھی۔

چاروں کے خلاف جانچ‌کے دوران پوسٹنگ کے لئے سینئر پولیس افسروں سے ان کی بات چیت کا معاملہ سامنے آیا۔ کرشن نے سی ایم او اور ڈی جی پی دفتر کو جو رپورٹ بھیجی تھی اس میں کالز رکارڈس اور بات چیت کی کاپی لگائی گئی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک سابق ایس ایس پی مبینہ طورپر ایک صحافی کے رابطہ میں تھا، اور دوسرے ضلع میں پولیس چیف  کے طور پر اس کی پوسٹنگ یقینی بنانے کے لئے 80 لاکھ روپے کا سودہ کیا۔ نوئیڈا پولیس نے مبینہ طورپر چندن رائے اور پولیس افسر کے درمیان دو کال رکارڈنگ حاصل کی۔

ایک الگ معاملے میں، ایک خاتون نے گزشتہ سال اگست میں افسر پر چھیڑچھاڑ کا الزام لگاتے ہوئے غازی آباد پولیس سے رابطہ کیا تھا۔ خاتون کاموبائل فون چندن  رائے کے پاس سے بر آمد کیا گیا تھا جس نے مبینہ طور پر افسر کوپھنسانے والی اس کی تصویریں ہٹا دی تھیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ نوئیڈا پولیس کے ذریعے مبینہ ریکٹ کے سلسلے میں گرفتاری شروع کرنے کے بعد افسر نے ایک صحافی کو لکھنؤ سے ‘جلد سےجلد بھاگنے ‘کے لئے کہا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صحافی غازی آباد کے موجودہ ایس ایس پی سدھیر کمار سنگھ سے ملنے والا تھا۔ سنگھ نے کہا، ‘آج ڈی جی پی نے کہا کہ رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کی تفتیش ہوگی۔ ایک بار تفتیش پوری ہو جانے کے بعدحقیقت اور سچائی سامنے آ جائے‌گی۔ تفتیش پوری ہونے تک ہم نتیجہ کا انتظار کریں‌گے۔ ‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک دیگر ایس ایس پی نے دوسرےضلع میں پوسٹنگ کے لئے ریٹ کو لےکر بات کی تھی۔ وہی صحافی ایک دیگر آدمی کے ساتھ رابطہ میں تھا جو دوسری کمپنیوں سے لین دین کا انتظام کرواتا تھا۔ اس لین دین کےتحت مغربی اتر پردیش کے ضلع میں تعینات ایک پی سی ایس افسر کا بھی نام سامنے آیا۔

غیر قانونی ٹرانسپورٹ دستیاب کرنے اور ایک بدعنوان  افسر کواپنے عہدے پر بنے رہنے کی اجازت دینے کے لئے دو دیگر آئی پی ایس افسروں کا بھی نام لیا گیا تھا۔مبینہ سانٹھ گانٹھ میں نوئیڈا سیکٹر 20 کے سابق ایس ایچ او منوج پنت کے رول کو اجاگر کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ فرضی خبریں چھپوانے میں صحافیوں کا استعمال کرتے تھے۔ پنت کو مبینہ طور پر رشوث لیتے ہوئےگرفتار کیا گیا تھا۔ کرشن نے پولیس اسٹیشن پر چھاپا مارا تھا۔

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد کرشن نے کہا، ان کی امیج کوخراب کرنے کے مقصد سے ہی کچھ لوگوں نے ان کے خلاف سازش کر کےفرضی فحش ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کیا ہے۔ ایک سال کی پوسٹنگ کے دوران انہوں نے آرگنائزڈ کرائم کرنے والےلوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہے۔ بد عنوانی میں شامل پولیس محکمے کے کئی لوگوں کوگرفتار کر کے جیل بھیجا ہے۔ غیر قانونی وصولی میں شامل کئی نام نہاد صحافیوں کو گرفتارکیا گیا ہے۔ اور اتر پردیش میں وسیع پیمانے پر چل رہے ہوم گارڈ تنخواہ گھوٹالہ کاانکشاف کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک مہینہ پہلے انہوں نے اتر پردیش حکومت کو ایک خفیہ رپورٹ بھیجی ہے۔ جس میں کئی آئی پی ایس افسروں اور صحافیوں اوررہنماؤں کے ایک گروہ کا انکشاف کیا گیا ہے جو اتر پردیش میں ٹھیکہ دلوانے،پوسٹنگ کروانے، مجرمانہ کارنامے کو تحفظ دینے وغیرہ کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے شک جتایا کہ مذکورہ گروہ کے لوگوں نے ہی ان کے خلاف سازش کرکے فرضی ویڈیو کو وائرل کیا ہے۔

کانگریس کا الزام، یوگی حکومت میں ٹرانسفر-پوسٹنگ کے نام پر ‘رشوت خوری’ کا کھلا کھیل

 کانگریس نے اتر پردیش کےپولیس محکمے میں بڑے پیمانے پربد عنوانی کا الزام لگاتے ہوئے جمعہ کو ریاست کے ہر محکمے کی عدالتی تفتیش کرانےکی مانگ کی تاکہ عوام کو بد عنوانی اور رشوت خوری سے راحت مل سکے۔اتر پردیش کانگریس صدر اجئے کمار للو نے کہا کہ گوتم بدھ نگر کے سینئر پولیس سپرنٹنڈنٹ ویبھو کرشن کی پانچ پیج کی رپورٹ نے پورے محکمےمیں بد عنوانی اور رشوت خوری کے عالم کوبیان کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کہاں ہیں؟ ان کو سامنے آکر یہ واضح کرنا چاہیے کہ آخر ریاست میں چل کیا رہا ہے؟ یہ تو محض ایک مثال ہے۔انہوں نے الزام لگایا کہ پوری ریاست بد عنوانی اور رشوت خوری سے پریشان ہے۔ ہر محکمے میں اس طرح کی شکایتں روزانہ آتی رہتی ہیں۔ انہوں نےکہا، ‘ مجھے یقین ہے کہ اس معاملے کی غیر جانبدارانہ تفتیش ہوگی تو کئی بڑے لوگ بےنقاب ہوں‌گے اور اس حکومت کی قلعی کھل جائے‌گی۔ ‘

(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)

Next Article

 خاموش عدالت جاری ہے، ہندوتوادیوں کی زبان بولتی ہے !

عدالت  اور سڑک کی بھیڑکے درمیان کافرق مٹ جانا تشویشناک ہے۔ یہ ایک نئی قوم پرستی کا بے ساختہ جنم ہے۔ نہرو پلیس کی بھیڑ منظم نہیں تھی۔ وہ لوگ شاید بجرنگ دل کے رکن نہیں تھے۔ لیکن جس طرح غزہ سے ہمدردی کی بات سن کر عدالت مشتعل ہوئی اسی طرح یہ  بھیڑ فلسطینی پرچم دیکھ کر بھڑک گئی۔

‘اسرائیل اور فلسطین پر حکومت کے موقف کے خلاف احتجاج کا حق بھی ہندوستانی عوام کا ہے اور اسے چھینا نہیں جا سکتا’۔ (تصویر: وکی پیڈیا اور اتل ہووالے/دی وائر)

ہم  ہندوستان کے کئی علاقوں میں پولیس اور ہندوتوا کے ہجوم کو ایک ہی  طرح سے کام کرتے دیکھ چکے ہیں۔ خصوصی طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے معاملے میں۔ لیکن جب عدالت بھی ہندوتوا قوم پرستوں کی طرح استدلال کرنے لگے تو محتاط ہوجانا چاہیے؛ پانی سر سے اوپر جا چکا ہے۔ یہ وارننگ ملی ممبئی اور دہلی کے دو واقعات سے۔

