
سپریم کورٹ نے منگل کو ‘دی وائر’ کے مالکانہ حق والے ٹرسٹ ‘فاؤنڈیشن فار انڈیپنڈنٹ جرنلزم’ کے ارکان اور بانی مدیر سدھارتھ وردراجن کو بی این ایس کی دفعہ 152 کے تحت آسام پولیس کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر کے سلسلے میں کسی بھی تعزیری کارروائی سے تحفظ فراہم کیا ہے۔

A picture of the Supreme Court of India put through a filter.
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے منگل (12 اگست) کو ‘دی وائر’ کے مالکانہ حق والے ٹرسٹ ‘فاؤنڈیشن فار انڈیپنڈنٹ جرنلزم’ کے ارکان اور ادارہ کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن کو بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس)کی دفعہ 152 کے تحت آسام پولیس کی طرف سے درج ایف آئی آر کے سلسلے میں کسی بھی تعزیری کارروائی سے تحفظ فراہم کیا ہے ۔
آسام میں موریگاؤں پولیس نے 11 جولائی کوایک مقامی بی جے پی رہنما کی شکایت پر نیوز ویب سائٹ ‘دی وائر’ پر 28 جون ، 2025 کو شائع ہوئی ایک رپورٹ ‘آئی اے ایف لوسٹ فائٹر جیٹز ٹو پاک بی کاز آف پالیٹکل لیڈرشپز کونسٹرینٹس’: انڈین ڈیفنس اتاشی‘ کے سلسلے میں ایف آئی آر درج کی تھی۔
اس رپورٹ میں انڈونیشیا میں ہندوستان کے دفاعی اتاشی کیپٹن (ہندوستانی بحریہ) شیو کمار کے ایک بیان کا حوالہ دیا گیا، تھا جس میں انہوں نے ایک سیمینار میں اعتراف کیا تھاکہ ‘ آپریشن سیندور’ کے دوران، ہندوستانی فضائیہ نے 7 مئی 2025 کی رات پاکستان اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (پی او کے) میں ‘دہشت گردوں کے ڈھانچوں’ کے خلاف فوجی حملوں میں اپنے لڑاکا طیارے کھو دیے تھے۔ اور ایسا صرف اس لیے ہوا کہ سیاسی قیادت یعنی حکومت نے فوج پر پاکستانی فوجی تنصیبات یا فضائی دفاع پر حملہ کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔
تاہم، اس خبر کو دوسرے ہندوستانی میڈیا اداروں نے بھی وسیع پیمانے پر رپورٹ کیا اور جکارتہ میں ہندوستانی سفارت خانے نے اسی شام ایک ‘وضاحت’ جاری کرتے ہوئے کہا کہ کیپٹن کمار کے تبصروں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا جا رہا ہے۔
اس کے بعد دی وائر نے فوری طور پر اپنی رپورٹ کو اپڈیٹ کیا اور سفارت خانے کے بیان کوبھی شامل کیا تھا۔
جسٹس سوریہ کانت اور جوائے مالیہ باگچی کی بنچ نے اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے فاؤنڈیشن اور وردراجن کی طرف سے دائر ایک رٹ پٹیشن پر عبوری فیصلہ سنایا ۔
معلوم ہو کہ سدھارتھ وردراجن نے دفعہ 152 بی این ایس کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے دلیل دی کہ یہ نوآبادیاتی دور کے سیڈیشن قانون کا ایک نیا ورژن ہے، جس کے استعمال پر سپریم کورٹ نے 2023 میں پابندی لگا دی تھی۔
تازہ معاملے میں عدالت نے کہا ، ‘درخواست گزار – فاؤنڈیشن کے اراکین اور درخواست گزار نمبر۔ 2، جن کے خلاف ایف آئی آر نمبر 181/2025 11.07.2025 کو پولیس اسٹیشن موریگاؤں، آسام میں بھارتیہ نیائے سنہتا، 2023 کی دفعہ 152، 197 (1) (ڈی) اور 353 (1) (بی) کے تحت درج کی گئی ہے، ضرورت پڑنے پر تفتیش میں شامل ہو سکتے ہیں۔ تاہم، ان کے خلاف کوئی تعزیری کارروائی نہیں کی جائے گی۔’
