یوپی: نوئیڈا ایس ایس پی کی رپورٹ میں اعلیٰ حکام پر ٹرانسفر کے بدلے پیسے لینے کاالزام

اتر پردیش کے نوئیڈا کے ایس ایس پی ویبھو کرشن کی طرف سے وزیراعلیٰ اور ڈی جی پی کو بھیجی گئی رپورٹ اس وقت عوامی ہو گئی جب ایک مبینہ ویڈیوسیکس چیٹ وائرل ہو گیا تھا۔ رپورٹ میں ایس ایس پی نے سینئر آئی پی ایس افسروں پرالزام لگایا تھا کہ وہ پیسے لےکر ٹرانسفر-پوسٹنگ کے ساتھ مقدموں اور گرفتاریوں کوبھی متاثر کرتے تھے۔ اس تعلق سے ڈی جی پی نے ایس ایس پی سے جواب مانگا ہے۔

اتر پردیش کے نوئیڈا کے ایس ایس پی ویبھو کرشن کی طرف سے وزیراعلیٰ اور ڈی جی پی کو بھیجی گئی رپورٹ اس وقت عوامی ہو گئی جب ایک مبینہ ویڈیوسیکس چیٹ وائرل ہو گیا تھا۔ رپورٹ میں ایس ایس پی نے سینئر آئی پی ایس افسروں پرالزام لگایا تھا کہ وہ پیسے لےکر ٹرانسفر-پوسٹنگ کے ساتھ مقدموں اور گرفتاریوں کوبھی متاثر کرتے تھے۔ اس تعلق سے ڈی جی پی نے ایس ایس پی سے جواب مانگا ہے۔

نوئیڈا ایس ایس پی ویبھوکرشن(فوٹو : یوٹیوب)

نوئیڈا ایس ایس پی ویبھوکرشن(فوٹو : یوٹیوب)

نئی دہلی: غلط طریقے سے ٹھیکہ لینے کے معاملے میں نوئیڈاکے سینئر پولیس سپرنٹنڈنٹ (ایس ایس پی)کی طرف سے حکومت کو بھیجے گئے خفیہ دستاویزمبینہ طور پر میڈیا میں لیک ہونے کے بیچ اتر پردیش کےڈی جی پی اوم پرکاش سنگھ نے کہا کہ ایس ایس پی سے پوچھا گیا ہے کہ انہوں نے وہ خفیہ جانکاری کیوں وائرل کی۔

ڈی جی پی نے یہاں پریس کانفرنس میں اس معاملے پر صورت حال کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ غلط طریقے سے ٹھیکہ لئے جانے کے معاملے میں ایس ایس پی نوئیڈا ویبھو کرشن نے جو خفیہ دستاویز بھیجے تھے، وہ میڈیا میں وائرل ہو گئے ہیں۔نوئیڈا کے ایس ایس پی ویبھو کرشن کے ذریعے تیار رپورٹ اس وقت عوامی ہو گئی جب ایک مبینہ ویڈیو سیکس چیٹ وائرل ہونے لگا تھا۔ کرشن نے کہا کہ ویڈیو کو چھیڑچھاڑ کیا گیا تھا اور یہ ان کے وقار کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش تھی کیونکہ انہوں نے اعلیٰ افسروں اور گرفتار صحافیوں سے جڑے ایک مجرمانہ سانٹھ گانٹھ کا پردہ فاش کرنے کی مانگ کی تھی۔

انہوں نے کہا ‘ ہم لوگوں کا ماننا ہے کہ ایس ایس پی نوئیڈا نے ایک غیر قانونی بات چیت کی۔ یہ سروس  اصولوں کے خلاف ہے، اس لئے ہم نے آئی جی میرٹھ سے کہا ہے کہ ان سے یہ پوچھا جائے کہ انہوں نے خفیہ دستاویز کو کیوں وائرل کیا یا اس کو کسی کو دیا۔’ سنگھ نے کہا کہ اس خفیہ خط، جس کی کاپی آپ کے پاس ہے، اس میں کئی چیزوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ اس میں اتل شکلا، سکینہ، محمد ذوہیب، وشنو کمارپانڈے، انوبھو بھلا اور امت شکلا سمیت چھ لوگوں کا ذکر کیا گیا، جو غلط دستاویزکی بنیاد پر ٹینڈر لینا چاہتے تھے۔

انہوں نے بتایا، ‘ داخلہ محکمے نے حکومت کی سطح پر تفتیش کروائی اور ان کے خلاف کارروائی کروائی گئی۔ ان میں سے دو کو جیل بھیجا گیا ہے،جبکہ دو نے عدالت سے راحت  لے لی ہے، جبکہ باقی فرار ہیں۔ ‘انہوں نے بتایا کہ گزشتہ اگست میں نوئیڈا میں پانچ صحافیوں کے خلاف گینگسٹر ایکٹ کی کارروائی ہوئی تھی۔ صحافت کی آڑ میں افسروں کوبلیک میل کرنے والوں پر پولیس کے ذریعے ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس بارے میں ایس ایس پی نوئیڈا نے تمام  حقائق  کی جانکاری اور کچھ دیگر خفیہ دستاویز یوپی حکومت،داخلہ محکمہ اور پولیس صدر دفتر کو بھیجے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ اس کی جانچ‌کر رہے میرٹھ کے ڈی جی پی نے گزشتہ 26 دسمبر کو تفتیش کے لئے 15 دن کا اور وقت مانگا جو ان کودے دیا گیا ہے۔سنگھ نے بتایا،’اسی بیچ، ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوا ہے،جس کے تعلق سے ایس ایس پی نوئیڈا نے ایک مقدمہ سیکٹر 20 تھانے میں درج کرایا ہے۔جب ہمیں یہ پتہ چلا تو ہم نے اس مقدمہ کو غیر جانبدارانہ تفتیش کے لئے ہاپوڑ منتقل کر دیا ہے جو وہاں کے ایس پی کے ماتحت ہوگا۔ آئی جی میرٹھ قریب سے اس کی نگرانی کریں‌گے،تاکہ حقائق کی صحیح جانکاری کے ساتھ تفتیش ہو سکے۔’

ڈی جی پی نے کہا کہ میڈیا میں انکشاف ہوئے اس خفیہ دستاویز میں کئی اور لوگوں کے نام بھی شامل تھے اور ابھی ایجنسیوں سے اس آڈیو کلپ کی صداقت جانچنی پڑے‌گی۔ انہوں نے کہا کہ  تمام چیزوں کی تصدیق  ضروری ہے۔ ہم نے سائبر کرائم کی مدد لی ہے اور ایس ٹی ایف کی بھی مدد لے رہے ہیں۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، میرٹھ رینج کے آئی جی آلوک سنگھ نے کہا، ایس ایس پی گوتم بدھ نگرحال ہی میں عوامی کئے گئے خفیہ دستاویز کےمواد کے تعلق سے ڈی جی پی کے حکم کا جواب دیں‌گے۔ اے ڈی جی میرٹھ زون اور میں رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کی ایک تفتیش کریں‌گے، جبکہ کچھ دنوں پہلے سامنے آئےایس ایس پی کے مبینہ طور پر چھیڑچھاڑ کے ویڈیو کی ایک الگ تفتیش کی جا رہی ہے۔باقی سوالوں کے جواب ہم تفتیش شروع کرنے کے بعد دیں‌گے۔

ویڈیو سامنے آنے کے ایک مہینے پہلے آلوک نے وزیراعلیٰ اورڈی جی پی کے دفتر میں ایک خفیہ رپورٹ بھیجی تھی۔ اس میں انہوں نے سینئر آئی پی ایس افسروں اور صحافیوں کے درمیان سانٹھ گانٹھ کا الزام لگایا تھا جو کہ پیسے لےکرٹرانسفر-پوسٹنگ کے ساتھ مقدموں اور گرفتاریوں کو بھی متاثر کرتے تھے۔

کرشن نے یہ رپورٹ پولیس افسروں کے بارے میں فرضی خبریں شائع کرنے، غیر قانونی زمین کے قبضے میں شامل ہونے، کام کروانے کے بدلے پیسے مانگنےاور دھمکی دینے کے بارے میں مبینہ طور پر فرضی خبریں شائع کرنے کے معاملے میں گوتم بدھ نگرپولیس کے ذریعے صحافیوں سشیل پنڈت، ادت گوئل، چندن رائے اور نتیش پانڈے کی گرفتاری کے بعد تیار کی تھی۔

چاروں کے خلاف جانچ‌کے دوران پوسٹنگ کے لئے سینئر پولیس افسروں سے ان کی بات چیت کا معاملہ سامنے آیا۔ کرشن نے سی ایم او اور ڈی جی پی دفتر کو جو رپورٹ بھیجی تھی اس میں کالز رکارڈس اور بات چیت کی کاپی لگائی گئی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک سابق ایس ایس پی مبینہ طورپر ایک صحافی کے رابطہ میں تھا، اور دوسرے ضلع میں پولیس چیف  کے طور پر اس کی پوسٹنگ یقینی بنانے کے لئے 80 لاکھ روپے کا سودہ کیا۔ نوئیڈا پولیس نے مبینہ طورپر چندن رائے اور پولیس افسر کے درمیان دو کال رکارڈنگ حاصل کی۔

ایک الگ معاملے میں، ایک خاتون نے گزشتہ سال اگست میں افسر پر چھیڑچھاڑ کا الزام لگاتے ہوئے غازی آباد پولیس سے رابطہ کیا تھا۔ خاتون کاموبائل فون چندن  رائے کے پاس سے بر آمد کیا گیا تھا جس نے مبینہ طور پر افسر کوپھنسانے والی اس کی تصویریں ہٹا دی تھیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ نوئیڈا پولیس کے ذریعے مبینہ ریکٹ کے سلسلے میں گرفتاری شروع کرنے کے بعد افسر نے ایک صحافی کو لکھنؤ سے ‘جلد سےجلد بھاگنے ‘کے لئے کہا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صحافی غازی آباد کے موجودہ ایس ایس پی سدھیر کمار سنگھ سے ملنے والا تھا۔ سنگھ نے کہا، ‘آج ڈی جی پی نے کہا کہ رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کی تفتیش ہوگی۔ ایک بار تفتیش پوری ہو جانے کے بعدحقیقت اور سچائی سامنے آ جائے‌گی۔ تفتیش پوری ہونے تک ہم نتیجہ کا انتظار کریں‌گے۔ ‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک دیگر ایس ایس پی نے دوسرےضلع میں پوسٹنگ کے لئے ریٹ کو لےکر بات کی تھی۔ وہی صحافی ایک دیگر آدمی کے ساتھ رابطہ میں تھا جو دوسری کمپنیوں سے لین دین کا انتظام کرواتا تھا۔ اس لین دین کےتحت مغربی اتر پردیش کے ضلع میں تعینات ایک پی سی ایس افسر کا بھی نام سامنے آیا۔

غیر قانونی ٹرانسپورٹ دستیاب کرنے اور ایک بدعنوان  افسر کواپنے عہدے پر بنے رہنے کی اجازت دینے کے لئے دو دیگر آئی پی ایس افسروں کا بھی نام لیا گیا تھا۔مبینہ سانٹھ گانٹھ میں نوئیڈا سیکٹر 20 کے سابق ایس ایچ او منوج پنت کے رول کو اجاگر کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ فرضی خبریں چھپوانے میں صحافیوں کا استعمال کرتے تھے۔ پنت کو مبینہ طور پر رشوث لیتے ہوئےگرفتار کیا گیا تھا۔ کرشن نے پولیس اسٹیشن پر چھاپا مارا تھا۔