ایک واقعہ بامبے ہائی کورٹ کا تبصرہ ہے اور دوسرا دہلی کے نہرو پلیس پر ہجوم کا ردعمل۔ دونوں کا سیاق وسباق غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی ہے۔ بامبے ہائی کورٹ کے کمرے اور دہلی کے نہرو پلیس میں کیا مماثلت ہے؟

فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف ہندوستان میں آواز اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ ہمارے اپنے ہی اتنےمسائل ہیں!’ یہ  کوئی راہ چلتا عام آدمی نہیں بول رہا، درصل، بامبے ہائی کورٹ نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کی  اس وقت سرزنش کی جب اس نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت اورنسل کشی کے خلاف احتجاج کرنے کی اجازت طلب کرنے کے لیے عدالت میں ایک درخواست داخل کی۔

پولیس نے اس مظاہرے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد سی پی آئی (ایم) نے عدالت سے اجازت طلب کی تھی۔ عدالت نے اجازت دینا تو دور کی بات ، درخواست گزاروں کو نصیحت تک دے ڈالی کہ وہ ‘محب وطن’ بنیں اور اپنے ملک کے مسائل پر توجہ دیں۔ باہر اتنی دورغزہ میں کیاہو رہا ہے، اس سے انہیں کیا لینا دینا ہے ۔

حب الوطنی اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی میں مخالفت کیوں کر ہو، عدالت سے پوچھا جا سکتا ہے ۔

‘محب وطن بنو’، کیا اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ ہم دوسروں کے دکھ درد سے کوئی تعلق نہ رکھیں اور خود غرض بن جائیں؟ کیا حب الوطنی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم اپنے اردگرد جو کچھ ہو رہا ہے اس سے آنکھیں اور کان بند کر لیں؟

دنیا بھر کے عظیم فلسفیوں نے حب الوطنی کی جتنی بھی تعریفیں پیش کی ہیں، ان میں تنگ نظری کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ علیحدگی پسندی نہیں ہے۔ کیا لفظ فلسطین میں کوئی ایسی بات ہے جو محب وطن کانوں کو کھٹکتی ہے؟

کچھ دوست یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ صرف جج کا بے ساختہ ردعمل تھا اور انہوں  نے اپنے حکم میں یہ نہیں لکھا۔ یہ بے ساختگی ہی  ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ کوئی  کسی کو محب وطن بننے کی  نصیحت دینے کا حق  رکھتاہے، یہی بات باعث تشویش ہونی چاہیے۔ لیکن اس سے بڑھ کر تشویشناک بات یہ ہے کہ جج کہہ رہے ہیں کہ محب وطن ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کسی اور سے ہمدردی  کا اظہارنہ کریں۔

عدالت نے سی پی آئی (ایم) کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا، ‘ہمارے ملک میں بہت سے مسائل ہیں۔ … مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے کہ آپ دور بیں ہیں، آپ غزہ اور فلسطین کو تو دیکھتے ہیں لیکن یہاں کی چیزوں کو نظر انداز کر رہے ہیں، آپ اپنے ملک کے لیے کچھ کیوں نہیں کرتے؟ اپنے ملک کو دیکھیے، محب وطن بنیے، لوگ کہتے ہیں کہ وہ محب وطن ہیں، لیکن یہ  حب الوطنی نہیں ہے۔ پہلے آپ ملک کے شہریوں کے لیے حب الوطنی کا مظاہرہ کیجیے۔’

عدالت کا کہنا تھا کہ پارٹی کو سب سے پہلے کوڑے-کچرے، آلودگی، نالوں وغیرہ جیسے مسائل کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے، اس نے یہ بھی کہا کہ باہر کیا ہو رہا ہے، یہ خارجہ پالیسی کا معاملہ ہے اور اسے حکومت پر ہی چھوڑ دینا چاہیے۔

ناقدین نے درست کہا کہ لگتا ہے عدالت آئینی حقوق بھول گئی ہے۔ ہندوستان کے لوگوں کو اپنے خیالات رکھنے اور اظہار کرنے کا پورا حق ہے۔ لوگ یہ حق حکومت کے پاس رہن نہیں رکھ سکتے۔ اسرائیل اور فلسطین پر حکومت کے موقف کی مخالفت کا حق بھی ہندوستانی عوام کا ہے اور اسے چھینا نہیں جا سکتا۔

ممبئی کی عدالت جو کہہ رہی تھی وہ دہلی کے نہرو پلیس میں ایک بھیڑ بھی کہہ رہی تھی۔ نہرو پلیس میں تقریباً تیس افراد فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف احتجاج کے لیے جمع ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں فلسطینی پرچم تھے۔ جیسے ہی وہ جمع ہوئے تو آس پاس کی دکانوں سے کچھ لوگ نکل آئے اور فلسطینی پرچم چھین کر پھاڑدیا۔ ‘اپنے ملک کا جھنڈا کہاں ہے؟’، انہوں نے مظاہرین سے پوچھا۔

اس ہجوم کا سوال بامبے ہائی کورٹ کے سوال سے مختلف نہیں تھا۔ ‘اپنے ملک کا جھنڈا دکھاؤ، دوسرے ملک کا جھنڈا کیوں اٹھایا ہے؟’ یہ سوال بامبے ہائی کورٹ کی اس سرزنش سے مختلف نہیں؛’محب وطن بنیے! اتنے ہزار میل دور دوسرے ملک کا مسئلہ کیوں اٹھاتے ہیں؟’

بامبے ہائی کورٹ چاہتی ہے کہ سی پی آئی ایم کوڑے-کچرے، بے روزگاری، آلودگی کے بارے میں بات کرے۔ نہرو پلیس کی بھیڑ چاہتی ہے کہ مظاہرین بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی حالت کے بارے میں بات کریں۔ دونوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔

عدالت اور سڑک کا فرق  مٹ جانا لمحہ فکریہ ہے۔ لیکن دوسری بڑی تشویش ایک نئی حب الوطنی یا قوم پرستی کا بے ساختہ جنم لینا ہے۔ نہرو پلیس کی بھیڑ منظم نہیں تھی۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کے لوگ بجرنگ دل یا راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے رکن ہوں۔ فلسطین کا جھنڈا دیکھ کر وہ مشتعل ہو گئے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے عدالت غزہ سے ہمدردی کی بات سن کر مشتعل ہو گئی۔

دونوں ردعمل منصوبہ بند یا منظم نہیں تھے۔ یہ دونوں ردعمل کسی حد تک اسرائیلی ردعمل سے ملتے جلتے ہیں۔ نیویارک ہو یا لندن، سڑک پر کسی کی بھی گردن پر کیفیہ دیکھتے ہی اسرائیلی اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ہندوستان میں ایک بہت بڑا طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو کیفیہ یا فلسطینی پرچم دیکھتے ہی پرتشدد ہو جاتا ہے ۔ یہ بغیر کسی کوشش اور اپیل کے نہرو پلیس پر جمع ہوگیا۔ وہ بھیڑ مظاہرین سے ترنگا جھنڈا دکھانے کو کہہ رہی تھی۔ جس طرح عدالت سی پی آئی ایم کو حب الوطنی کا مظاہرہ کرنےکے لیے کہہ رہی تھی۔