مرکزی حکومت اور آسام حکومت کو نوٹس جاری
اس سلسلے میں بنچ نے مرکزی حکومت اور حکومت آسام (جس کی نمائندگی سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے کی) کو بھی نوٹس جاری کیا۔ اس کے علاوہ، اس عرضی کو ایک اور عرضی کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے، جو فی الحال چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی بنچ کے سامنے ہے، جس میں دفعہ 152 کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھایا گیا ہے۔
دی وائر کی جانب سے عرضی گزاروں کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر وکیل نتیا رام کرشنن نے دلیل دی کہ متنازعہ بی این ایس کی دفعہ 152، جسے نئے قانون میں دوسرے لفظوں میں تحریر کیا گیا ہے اور ‘سیڈیشن’کے لفظ سے اجتناب کیا گیا ہے، ‘اصل میں ‘آئی پی سی کی دفعہ 124اے کی نوآبادیاتی سیڈیشن دفعات ہی ہے۔
اس کے بعد بنچ نے پوچھا کہ کیا غلط استعمال کا امکان ہی کسی شق کو ختم کرنے کی بنیاد ہو سکتا ہے۔
لائیو لاء نےجسٹس باگچی کے حوالے سے کہا،’کیا غلط استعمال کا امکان کسی قانون کو غیر آئینی قرار دینے کے لیے ایک بنیادہے؟ ہمیں اس پر کوئی ماہر بتائیں۔ نافذ کرنے کی طاقت اور قانون بنانے کی طاقت میں فرق ہے ۔’
اس کے بعد رام کرشنن نے پھر استدلال کیا کہ دفعہ 152 کی دفعات مبہم اور وسیع ہیں اور اظہار رائے کی آزادی کے بارے میں ‘تشویش’ پیدا کرتی ہے، خاص طور پر میڈیا کے حکومت کے بارے میں رپورٹ کرنے اور سوال اٹھانے کے حق کو متاثر کرتی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس باگچی نے اتفاق کیا کہ قانون کا ابہام اسے چیلنج کرنے کے لیے ایک درست بنیاد ہے۔
دریں اثنا، بنچ نے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ کی اس دلیل کو بھی مسترد کر دیا کہ میڈیا کو الگ کلاس نہ سمجھا جائے۔
جسٹس باگچی نے کہا، ‘یہ نہیں کہا جا رہا ہے۔ یہ اظہار رائے کی آزادی اور امن عامہ کے تحفظ کے بنیادی حق میں توازن پیدا کرنے کی بات ہے۔’
جسٹس کانت نے کہا کہ جب جرم کسی نیوز ادارے کے ذریعے شائع ہونے والے مضامین سے متعلق ہو تو حراست میں پوچھ گچھ کی ضرورت نہیں ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘بنیادی طور پر یہ ایسے معاملے ہیں جن میں حراست میں پوچھ گچھ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔’
قابل ذکر ہے کہ متنازعہ مضمون انڈونیشیا میں منعقدہ ایک سیمینار کی حقائق پر مبنی رپورٹ تھا اور اس میں ہندوستانی دفاعی اہلکاروں کے بیان شامل تھے۔ اس میں ہندوستانی سفارت خانے کے نے تبصروں پر ردعمل بھی شائع کیا گیا تھا۔
غور طلب ہے کہ 9 مئی کو آپریشن سیندور میں رافیل طیاروں کے حوالے سے ایک خبر کی اشاعت کے بعد دی وائر کی ویب سائٹ کو ہندوستان میں سرکاری احکامات پر تقریباً 12-15 گھنٹے کے لیے عارضی طور پر بلاک کر دیا گیا تھا ۔ بعد میں ویب سائٹ کو بحال کر دیا گیا ۔
اس دوران کئی دیگر خبر رساں اداروں کو بھی اپنے سوشل میڈیا ہینڈل یا ویب سائٹس پر اسی طرح کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