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد کرشن نے کہا، ان کی امیج کوخراب کرنے کے مقصد سے ہی کچھ لوگوں نے ان کے خلاف سازش کر کےفرضی فحش ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کیا ہے۔ ایک سال کی پوسٹنگ کے دوران انہوں نے آرگنائزڈ کرائم کرنے والےلوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہے۔ بد عنوانی میں شامل پولیس محکمے کے کئی لوگوں کوگرفتار کر کے جیل بھیجا ہے۔ غیر قانونی وصولی میں شامل کئی نام نہاد صحافیوں کو گرفتارکیا گیا ہے۔ اور اتر پردیش میں وسیع پیمانے پر چل رہے ہوم گارڈ تنخواہ گھوٹالہ کاانکشاف کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک مہینہ پہلے انہوں نے اتر پردیش حکومت کو ایک خفیہ رپورٹ بھیجی ہے۔ جس میں کئی آئی پی ایس افسروں اور صحافیوں اوررہنماؤں کے ایک گروہ کا انکشاف کیا گیا ہے جو اتر پردیش میں ٹھیکہ دلوانے،پوسٹنگ کروانے، مجرمانہ کارنامے کو تحفظ دینے وغیرہ کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے شک جتایا کہ مذکورہ گروہ کے لوگوں نے ہی ان کے خلاف سازش کرکے فرضی ویڈیو کو وائرل کیا ہے۔

کانگریس کا الزام، یوگی حکومت میں ٹرانسفر-پوسٹنگ کے نام پر ‘رشوت خوری’ کا کھلا کھیل

 کانگریس نے اتر پردیش کےپولیس محکمے میں بڑے پیمانے پربد عنوانی کا الزام لگاتے ہوئے جمعہ کو ریاست کے ہر محکمے کی عدالتی تفتیش کرانےکی مانگ کی تاکہ عوام کو بد عنوانی اور رشوت خوری سے راحت مل سکے۔اتر پردیش کانگریس صدر اجئے کمار للو نے کہا کہ گوتم بدھ نگر کے سینئر پولیس سپرنٹنڈنٹ ویبھو کرشن کی پانچ پیج کی رپورٹ نے پورے محکمےمیں بد عنوانی اور رشوت خوری کے عالم کوبیان کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کہاں ہیں؟ ان کو سامنے آکر یہ واضح کرنا چاہیے کہ آخر ریاست میں چل کیا رہا ہے؟ یہ تو محض ایک مثال ہے۔انہوں نے الزام لگایا کہ پوری ریاست بد عنوانی اور رشوت خوری سے پریشان ہے۔ ہر محکمے میں اس طرح کی شکایتں روزانہ آتی رہتی ہیں۔ انہوں نےکہا، ‘ مجھے یقین ہے کہ اس معاملے کی غیر جانبدارانہ تفتیش ہوگی تو کئی بڑے لوگ بےنقاب ہوں‌گے اور اس حکومت کی قلعی کھل جائے‌گی۔ ‘

(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)

Next Article

پولنگ بوتھ کی فوٹیج دیکھنے کے لیے 273 سال: کیا الیکشن کمیشن بیل گاڑی پر سوار ہے؟

الیکشن کمیشن کا یہ بیان کہ 1 لاکھ پولنگ بوتھ کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے میں 273 سال لگیں گے، بیل گاڑی کے دور کی یاد دلاتا ہے۔ کیا کمیشن نہیں جانتا کہ ڈیٹا اینالیٹکس میں ہندوستان نے کتنی ترقی کرلی ہے؟

آئین نے الیکشن کمیشن کو جمہوریت کا خود مختار نگران بنایا تھا۔ لیکن بہار میں ایس آئی آر ڈیٹا کو چھپانا اور 65 لاکھ نام کاٹنے کے بعد خاموشی اختیار کرنااس کی خودمختاری  پر سوال اٹھاتا ہے۔ (تصویر بہ شکریہ: الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ)

الیکشن کمیشن نے حال ہی میں ایک ایسا بیان دیا ہے جس کو سن کر سائنس بھی شرمسار ہو جائے اور ریاضی بھی خود کشی کر لے۔ انہون نے کہا اگر ہمیں 1 لاکھ پولنگ بوتھ کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنی  پڑے تو 273 سال لگیں گے۔

یعنی اگر ہم آج سے شروع کریں تو شاید 2298 میں جاکر آخری کلپ  دیکھی جائےگی- اگر اس وقت تک زمین بچی رہی۔ کمیشن کا جواب مودی حکومت کے ڈیجیٹل انڈیا اور ہندوستان کی تکنیکی صلاحیت کی توہین ہے۔

سابق چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار نے بھی کہا تھا کہ اگر 10.5 لاکھ پولنگ بوتھ کے ڈیٹا کو روزانہ 8 گھنٹے تک بھی دیکھا جائے تو اس میں ایک کروڑ گھنٹے یعنی 3600 سال لگیں گے۔ لیکن کیا واقعی اتنے سال لگیں گے؟ کیا ملک اب بھی ڈائل اپ انٹرنیٹ کے دور میں ہے؟ یا بیل گاڑی کے دور میں؟

دنیا کوانٹم چپ کے دور میں ہے۔ گوگل نے حال ہی میں ‘وِلو’ کے نام سے ایک کوانٹم چپ لانچ کی ہے ، جو 5 منٹ میں وہ  کام کر سکتی ہے، جس کو کرنے میں  پرانے سپر کمپیوٹر کو 10 سے 25 سال لگتے ۔

سچ یہ ہے کہ ڈیٹا پروسیسنگ میں ہندوستان ایک عالمی طاقت ہے۔ آدھار کے پاس 1.3 بلین ہندوستانیوں کا بایو میٹرک ڈیٹا (10-15 پیٹا بائٹ) ہے۔ ہر منٹ میں لاکھوں  لوگوں کی تصدیق ہوتی ہے۔

ریلائنس جیو کے 49 کروڑ صارفین ہر ماہ 14,700 پیٹا بائٹ (پی بی) اور جیو  ہر منٹ 10 پیٹا بائٹ ڈیٹا (کال، انٹرنیٹ، اسٹریمنگ) پروسس کرتا ہے۔ فلپ کارٹ  بھی منٹوں میں کروڑوں آرڈرپروسس کرتا ہے۔ ایک پیٹا بائٹ میں 20 لاکھ گھنٹے کی ایچ ڈی فلمیں اسٹور ہوتی  ہیں۔ 1000 سے زیادہ ایچ ڈی فلمیں صرف 1 سیکنڈ میں ڈاؤن لوڈ ہوتی ہیں ۔

بنگلورو کے 800+ گلوبل کیپیبیلٹی سینٹرز میں 2.2 لاکھ ٹیک ماہرین گوگل، مائیکروسافٹ، ایمیزون جیسی گلوبل کمپنیوں کے سینکڑوں پیٹا بائٹس یعنی اربوں کھربوں ڈیٹا پروسس کرتے ہیں ۔ ایک لاکھ پولنگ بوتھ کی سی سی ٹی وی فوٹیج کے کل1-2 پیٹا بائٹ ڈیٹا کی پروسیسنگ میں 273 گھنٹے بھی نہیں لگیں گے۔

پھر الیکشن کمیشن نے ایسا کیوں کہا؟

دراصل، 8 اگست کو راہل گاندھی نے ایک پریس کانفرنس کی اور دعویٰ کیا کہ کرناٹک کے بنگلورو سنٹرل لوک سبھا حلقہ میں 1,00,250 ووٹوں کی چوری ہوئی۔ 11,965 ڈپلیکیٹ ووٹرز، 40,009 جعلی اور غیر قانونی پتوں والے ووٹرز ملے، 10,452 بلک ووٹرز، 4,132 غیر قانونی تصاویر والے ووٹرز تھے۔ 33,692 ووٹرز تھے جنہوں نے فارم 6 کا غلط استعمال کیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی لوک سبھا میں صرف 25 سیٹوں کی برتری کے ساتھ ملک کے وزیر اعظم ہیں اور جب بی جے پی نے صرف ایک سیٹ پر ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ چرائے ہیں، تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیا ہوا ہوگا۔

راہل گاندھی نے الیکشن کمیشن سے 5 سوال پوچھے

اپوزیشن کو ڈیجیٹل ووٹر لسٹ کیوں نہیں مل رہی؟

کیا سی سی ٹی وی اور ویڈیو شواہد تلف کیے جا رہے ہیں؟

فرضی ووٹنگ اور ووٹر لسٹ میں گڑبڑی کی گئی— کیوں ؟

اپوزیشن رہنماؤں کو دھمکیاں کیوں دی جا رہی ہیں؟

کیا الیکشن کمیشن اب بی جے پی کا ایجنٹ بن چکا ہے؟

الیکشن کمیشن نے راہل کے دعووں کو ‘گمراہ کن’ اور الزامات کو ‘پرانی اسکرپٹ’ قرار دیا۔ ڈیجیٹل ووٹر لسٹ کا مطالبہ کرنے پر اس نے کہا کہ کانگریس کی اسی طرح کی درخواست کو سپریم کورٹ نے 2019 میں مسترد کر دیا تھا۔

سی سی ٹی وی فوٹیج مانگنے پر کہا گیا کہ فوٹیج صرف اس صورت میں محفوظ رکھی جاتی ہے جب متاثرہ امیدوار 45 دنوں کے اندر ہائی کورٹ میں الیکشن پٹیشن (ای پی) دائر کرے؛ ورنہ نہیں۔ ووٹرز کی رازداری کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔

آئینی حقوق اور قانونی ذمہ داریاں

یہ الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنائے اور تمام جماعتوں کو ووٹر لسٹیں اور ضروری ڈیٹا فراہم کرے۔ آرٹیکل 19(1)(اے) اپوزیشن اور شہریوں کو جمہوریت کے لیے ضروری معلومات مانگنے کا حق دیتا ہے۔ سپریم کورٹ نے 2003 میں رائے دہندگان کے معلومات کے حق کو تسلیم کیا تھا ۔ لیکن بی جے پی خود الیکشن کمیشن پر اٹھائے گئے سوالوں کے دفاع کے لیے آگے آگئی۔

سمبت پاترا نے راہل گاندھی کو ‘مایوس’ کہا اور پوچھا- اگر کمیشن جانبدار ہے تو کانگریس نے 99 سیٹیں کیسے حاصل کیں؟

کیا الیکشن کمیشن دباؤ میں ہے؟

آئین نے الیکشن کمیشن کو جمہوریت کا خود مختار نگران بنایا تھا۔ لیکن بہار میں ووٹر لسٹ کی نظرثانی کے اعداد و شمار کو چھپانا ، 65 لاکھ ناموں کو حذف کرنے کے بعد خاموشی اختیار کرنا، اور دو کمشنروں (اشوک لواسا – 2020، ارون گوئل – 2024) کا استعفیٰ اس پر سوال اٹھاتا ہے ۔

سپریم کورٹ کو ڈیٹا فراہم کرنے سے گریز کررہے کمیشن  کو 15  فروری  2024  کو ایک دھچکا لگا ، جب 15 فروری 2024 کو الیکٹورل بانڈ اسکیم کو غیر آئینی قرار دے دیا گیا ۔