نہرو پلیس پر مظاہرے کے دوران آس پاس کے لوگوں نے مظاہرین کو روک دیا تھا۔ (تصویر: اتل ہووالے/دی وائر)

کیا اس بے ساختہ ہندوتوا کو بے ساختہ کہنا غلط ہوگا؟ فلسطینی پرچم ہو یا سبز جھنڈا یا برقع یا ٹوپی، ان کو دیکھ کر یا اذان سن کر کوئی مشتعل ہو جائے تو کیا یہ فطری کہلائے گا؟ یہ نہرو پلیس میں فلسطینی پرچم کا ردعمل تھا۔

پونے میں 2014 میں کچھ لوگوں نے محسن شیخ کے لباس سے مشتعل ہو کر اسے قتل کر دیا۔ عدالت قاتلوں کے تئیں اس لیے نرم تھی کہ ان کا ردعمل، جو محسن شیخ کے قتل کا باعث بنا، بے ساختہ تھا۔ اس کے پیچھے کوئی منصوبہ نہیں تھا۔

سال 2014 سے 2025 تک اس ہندوتوا کے بے ساختہ پن کا دائرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ کچھ خاص طرح کی کی آوازیں، رنگ، عمارتیں اور لباس ایک خاص قسم کے پرتشدد ردعمل کا سبب بنتے ہیں۔ اب یہ اس شخص کے اختیار میں نہیں رہا جو اس پر ردعمل ظاہر کرتا ہے۔

یہ ہندوؤں کے ایک بڑے طبقے کے حسی نظام کے سکڑنے کی علامت ہے۔ اور یہ ہندوؤں کے لیے بری خبر ہے۔ کیونکہ انسانی حسی نظام باقی مخلوقات سے اس لحاظ سے مختلف اور نفیس ہے کہ وہ اپنی طبعی اور حیاتیاتی حدود سے ماورا ہے۔

انسانی حسی نظام زیادہ انسانی کیوں ہے؟ اسے نہ صرف اپنے جسم پر لگنے والی چوٹ سے تکلیف ہوتی ہے بلکہ یہ کسی اور کو لگنے والی چوٹ سے بھی متاثر ہوتی ہے۔ ویتنام میں نیپلم بم سے جلنے کے بعد بھاگنے والی لڑکی کی تصویر نے ہم سب کو پریشان کر دیا۔ ویتنامی ہونا اس کے لیے شرط نہیں تھا۔ انسانی حسی نظام اپنی جسمانی حدود سے تجاوز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ بعد میں ہمدردی تک پہنچ جاتا ہے۔

ہم  صرف رام دھاری سنگھ دنکر کی نظمیں پڑھ کر متاثر نہیں ہوتے ہیں بلکہ محمود درویش کی نظمیں پڑھ کر بھی متاثر ہوتے ہیں۔

ہندوستان میں ہندوؤں کا ایک طبقہ اب ہمدردی کرنے کی صلاحیت سے محروم  ہوتا جارہا ہے۔ وہ بھوک سے نڈھال بچوں یا غزہ کو بمباری سے تباہ ہوتے دیکھ کر پریشان نہیں ہوتے، وہ زور سے ہنستے ہیں۔ ایسی ہنسی سے کون انسان نہیں ڈرے گا؟ یہ قہقہہ اس معاشرے کے غیر انسانی ہونے کی خبر ہے۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)

Next Article

اقلیتی طلبہ کے لیے نئی پریشانی: وزارت کو چاہیے اب پرانا انکم سرٹیفکیٹ

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ پانے والے طلبہ کے مسائل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ سرکاری محکمے نے اب ان طلبہ کے پرانے انکم سرٹیفکیٹ کی تصدیق کرنے کو کہا ہے۔ یہ دستاویز  پہلے کبھی نہیں مانگے گئے تھے،  لیکن اب مانگے جا رہے ہیں۔

پس منظر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا گیٹ (تصویر: انکت راج/ دی وائر ) | سامنے این ایم ڈی ایف سی کی ہدایت ۔

نئی دہلی: مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ (ایم اے این ایف) کے اسکالروں کو ایک بار پھر انتظامی احکامات کی وجہ سے شدید تناؤ اور غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔

نیشنل مائنارٹی ڈیولپمنٹ اینڈ فنانس کارپوریشن (این ایم ڈی ایف سی)نے حال ہی میں تمام یونیورسٹیوں کو ایک نوٹس بھیجا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اس اسکالرشپ کو پانے والے موجودہ طلبہ کے’داخلے کے وقت جمع کرائے گئے انکم سرٹیفکیٹ’ کی تصدیق کی جائے اور ایک ہفتے کے اندر ان سرٹیفکیٹس کی کاپیاں جمع کرائی جائیں۔

ایسا نہ کرنے کی صورت میں، فیلو شپ کی اگلی قسط روکی جا سکتی ہے۔

اقلیتی امور کی وزارت کے دائرہ اختیار میں آنے والے’مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ’ کی نوڈل ایجنسی این ایم ڈی ایف سی ہی ہے ۔ اکتوبر 2022 سے یہی زیر التواء ادائیگیوں اور انتظامی معاملات کو دیکھتی ہے۔ پہلے یہ ذمہ داری یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے پاس تھی۔

بتا دیں کہ طلبہ کی طویل جدوجہد کے بعد 17 جولائی کو مرکزی وزارت اقلیتی امور نے مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کو جاری کرنے کا اعلان کیا تھا جو کئی مہینوں سے زیر التوا تھا۔

نئی ہدایات کیا ہیں؟

گزشتہ21جولائی 2025 کو جاری کیے گئے ایک خط میں این ایم ڈی ایف سی نے یونیورسٹیوں سے کہا ہے کہ وزارت نے ہدایت کی ہے کہ مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ اسکیم کے تحت مستفید ہونے والوں کی شناخت اور ان کے دستاویزوں کی ٹھیک سے جانچ کو یقینی بنایا جائے۔

این ایم ڈی ایف سی کے مطابق، وزارت نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہا ہے کہ مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ، 2020 کی اپڈیٹیڈ گائیڈ لائن میں بیان کردہ آمدنی کے معیار کو طلبہ کے داخلے کے وقت اداروں کے ذریعہ فالو کیا گیا تھا یا نہیں۔

این ایم ڈی ایف سی نے ہر موجودہ ایم اے این ایف اسکالر کے انکم سرٹیفکیٹ کے بارے میں چار نکات پر مشتمل جانکاری طلب کی ہے؛

اسٹوڈنٹ کی آئی ڈی  کیا ہے؟

اسٹوڈنٹ کا نام کیا ہے؟

کیا داخلہ کے وقت اسکالر کی آمدنی کی اہلیت کی تصدیق کی گئی تھی؟

کیا اسکالر نے داخلہ کے وقت انکم سرٹیفکیٹ جمع کرایا تھا؟

یہ بھی واضح طور پر تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر مذکورہ بالا معلومات بشمول انکم سرٹیفکیٹ کی کاپی ایک ہفتے کے اندر فراہم نہ کی گئی تو متعلقہ اسکالروں کی فیلوشپ کی اگلی قسط جاری کرنے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔

