
ٹام صاحب نے آسامی، بنگلہ، مراٹھی، ملیالم، ہندی، انگریزی، کنڑ اور اردو جیسی زبانوں میں سینکڑوں فلموں، ڈراموں اور ٹی وی سیریل میں کام کیا۔ لیکن اردو کے لیے ان کے دل میں ایک خاص جگہ تھی۔ وہ اردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے میں بہت حساس تھے اور اردو کو اردو رسم الخط میں ہی پڑھنے اور لکھنے کے قائل تھے۔

ٹام آلٹر، فوٹو بہ شکریہ: وکی پیڈیا
مجھے سال اور مہینہ تو یاد نہیں، لیکن یہ اچھی طرح یاد ہے کہ مجھے پہلی بار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ٹام آلٹر کو سامنے سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا تھا۔ وہ جامعہ کے ڈاکٹر مختار احمد انصاری آڈیٹوریم میں مولانا آزاد کی سوانح عمری ‘انڈیا ونس فریڈم’ پر مبنی اور سعید عالم صاحب کی ہدایت کاری میں ایک سولو ڈرامے کے اسٹیج کے لیے تشریف لائے تھے۔
ایسا نہیں ہے کہ میں اس سے پہلے ٹام آلٹر کے نام اور کارنامے سے واقف نہیں تھا۔ لیکن اس دن کے پرفارمنس نے مجھے ہمیشہ کے لیے ان کا گرویدہ بنا دیا۔ انصاری آڈیٹوریم میں زبردست بھیڑتھی، لوگ ایک دوسرے کے اوپر چڑھے جا رہے تھے۔ سینکڑوں کی گنجائش والے اس آڈیٹوریم میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔
اس کے باوجود جب ڈرامہ شروع ہوا تو لوگوں نے ڈرامے کو اتنے انہماک سے دیکھنا شروع کیا کہ یہ بھی بھول گئے کہ وہ کھڑے ہیں یا انہیں جگہ نہیں ملی۔ ڈرامے کے بعد ان سے ملنے کے لیے لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔
یہ سیلفی کا زمانہ نہیں تھا اور نہ ہرشخص کے پاس کیمرہ ہوا کرتا تھا، ورنہ اس دن خاصی بھگدڑ مچ جاتی، جسے ٹام صاحب بالکل پسند نہیں کرتے۔ البتہ اس دن کے بعد جب بھی انہوں نے دہلی میں پرفارم کیا، میں نے اس میں شرکت کرنے اور ان کے فن سے محظوظ ہونے کی کوشش کی۔
یہ ٹام صاحب کی بدقسمتی ہے (بلکہ اسے اپنی بدنصیبی کہنا زیادہ مناسب ہوگا) کہ ہم میں سے اکثر لوگ انہیں صرف دو کرداروں کی وجہ سے جانتے یا یاد کرتے ہیں۔ پہلا، بالی وڈ فلموں میں ‘انگریز’ کا کردار اور دوسرا ڈراموں میں مولانا آزاد کا کردار۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چالیس سال سے زائد کے کیرئیر میں انہوں نے بڑی خوبی کے ساتھ مختلف کردار نبھائے ۔ ہر کردارایک سے بڑھ کر ایک۔
صرف سعید عالم صاحب کے ساتھ ہی مولانا آزاد کے علاوہ انہوں نے آٹھ اورڈراموں میں کام کیا، جن کے سینکڑوں شوز منعقد ہوئے۔
سعید صاحب کے مطابق، ‘یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ٹام صاحب جیسے ملٹی ٹیلنٹڈ اداکار کوبھی اکثر انگریز یا گورا کے رول میں اسٹریوٹائپ/ٹائپ کاسٹ کر دیا گیا۔’
اپنی موت سے تقریباً ایک ماہ قبل ٹام صاحب نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ‘میں نے اب تک 400 سے زائد فلموں میں کام کیا ہے، جن میں سے صرف دس فلموں میں میں نےبرٹشر/انگریز کا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن 2017 میں بھی مجھے انگریز کہا جاتا ہے۔’
انہوں نے آسامی، بنگلہ، مراٹھی، ملیالم، ہندی، انگریزی، کنڑ اور اردو جیسی زبانوں میں سینکڑوں فلموں، ڈراموں اور ٹی وی سیریل میں کام کیا۔ لیکن اردو کے لیے ان کے دل میں ایک خاص جگہ تھی۔ وہ اردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے میں بہت حساس تھے اور اس میں وہ کسی قسم کے سمجھوتے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ اردو کو اردو رسم الخط میں ہی پڑھنے اور لکھے جانے کے قائل تھے۔
ایک بار انھیں جشنِ ریختہ میں ایک اردو کتاب کی ریلیز کے لیے مدعو کیا گیا، جس کے لیے انھوں نے بخوشی رضامندی ظاہر کی۔ لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ کتاب رومن رسم الخط میں ہے تو انہوں نے اس کے اجرا سے انکار کردیا۔