کینیڈا اور آسٹریلیا کے الیکشن کمیشن ووٹر لسٹ اور پولنگ  سے متعلق ڈیٹا آن لائن فراہم کرتے ہیں ۔ تاہم، کینیڈا اب بھی امریکہ کی طرح ای وی ایم کے بجائے بیلٹ پیپرز کے ذریعے انتخابات کرواتا ہے۔ ایسٹونیا میں، ووٹر کا ڈیٹا اور ووٹنگ کے ریکارڈ بلاک چین پر  ہوتےہیں۔

ہندوستان اقوام متحدہ کی بگ ڈیٹا کمیٹی کا رکن ہے ۔ یہ ڈیجیٹل گورننس میں بہت سے ممالک کی مدد کرتا ہے۔ امریکہ، یورپ اور ایشیا کے کئی ممالک کا ڈیٹا ہندوستان میں پروسیس کیا جاتا ہے۔

لیکن یاد رکھیں، چندی گڑھ کے میئر کے انتخاب میں دھاندلی سی سی ٹی وی میں قید ہوئی تھی ۔ کیا اسی لیے کمیشن فوٹیج دینے سے گریزاں ہے اور 273 سال کا بے بنیاد ڈیٹا پیش کر رہا ہے؟

(اومکاریشور پانڈےآبزرور گلوبل میڈیا گروپ کے چیف ایڈیٹر ہیں،سینئر صحافی، اسٹریٹجسٹ،کئی کتابوں کے مصنف اور ورلڈ اکنامک فورم  کے ممبرتھاٹ لیڈر ہیں۔)

Next Article

’دی بنگال فائلز‘: جابر ہندو رکشک دکھائے گئے گوتم پاٹھا کے پوتے نے وویک اگنی ہوتری کو لیگل نوٹس بھیجا

وویک اگنی ہوتری کی فلم ’دی بنگال فائلز‘ میں گوپال مکھرجی عرف ’گوپال پاٹھا‘ کے کردار کے حوالے سے پاٹھا کے پوتے شانتنو مکھرجی نے ہدایت کار کو لیگل نوٹس بھیجا ہے۔ خاندان کا الزام ہے کہ فلم میں ان کے دادا کومسلم مخالف قصائی کے طور پر دکھا کر بدنام کیا گیا ہے اور تاریخی حقائق سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔

فلم میں ڈائریکٹ ایکشن ڈے (اگست 1946) کے دوران ہندو محلوں کے محافظ کے طور پر دکھائے گئے گوپال مکھرجی عرف ‘گوپال پاٹھا’ کے پوتے شانتنو مکھرجی نےلیگل نوٹس میں لکھا ہے کہ ‘وویک اگنی ہوتری کی گھنونی حرکتیں جان بوجھ کر، غیر ضروری طور پر میرے دادا جی کی توہین کر رہی ہیں۔ انہیں ایک فرقہ پرست غنڈے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔’تصویر بہ شکریہ: ایکس / وویک اگنی ہوتری

نئی دہلی: وویک اگنی ہوتری کی فلم ‘دی بنگال فائلز’ کو شدید مخالفت کا سامنا  کرنا پڑ رہاہے۔ عالم یہ ہے کہ اگنی ہوتری نے جس تاریخی کردار کو اپنی فلم میں ‘ہیرو’ کے طور پر پیش کیا ہے، ان کے خاندان  نے  ہی فلم کے ڈائریکٹر کو لیگل نوٹس بھیج دیا ہے۔

فلم میں ڈائریکٹ ایکشن ڈے (اگست 1946) کے دوران ہندو محلوں کے مرکزی محافظ کے طور پر دکھائے گئے گوپال مکھرجی عرف ‘گوپال پاٹھا’ کے پوتے شانتنو مکھرجی نے اگنی ہوتری کو لیگل نوٹس بھیجا ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق، شانتنو کا کہنا ہے کہ ‘فلم میں ان کے دادا کو غیر انسانی انداز میں پیش کیا گیا ہے اور انہیں ولن کی طرح دکھایا گیا ہے۔ یہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے ایک اہم کردار کی توہین ہے۔’

اس فلم کا ٹریلر سنیچر کو آئی ٹی سی رائل بنگال میں لانچ کیا گیا۔ اس کے بعد اگنی ہوتری اور ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے درمیان زبانی جنگ چھڑ گئی۔ اگنی ہوتری نے بنگال حکومت پر ‘انتشار اور آمریت’ کا الزام لگایا۔ وہیں ٹی ایم سی نے کہا کہ ‘یہ فلم انتخابات کے لیے سیاسی منصوبہ بندی کے ایک حصے کے طور پر تیار کی گئی ہے۔’

گوپال پاٹھا کے خاندان کو کیا اعتراض ہے؟

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق، گوپال پاٹھا کا خاندان سیاست کا حصہ نہیں بننا چاہتا لیکن وہ اپنے اجداد کے بارے میں بہت واضح رائے رکھتے ہیں۔ شانتنو مکھرجی نے 14 جولائی کو فلم کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی، اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہ یہ فلم نہ صرف گوپال کے ‘قول وفعل’ کو بدنام کرتی ہے بلکہ ان کی نظریاتی وابستگی اور تاریخی جدوجہد کو بھی بدنام کیا جا رہاہے۔

شانتنو نے کہا، ‘فلم سے متعلق انٹرویو  سننے اور پری-ویو پڑھنے کے بعد مجھے شک تھا کہ میرے دادا کو کس طرح پیش کیا جائے گا۔ ٹریلر نے میرے شکوک کو درست ثابت کر دیا ہے۔’

خاندان کی طرف سے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ فلم میں کولکاتہ کے اس قدآور رہنما کو’شرپسند رہنما اور مسلم مخالف قصائی’ کی طرح دکھایا گیا ہے۔

شانتنو نے کہا ہے کہ ‘دادا  جی نے 1946 کے فسادات کے دوران ہمارے علاقے میں مسلم خاندانوں کی بھی حفاظت کی تھی۔’

سامنے والے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کی بہن نہاریکا نے مزید کہا؛

انہوں نے اس مسلمان خاندان کو ہماری چھت پر پناہ دی تھی۔ دادا جی  نے ایک رکشہ والے کے خاندان کو بھی بچایا تھا… ہم انہیں رفیق چاچا کہتے تھے۔ آج بھی اسلامیہ دوادُکان یا ملک بازار کی حاجی گوشت کی دکان کے مالکان ہمارے خاندان کا احترام کرتے ہیں۔

اس سال 16 اگست کو مالنگا لین میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کو 80 سال مکمل ہو ئے ہیں۔

شانتنو نے بتایا کہ 1946 کے فسادات سے پہلے مسلم لیگ کے رضاکار کولکاتہ کے مختلف حصوں میں جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔ 16 اگست کو شہید مینار پر جلسہ عام میں اعلان کیا گیا کہ ہندوستان کی آزادی سے پہلے لیگ کو پاکستان ملنا چاہیے۔ اس کے بعد ایسپلانیڈ (وسطی کلکتہ میں ایک جگہ) کے آس پاس اسلحے کی دکانوں میں لوٹ مار شروع ہو گئی۔ پھر قتل و غارت اور لوٹ مار ہوئی۔ یہ ‘ایکشن’ بعد میں نارکیل ڈانگہ اور کولوٹولہ تک پھیل گیا۔

شانتنو کو خدشہ ہے کہ فلم گوپال پاٹھا کے اپنے لوگوں کو دیے گئے پیغام کی نفی کرے گی؛’معصوموں کو مت مارو۔ بچوں اور عورتوں کی حفاظت کرو، چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان۔’

انھوں نے کہا، ‘فساد کی مخالفت کرنے کے لیے میرے دادا  جی نے اپنے حامیوں کو منظم کیا اور ہتھیار اٹھائے۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ اگر لیگی فسادی ایک شخص کو ماریں گے تو آپ دس کو مارو۔ لیکن کسی بے گناہ مسلمان کو نقصان نہیں ہونا چاہیے۔’

شانتنو نے مزید کہا، ‘فلم کے ٹریلر نے ایک جملے میں میرے دادا کی شخصیت کو محدود کر دیا ہے – ‘ایک تھا قصائی’۔ لیکن ہمارا ماننا ہے کہ گوپال پاٹھا صرف قصائی  نہیں تھے۔ وہ مجاہد آزادی اور سماجی کارکن بھی تھے۔’

شانتنو کا خیال ہے کہ فلمسازوں نے صحیح تحقیق نہیں کی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ‘مجھے لگتا ہے کہ فلم میں تحقیق ٹھیک طریقے سے نہیں کی گئی ہے اور اس سے میرے دادا کی ساکھ کو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچے گا۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ گوپال پاٹھا ‘مہاتما گاندھی اور نیتا جی دونوں کے پیروکار تھے۔’

شانتنو نے ٹریلر کے اس حصے پر بھی اعتراض کیا جہاں اداکار سورو داس (جو گوپال پاٹھا کا کردار ادا کررہے ہیں) کہتے نظر آتے ہیں: ‘ہندوستان ہندوؤں کا ملک  ہے… ہندو یہ جنگ ہار رہے ہیں… جیت کون رہا ہے؟ جناح… ہم سب نشے میں  چور ہیں اور اس نشے کا نام  ہےگاندھی کا عدم تشدد ۔’

شانتنو نے کہا؛

میرے دادا جی نے گاندھی جی کے پیروکار کے طور پر شروعات کی۔ پھر نیتا جی کی طرح انہوں نے محسوس کیا کہ مسلح جدوجہد ضروری ہے۔ انہیں مسلمانوں اور گاندھی کے دشمن کے طور پر پیش کرنا سراسر غلط ہے۔ ٹریلر میں گوپال پاٹھا کو بھگوا جھنڈوں کے درمیان تلوار کے ساتھ دوڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ سراسر غلط ہے۔

شانتنو کی بڑی بہن نیتا کا کہنا ہے کہ گوپال مکھرجی نے 1935 میں پریم چند بورال اسٹریٹ پر اپنی گوشت کی دکان کھولی تھی۔ یہ دکان 2015 میں بند ہو گئی ۔ تاہم اس خاندان کے پاس اب بھی جادوبابور مارکیٹ میں ایک اور گوشت کی دکان ہے۔

شانتنو نے کہا، ‘میرے دادا ڈائریکٹ ایکشن ڈے سے پہلے اور بعد میں بھی مسلمان تاجروں سے بکرے خریدتے تھے۔’

گوپال مکھرجی کا انتقال 2005 میں 92 سال کی عمر میں ہوا۔

شانتنو نے پولیس شکایت اور قانونی نوٹس میں لکھا، ‘وویک اگنی ہوتری کی یہ گھنونی حرکتیں جان بوجھ کر، غیر ضروری اور بدنیتی سے میرے دادا کی ساکھ کو داغدار کر رہی ہیں۔ انہیں فرقہ پرست غنڈے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ میرے دادا کے تاریخی کاموں کو مسخ کرکے فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی نیت سے کیا جا رہا ہے۔’

Next Article

’ووٹ چوری‘: وہ سات سوال جن کے جواب الیکشن کمیشن کی پریس کانفرنس میں نہیں ملے

الیکشن کمیشن نے بہار میں ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کے تنازعہ اور ‘ووٹ چوری’ کے الزامات کی وضاحت  پیش کی، لیکن اہم سوالوں کا جواب نہیں دیا۔ راہل گاندھی سے حلف نامہ طلب کیا گیا، جبکہ بی جے پی ایم پی  انوراگ ٹھاکر پر خاموشی اختیار کی گئی۔ غیر ملکی تارکین وطن، دستاویزوں اور ووٹر لسٹ میں بے ضابطگیوں پر کوئی واضح جواب نہیں دیا گیا۔

چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار 17 اگست 2025 کو دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران۔ (تصویر: پی ٹی آئی/اتل یادو)

نئی دہلی: اپوزیشن پارٹیوں کی تنقید  کے درمیان ، جہاں ‘ووٹ چوری’ کے الزامات عائد کیے گئے ہیں اور بہار میں ووٹر لسٹ کی متنازعہ اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر) مشق جاری ہے، جس میں ڈرافٹ لسٹ سے 65 لاکھ ووٹروں کے نام ہٹا دیے گئے ہیں، چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار نے اتوار (17 اگست) کو اپنی پہلی پریس کانفرنس کی۔

ایک گھنٹے سے زیادہ جاری رہنے والی اس پریس کانفرنس میں کمار نے یہ واضح نہیں کیا کہ الیکشن کمیشن نے کرناٹک کی مہادیو پورہ اسمبلی سیٹ سے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں ایک لاکھ سے زیادہ ووٹوں کی چوری کے الزام پر کانگریس کے رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی سے حلف نامہ کیوں طلب کیا ہے، اور بی جے پی ایم پی  انوراگ ٹھاکر سے ایسا کوئی حلف نامہ کیوں نہیں مانگا گیا ہے۔

غور طلب ہے کہ انوراگ ٹھاکر نے بھی رائے بریلی، وایناڈ، ڈائمنڈ ہاربر اور قنوج میں ووٹر لسٹ میں بے ضابطگیوں کا الزام لگایا تھا اور راہل گاندھی، پرینکا گاندھی واڈرا، ابھیشیک بنرجی اور اکھلیش یادو سے لوک سبھا رکن پارلیامنٹ کے عہدے سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

کمار نے اس سوال کا بھی جواب نہیں دیا کہ بہار میں کتنے فارم مطلوبہ دستاویزوں کے ساتھ جمع کرائے گئے ہیں اور ایس آئی آرکے دوران کتنے غیر قانونی تارکین وطن پائے گئے۔ انہوں نے اس الزام پر بھی کچھ نہیں کہا کہ یہ پوری مشق ریاست میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کو لاگو کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اسمبلی انتخابات سے عین قبل ایس آئی آر کیوں کرایا جا رہا ہے، اور وہ بھی سیلاب کے موسم میں، کمار نے جواب دیا کہ یہ  عمل جولائی 2003 میں بھی کیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ اس وقت اسمبلی انتخابات اکتوبر 2005 تک منعقد ہونے والے نہیں تھے۔

کمار کی پریس کانفرنس بیان بازی سے بھری ہوئی تھی۔ انہوں نے ووٹر لسٹ میں گھر کے نمبر کے سامنے ‘صفر’ لکھے جانے کے بارے میں اٹھائے گئے سوال کو غریبوں کے ساتھ ‘مذاق’ قرار دیا۔ یہی نہیں، کمار نے دعویٰ کیا کہ فہرست میں ایک ووٹر کا نام کئی بار آنا ‘ووٹ چوری’ کا ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ اس شخص نے ایک سے زیادہ مرتبہ ووٹ دیا ہے۔

یہاں تک کہ انہوں نے لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی کو الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ وہ سات دن کے اندر حلف نامہ داخل کریں یا پوری قوم سے معافی مانگیں۔

الیکشن کمشنر کی پریس کانفرنس کے سات نکات یہ ہیں جنہیں کسی بھی سوال کے جواب کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا؛

راہل گاندھی سے حلف نامہ مانگا گیا ، لیکن بی جے پی سے نہیں

گیانیش کمار نے اپنی پریس کانفرنس کے آغاز میں کہا کہ الیکشن کمیشن کے لیے کوئی ‘حکمران پارٹی یا اپوزیشن’ نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا، ‘الیکشن کمیشن کے لیے نہ تو کوئی حکمران جماعت ہے اور نہ ہی اپوزیشن؛ سب برابر ہیں. سیاسی جماعت کوئی بھی ہو، الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔’

لیکن پریس کانفرنس میں کمار نے گاندھی کے الزامات کو ‘بے بنیاد’ قرار دیا اور حلف نامہ کا مطالبہ کیا۔

کمار نے کہا؛

اگر کسی ووٹر کے حوالے سے شکایت موصول ہوتی ہے تو الیکشن کمیشن اس کی تحقیقات کرتا ہے۔ لیکن اگر یہ الزام ڈیڑھ لاکھ ووٹروں کے خلاف ہے تو کیا ہمیں بغیر کسی ثبوت یا حلف نامے کے ڈیڑھ لاکھ ووٹروں کو نوٹس بھیجنا چاہیے؟ کیا یہ قانونی ہوگا؟ نہ کوئی ثبوت ہے نہ حلف نامہ۔ کیا ہم ڈیڑھ لاکھ ووٹروں کو ایس ڈی ایم (سب ڈویژنل مجسٹریٹ) کے دفتر میں بلا کر کہیں کہ آپ نقلی ووٹر ہیں؟ کیا ووٹر ثبوت نہیں مانگیں گے؟ بغیر کسی ثبوت کے، حقیقی ووٹرز کے نام حذف نہیں کیے جائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا؛

الیکشن کمیشن ہر ووٹر کے ساتھ ڈھال کی طرح کھڑا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ غلط تجزیہ اور حقائق کے ساتھ پی پی ٹی دکھا کر اور یہ کہہ کر کہ ‘اس خاتون نے دو بار ووٹ ڈالا ہے’ ، الیکشن کمیشن فوری ایکشن لے گا- تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ بغیر حلف نامے کے اتنے سنگین معاملے میں کارروائی کرنا قانون اور آئین دونوں کے خلاف ہو گا۔

سات اگست کو اپنی پریس کانفرنس میں گاندھی نے الزام لگایا تھا کہ بی جے پی اور الیکشن کمیشن کے درمیان ‘ملی بھگت’ ہے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کی ووٹر لسٹ دکھائی اور دعویٰ کیا کہ مہادیو پورہ میں ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ چوری ہوئے ہیں۔

صحافیوں نے کمار سے سوال کیا کہ جب بی جے پی ایم پی انوراگ ٹھاکر نے بھی لوک سبھا کے ممبران پارلیامنٹ راہول گاندھی (رائے بریلی)، پرینکا گاندھی واڈرا (وائناڈ)، اکھلیش یادو (کنوج) اور ابھیشیک بنرجی (ڈائمنڈ ہاربر) کے خلاف ووٹر لسٹ میں بے ضابطگیوں کے الزامات لگائے تھے، تو پھر کمیشن ان سے  حلف نامہ کیوں طلب نہیں کر رہا ہے؟

لیکن کمار نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا کہ بی جے پی رکن پارلیامنٹ سے حلف نامہ کیوں نہیں مانگا جا رہا۔

قاعدہ 20(3)(بی) کا ترجیحی استعمال

راہل گاندھی سے ان کا نام لیے بغیر حلف نامہ طلب کرتے ہوئےکمار نے رجسٹریشن آف الیکٹرز رولز، 1960 کے رول 20(3)(بی) پر زور دیا۔

انہوں نے کہا؛

اگر آپ اس انتخابی حلقے کے ووٹر ہیں، تو آپ فارم 6، 7 اور 8 کو پُر کر سکتے ہیں اور انہیں مقررہ وقت کی حد کے اندر بوتھ لیول افسران کے پاس جمع کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ اس حلقے کے ووٹر نہیں ہیں، تو آپ کے پاس قانون کے تحت صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے رول 20(3)(بی)۔

کمار نے مزید کہا؛

اس میں لکھا ہے کہ اگر آپ اس انتخابی حلقے کے ووٹر نہیں ہیں تو آپ بطور گواہ شکایت درج کرا سکتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو الیکشن رجسٹریشن آفیسر کے سامنے حلف اٹھانا ہوگا اور یہ حلف اسی شخص کی موجودگی میں لیا جائے گا جس کے خلاف آپ نے شکایت کی ہے۔

دی وائر نے پہلے رپورٹ کیا تھا کہ رول 20(3)(بی)صرف اس وقت لاگو ہوتا ہے جب الیکشن کمیشن کی طرف سے ایک ڈرافٹ ووٹر لسٹ کو نظر ثانی کی مشق کے بعد تیار کیا جاتا ہے اور اس کے بعد دعوے اور اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔

ماہرین نے کہا کہ گاندھی کے الزامات کا تعلق مہادیو پورہ لوک سبھا حلقہ کے 2024 کے انتخابات سے ہے اور انتخابات ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لہٰذا، کیس رول 20(3)(بی) کے دائرہ کار میں نہیں آتا ہے۔

کمار نے یہ وضاحت نہیں کی کہ رول 20(3)(بی) کا اطلاق صرف ان دعوؤں اور اعتراضات پر ہوتا ہے جو مسودہ ووٹر لسٹ تیار ہونے کے بعد اٹھائے جاتے ہیں۔ اس کے بجائے، گاندھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ اگر غلطیوں کو 45 دنوں کے اندر نہیں اٹھایا جاتا ہے، تو یہ ‘عوام کو گمراہ کرنے’ کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا؛

اگر آپ 45 دن کی مقررہ مدت میں ووٹر لسٹ میں غلطیوں پر اعتراض نہیں کرتے اور پھر ‘ووٹ چوری’ جیسے غلط الفاظ استعمال کرتے ہیں تو کیا یہ عوام کو گمراہ  کرنا نہیں ہے؟ یہ ہندوستان کے آئین کی توہین کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اگر یہ نہیں ہے تو اور کیا ہے؟

کمار نے مزید کہا؛

یا تو حلف نامہ دیجیے یا ملک سے معافی مانگ لیجیے۔ کوئی تیسرا آپشن نہیں ہے۔ اگر ہمیں سات دن کے اندر حلف نامہ نہیں ملتا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں اور جو شخص یہ کہہ رہا ہے کہ ‘ہمارے ووٹر فرضی ہیں’ اسے ملک سے معافی مانگنی چاہیے۔

ایس آئی آر کا عمل جولائی 2003 میں ہوا تھا، لیکن  یہ نہیں بتایا کہ اس سال الیکشن ہی نہیں تھے

کمار سے بہار میں ایس آئی آر کے وقت کے بارے میں سوال کیا گیا تھا – یہ انتخابات سے ٹھیک پہلے کیوں کیا جا رہا ہے اور ایسے وقت میں جب ریاست مانسون کے سیلاب کا شکار ہے۔

اس پر کمار نے کہا کہ جب یہ مشق 2003 میں ہوئی تھی تو جولائی میں ہی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا؛

سوال آیا ہے کہ جولائی میں کیوں کیا جا رہا ہے جبکہ موسم ٹھیک نہیں  رہتا۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جب 2003 میں بہار میں ایس آئی آر کیا گیا تھا، تو یہ 14 جولائی سے 14 اگست کے درمیان کیا گیا تھا۔ تب بھی یہ کامیابی سے ہوا اور اب بھی تمام فارم جمع  کر لیے گئےہیں۔

تاہم، انہوں نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ 2003 میں بہار میں اسمبلی انتخابات ہونے  ہی نہیں تھے۔