طلبہ کیا کہتے ہیں؟

طلبہ کا خیال ہے کہ این ایم ڈی ایف سی کی ہدایت میں کئی خامیاں ہیں، مثلاً؛

داخلہ کے وقت اورایم اے این ایف کی تصدیق کے لیے جوائننگ فارم بھرنے کے دوران  نہ ہی این ایم ڈی ایف سی اور نہ ہی یونیورسٹیوں کے نوڈل افسروں نے طلبہ سے آمدنی کے سرٹیفکیٹ طلب کیے تھے۔ زیادہ تر یونیورسٹیوں نے صرف اقلیتی حیثیت کا سیلف ڈیکلریشن مانگا تھا۔

اب، جب سات ماہ سے فیلوشپ نہیں ملی ہے، این ایم ڈی ایف سی طلبہ سے ان کےداخلے کے وقت کا انکم سرٹیفکیٹ پیش کرنے کو کہہ رہا ہے۔ یہ مطالبہ غیر معمولی ہے۔ دستاویز کئی سال پرانے ہیں؛ انہیں حاصل کرنا نہ صرف دشوار ہے  بلکہ بعض اوقات محال بھی ہے۔

یہ نیا مطالبہ نہ صرف فیلوشپ میں تاخیر کا باعث بن رہا ہے بلکہ مستحق اسکالروں  کو ڈسکوالیفائی کیے جانے کا خطرہ بھی ہے۔

طلبہ پوچھ رہے ہیں کہ؛

داخلہ یا جوائننگ کے وقت انکم سرٹیفکیٹ کا مطالبہ اور تصدیق کیوں نہیں کی گئی؟

طلبہ اب اتنے کم وقت میں پچھلے سالوں کے انکم سرٹیفکیٹ کیسے لائیں؟

اگر یہ کوتاہی این ایم ڈی ایف سی، اقلیتی امور کی وزارت یا یونیورسٹی حکام کی طرف سے ہوئی ہے، تو اس کی سزا طلبہ کو کیوں دی جا رہی ہے؟

بند ہوچکی اسکیم کے لیے اب  جانچ پڑتال کیوں؟

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ، جو 2009 میں شروع ہوئی تھی، حکومت ہند نے دسمبر 2022 میں بند کر دی تھی۔ لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں، اقلیتی امور کی وزارت نے کہا تھا؛


چونکہ مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ (ایم اے این ایف) اسکیم اعلیٰ تعلیم کے لیے کئی دیگر فیلوشپ اسکیموں کے ساتھ اوورلیپ ہے، اس لیے حکومت نے اسے 2022-23 سے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔


اقلیتی طلبہ اس فیلو شپ کے بند ہونے سے مایوس ہوئے تھے۔ تاہم، اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ‘جو طلبہ پہلے سے ہی یہ فیلو شپ حاصل کر رہے ہیں وہ اپنی مقررہ مدت تک یہ حاصل کرتے رہیں گے۔’

لیکن پچھلے سات آٹھ ماہ سے یہ وظیفہ روک دیا گیاتھا۔ اس مہینے کے شروع میں جب انڈین ایکسپریس نے اسکالرشپ میں تاخیر کے بارے میں پوچھا توکرن رجیجو نے کہا تھا؛


ہم اس کا جائزہ لے رہے ہیں… تقریباً تین چار سال پہلے فنڈ کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہوا تھا۔ اقلیتی اداروں میں ہزاروں فرضی نام بھیجے گئے تھے اور اسکالرشپ کے نام پرپیسے لیے گئے…


اس کے بعد دی وائر کو بھیجے گئے ایک بیان میں اسکالروں نے واضح طور پر کہا تھا کہ وزیر کی جانب سے لگائے گئے الزامات نہ صرف گمراہ کن ہیں بلکہ زمینی حقیقت سے بھی میل نہیں کھاتے۔ اسکالروں نے الزام لگایا تھا کہ مرکزی حکومت جان بوجھ کر تاخیر کر رہی ہے۔

حالیہ ہدایت کے بعدطلبہ  نے کہاہے؛


ایسا لگتاہے کہ جب فیلو شپ بند کر دی گئی ہیں، تو اب تکنیکی طریقہ کار کا سہارا لے کر موجودہ طلبہ کی تعداد کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ان طلبہ کے لیے انتہائی غیر منصفانہ اور حوصلہ شکن ہے جو مشکل سماجی و اقتصادی حالات میں ریسرچ کر رہے ہیں۔


اسکالروں نے این ایم ڈی ایف سی اور اقلیتی امور کی وزارت سے اپیل کی ہے کہ وہ اس ہدایت کو فوری طور پر واپس لیں اور موجودہ ایم اے این ایف فیلوز کو ان کی میعاد کے اختتام تک فیلوشپ جاری رکھیں – تاکہ انہیں انتظامی غفلت کا خمیازہ نہ بھگتنا پڑے۔

Next Article

انل امبانی کے ریلائنس گروپ کی کمپنیوں پر ای ڈی کی چھاپے ماری، 3000 کروڑ روپے کے لون گھوٹالے کی جانچ تیز

ای ڈی نے انل امبانی کے ریلائنس گروپ کی کمپنیوں کے منی لانڈرنگ معاملے میں جانچ شروع کی ہے۔ یس بینک کی طرف سے دیے گئے تقریباً 3000 کروڑ روپے کے قرضوں میں بھاری گڑبڑی، رشوت اور دھوکہ دہی کے الزامات ہیں۔ ای ڈی نے 50 کمپنیوں اور 35 سے زیادہ ٹھکانوں پر چھاپے مارے کی ہے۔

سی بی آئی کی جانب سے دو کیس درج کیے جانے کے بعد ای ڈی نے انل امبانی کے ریلائنس گروپ کی کمپنیوں کے منی لانڈرنگ معاملے کی تحقیقات شروع کی ہے۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے انل امبانی کے ریلائنس گروپ کی کمپنیوں کی جانچ شروع کردی ہے۔ مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کی جانب سے ان کمپنیوں کے خلاف دو ایف آئی آر درج کرنے کے بعد یہ کارروائی کی گئی ہے۔

ای ڈی نے منی لانڈرنگ کی روک تھام ایکٹ (پی ایم ایل اے) کی دفعہ 17 کے تحت چھاپے مارے کی کارروائی کی ہے، جس کے دائرے میں 35 سے زیادہ ٹھکانے، 50 کمپنیاں اور 25 سے زیادہ افراد شامل ہیں۔

یہ معاملہ یس بینک سے متعلق ہے، جس نے 2017 میں ریلائنس گروپ کی تین کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی تھی۔ یس بینک نے ریلائنس کمرشل فائنانس لمیٹڈ میں 900 کروڑ روپے، ریلائنس کیپیٹل لمیٹڈ میں 1,000 کروڑ روپے اور ریلائنس ہوم فائنانس لمیٹڈ میں 1,000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی تھی۔ اس وقت رانا کپور یس بینک کے سربراہ تھے۔

اس سرمایہ کاری کے بدلے انل امبانی گروپ کی کمپنیوں نے رانا کپور کے خاندان کے افراد سے منسلک اداروں کو 285 کروڑ روپے کا قرض دیا، جسے مبینہ طور پر رشوت مانا جا رہا ہے۔

انل امبانی گروپ کی ان کمپنیوں میں یس بینک کی سرمایہ کاری 2019 میں این پی اے ہوگئی۔ اس کے بعد بینک نے 2020 میں سی بی آئی سے شکایت کی۔ جانچ ایجنسی نے 2022 میں آرسی2242022اے0002اور آر سی2242022اے0003 نمبر کی دو ایف آئی آر درج کیں۔

