یوپی میں 403 سیٹوں پر اتری ی بی ایس پی کے کھاتے میں محض ایک سیٹ آئی ہے اور اسے کسی بھی اسمبلی میں سب سے کم 12.88 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ 1989 میں پارٹی کے قیام کے بعد سے اب تک کایہ بدترین مظاہرہ ہے۔ اس سے پہلے 1993 میں اسے کل 425 سیٹوں پر 11.1 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اگرچہ اس نے 164 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا اور 67 سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی ،اس لحاظ سے اسے 28.7 فیصد ووٹ ملے تھے۔
اتر پردیش کی سیاست میں تقریباً تین دہائیوں تک اہم رول ادا کرنے والی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کا مظاہرہ 2022 کے اسمبلی انتخابات میں اس کے قیام کے بعد سے اب تک کا بدترین مظاہرہ رہا اور 403 سیٹوں میں اسے صرف ایک ہی سیٹ پرکامیابی ملی۔
صرف بلیا ضلع کی راسڑا سیٹ سے بی ایس پی کے موجودہ ایم ایل اے اوماشنکر سنگھ تیسری بار اپنی سیٹ بچانے میں کامیاب رہے۔
سیٹوں کے لحاظ سے یہ اتر پردیش میں بی ایس پی کی سیاسی تاریخ کابدترین مظاہرہ ہے۔ 1989 میں یوپی کی سیاست میں قدم رکھنے والی بی ایس پی کو اس سے پہلے کسی بھی انتخاب میں سب سے کم سیٹ1991کے اسمبلی انتخابات میں ملی تھیں۔اس وقت اس نے 386 سیٹوں پر امیدواراتارے تھے اور صرف 12 سیٹوں پر کامیاب رہی تھی۔ یہ پارٹی کا دوسرا الیکشن تھا۔
اگر ووٹ فیصد کے لحاظ سے بھی دیکھیں تو موجودہ اسمبلی انتخابات میں بی ایس پی کو 12.88 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ 1993 کے بعد پہلی بار بی ایس پی کو یوپی اسمبلی انتخابات میں اتنے کم ووٹ شیئر سےمطمئن ہونا پڑا ہے۔ 1993 کے بعد اسے اسمبلی یا لوک سبھا انتخابات میں کبھی بھی 19 فیصد سے کم ووٹ نہیں ملے تھے۔
سال 1993 کے انتخابات میں اس نےموجودہ انتخابات سے کم11.1 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے، لیکن پھر بھی 67 سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سماج وادی پارٹی کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے اس نے کل 422 سیٹوں میں سے صرف 164 سیٹوں پر امیدوار اتارے تھے۔ ان 164 سیٹوں پر انہیں کل ووٹوں کے 28.7 فیصدووٹ ملے تھے۔
سال 2017 کےپچھلے اسمبلی انتخابات کی بات کریں تو بی ایس پی کو اس وقت 19 سیٹیں ملی تھیں اور اس کا ووٹ شیئر 22.4 فیصد رہاتھا۔ 2012 میں اسے 80 سیٹیں ملی تھیں اور ووٹ کا تناسب 25.9 فیصدرہاتھا۔
سال 2007 میں تو بی ایس پی نے مکمل اکثریت کے ساتھ ریاست میں حکومت بنائی تھی، اس دوران اسے 30.4 فیصد ووٹوں کے ساتھ 206 سیٹیں ملی تھیں۔ تینوں انتخابات میں اس نے تمام 403 سیٹوں پر امیدوار اتارےتھے۔
سال 2002 میں 401 سیٹوں پر امیدوار اتارنے والی بی ایس کو 23.2 فیصد ووٹوں کے ساتھ 98 سیٹیں ملی تھیں اور بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں اس نے حکومت بنائی تھی۔
سال 1996 میں بھی بی ایس پی کو 19.6 فیصد ووٹ کے ساتھ 67 سیٹیں ملی تھیں۔ حالاں کہ، اس وقت انہوں نے کانگریس کے ساتھ اتحاد میں الیکشن لڑکر296 سیٹوں پر ہی امیدوار اتارے تھے ۔ ان 296 سیٹوں پر اس کا ووٹ شیئر 27.7 فیصد رہاتھا۔
