تین جون کو اتر پردیش کے صاحب آباد میں ملک کی سب سے بڑی سائیکل بنانے والی کمپنی اٹلس نے اپنا آخری کارخانہ غیر متعینہ مدت کے لیے بند کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس پروڈکشن کا پیسہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے کمپنی مدھیہ پردیش کے مالن پور اور ہریانہ کے سونی پت کی اکائیاں بھی بند کر چکی ہے۔
ہر سال 3 جون کو دنیا بھر میں ورلڈ سائیکل ڈے منایا جاتا ہے۔اتفاق سے اسی دن صبح جب ملک کی سب سے بڑی سائیکل بنانے والی کمپنی اٹلس کے اتر پردیش کے صاحب آباد واقع کارخانے کے اسٹاف کام کے لیے پہنچے تو گیٹ پر نوٹس لگا ملا کہ اس اکائی کو بند کر دیا گیا ہے اور سبھی اسٹاف کو کام سے ہٹا دیا گیا ہے۔
نوبھارت ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق 1989 میں شروع ہوئے اس کارخانے کے گیٹ پر ایک نوٹس لگا تھا جس میں لکھا تھا کہ کارخانے کو غیر متعینہ مدت کے لیے بند کیا جا رہا ہے۔ کمپنی کے پاس کارخانہ چلانے کا پیسہ نہیں ہے، نہ ہی ان کے پاس کوئی سرمایہ لگانے والا ہے۔
نوٹس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ کمپنی 2 سال سے گھاٹے میں ہے اور یومیہ خرچ بھی نہیں نکال پا رہی ہے، اس لیے اسٹاف کو لے آف پر بھیجا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کمپنی کے پاس پروڈکشن کے لیے پیسہ نہیں ہے، ایسے میں اسٹاف کو نکالا نہیں جا رہا ہے، انہیں تنخواہ نہیں ملےگی، لیکن ہفتہ وار چھٹی کو چھوڑکر روزانہ اپنی حاضری لگانی ہوگی۔
صاحب آباد کی سائٹ 4 میں سائیکل بنانے والے اس کارخانے میں مستقل اور کانٹریکٹ اسٹاف کو ملاکر لگ بھگ 1000 لوگ کام کرتے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ سائیکلوں کا سب سے زیادہ پروڈکشن یہیں ہوتا تھا۔ کمپنی یہاں ہر سال لگ بھگ 40 لاکھ سائیکل بناتی تھی۔
بٹوارے کے بعد کراچی سے آئے جانکی داس کپور نے سال 1951 میں اٹلس سائیکل کمپنی شروع کی تھی۔ صاحب آباد واقع کارخانے کے بند ہونے سے پہلے کمپنی مدھیہ پردیش کے مالن پور اور ہریانہ کے سونی پت کی اکائیاں بھی بند کر چکی ہے۔
بدھ کو یہ نوٹس ملنے کے بعد ناراض اسٹاف نے کارخانے کے سامنے جمع ہوکر مظاہرہ بھی کیا۔ امر اجالا کی خبر کے مطابق، مظاہرے کی جانکاری پر پہنچی لنک روڈ پولیس نے اسٹاف کے جمع ہونے پرطاقت کا استعمال کرکےان کو ہٹایا۔اٹلس سائیکل یونین کے جنرل سکریٹری مہیش کمار نے بتایا کہ اس کارخانے میں پرماننٹ اور کانٹریکٹ کو ملاکر قریب ایک ہزارلوگ کام کرتے ہیں اور وہ بھی پچھلے 20 سال سے کمپنی میں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بدھ کو اسٹاف ڈیوٹی پر پہنچے تو انہیں گارڈوں نے اندر نہیں گھسنے دیا اور نوٹس دیکھنے کو کہا۔ انہوں نے کمپنی کے مینجمنٹ سے اس بارے میں بات کرنے کی کوشش کی، لیکن کسی کی بات نہیں ہو سکی۔کچھ دیر میں اسٹاف کی بھیڑ بڑھتی گئی۔ سبھی کو اس بارے میں معلوم ہوا تو ان کا غصہ بھڑک گیا اوروہ کمپنی کے باہر ہی مظاہرہ کرنے لگے، پھر پولیس نے آکر انہیں ہٹایا۔