ای ڈی نے تین سال بعد اس معاملے میں تلاشی مہم شروع کی ہے۔

دیگر ایجنسیوں اور اداروں جیسے نیشنل ہاؤسنگ بینک، سیبی (سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا)، نیشنل فنانشل رپورٹنگ اتھارٹی (این ایف آر اے) اور بینک آف بڑودہ نے بھی ای ڈی کے ساتھ جانکاری کا اشتراک کیا ہے۔

ای ڈی کی ابتدائی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بینکوں، شیئر ہولڈرز، سرمایہ کاروں اور دیگر عوامی اداروں کو دھوکہ دے کر عوام کے پیسے کوموڑنے یا ہڑپ کرنے کے لیے سوچ سمجھ کرمنصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اس میں بینک حکام، خاص کر یس بینک لمیٹڈ کے پروموٹرز کو رشوت دینے کا معاملہ بھی ای ڈی کی جانچ کے دائرے میں ہے۔

ای ڈی کا کہنا ہے کہ 2017 سے 2019 کے درمیان تقریباً 3,000 کروڑ روپے کے غیر قانونی قرضوں کو یس بینک سے دوسری جگہوں پر بھیجا گیا۔ تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ان قرضوں کی منظوری سے ٹھیک پہلے یس بینک کے پروموٹرز کے کاروباری اداروں کو رقم بھیجی گئی تھی۔

یس بینک کے ذریعہ ریلائنس انل امبانی گروپ کی کمپنیوں کو قرضوں کی منظوری میں ای ڈی کے ذریعہ جن بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں شامل ہیں؛

بیک ڈیٹیڈ کریڈٹ اپروول میمورنڈم،

بغیر کسی جانچ یا کریڈٹ انالسس کے سرمایہ کاری کو منظوری دینا،

اور بینک کی کریڈٹ پالیسی کی خلاف ورزی کرنا۔

قرض کی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، یہ قرضے مزید کئی دیگر گروپ کمپنیوں اور شیل کمپنیوں کی طرف موڑ دیے گئے۔ ای ڈی نے جو بے ضابطگیاں پائی ہیں ان میں شامل ہیں؛

کمزور مالی پوزیشن والے اداروں کو قرض دینا،

قرض سے متعلق صحیح دستاویزوں کی کمی،

کوئی جانچ پڑتال نہیں کی گئی،

قرض لینے والی کمپنیوں کےپتے یا ڈائریکٹر  کا ایک ہونا، وغیرہ۔

ای ڈی کو یہ بھی پتہ چلا کہ؛

قرضوں کو پروموٹر گروپ کے اداروں کی طرف موڑ دیا گیا،

جی پی سی (جنرل پرپز کارپوریٹ) لون  کا ایورگریننگ (یعنی پرانے لون کو نئے لون  سےچھپانا) کیا گیا،

درخواست کی تاریخ کو ہی لون جاری کر دیا گیا،

بعض اوقات لون کی منظوری سے پہلے ہی رقم جاری کردی گئی،

اور مالیاتی ڈیٹا کے بارے میں غلط معلومات دی گئیں۔

اس کے علاوہ، سیبی نے ریلائنس ہوم فائنانس لمیٹڈ (آر ایچ ایف ایل)کے معاملے میں اپنی تحقیقات کے نتائج کو ای ڈی کے ساتھ شیئر کیا ہے۔

ای ڈی اس بات کی بھی تحقیقات کر رہا ہے کہ کس طرح آر ایچ ایف ایل کے کارپوریٹ قرضوں میں بے تحاشہ  اضافہ ہوا – مالی سال 2017-18 میں 3,742.60 کروڑ روپے سے 2018-19 میں 8,670.80 کروڑ روپے تک۔

ای ڈی قرضوں کی بے قاعدگی اور تیزی سے منظوری، طریقہ کار کی خلاف ورزیوں اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کی بھی تحقیقات کر رہی ہے۔

ریلائنس پاور اور ریلائنس انفراسٹرکچر کا بیان

ریلائنس پاور اور ریلائنس انفراسٹرکچر نے ایک جیسے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ای ڈی کی کارروائی کا کاروباری آپریشنز، مالیاتی کارکردگی، شیئر ہولڈرز، ملازمین یا ریلائنس پاور یا ریلائنس انفراسٹرکچر کے کسی دوسرے اسٹیک ہولڈرز پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ میڈیا رپورٹس میں جن الزامات کے بارے میں بات کی جا رہی ہے ان کا تعلق ریلائنس کمیونی کیشن لمیٹڈ (آر کام) یا ریلائنس ہوم فائنانس لمیٹڈ کے لین دین سے ہے، جو 10 سال سے زیادہ پرانے ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ [ریلائنس پاور/ریلائنس انفراسٹرکچر] ایک آزاد اور الگ فہرست شدہ ادارہ ہے جس کا آر کوم یا آر ایچ ایف ایل کے ساتھ کوئی کاروبار یا مالی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریلائنس کمیونی کیشنز (آر کام) گزشتہ چھ سالوں سے انسولوینسی اینڈ بینکرپٹسی کوڈکے تحت کارپوریٹ انسولوینسی ریزولوشن کے عمل سے گزر رہی ہے، جبکہ ریلائنس ہوم فائنانس لمیٹڈ (آر ایچ ایف ایل) کا معاملہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نمٹ چکا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے، ‘اس کے علاوہ، انل امبانی ریلائنس پاور/ریلائنس انفراسٹرکچر کے بورڈ میں شامل نہیں ہیں۔ لہذا، آر کوم یا آر ایچ ایف ایل کے خلاف کی گئی کسی بھی کارروائی کا ریلائنس پاور/ریلائنس انفراسٹرکچر کے آپریشنز، مینجمنٹ یا ایڈمنسٹریشن پر کوئی اثر یا اثر نہیں ڈالتی۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

بہار ایس آئی آر: سپریم کورٹ نے کہا – اگر بڑے پیمانے پر لوگ ووٹر لسٹ سے باہر ہوئے تو ہم مداخلت کریں گے

ایس آئی آر کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے چلائی جارہی اس مہم کے دوران اگر ووٹر لسٹ سے بڑے پیمانے پر نام خارج کیے جاتے ہیں تو عدالت اس معاملے میں مداخلت کرے گی۔ عدالت نے اس کیس کی حتمی سماعت کی تاریخ 12 اور 13 اگست طے کی ہے۔

تصویربہ شکریہ : الیکشن کمیشن

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے منگل (29 جولائی) کو یقین دہانی کرائی کہ اگر بہار میں الیکشن کمیشن کی جانب سے چلائی جارہی متنازعہ اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر)مہم کے دوران بڑے پیمانے پر رائے دہندگان کو ووٹر لسٹ سے باہر کیا گیا تو وہ مداخلت کرے گی۔

عدالت نے یہ زبانی تبصرہ اس معاملے میں دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے کیا۔ عدالت نے اس کیس کی حتمی سماعت کی تاریخ 12 اور 13 اگست مقرر کی ہے جو کہ متنازعہ ووٹر لسٹ کے مسودے کی اشاعت کے تقریباً دو ہفتے بعد ہے۔ یہ فہرست 1 اگست کو جاری کی جانی ہے۔

جسٹس سوریہ کانت اور جوائےمالیہ باگچی کی بنچ نے عرضی گزاروں کے اس خدشے پر تبصرہ کیا  جس میں کہا گیا ہے کہ تقریباً 65 لاکھ رائے دہندگان کو ووٹر لسٹ سے صرف اس لیے ہٹایا جا سکتا ہے کیونکہ انہوں نے فارم نہیں بھرا ہے۔