اگر ہم بی ایس پی کے شروعاتی دو انتخابات (1989 اور 1991) کی بات کریں تو اپنے پہلے ہی الیکشن میں اس کو 13 سیٹیں ملی تھیں۔ اس نے 372 امیدوار کھڑے کیے تھے اور 9.4 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ جبکہ 1991 میں اس نے 386 امیدوار اتارے اور 9.4 ووٹوں کے ساتھ 12 سیٹیں حاصل کیں۔
بی ایس پی کی اس مضبوطی کی بنیاد اسے دلتوں سے ملنے والاووٹ رہا۔ پارٹی پر دلتوں کی پارٹی ہونے کا مہر لگا تھا اور ایک طویل عرصے تک اسے ریاست کی 21 فیصد دلت آبادی کی حمایت حاصل رہی، جس کی وجہ سے اس نے صوبے میں چار بار حکومت بنائی، ایک بار پوری اکثریت کے ساتھ تو تین بار اتحاد میں۔
چاروں بار مایاوتی ہی وزیر اعلیٰ رہیں۔ اس لیے ایک وقت میں دلتوں کی تسلیم شدہ لیڈر ہونے کا دعویٰ کرنے والی مایاوتی اپنے آپ کو مستقبل کی وزیر اعظم کے طور پر بھی پیش کرتی تھیں۔
پچھلی تین دہائیوں میں بی ایس پی کے بارے میں سیاسی حلقوں میں یہ بات تسلیم کی جاچکی تھی کہ ان کا 20 فیصدکے آس پاس ووٹ تو مستقل ہے ہی۔ نہ صرف اسمبلی انتخاب میں بلکہ لوک سبھا انتخابات کے برے سے برے دور میں میں بھی بی ایس پی کو تقریباً 20 فیصد ووٹ ملتے رہے۔
سال 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں جب بی ایس پی نے اپنی تاریخ میں پہلی بار ‘صفر’ کی گنتی کا مزہ چکھاتھا، تب بھی وہ 19.7 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ لیکن، تب یہ تو صاف ہوہی چکا تھا کہ بی جے پی دلتوں کے ایک بڑے حصے کو بی ایس پی سے توڑنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
دی وائر سے بات چیت میں یوپی کی سیاست کے کئی ماہرین نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے، لیکن ساتھ ہی سب اس بات پر بھی متفق ہیں کہ تین دہائیوں کی سیاسی تاریخ میں جاٹ کمیونٹی کا ووٹ بینک بی ایس پی کا سب سے وفادار ووٹ بینک رہا ہے۔
یوپی میں کل 21 فیصد دلتوں میں جاٹ کی تعداد تقریباًسے 12-13 فیصد بنتی ہے، اور اتفاق کی بات ہے کہ موجودہ اسمبلی انتخابات میں بی ایس پی کو صرف 12-13 فیصد کے قریب ہی ووٹ ملے ہیں۔
بہرحال، موجودہ انتخابات سے پہلے کے حالات کی بات کریں تو مقابلے میں نظر آرہی چار اہم پارٹیوں (بی جے پی، ایس پی، کانگریس اور بی ایس پی) میں بی ایس پی ہی واحد پارٹی تھی جو زمین سے نداردتھی۔
جبکہ دیگر تین پارٹیوں کے لیڈران اور کارکنان کو زمین پر زوردار طریقے سےمہم چلاتے ہوئے دیکھا گیا، بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے خود کو ٹوئٹر تک سمیٹ لیا تھا۔
بی ایس پی کی انتخابی مہم کو دیکھ کر ان پر یہاں تک الزام لگایا گیا کہ وہ بی جے پی کی ‘بی’ ٹیم کے طور پر کام کر رہی ہیں یاوہ ان کے خلاف درج آمدنی سے زیادہ اثاثہ جات کے معاملے میں مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کے دباؤ میں ہیں۔
اس پر بی ایس پی لیڈر یہ صفائی بھی دیتے ہوئے نظر آ رہے تھے کہ کووڈ کی وبا کی وجہ سے مایاوتی یا بی ایس پی بڑی ریلیاں کرنے سے پرہیز کر رہی ہیں اور ووٹروں کے گھر گھر جا کر عوامی رابطہ مہم کر رہی ہیں۔
حالاں کہ، انتخابی نتائج اب صاف کر رہے ہیں کہ بی ایس پی واقعی ووٹروں سے کٹ چکی تھی۔