یہاں بہت سے اسٹاف بہت لمبے عرصہ سے کام کر رہے ہیں۔ ان کا ڈر ہے کہ عمر کے اس پڑاؤ میں انہیں اب کہیں اور کام نہیں ملےگا۔نوبھارت ٹائمس سے بات کرتے ہوئے 1989 سے یہاں کام کرنے والے ایک اسٹاف نے بتایا، ‘لگ بھگ پوری عمر اسی فیکٹری میں کام کرتے ہوئے نکل گئی۔ اب اس عمر میں شاید کہیں اور نوکری بھی نہیں ملے گی۔ اب کیا کریں گے؟ گھر کیسے چلےگا؟ کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ گھر والوں کو کھانا کہاں سے کھلاؤں گا۔ کہاں سے خرچ پورے ہو ں گے؟’
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد مارچ اور اپریل میں اسٹاف کوتنخواہ ملی تھی۔ حالانکہ مئی مہینے کی تنخواہ نہیں آئی۔ 1 جون سے کارخانہ کھلا تھا اور دو دن تک اسٹاف آئے اور کام کیا تھا۔وہیں، اٹلس سائیکل لمٹیڈ اسٹاف یونین نے اس معاملے میں محکمہ لیبرکے چیف سکریٹری اور لیبر کمشنرکو خط بھیج کرمخالفت کی ہے۔ کمپنی کی طرف سے بیان نہیں آیا ہے۔
یونین کا کہنا ہے کہ کمپنی نے بنا کسی جانکاری کے اچانک لے آف لاگوکرکے نوٹس چپکا دیا۔ ساتھ ہی اسٹاف کو گیٹ پر ہی روک دیا گیا۔ یہ غیر قانونی ہے۔ یونین نے دونوں فریق کو بلاکر راحت دینے کی مانگ کی ہے۔اس بارے میں کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا نےمرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا کہ لوگوں کی نوکریاں بچانے کے لیے حکومت کو اپنی پالیسی اور اپنے منصوبہ کو صاف کرنا چاہیے۔
سائیکل کارخانہ بند ہونے سے جڑی خبر کو شیئرکرتے ہوئے انہوں نے ٹوئٹ کیا، ‘بدھ کوورلڈ سائیکل ڈے کے موقع پر سائیکل کمپنی اٹلس کی غازی آ باد فیکٹری بند ہو گئی۔ 1000 سے زیادہ لوگ ایک جھٹکے میں بے وزگار ہو گئے۔’پرینکا نے کہا، ‘حکومت کے اشتہار میں تو سن لیا کہ اتنے کا پیکیج دیا گیا، اتنے ایم او یو ہوئے، اتنے روزگار پیدا ہوئے، لیکن اصل میں تو روزگار ختم ہو رہے ہیں، فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں۔ لوگوں کی نوکریاں بچانے کے لیے حکومت کو اپنی پالیسیاں اورمنصوبےواضح کرنے ہوں گے۔’
فیکٹری بند ہونے کے بعد پنجاب اور لدھیانہ کی ڈیلرس کمپنی اپنے بقایہ کے لیےفکرمند ہیں۔ شہر کی کئی اکائیاں اٹلس کو سائیکل بنانے کے پرزے سپلائی کرتی تھیں۔یونائٹیڈ سائیکلس پارٹس اینڈ مینوفیکچررس کے سابق صدر چرنجیت سنگھ وشو کرما نے انڈین ایکسپریس کو بتایا،‘کمپنی پرسیلرس کا قریب 125 کروڑ روپے بقایہ ہے۔ میری کمپنی کے 20 لاکھ روپے بقایہ ہیں۔ پچھلے سال بھی بقایہ کے لیے سیلرس نےمظاہرہ کیا تھا، جس کے بعد پیسے جاری کیے گئے تھے۔’
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)