جسٹس باگچی نے کہا، ‘ہم اس عمل کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اگر لوگوں کو بڑے پیمانے پر باہرکیا گیا تو ہم فوراً مداخلت کریں گے۔’

عدالت نے عرضی گزاروں سے کہا کہ وہ 15 ایسے لوگوں کو سامنے لائیں جو زندہ ہیں اور انہیں  فہرست سے باہر کر دیا گیا ہے۔

ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق یہ 65 لاکھ لوگ یا تو مر چکے ہیں یا مستقل طور پر نقل مکانی کر چکے ہیں، اور اب انہیں دوبارہ درخواست دینا ہوگی۔

آر جے ڈی ایم پی منوج جھا کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن ان تمام 65 لاکھ لوگوں کے نام ڈرافٹ لسٹ میں شامل کرلے اور پھر اعتراضات درج کرنے کا اختیار دیے تو عرضی گزاروں کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

اس پر جسٹس سوریہ  کانت نے یقین دلایا کہ ‘اگر یہ نام ڈرافٹ لسٹ میں شامل نہیں ہیں تو ہمارے نوٹس میں لائیں، ہم یہاں ہیں اور آپ کی بات سنیں گے۔’

اس سے قبل، سوموار (28 جولائی) کو عدالت میں ہوئی سماعت میں  سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو مشورہ دیا تھا کہ آدھار اور ووٹر آئی ڈی کو دستاویزی ثبوت کے طور پر قبول کیا جائے۔ اگرچہ عدالت نے 1 اگست کو شائع ہونے والی مسودہ فہرست پر روک لگانے سے انکار کر دیا، لیکن یہ کہا کہ اگر اس عمل میں کوئی غیر قانونی قدم پایا جاتا ہے، تو پورے عمل کو رد کیا جا سکتا ہے۔

ایس آئی آر کے عمل کے خلاف کیس میں درخواست گزاروں میں کانگریس، سی پی آئی، ڈی ایم کے، آر جے ڈی سمیت کئی اپوزیشن پارٹیاں شامل ہیں، نیز سول سوسائٹی تنظیموں جیسے پی یو سی ایل اور اے ڈی آر کے کارکن شامل ہیں۔

درخواست گزاروں کا استدلال ہے کہ یہ عمل عوامی نمائندگی ایکٹ، 1950 کی خلاف ورزی کرتا ہے، کیونکہ ایس آئی آرمیں شہریوں پر اہلیت ثابت کرنے کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں کروڑوں لوگوں، خاص طور پر غریب تارکین وطن، دلت اور مسلمانوں کو ووٹر لسٹ سے ہٹائے جانے کا اندیشہ ہے۔

وہیں، الیکشن کمیشن نے ایس آئی آر کو ایک ضروری عمل قرار دیا ہے، جس کا مقصد دو دہائیوں کے بعد ووٹر لسٹ کو درست کرنا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ ووٹر لسٹ میں بے ضابطگیوں کی شکایت سیاسی جماعتوں نے خود کی تھی۔ کمیشن نے آدھار اور راشن کارڈ کو اہم ثبوت ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دھوکہ دہی سے بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

فہرست سے حقیقت میں کتنے لوگوں کو خارج کیا گیا ہے اور کیا واقعی سپریم کورٹ کو اس معاملے میں مداخلت کرنا پڑے گی یہ  1 اگست کو جاری ہونے  والی فہرست کے بعد واضح ہو پائے گا۔

Next Article

پاکستانی زیر انتظام کشمیر کا ناظم اطلاعات یا ہندوستان کا جاسوس؟

آزاد کشمیر کے پہلے ناظم اطلاعات کی کہانی، جن کے بارے میں وقتا فوقتا خبریں چھپتی ہیں کہ انہوں نے ’آزاد کشمیر ‘ کا پرچم ڈیزائن کیا۔

گنوپتی کیشوا ریڈی، جو پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے ناظم اطلاعات یعنی ڈائریکٹر انفارمیشن اور پبلک ریلیشن تھے اور جنہیں پاکستان میں ہندوستان کا پہلا انڈر کور جاسوس بھی سمجھا جاتا ہے۔

ہندوستان کے اقتصادی مرکز بمبئی میں مئی 1948کی ایک حبس زدہ دوپہر ہفتہ وار انگریزی اخبار بلٹز کے دفتر میں اس کے ایڈیٹر رستم خورشیدجی کرانجیا اسٹوریز کی نوک پلک درست کررہے تھے کہ ان کی میز پر رکھے ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ دوسری طرف نئی دہلی سے ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے پرائیوٹ سکریٹری ایم او متھائی لائن پر تھے ۔

انہوں نے کرانجیا سے پوچھا کہ کیا ان کے اخبار کے ایڈیشن میں کسی اسکوپ کی گنجائش ہے؟ نیکی اور پوچھ پوچھ، اسکوپ وہ بھی وزیر اعظم کے دفتر سے۔

ٹیبولائڈ فارمٹ کا بلٹز اخبار برطانیہ کے ڈیلی میل کی کاپی تھا ۔ بڑے فونٹ میں چیختی ، چنگھاڑتی موٹی سرخیوں کے ساتھ یہ اخبار تفتیشی اور ہیجان انگیز خبروں کےلیے جانا جاتا تھا۔

متھائی نے کہاکل ایک نوجوان ان سے ملنے بمبئی پہنچ رہا ہے ۔ اس کے پاس ایسی خبر ہے، جو تہلکہ مچا سکتی ہے۔ متھائی نے کہا کہ خود وزیر اعظم نے ہی بلٹز کا نام تجویز کرکے اس اسٹوری کو پہلے صفحہ پر شائع کروانے  کی درخواست کی ہے اور کہا ہے کہ یہ قومی مفاد میں ہوگا ۔

اگلے روز کرانجیا جب دفتر پہنچے تو بریف کیس ہاتھ میں لیے سفید سفاری سوٹ میں ملبوس، دبلی پتلی قامت کا ایک نوجوان ان کے کمرے کے باہر ہی انتظار کر رہا تھا ۔ نووارد نے اپنا تعارف بطور گنوپتی کیشوا ریڈی کے کروایا اور بتایا کہ وہ ابھی چند روز قبل تک پاکستانی زیر انتظام کشمیر کا ناظم اطلاعات یعنی ڈائریکٹر انفارمیشن اور پبلک ریلیشن تھا۔

اس لیے ریڈی کو ہندوستان  کا پاکستان میں پہلا انڈر کور جاسوس بھی سمجھا جاتا ہے ۔

جس نے پاکستانی کی اعلیٰ لیڈرشپ تک رسائی حاصل کرکے نہایت ہی اہم معلومات حاصل کرکے ان کو ہندوستان تک پہنچایا ۔ کانگریس حکومت میں وزیر اور صنعتکار سبھی رام ریڈی نے جب برسو ں قبل جی کے ریڈی کے مضامین پرمشتمل ایک کتاب کا اجرا کیا، تو اس میں کرانجیا کے تاثرات بھی تھے ۔

انہوں نے لکھا تھاکہ بلٹز اخبار پنڈت جواہر لال نہرو کا کئی بیش بہا تحفوں کے لیے شکر گزار ہے، لیکن ان سب میں سب سے قیمتی عطیہ جی کے ریڈی کی صورت میں ان کو ملا ۔ اسکوپ 1947-48کی کشمیر جنگ سے متعلق تھا ۔ چونکہ اعلیٰ عہدہ پر رہتے ہوئے وہ اس جنگ کے پاکستانی سائڈ سے عینی شاہد تھے، اس لیے ان کی انفارمیشن تہلکہ خیز تھی ۔