مارچ 2000 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ اور جے ڈی یو لیڈر نتیش کمار نے اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ سے ایک دن پہلے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس کے بعد راشٹریہ جنتا دل کی رابڑی دیوی وزیر اعلیٰ بنیں۔ وہ 2005 کے اسمبلی انتخابات تک اس عہدے پر رہیں۔

دی وائر نے رپورٹ کیا ہے کہ 2003 کا ایس آئی ارآرڈر دستیاب نہیں ہے، اس لیے اس بات کی تصدیق نہیں کی جا سکتی کہ اس سال یہ عمل کب تک جاری رہا۔ لیکن یہ واضح ہے کہ ایس آئی ار کا عمل اسمبلی انتخابات (2005) کے مقررہ وقت سے پہلے ہی شروع کر دیا گیا تھا۔

کمار نے 2004 میں جاری کردہ تفصیلی نظرثانی کے حکم کے بارے میں بھی سوالوں کا جواب نہیں دیا۔ اس حکم میں الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ چونکہ اسی سال اروناچل پردیش اور مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، اس لیے نظر ثانی انتخابات کے بعد ہی کی جائے گی۔ دی وائر نے اس آرڈر کی ایک کاپی دیکھی ہے۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ قانون کے مطابق ہر الیکشن سے قبل نظرثانی کا عمل ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہار میں اس سال جنوری میں مختصر نظر ثانی کی گئی تھی، لیکن نومبر میں ہونے والے انتخابات کے لیے یہ کافی نہیں تھا۔ اسی لیے جولائی کوالیفائنگ  تاریخ مقرر کی گئی۔

غیر قانونی تارکین پر کوئی جواب نہیں

بہار میں 24 جون کو ایس آئی آر کا اعلان کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ یہ عمل کئی وجوہات کی بنا پر ضروری ہے، جن میں سے ایک ووٹر لسٹ میں ؛غیر قانونی غیر ملکی تارکین وطن’کا نام شامل ہونا ہے۔

الیکشن کمیشن نے پہلے کچھ میڈیا اداروں کو  ‘ذرائع’ کے توسط ست بتایا تھا کہ ووٹر لسٹ میں نیپال، میانمار اور بنگلہ دیش کے غیر قانونی تارکین وطن پائے گئے، لیکن ان کی تعداد ظاہر نہیں کی گئی۔

پریس کانفرنس میں جب ان غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد کے بارے میں پوچھا گیا تو کمار نے کوئی اعداد و شمار نہیں بتائے۔ انہوں نے کہا؛

میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے آئین کے مطابق، صرف ہندوستانی شہریوں کو لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں ووٹ دینے کا حق ہے۔ دوسرے ممالک کے لوگوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ اگر ایسے لوگ نامزدگی فارم بھرتے ہیں، تو ایس آئی آر کے عمل کے دوران انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے کچھ دستاویز جمع کروانے ہوں گے، جن کی تصدیق 30 ستمبر تک ہو جائے گی۔ جو لوگ ہندوستانی شہری نہیں ہیں، ان کا پتہ چل جائے گا اور انہیں ووٹر کے طور پر شامل نہیں کیا جائے گا۔

کمار نے اس سوال کا بھی جواب نہیں دیا کہ کیا یہ ایس آئی آر عمل درحقیقت نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کو لاگو کرنے کی سمت ایک قدم ہے۔

مطلوبہ دستاویزوں کے ساتھ کتنے فارم موصول ہوئے؟

الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ جب 25 جولائی کو ایس آئی آر کے عمل کے دوران فارم جمع کرانے کا مرحلہ مکمل ہوا تھا،  تب ووٹروں سے 99.8 فیصد فارم جمع ہو چکے تھے۔

لیکن اس پورے عمل میں سب سے بڑا تنازعہ یہ ہے کہ کمیشن نے ووٹروں کی اہلیت ثابت کرنے کے لیے 11 دستاویزوں کی فہرست طے کی تھی۔ فارم کو ان دستاویزوں میں سے کسی ایک کے ساتھ جمع کرنا تھا۔ کمار نے اس بارے میں کوئی واضح جواب نہیں دیا کہ مطلوبہ دستاویزوں کے ساتھ کتنے فارم جمع کرائے گئے ہیں، یا اب یہ فرق کیوں کیا جا رہا ہے کہ بوتھ لیول افسران کے ذریعہ کن ووٹروں کی ‘سفارش’ کی گئی تھی اور کن کی ‘سفارش نہیں کی گئی’۔

کمار نے کہا؛

بہار میں جاری ایس آئی آر کے عمل کے دوران کتنے لوگوں نے دستاویز جمع کرائے ہیں، کتنے کی سفارش کی گئی ہے اور ہر بوتھ سطح کے افسر نے کیا سفارش کی ہے، اس کے اعداد و شمار جمع کرنے کا عمل ابھی جاری ہے۔ الیکشن کمیشن ملٹی لیول فریم ورک پر کام کر رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ‘پہلے بوتھ لیول آفیسر، پھر بوتھ لیول سپروائزر، پھر ایس ڈی ایم، پھر ڈی ایم اور آخر میں چیف الیکٹورل آفیسر۔ نہ تو الیکشن کمیشن اور نہ ہی کوئی اور قانونی عمل کے بغیر ووٹ جوڑسکتا ہے۔ آپ کو سمجھنا ہوگا کہ اس ڈی سینٹرلائز ڈھانچے کے تحت کتنے دستاویز لیے گئے ہیں یا نہیں، یہ اب بھی ایس ڈی ایم کی سطح پر جاری ہے۔ یہ معلومات سامنے آئیں گی۔ ابھی کچھ کہنا درست نہیں ہوگا۔’

مکان نمبر ‘زیرو

ایسی خبریں آئی ہیں کہ بہار کی ووٹر لسٹ میں بہت سے ووٹروں کے گھر کا نمبر ‘0’ (صفر) درج ہے۔ اس پر کمار نے کہا کہ اس طرح کے اندراجات پر سوال اٹھانا غریب ووٹروں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا؛

بہت سے لوگوں کے پاس اپنا گھر نہیں ہوتا، لیکن ان کے نام ووٹر لسٹ میں درج ہوتے ہیں۔ پھر ان کا پتہ کیا دیا جاتا ہے؟ وہی جگہ جہاں وہ رات کو سوتے ہیں‘ کبھی سڑک کے کنارے، کبھی پل کے نیچے، کبھی بجلی کے کھمبے کے پاس۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ جعلی ووٹر ہیں تو یہ ہمارے غریب ووٹرز، بہنوں، بھائیوں اور بزرگوں کے ساتھ بہت بڑا مذاق ہے۔

کمار نے کہا کہ کروڑوں لوگوں کے پتے صفر لکھے جاتے ہیں کیونکہ ان کی پنچایت یا میونسپلٹی نے ان کے گھروں کو نمبر نہیں دیے ہیں۔ ایسے میں الیکشن کمیشن ان ووٹرز کو ایک خیالی نمبر دیتا ہے جو کمپیوٹر پر ‘0’ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔

انہوں نے واضح کیا، ‘اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ووٹر نہیں ہیں۔’

ووٹر لسٹ میں نام کے بار بار اندراج کا معاملہ

راہل گاندھی نے الزام لگایا تھا کہ کئی مقامات پر مختلف پولنگ بوتھ پر ایک ہی ووٹر کا نام درج ہے۔

اس پر کمار نے کہا کہ اگر کسی ووٹر کا نام ووٹر لسٹ میں کئی بار درج ہو تب بھی وہ صرف ایک بار ووٹ ڈال سکتا ہے۔

تاہم، انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ووٹر لسٹ میں ایک ووٹر کا نام بار بار کیوں درج کیا جا رہا ہے۔

گاندھی نے 7 اگست کو اپنی پریس کانفرنس میں کئی ایسی مثالیں دکھائی تھیں جہاں مختلف بوتھوں کی ووٹر لسٹوں میں ووٹروں کے نام بار بار پائے گئے۔

کمار نے کہا، ‘ایک ووٹر صرف ایک بار ووٹ دے سکتا ہے۔ اگر اس کا نام ووٹر لسٹ میں دو بار درج ہے تو یہ ووٹ چوری کیسے  ہے؟ یہ ممکن نہیں ہے۔ ہر ووٹر صرف ایک بار ووٹ دے سکتا ہے۔ اسی لیے ہم نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ڈیٹا کا غلط تجزیہ کیا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ووٹر لسٹ غلط ہے، اس لیے ووٹنگ بھی غلط ہوئی۔ لیکن ووٹر لسٹ اور ووٹنگ دونوں الگ چیزیں ہیں۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

بہار ایس آئی آر: الیکشن کمیشن کو آدھار تسلیم کرنے اور وجوہات کے ساتھ ہٹائے گئے ناموں کی فہرست جاری کرنے کی ہدایت

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ بہار ایس آئی آر کے ڈرافٹ ووٹر لسٹ سے خارج کیے گئے ناموں کو اپنی ویب سائٹ پر ہٹانے کی وجوہات کے ساتھ شائع کرے۔ نیز، اس عمل کے لیے تسلیم شدہ دستاویزوں میں آدھار کو شامل کرے۔

سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن کی جانب سے بہارایس آئی آرکے جاری عمل کی اپلوڈ کی گئی تصویر۔ فوٹو: الیکشن کمیشن

نئی دہلی: بہار میں ایس آئی آرپر جاری تنازعہ اور الیکشن کمیشن کے خلاف بے ضابطگیوں کے الزامات کے درمیان سپریم کورٹ نے کمیشن سے کہا ہے کہ وہ اپنی ویب سائٹ پر ایس آئی آر کے بعد شائع کردہ ڈرافٹ ووٹر لسٹ سے خارج کیے گئے ناموں کے ساتھ ساتھ ان کے ہٹانے کی وجوہات بھی شائع کرے۔

لائیولاءکے مطابق ، سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ کمیشن اس عمل کے لیے تسلیم شدہ دستاویزوں کی فہرست میں آدھار کو بھی شامل کرے۔

یہ  فیصلہ جمعرات (14 اگست) کو جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جوائے مالیہ باگچی کی بنچ نے تمام فریقین کی طویل سماعت کے بعد سنایا۔

عدالت نے کہا کہ تقریباً 65 لاکھ ایسے ووٹرز کی فہرست، جن کے نام 2025 کی ووٹر لسٹ میں ہیں، لیکن ڈرافٹ لسٹ میں شامل نہیں ہیں، کو ضلعی انتخابی افسران (ضلع وار) کی ویب سائٹ پر شائع کیا جائے۔ یہ معلومات بوتھ وار ہو گی، جسے ووٹر کے ای پی آئی سی نمبر سے دیکھا جا سکے گا۔

بنچ نے واضح کیا کہ ووٹرز کو آگاہ کرنے کے لیے اس فہرست میں نام شامل نہ کرنے کی وجہ بھی بتائی جائے۔

وسیع پیمانے پر تشہیر کی جائے

اس کے ساتھ ہی عدالت نے الیکشن کمیشن سے کہا کہ وہ اس فہرست کی اشاعت کے بارے میں بہار کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اخبارات کے ذریعے وسیع پیمانے پر مطلع کرے۔ اس کے علاوہ اس فہرست کو دوردرشن اور ریڈیو چینلوں پر بھی نشر کیا جانا چاہیے۔ اگر کسی ڈسٹرکٹ الیکشن آفیسر کا سوشل میڈیا پیج ہے تو وہاں بھی پبلک نوٹس لگایا جائے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ عوامی نوٹس میں یہ واضح طور پر لکھا ہونا چاہیے کہ متاثرہ شخص اپنے دعوے کے ساتھ آدھار کارڈ کی کاپی بھی جمع کر سکتے ہیں۔

عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ ہر بوتھ لیول آفیسر کو پنچایت دفتر میں نوٹس بورڈ پر بوتھ وار لسٹ چسپاں کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ ناموں کو حذف کرنے کی وجوہات بھی بتائی جائیں، تاکہ عام لوگ اسے دیکھ سکیں۔

سماعت کے دوران جسٹس باگچی نے کہا، ‘آپ ویب سائٹ پر مردہ، ٹرانسفر یا ڈپلیکیٹ ووٹروں کے نام کیوں نہیں ڈال رہے ہیں؟ ہم آپ پر تنقید نہیں کر رہے لیکن شفافیت سے ووٹرز کا اعتماد بڑھے گا۔ آپ ایک اضافی قدم کیوں نہیں اٹھاتے اور وجوہات کے ساتھ اس فہرست کو ویب سائٹ پر کیوں نہیں لگا دیتے، تاکہ لوگ اصلاح کر سکیں؟’

اس سے قبل بدھ (13 اگست) کو سماعت کے دوران وکیل پرشانت بھوشن نے سوال اٹھایا تھا کہ ووٹر لسٹ میں ہیرا پھیری کا الزام لگاتے ہوئے راہل گاندھی کی پریس کانفرنس کے ایک دن بعد الیکشن کمیشن نے اپنی ویب سائٹ سے ڈرافٹ لسٹ کے سرچ ایبل ورژن کو کیوں ہٹا دیا۔

الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ میں نام شامل کرنے کے لیے 11 دستاویز طے کیے ہیں، جن میں برتھ سرٹیفکیٹ شامل ہے، لیکن آدھار کارڈ، ووٹر آئی ڈی یا راشن کارڈ  فہرست میں نہیں ہے۔

سپریم کورٹ نے سماعت کے ابتدائی دنوں میں ان دستاویزوں کو قبول کرنے کا مشورہ دیا تھا، لیکن کمیشن نے ایک  جوابی حلف نامہ داخل کرکے اپنے موقف پر قائم رہنے کی بات کہی تھی۔

Next Article

تخلیقی سرگزشت: ’مجھے آج کے ہندوستان میں جرمنی کا ماضی نظر آتا ہے‘

سیاست کی پیدا کی گئی خلیج ایک بھیانک مستقبل کا اشارہ ہے۔ اس صورتحال کا سبب ہندوتوا کی سیاست ہے۔ افسوس ہے کہ  مجھے آج کے ہندوستان میں جرمنی کا ماضی نظر آتا ہے ۔ میں اور میرے عہد کی تخلیقی سرگزشت کی اس قسط میں پڑھیےمعروف فکشن نویس رحمٰن عباس کو۔

پہلے ناول پر میں جیل گیا، ’روحزن‘ مجھے تین بار یورپ لے گیا۔

آٹھویں  جماعت سے ہی میں ادبی تقاریب میں شامل ہوتا رہا ہوں،کئی اہم ادیبوں سے قربت رہی ہے۔ گزشتہ 30-35 برسوں پر محیط سرگزشت کے کئی پڑاؤ ہیں اور  ان میں کئی دلچسپ یادیں بھی ہیں۔ اس کا احاطہ بہرحال ایک کتاب کا متقاضی ہے۔

ابتدائی دنوں میں میرا جھکاؤ جدیدیت کی طرف تھا، پھر جدیدیت کی فکشن تعبیر کا میں نے انکار کیا۔اگر اسی موضوع پر لکھنا چاہوں توشمس الرحمٰن فاروقی، وارث علوی، گوپی چند نارنگ اور شمیم حنفی سے خط و کتابت اور پھر ملاقتوں  کا تذکرہ ناگزیر ہوجائے گا۔

ان ناقدین سے میرا گہرا ربط رہاہے۔ ان کے نظریا ت، اردو فکشن پر اس کے اثرات اور ادیبوں کے  مابین  جدیدیت اور ترقی پسندی کے سبب ہوئے تنازعات پر میری ان سے اور دوسرے اہم ادیبوں سے گفت و شنید بھی ایک الگ قصہ ہے۔

مختصر یہ کہ میں نے ان ناقدین کی عداوتیں  دیکھی ہیں اور محبتیں بھی ۔بلاشبہ! یہ کمال لوگ  تھے۔

♦♦♦

کبھی بھوت ، جنات اور جادوگری کی دنیا، میری دنیا تھی

میں رتناگیری کے ایک گاؤں شرنگار تلی میں1974 میں پیدا ہوا۔ بمبئی میں تعلیم وتربیت ہوئی۔

پانچویں جماعت سے ہی میں کہانیاں پڑھنے لگا تھا۔ اسکول کے قریب ایک اسٹال لگتا تھا، جہاں بھوت، جنات ، جادوگری، اوردیومالائی و مافوق الفطرت کرداروں پر مبنی کتابیں ملتی تھیں۔ میں جیب خرچ سے پیسے بچا کر یہ کتابیں خریدتا اور پڑھتا تھا۔

یوں  بھوت ، جنات اور جادوگری  کی دنیا، میری دنیا تھی، اور میرے خواب بھی اسی دنیا سے مستعار تھے۔

مرول اردو ہائی اسکو ل سے میں نے دسویں  کا امتحان پاس کیا۔ پرنسپل معروف شاعر یعقوب راہی تھے ۔ ڈرامہ نگار اقبال نیازی اور رسالہ’تکمیل ‘ کے مدیر و افسانہ نگارمظہر سلیم استاد تھے۔

اقبال نیازی اکثر مجھے لائبریری سے کتابیں پڑھنے کو دیا کرتے تھے۔ نویں جماعت میں خالص ادب سے متعلق کتابیں میں نے اقبال نیازی کی شفقت کے سبب ہی پڑھیں۔

اس طرح  میں پریم چند، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر اور راجندرسنگھ بیدی وغیرہ سے واقف ہوا۔ گیارہویں اور بارہویں جماعت میں ان ادیبوں کا دلجمعی سے مطالعہ کیا۔ اس وقت میں اسماعیل یوسف کالج میں پڑھتا تھا، جہاں محقق میمونہ دلوی صدر شعبہ اردو تھیں۔

ادب کا ذوق پروان چڑھنے لگا اور میں نے گریجویشن کے لیے مہاراشٹر کالج میں داخلہ لیا۔ اس کا سبب رفیعہ شبنم عابدی کی پرکشش شخصیت بھی تھی۔ اخباروں میں ان کی تخلیقات پڑھ چکا تھا۔ کالج میں رفیعہ شبنم عابدی کے علاوہ پروفیسر الیاس شوقی اور پروفیسر انور ظہیر میرے استاد تھے۔

میں اب فکشن کے ساتھ تنقید اور شاعری بھی پڑھنے لگا تھا۔ عبیداعظم اعظمی، سرور حسین سرور، سہیل اختر وارثی، عرفی عنایت اور دوسرے احباب سے دوستی ہوئی۔ یوں ادب پر گفتگو کا دائرہ بڑھنے لگا۔

ہم مکتبہ جامعہ میں بیٹھنے لگے اور شہر کے معروف شعرا اور ادیبوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔

علی سردار جعفری، مجروح سلطانپوری، یوسف ناظم، باقر مہدی،ندا فاضلی، اخترالایمان، سریندرپرکاش، عبدالاحد ساز، عبداللہ کمال، عزیز قیسی، سلام بن رزاق، انور خان، ساجد رشید، علی امام نقوی، انورقمر، حفیظ آتش ،مشتاق مومن، مقدر حمید، م ناگ، ساگر سرحدی، اسلم پرویز، عنایت اختراور دوسرے کئی لکھنے والوں سے ملنے اور گفتگو کرنے کا موقع ملا، پھر ان میں سے کئی زندگی بھر کے لیے دوست بن گئے۔

’ایکا دِشے چا شودھ‘ کا مراٹھی سے اردو میں ترجمہ

مجھے یاد ہے کہ رفیعہ شبنم عابدی کے  شعری مجموعے پر ایک ادبی تقریب سردار جعفری کی صدارت میں منعقد ہوئی تھی۔ مجروح سلطانپوری اور یوسف ناظم مہمانان تھے۔ شہر کا علمی اور ادبی حلقہ موجود تھا۔یہاں میں نے ایک مختصرسا مضمون پڑھا تھا۔ سردار جعفری نے اس کی تعریف کی تھی ، ادب میں یہی میرا  پہلا انعام تھا۔

انہی دنوں قرۃ العین حیدر بمبئی آئی ہوئی تھیں۔ ان سے  بھی ملاقات اور مختصر سی بات چیت میری یادوں کا سرمایہ ہے۔

بمبئی یونیورسٹی میں ایم اے کے دوران معین الدین جینابڑے ، عبدالستار دلوی اور رفیعہ شبنم عابدی کی خصوصی توجہ ملی۔ اب  میں جدیدیت کا پرستار اور رسالہ’ شب خون‘  کا قاری تھا ۔

شمس الرحمن فاروقی ، نیر مسعود، عرفان صدیقی، محمد علوی، شمیم حنفی وغیرہ سے خط وکتاب ہونے لگی ۔انہی دنوں میری اور قمر صدیقی (مدیر ،رسالہ اردو چینل) کی دوستی پروان چڑھی ۔ ہم دونوں میراجی، راشد، اخترالایمان، شکیب جلالی ، زیب غوری اور بانی کوپسندکرتے تھے۔

اس وقت میراجی کی کتابیں آسانی سے دسیتاب نہیں تھیں۔اس لیے ایک دن  یونیورسٹی کی لائبریری سے قمر صدیقی اور میں نے میراجی کی نظموں کا مجموعہ بھی چرایا۔

یونیورسٹی کیفے ٹیریا ہمارااڈہ بن گیا ۔ سارا سارا دن ہم یہاں بیٹھے رہتے۔ بیانیہ کہانیاں لکھنے والوں اور روایاتی شاعری کرنے والوں کی غیبت سے محفل کی رونق قائم رہتی تھی۔

ایک دن شہر میں گجرات سے محمد علوی تشریف فرما تھے۔ میں نے انھیں یونیورسٹی کیفےمیں مدعو کیا۔ وہ ندا فاضلی کے ساتھ آئے۔ کیفے ٹیریا میں بات چیت شروع ہوئی۔ کسی نےجا کر ڈپارٹمنٹ کے اساتذہ کو بتایا ، فوراً بلاوا آیا اور ڈپارٹمنٹ کے اصرار پر یہ محفل صدرشعبہ اردو کے کشادہ کمرے میں ہوئی۔ شہر کے کئی اہم شعرا بھی شامل ہوئے۔

سید محمد اشرف اور رحمٰن عباس

سید محمد اشرف ان دنوں بمبئی میں تھے ۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’ڈار سے بچھڑے‘ میں پڑھ چکا تھا۔ میں نے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ سید محمد اشرف نے ہم طلبہ کی مدد بھی کی ۔ اس تقریب میں اقبال نیازی نے سید محمد اشرف کے افسانے’کعبے کا ہرن‘ کو اسٹیج کیا۔ یہ ایک شاندار تقریب تھی۔