چند سال قبل پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے کسی نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرکے دعویٰ کیا تھا کہ’ آزاد کشمیر‘ کا پرچم ایک کشمیری پنڈت جی کے ریڈی نے ڈیزائن کیا ہے ۔ چونکہ ریڈی کشمیر ی پنڈت ہو ہی نہیں سکتا ہے ، لہذا میں نے اس پر زیادہ دھیان نہیں دیا اور اس کو کسی روایتی خود ساختہ قوم پرست کے ذہن کی بہکی ہوئی رو سمجھا۔

مگر حال ہی میں اسی خطے سے تعلق رکھنے والے معتبر صحافی خالد گردیزی نے جب اسی طرح کی ایک پوسٹ شائع کی اور اس انفارمیشن کو کسی سینئر بیوروکریٹ سے منسوب کیا، تو مجھے تجسس ہوا۔

معلوم ہوا کہ جی کے ریڈی آندھرا پردیش کے نلور ضلع میں 1923کو پیدا ہوئے ۔ وہ تیلگو نسل کے تھے ۔ ان کا انتقال 1987 میں ہوا اور کافی عرصے تک وہ اخبار دی ہندو کے ساتھ وابستہ رہے ۔ یہ بھی پتہ چلا کہ میرے کئی سینئرز پریم شنکر جھا، شاستری راما چندر ن وغیرہ نے ان کے ساتھ کام کیا ہے اور ان کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔

ان کی وساطت سے اور دیگر ذرائع سے معلوم ہوا کہ ریڈی جموں و کشمیر میں انگریزی کے پہلے اخبار ہفت روزہ کشمیر ٹائمز کے مدیر رہ چکے ہیں ۔ (موجود ہ کشمیر ٹائمز کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ) ۔ یہ اخبار سرینگر سے 26 نومبر 1934سے شائع ہونا شروع ہو گیا تھا۔

گو کہ اس کی بنیاد بلدیو پرشاد شرما اور پنڈت گوشہ لال کول نے رکھی تھی، بعض دستاویزات کے مطابق بمبئی کے ایک کانگریسی لیڈر سردار عبدالرحمن مٹھا نے اس کو بعد میں خریدا ۔ کشمیر میں قیام کے دوران انہوں نے جی کے ریڈی کو اپنا پرائیویٹ سکریٹری مقرر کیا تھا۔

ریڈ ی اس وقت سرینگر میں ایسوسی ایٹیڈ پریس آف انڈیا یعنی اے پی آئی کے نمائندے بھی تھے ۔ دونوں 1945سے اگست1947تک کشمیر کے وزیر اعظم رہے رام چندر کاک کے قریبی تھے، جس کی وجہ سے ان کی نیشنل کانفرنس اور شیخ عبداللہ کے ساتھ ناچاقی ہوگئی تھی ۔

وہ شیخ عبداللہ کی طرف سے ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف شروع کی گئی کشمیر چھوڑو تحریک کے مخالفین میں سے تھے۔ جب کاک کو برطرف کرکے مہر چند مہاجن کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا، تو ریڈی اور مٹھا کو 15 اکتوبر 1947 کوکشمیر سے نکال دیا گیا۔ دومیل پوسٹ کے قریب اُن کی تلاشی لی گئی، اور الزام لگایا گیا کہ ریڈی کے سامان سے سازش سے متعلق کچھ قابلِ اعتراض کاغذات برآمد ہوئے۔

دونوں افراد کو واپس لا کر فوج کے حوالے کر دیا گیا۔ اس واقعے سے پہلے، پریس کی دنیا میں دو اور معروف نام پریم ناتھ بزاز اور پریم ناتھ کانہ کو بھی سازش میں ملوث قرار دےکر گرفتار کیا گیا تھا۔

ان پر الزام تھا کہ وہ سابق وزیر اعظم کاک کی ایماء پر سازش میں شریک تھے ۔ اخبارات کی دنیا اس دور میں بھی دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی ۔ مقامی اخباروں نے بھی مٹھا اور ریڈی کے خلاف مہم چلائی اور ان کی ملک بدری کا مطالبہ کردیا۔

بلٹز میں جو ان کی رپورٹ شائع ہوئی، اس میں بتایا گیا کہ سرحد پار سے آنے والے قبائلی حملہ آوروں کی قیادت ایک فرضی ’جنرل طارق‘ کر رہا تھا، جو دراصل ’بریگیڈیئر رسل ہیٹ‘ تھا ۔ امریکی ادارہ ‘آفس آف اسٹریٹجک سروسز(او ایس ایس)’ کا اعلیٰ افسر، جو آج کی سی آئی اے کا پیش رو ادارہ تھا، نے ایک قبائلی سردار کا بھیس اپنایا ہوا تھا۔

بعد ازاں یہی مواد اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں ہندوستان  کی جانب سے پاکستان اور امریکہ کی خفیہ شراکت داری کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔

لیکن اس سے بھی بڑی خبر جی کے ریڈی کی پاکستان سے فرار کی تھی، جہاں وہ’ آزاد کشمیر‘ حکومت کے تعلقاتِ عامہ کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے ۔

ہندوستان واپس آنے کے بعد ریڈی نے وزیر اعظم نہرو سے نئی دہلی میں ملاقات کی اور انہیں پاکستان کی براہ راست مداخلت اور امریکی معاونت پر مبنی دستاویزات پیش کیے ۔

کرانجیا کے بقول بلٹز میں انہوں نے ریڈی کی تحریر کردہ سلسلہ وار رپورٹس ، نقشوں اور تصاویر کے ساتھ شائع کیں ، جنہیں بعد میں وینو گوپال کرشن مینن نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے خلاف اپنے مقدمہ میں پیش کیا ۔

ریڈی رقمطراز ہیں کہ کشمیر چھوڑو تحریک کی مخالفت کی وجہ سے وہ شیخ عبداللہ کا نشانہ بن گئے تھے ۔ سری نگر میں اے پی آئی کا نمائندہ لاہور دفتر سے منسلک ہوتا تھا، جہاں ان کے نام سے ریاستی حکومت کے خلاف کئی اسٹوریز ریلیز کی گئیں ، جس کی وجہ سے وزیر اعظم ہری چند مہاجن بھی ان کے دشمن ہو گئے تھے ۔

انہوں نے کئی بار وزیر اعظم سے استدعا کی کہ انہوں نے ایسی کوئی رپورٹ فائل نہیں کی ہے اور اس کےلیے سرینگر کے ٹیلی گراف دفتر سے معلوم کیا جاسکتا ہے ۔ مگر وہ کچھ بھی سننے کےلئے تیار نہیں تھے اور پولیس نے ان کو ریاست بد ر کر دیا۔

اکتوبر کے وسط میں انہوں نے امرتسر میں اے پی آئی کے منیجر رائے بہادر رتن لال سیٹھی سے جب اپنی اجرت کا مطالبہ کیا تو انہوں نے ان کو لاہور جاکر وہاں رابطہ افسر زاہد عمر سے ملنے کی ہدایت دی ۔ وہاں جانے کےلیے ایک جیپ کا بھی انتظام کیا۔

لاہور میں میاں افتخار الدین نے ان کا استقبال کیا اور ان کو گورنر فرانسس مودے سے ملاقات کرنے لے گئے ۔ ان کو پاکستان میں بطور شہر ی رہنے کی دعوت دی گئی ۔ ان ملاقاتوں کے دوران ان کو معلوم ہوگیا کہ 22اکتوبر کو کشمیر پر کوہلہ اور رام کوٹ کی طرف سے حملہ ہونے والا ہے اور ڈوگرہ فوج کے مسلم سپاہی بغاوت کر رہے ہیں۔

ان کو بتایا گیا کہ ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں آرہا ہے اور ان کو اس حکومت میں اقلیتی امور کی وزارت سنبھالنے کےلیے کہا گیا ۔ ایک غیر کشمیری کیسے وزارت میں شامل ہو سکتا تھا، یہ سمجھ سے باہر ہے ۔ ریڈی کہتے ہیں کہ لاہور کے اے پی آئی کے دفتر نے ان کو عملاً پاکستانی حکومت کے حوالے کر دیا تھا ۔

اُسی رات میری اپنے میزبان، ملک تاج الدین، منیجر اے پی آئی سے طویل گفتگو ہوئی، جنہوں نے مجھے تفصیل سے بتایا کہ کیا ہونے والا ہے ۔ اگلے دن میں دفتر میں بیٹھا تھا کہ راولپنڈی سے ایک ٹرنک کال آئی ۔ چونکہ دفتر میں مجھ سے سینئر کوئی موجود نہ تھا، میں نے کال سنبھالی ۔ دوسری جانب لیفٹیننٹ کرنل علوی، پبلک ریلیشنز آفیسر، جنرل ہیڈکوارٹرز، پاکستان آرمی تھے۔

انہوں نے اطلاع دی کہ رامکوٹ کی جانب سے اس رات حملہ ہونا ہے، لیکن خبردار کیا کہ یہ خبر پاکستان سے جاری نہ کی جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب یہ خبر سری نگر سے دہلی پہنچے اور وہاں سے پاکستان کو موصول ہو، تو پھر آزاد کشمیرکی عبوری حکومت کے نام سے، پلندری کی ڈیٹ لائن کے ساتھ، روزانہ اعلامیے جاری کیے جائیں گے ۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ یہ اعلامیے وہ راولپنڈی سے ہر رات نو بجے ریڈیو نیوز سے قبل فون کے ذریعے بھیجیں گے ۔ اگلے دن دہلی سے قبائلی حملے کی ‘فلیش آئی، اور اس کے بعد بیانات اور اعلانات آناشروع ہوگئے ۔

ریڈی لکھتے ہیں کہ صوبہ سرحد کے وزیر اعظم خان عبدالقیوم خان ان کے پرانے شناسائی تھے ۔ ان کی استدعا پر انہوں نے آزاد کشمیر کی عبوری حکومت کےلیے لاہور میں کام کرنا شروع کردیا ۔

مگر چند روز بعد ان کو خواجہ عبدالرحیم کی معیت میں راولپنڈی لے جایا گیا، جہاں سردار ابراہیم خا ن سے متعارف کروایا گیا۔ ان کو ’آزاد کشمیر‘ کا پہلا ناظم اطلاعات مقرر کیا گیا ۔ تین ما ہ بعد پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی کو ان کے ہندوستان فرار ہونے کی تیاری کی سن گن مل گئی۔

بقول ا ن کے کسی غیر ملکی نامہ نگار نے اس کی اطلاع پاکستانی انٹلی جنس کو فراہم کی تھی ۔ اس کے بعد خواجہ عبد الرحیم نے نہ صرف ان کو برطرف کر دیا ، بلکہ چند قبائلیوں کو بتایا کہ یہ شخص ہندو اور نہرو کا ایجنٹ ہے ۔ یعنی ان کو ریڈی کے قتل کی ترغیب دی گئی ۔

’ میں کسی طرح پشاور بھاگ گیا اور خان عبد القیوم سے احتجاج کیا کہ یہ پاکستان حکام کی انتہا درجے کی ناشکری ہے کہ اتنے مہینے میرا استحصال کرنے کے بعد اب وہ مجھے قتل کروانا چاہتے ہیں ۔ ‘

خان نے ان کو تسلی دی اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے سرلے لی۔ خان نے ان سے کہا کہ اگر وہ پشاور میں پولیس کی نگرانی میں رہیں ، تو ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ انہوں نے واضح کر دیا کہ پاکستانی حکومت کو اندیشہ ہے کہ وہ ہندوستان جا کر سارے راز فاش نہ کردیں ، جن کو ہندوستان اقوام متحدہ میں بطور ہتھیار استعمال کرسکے۔

تب تک ان کی جگہ پر’آزاد کشمیر ‘ میں ڈاکٹرتاثیر اور حفیظ جالندھری کو محکمہ تعلقات عامہ میں تعینات کیا گیا تھا مگر ایک ماہ بعد ہی ان کو ناقص کارکردگی کی وجہ سے برخاست کر دیا گیا ۔

اسی دوران سردار ابراہیم ایبٹ آبا کے د ورے پر آگئے تھے اور خان عبدالقیوم خان کو آمادہ کروایا کہ وہ ریڈی کو دوبارہ محکمہ تعلقات عامہ کو سنبھالنے کےلیے تیار کریں ۔

انہوں نے مجھ سے سابقہ حالات پر معذرت کی اور التجا کی کہ میں دوبارہ یہ کام سنبھال لوں ۔ میں نے سوچا کہ یہ میرے لیے فرار کا سنہری موقع ہے ۔ میں نے ان سے کہا کہ میں یہ کام دوبارہ سنبھالنے کو  تیار ہوں ، البتہ میری درخواست ہے کہ مجھے کراچی بھیجا جائے تاکہ وہاں الطاف حسین اور جواد سے بیرونی تشہیر کے معاملات پر تفصیل سے بات کر سکوں ۔

مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ دونوں آزاد کشمیر کے محکمہ اطلاعات کی کارکرگی سے مایوس ہیں ۔

سردار ابراہیم نے اتفاق کیا، اور 18 مئی کو ریڈی کو ا یئر فورس کے طیارے میں ایئر کموڈور جنجوعہ کے ساتھ پشاور سے کراچی بھیج دیا گیا ۔ کراچی پہنچتے ہی وہ فوراً مکلاؤڈ روڈ پر ’ایئر سروسز آف انڈیا‘ کے دفتر گئے، جہاں معلوم ہوا کہ دو گھنٹے بعد ہی جام نگر کےلیے پرواز روانہ ہونے والی ہے ۔

انہوں نے ٹکٹ کسی اور نام سے بک کر لیا، تاکہ کراچی ایر پورٹ پر پولیس کو چکمہ دے سکیں ۔ اسی طرح وہ جام نگر کے راستے 20 مئی کو بمبئی پہنچ کر پاکستان سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر دہلی روانہ ہوکر وہاں وزیر اعظم نہرو سے ملاقات کی درخواست دی ، جو فوراً ہی منظور ہو گئی ۔

یہ کہانی تھی، آزاد کشمیر کے پہلے ناظم اطلاعات کی، جن کے بارے میں وقتا فوقتا خبریں چھپتی ہیں کہ انہوں نے ’آزاد کشمیر ‘کا پرچم ڈیزائن کیا ۔ اس کالم میں اتنا ہی سمیٹا جاسکتا ہے ۔ باقی آئندہ پھر کبھی ۔