♦♦♦

’ شب خون  میں اپنی کہانی دیکھ کر خوشی ہوئی

 ایم اے کا امتحان دیتے ہی میں ملازمت کے لیے بحرین چلا گیا۔ میں محمد جلال اینڈ کمپنی میں کیشیئر تھا ۔ ہماری کمپنی امریکی فوج کو فوڈ سپلائی کرتی تھی۔

 گیارہویں اور بارہویں جماعت میں عربی پڑھ چکا تھا۔ جلدی ہی میں نے مقامی عربی کسی حد تک سیکھ لی اور بحرین کے عربی ادیبوں سے ملنے لگا۔ قاسم حداد سے بھی ملاقاتیں رہیں۔

ایک بار نامور عربی شاعر ادونیس سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان کے دو شعری مجموعے میرے پاس تھے۔ ان پر آٹوگراف لیا۔ میرے ملنے والوں میں کئی شیعہ شاعر تھے۔ مجھے بحرین میں جاری شیعہ سنی کشمکش کا علم نہیں تھا۔ ایک دن دفتر نے وارننگ دی کہ اگر میں ان شعرا سے ملتا رہا تو مجھے نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔

 شمس الرحمن فاروقی صاحب سے قربت بڑھ گئی تھی۔ وہ ’شب خون‘ بھیجتے تھے اور خط میں کیا پڑھنا چاہیے؟ اس بابت مشورے دیا کرتے تھے۔ میں نے ان کے لیے عراق کے معروف جدید شاعر بدرشاکر السیاب کی ایک نظم ترجمہ کی۔ انھوں نے شائع کی اور مشورہ دیا میں عربی سے ترجمے پر توجہ دوں۔

اب میں اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ناول پڑھنے لگا تھا۔ میں نے گارسیا مارکیز، فلابیئر، کافکا، کنڈیرا، وکٹر ہیوگو، ایملی زولا، کامیو، سارتر، بالزاک، نجیب محفوظ، یوسف ادریس وغیرہ کو پڑھا۔ ایک کہانی لکھی’گابو کی بکری اور غارِ عدم‘ اور نیر مسعود کو ارسال کی۔

انھوں نے پڑھ کر فاروقی صاحب کو بھیجی۔ تین ماہ بعد’ شب خون‘ آیا تو اپنی کہانی دیکھ کر میں خوش ہوا۔

اس کے بعد نیر مسعود نے ایک خط میں لکھا کہ ایسی پیچیدہ کہانی کے بعد سادہ کہانیاں لکھنا چاہیے۔ میں ان کا اشارہ سمجھ گیا تھا۔

میں نے ایک کہانی’ محبت کے خاتمے کی تمہید‘ لکھی۔ فاروقی صاحب نے یہ کہانی بھی شائع کی۔ قمرصدیقی خوش تھا۔

اب یہ زمانہ تھا کہ ہم لوگ بیانیہ ، موضوعاتی اور پلاٹ والی کہانیاں لکھنے والوں کو’ روایت پسند‘ کہنے لگے تھے۔ انھیں اہم ادیب نہیں مانتے تھے۔

عبید اعظم کسی کو پڑھتا نہیں تھا  اور مانتا بھی نہیں تھا۔ سہیل اختر کلاسیکی شاعری پڑھتا تھا اور معاصرفکشن نگاروں کا صرف مذاق اڑاتا تھا۔ مذاق تو خیر وہ ہم سب کا اڑاتا تھا۔

آصف فرخی سے بمبئی میں ایک ملاقات ہوئی تھی۔ بحرین سے ان سے بھی خط وکتابت جاری رہی۔ ان کے مشورے میرے بہت کام آئے۔اسی عرصے میں، میں نے ایک ناولٹ لکھا۔

نخلستان کی تلاش

میں چھٹیوں پر بمبئی آیا تو قمر صدیقی کے ساتھ شمالی ہند کا سفر کیا۔ مقصدشمس الرحمن فاروقی، نیر مسعوداور عرفان صدیقی سےملنا تھا۔ ان دنوں عذرا پروین شاعری میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ مجھے عزیز رکھتی تھیں۔ ان سے جب ملاقات ہوئی تو زبیر رضوی سے بھی ملاقات ہوئی۔

عذرا نے ایک طویل خط لکھا ہے، جو بیس پچیس صفحات پر پھیلا ہوا۔ان کے پاس احمد ہمیش، ساجد رشید اور فیاض رفعت کے علاوہ کئی لکھنے والوں کی دلچسپ کہانیاں ہیں۔ اس پر کبھی اور… شمالی ہند کے سفر میں نیر مسعود اور فاروقی صاحب سے ادب پر کافی باتیں ہوئی تھیں۔ میں اور قمر اپنے ان دونوں ہیرو سے مل کر بے حد مسرور تھے۔

♦♦♦

ادب کنواں نہیں، سمندر ہے

دو سال کا عرصہ میں نے صرف ناولوں کے مطالعے میں صرف کیا۔ مجھے افسانوں کی دنیا محدود لگنے لگی۔ گارسیا مارکیز نے مجھے متاثر کیا تھا ۔

میں نے بارہا غور کیا کہ کیا ادب اپنے سماج،اپنے ملک، اپنے کلچر، اپنے عہد، عہد کی سیاست، اور سیاسی نظام کی بربریت سے دور رہ سکتا ہے؟

کیا ادب محض تنہائی، وجود کی بے معنویت، مریضانہ کلبیت ، اذیت پسندی، اور زندگی کی اسفلیت کے اظہار سے مشروط ہے؟ میں کافی ڈسٹرب رہا۔

دل نے کہا ادب میں زندگی کی تمام سچائیوں، تلخ حقیقتوں، تمام باطنی اور خارجی عوامل ، مساعد و نامساعد حالات کو طلسماتی بیان اور حقیقت کی پیش کش کارگر اسلوب میں کرسکتا ہے۔

ادب محض بے ہیئت اظہار کا وسیلہ نہیں ہے۔ محض بیماریوں اور اذیت کا اظہار نہیں ہے ۔

ادب محبت اورباطن کے حسین نگارخانے کی زیارت بھی کرسکتا ہے اورمرد اور عورت کے رشتوں کی بوقلونی کو بھی پیش کر سکتا ہے۔

ادب کنواں نہیں، سمندر ہے۔ میرا فکشن کو دیکھنے کا نظریہ بدل رہا تھا۔

نئی صدی کے پہلے سال ملازمت چھوڑ کر بمبئی واپس آیا ۔ خلافت کالج میں بی ایڈ کی ڈگری کے لیے داخلہ لیا۔

اب میں محمد حسن عسکری ، وارث علوی، شمیم حنفی ، گوپی چند نارنگ، باقر مہدی اور دوسرے ناقدین کو بھی پڑھ رہا تھا۔

میں جو کسی زمانے میں’ افسانے کی حمایت‘ کو بغل میں لیے شہر میں پھرتا تھا اور بیانیہ کہانیاں لکھنے والوں سے بحث کیا کرتا تھا، اب وارث علوی کے مضامین میں ڈوب کر ابھررہا تھا۔

اس دنیا میں ادب وہی تھا جس کی طرف میں گارسیا مارکیز اور دوسرے ناول نگاروں کی تخلیقات پڑھ کر بہنے لگا تھا۔

وارث علوی کی کتاب ’اردو فکشن کا المیہ ‘ اب میری پسندیدہ کتاب تھی ۔ میں فکشن کو ایک پیمانے سے ناپنے کا منکر ہو گیا ۔

ڈگری حاصل کرنے کے بعد میں نے ایک سال چپلون اور ایک سال رتناگری میں پہلے کالج اور پھر اسکول میں ملازمت کی۔ 2003 میں انجمن اسلام (وی ٹی) میں جونیئر کالج میں لیکچر رکے طور پر میرا تقرر ہوا۔ اب میں ادب پڑھا رہا تھا۔

♦♦♦

میں نے جیل میں منٹو کو یاد کیا

ایک سال بعد میں نے اپنا ناول’نخلستان کی تلاش‘ شائع کیا۔ میرے ادبی سفر میں یہ اشاعت ،مصائب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔

ریاست کی قانون ساز اسمبلی میں چار سیاست دانوں نے ناول کے خلاف بیان دیا۔ ہوم منسٹری نے انکوائری کا حکم دیا۔ مجھے ملازمت سے استعفیٰ دینا پڑا۔ ناول پر فحاشی کا مقدمہ ہوا۔

مولانا صاحب اور ایک مسلم منسٹر سرگرم ہوئے، اردو اخباروں نے بہت زہر اگلا۔ایک صبح پانچ بجے پولیس کی دو گاڑیاں میری بلڈنگ کے کمپاؤنڈ میں تھیں۔میں دو روز ارتھر روڈ جیل میں رہا۔

رہائی کے وقت ساجد رشیدجیل کے اندر آئے اور جیل انتظامیہ سے کچھ بات کی، میری رہائی کا مرحلہ آسان ہوا۔ جب میں جیل سے باہر آیا میرے گھر والوں کے علاوہ نقاد اسلم پرویز اور کارٹونسٹ آصف خان باہر کھڑے  تھے۔

آج پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں اتنے معمولی ناول پر مقدمے کی کیا ضرور ت تھی؟

 اس کا نقصان بہت ہوا۔ اردو اخباروں نے ا تنا منفی رول ادا کیا  کہ میرے لیے کسی ادارے میں ملازمت حاصل کرنا دشوار ہو گیا۔

میں نے جیل میں منٹو کو یاد کیا تھا ، چند ماہ بعد ایک مضمون ’منٹو کی اذیت کا احساس‘ لکھا۔ یہ مضمون ریختہ پر دستیاب ہے۔

اب میں میرا روڈ میں رہتا تھا، جہاں سلام بن رزاق، علی امام نقوی، یعقوب راہی، شمیم عباس، م ناگ، وقار قادری اور سکندر مرزا سے ہفتے میں تین چار دن ملاقات ہونے لگی۔

ان ملاقاتوں میں بحث ادب اور بالخصوص فکشن پر ہوتی۔ انہی برسوں میری دوستی شموئل احمد، پیغام آفاقی، مشرف عالم ذوقی، حسین الحق، شافع قدوائی، اسرار گاندھی، شوکت حیات، شبیر احمد، نورالحسین اور دوسرے فکشن نگاروں سے ہوئی۔

انور قمر اس ناول سے پریشان تھے۔ وہ چاہتے تھے کوکنی کمیونٹی اس ناول پر مقدمہ کرے، ان کے خیال میں اس میں اردو کلچر اور کوکنی قوم کا مذاق اڑایا گیا  تھا

سال  2009 میں میرا دوسرا ناول ’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی ‘ شائع ہوا۔ اس ناول کا اجرا سلام بن رزاق کے ہاتھوں ہوا۔ ممبئی پریس کلب میں ساجد رشید، یعقوب راہی، مقدر حمید، اور وقار قادری نے نظامت کرتے ہوئے اظہارِ خیال کیا ۔

انور قمر اس ناول سے پریشان تھے۔ وہ چاہتے تھے کوکنی کمیونٹی اس ناول پر مقدمہ کرے، ان کے خیال میں اس میں اردو کلچر اور کوکنی قوم کا مذاق اڑایا گیا  تھا۔ ان کی خواہش اور ناول کی زیراکس  کاپیاں تقسیم کرنے کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔

ساجد رشید نے ناول پر گفتگو کرتے ہوئے اس طرف اشارہ کیا اور کہا تھا؛


’شہر میں ایک افسانہ نگار کے پیٹ میں یکایک داڑھی نکل آئی ہے۔‘


اس ناول کی اشاعت میں مشرف عالم ذوقی نے اہم رول ادا کیا، لیکن ناول کی پشت پر ذوقی نے کچھ زیادہ تعریف کر دی تھی۔ میرے بمبئی کے احباب اس فلیپ سے ناخوش تھے۔

♦♦♦

پہلے ناول پر جیل گیا، ’روحزن‘ مجھے تین بار یورپ لے گیا

میرا تیسرا ناول ’خدا کے سائے میں آنکھ مچولی ‘ 2011  میں شائع ہوا۔ اس ناول پر مجھے ریاست مہاراشٹر کی اردو اکاڈمی کا بہترین فکشن کی کتاب کا انعام ملا۔ جب ایوارڈ لینے پہنچا تو اسٹیج پر وہی منسٹر کھڑے تھے جو پہلے میرا خلاف سرگرم رہ چکے تھے۔ میں مسکرایا تو وہ بھی مسکرائے۔

اس ناول پر مجھے ریاست مہاراشٹر کی اردو اکاڈمی کا بہترین فکشن کی کتاب کا انعام ملا۔

اس ناول کے چار ایڈیشن عرشیہ پبلی کیشنز سے چھپ چکے ہیں اور اسی سال پاکستان میں’ کولاج پبلی کیشنز ‘نے ناول شائع کیا ہے۔ 2016 کے جشنِ ریختہ میں میرے چوتھے ناول ’روحزن‘ کا رسم اجرا ‘ ہوا۔ محموعلوی، آصف فرخی، محمد حمید شاہد، شمیم عباس، فرحت احساس اسٹیج پر تھے۔

2016 کے جشنِ ریختہ میں میرے چوتھے ناول ’روحزن‘ کا رسم اجرا ‘ ہوا۔

اس ناول نے ادبی سفر کی مشکلیں آسان کیں ، ادیبوں، قارئین اور ناقدین نے پسند کیا۔ اپنے پہلے ناول پر میں جیل گیا، ’روحزن‘ مجھے تین بار یورپ لے گیا۔ اب میں مطمئن تھا۔

ایک سال بعد جرمنی سے الموٹ دیگنیر Almuth Degenerنے ای میل کیا اورروحزن کے ترجمے کی اجازت طلب کی۔ دروپدی ورلاگ Draupadi Verlag نے ناول Die Stadt, Das Meer, Die Liebe  کے نام سے 2018 میں شائع کیا۔

سوئٹزر لینڈ میں لٹریچر ہاؤس(زیورخ) نے فروری 2018میں ’ہندوستانی ادب کے دن‘ کے تحت ایک تقریب منعقد کی تھی وہاں اس ناول پر گفتگو ہوئی۔ جون تا مارچ 2018 میں نے جرمنی کا ایک اور سفر کیا ۔

روحزن پر جرمنی کی کئی یونیورسٹیز اور ادبی انجمنوں نے پروگرام کیے جس میں الموٹ اور میں نے ناول سے ریڈنگ کی ، ناول پر گفتگو کی۔ روحزن کو جرمن زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے’ لٹ پروم گرانٹ‘ ملی تھی جو جرمن فارین آفس اور سوئس کلچرل فنڈ مشترکہ طور پر دنیا کی معیاری کتابوں کی یورپ میں اشاعت کے لیے دیتے ہیں۔

اپنے پہلے ناول پر میں جیل گیا، ’روحزن‘ مجھے تین بار یورپ لے گیا۔

ان خبروں کی اشاعت اردو اور نگریزی اخباروں میں ہوئی، 2018 میں جب ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ کا اعلان ہوا تو وہ روحزن کے نام تھا۔ بعدازاں ،پینگوئن انڈیا نے روحزن کے حقوق خریدے اور انگریز ی ایڈیشن مئی 2022 میں شائع ہوا۔

ہندی ایڈیشن2024 میں وانی پرکاشن نے شائع کیا ہے۔ مجھ پر سے فحش نگاری کا لیبل اب اتر چکا تھا ۔2024 میں پینگوئن انڈیا نے’ خدا کے سائے میں آنکھ مچولی ‘ کو On the Other Side کے نام سے شائع کیا۔ یہ ترجمہ معروف شاعر ریاض لطیف نے کیا ہے۔

اس طرح اب تک میری گیارہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں سات ناول ہیں۔ ان کے علاوہ میری ایک کتاب ’اکیسویں صدی میں اردو ناول اور دیگر مضامین ‘ ہے۔ ایک کتاب ’اکیسویں صدی کی دہلیز پر اہم اردو ناول‘ ساہتیہ اکیڈمی کے لیے مرتب کی ہے۔ ساجد رشید  پر ایک مونوگراف این سی پی یو ایل کے لیے لکھا ہے۔ ایک کتاب ’ایکا دِشے چا شودھ‘ کا مراٹھی سے اردو میں ترجمہ شریں دلوی کے ساتھ مل کر کیا ہے۔اس کے لیے علاوہ کچھ کتابیں میں نے دورانِ تدریس بچوں کے لیے لکھیں، جنھیں میں اپنے ادبی کام میں شامل نہیں کرتا۔

اب تک میری گیارہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں سات ناول ہیں۔

 اب میں کچھ اور سنجیدہ لکھنا چاہتا تھا۔

ہندوستان میں اقلیتوں کو درپیش خطرے بڑھ رہے تھے۔ ہندوتوا پھیل رہا تھا۔ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی تھی۔ماب لنچنگ کی اصطلاح عام ہو گئی تھی۔ میڈیا ہندوتوا کا ترجمان بن گیا تھا۔ میں نے’ زندیق‘ کا خاکہ تیار کیا، جسے یورپ کے ممتاز ادارے ’گراسنگ بارڈر ‘ نے ناول ریسرچ گرانٹ کے لیے منتخب کیا۔

میں نے 2019 میں جرمنی، پولینڈ، اسٹریا، چیک ریپبلیک اور فرانس کا سفر نازی ازم، فسطائیت اور نسل پرستی کو سمجھنے کے لیے کیا۔ ان ممالک میں تعمیر کنسنٹریشن کیمپوں میں گیا اور ہٹلر کے عروج ، نازمی ازم کے سیاسی ایجنڈے اور نسل پرستی کے مختلف مراحل پر یورپ کے لکھنے پڑھنے والوں سے تبادلہ خیال کیا۔

زندیق تقریباً 800 صفحات پر مشتمل ہے اور ڈسٹوپین ناول ہے۔ اس ناول کے ہندوستان میں تین ایڈیشن شائع ہوئے ہیں، پاکستان میں دوسرا ایڈیشن شائع ہو رہا ہے۔

ناول کو دو ریاستی اکاڈمی ایوارڈ مل چکے ہیں۔ معروف فکشن نقاد مقصود دانش نے ایک کتاب اس ناول پر لکھی ہے جس کا نام ہے، ’اردو ناول کی نئی دنیا: ز ندیق‘۔

گوپی چند نارنگ اپنی عمر کے آخری دنوں میں اس ناول کا مطالعہ کر رہے تھے۔ وہ امریکہ میں تھے۔اکثر مجھے ٹیکسٹ کرتے اور ناول کی تعریف کرتے۔

یوں دیکھا جائے توزندیق لکھنے کا ایک سبب ہندوستان کی سیاسی بساط کا تجزیہ کرنا بھی تھا۔ دراصل، میرا بچپن گنگا جمنی ثقافت کے سائے میں گزرا  ہے۔ میرے گھر ہندو دوستوں کا آنا جانا  روزانہ کا معمول تھا۔ میں بھی اپنے ہندو اور عیسائی دوستوں کے سبھی تہواروں میں شامل ہوتا تھا۔

زندیق لکھنے کا ایک سبب ہندوستان کی سیاسی بساط کا تجزیہ کرنا بھی تھا۔

اب یہاں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان سیاسی نظام نے الیکشن جیتنے کے لیے دوریاں پیدا کی ہیں۔ یہ دوریاں  بڑھتی جا رہی ہیں ۔اس دوری اور سیاست کی پیدا کی گئی خلیج ایک بھیانک مستقبل کا اشارہ ہے۔

اس صورتحال کا سبب ہندوتوا کی سیاست ہے۔ مسلم معاشرے کی بھی اپنی کمزوریاں ہیں۔ ناول ان کا احاطہ کرتا یے۔ زندیق میں  میں نے تفصیل سے جرمنی میں نازی ازم کے فروغ کا تجزیہ کیا۔

ناول کا ایک موضوع ہی جرمنی اور مغرب کا ماضی اور برِصغیر کی اقلیتوں کو درپیش خطرے ہیں۔ مجھے لگتا ہے آج کا برِصغیر جرمنی کے 1930 میں ہے جہاں نفرت کی سیاست غالب سیاسی روش تھی۔

آج کا ہندوستان بدنصیبی سے جرمنی کا ماضی لگ رہا ہے۔ فکشن میں ان خدشات کا اظہار کیا ہے لیکن پرامید ہوں۔نفرت کی سیاست کو ہماری شاندار تہذیب ایک دن ضرور شکست دے گی۔

♦♦♦

ادب کا ایک ہی معیار ہے اور وہ ہے وقت

 میرا چھٹا ناول ہے ’ ایک طرح کا پاگل پن‘ جسے ریختہ پبلی کیشنز نے 2023 میں شائع کیا ہے۔ پاکستان میں سٹی بک پوائنٹ کراچی نے اس ناول کو شائع کیا ہے۔ میرا تازہ ناول ،’نژداں‘ ہے۔ یہ ناول اسی سال ہندوستان اور پاکستان میں ایک ساتھ شائع ہوا ہے۔پاکستان میں عکس پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔

 ناول نگاری کا میرا یہ سفر جاری ہے۔ میں نے ترقی پسندی اور جدیدیت کی کشاکش سے ڈسٹرب ہو کر افسانے لکھنا ترک کر دیا تھا۔ اب کہیں جا کر میں نے تازہ افسانے لکھے ہیں۔ یہ مجموعہ ’بومنے اسٹوریز ‘ کے نام سے اس سال کے اختتام تک شائع ہوگا۔

دوستو! ترقی پسندی اور جدیدیت دونوں نے اردوکو بہت کچھ دیا ہے ۔ اب کافی وقت بیت چکا ہے۔ پرانے اختلاف میں وقت گنوا نا بے وقوفی ہے۔ ادب کا ایک ہی اصول ہے جو اچھا ہے بچ جاتا ہے۔ ادب کا ایک ہی معیار ہے اور وہ ہے وقت۔

چنانچہ ہمیں ترقی پسندوں اورجدیدیت پسندوں کی اچھائیوں اور خوبیوں سے سیکھنا چاہیے اور خرافات کو نظرانداز کر دینا چاہیے۔یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ فکشن اپنے ملک، اپنے سماج، اپنے کلچر، اپنے شہر ، اپنے ماضی ،اور آدمی کے باطن کا تخلیقی اظہار ہے۔

دوستو!  ہمیں چے خف کی طرح  جو ہے اس ’ہے‘ کو تخلیق میں بدلنے پر غور کر نا چاہیے۔ لیکن جو ہے، اسے کافکا، بورخیس، گارسیا مارکیز ، ساراماگو، کنڈیرا اور پاموک کی طرح بھی لکھا جاسکتا ہے، یہ یاد رکھنا ہے۔ اور نئی راہیں تلاش کرنا ہے۔

اس سیریز کے مضامین  پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