سعید صاحب کے بقول، ‘جب انہیں معلوم ہوا کہ اردو کتاب رومن میں لکھی گئی ہے تو انہیں بہت غصہ آیا۔ اور جب ہم میں سے کچھ لوگوں نے انہیں منانے کی کوشش کی تو ٹام صاحب نے کہا کہ اگر یہ (رومن میں) ٹھیک سے لکھا گیا ہوتا توبھی میں اس پر دوبارہ غور کرتا۔’ وہ اکثر کہا کرتے تھے، ‘ایک تو ہندی-اردو رومن میں نہیں لکھی جا سکتی، اور آپ لوگوں کورومن میں بھی ہندی-اردو لکھنا نہیں آتا۔’
جب میں نے ستمبر 2020 میں ٹام آلٹر صاحب پر ایک اسٹوری لکھنے کےدوران سعید صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے ایک دلچسپ قصہ سنایا۔ سعید صاحب نے مجھے بتایا کہ 2002 میں جب دونوں نے مولانا آزاد (ڈرامے) پر کام شروع کیا تو ٹام آلٹر صاحب کو دیا گیا اسکرپٹ دیو ناگری میں تھا۔
شروع میں تو وہ دیوناگری میں لکھے گئے اسکرپٹ کی ریہرسل کرتے رہے لیکن ہفتے بھر کے اندر ہی انہوں نے کہا کہ انہیں اردو رسم الخط میں اسکرپٹ چاہیے۔’
مجھے اس وقت یہ نہیں معلوم تھا کہ ٹام صاحب اردو رسم الخط پڑھ سکتے ہیں، ہفتہ بھر میں انہیں چند اہم اردو کتابوں کے نام تجویز کرتا رہا جن کا انگریزی ترجمہ دستیاب تھا، ایسا کرتےہوئے میرے ذہن میں دو باتیں تھیں، پہلی، یہ ظاہر کرنا کہ میں ایک پڑھا لکھا آدمی ہوں جو اردو اور انگریزی دونوں پر عبور رکھتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ میں چاہتا تھا کہ انہیں اردو ادب بھی پڑھنا چاہیے، ترجمہ ہی سہی۔’
سعید صاحب کا کہنا تھا، ’ یہ ٹام آلٹر صاحب کی عظمت تھی کہ انہوں نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ انہوں نے وہ تمام کتابیں پڑھ رکھی ہیں اور وہ بھی اردو میں‘۔
سعید صاحب نے مجھے یہ بھی بتایا تھاکہ ٹام آلٹر صاحب کو انہوں نے دیوناگری میں اسکرپٹ اس لیے دی تھی کیونکہ اس سے پہلے دو تین اداکاروں (جو اردوداں سمجھے جاتے ہیں) کو اردو رسم الخط میں اسکرپٹ دے چکے تھے اور ان لوگون نے کہا تھا کہ وہ اردو نہیں پڑھ سکتے!
اردو سے ان کے لگاؤ اور محبت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی یادداشتیں اردو میں لکھیں اور اس کو ایک اردو رسالے میں چھپوایا۔ یہ بھی شاید اردو سے ان کی محبت کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا نام افشاں رکھا۔
فلموں، ڈراموں اور ٹی وی سیریل میں کام کرنے کے علاوہ انہوں نے کتابیں لکھنے کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں کے انٹرویو بھی کیے۔ انہیں کرکٹ میں خاص دلچسپی تھی اور انہوں نے جنوری 1989 میں سچن تنڈولکر کا انٹرویو کیا تھاجب سچن صرف 16 سال کے تھے۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 2000 میں اردو ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے خصوصی پروگرام ‘ادبی کاک ٹیل’ کے لیے انہوں نے اداکار جانی واکر، موسیقار نوشاد، اداکارہ ٹن ٹن، صحافی اور مصنف حسن کمال اور اداکار جگدیپ جیسی شخصیات کے یادگار انٹرویو کیے، جن کے کچھ حصے یوٹیوب اور اسپاٹی فائی پر دستیاب ہیں۔
ان انٹرویوز کو سنتے اور دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف ایک منجھے ہوئے فنکار تھے بلکہ ایک اچھے صحافی بھی تھے۔ انہیں سنتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے اردو ان کی مادری زبان ہو۔ اردو سے ان کا رشتہ فطری لگتا ہے جس میں کسی قسم کی مصنوعیت نہیں تھی۔ انہوں نے خود لکھا ہے کہ اردو سے ان کا رشتہ بہت پرانا تھا۔ وہ لکھتے ہیں؛
‘اردو سیکھنے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ مجھے اپنے والدین سے جو چیز وراثت میں ملی ہے ان میں سے ایک اردو بھی ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ میرے والد صاحب کی پیدائش سیالکوٹ کی ہے،اس زمانے میں وہ ایک پادری تھے، ان کے والد بھی پادری تھے۔ پنجاب (غیر منقسم پنجاب) کے گرجا گھروں میں تقسیم سے پہلے عیسائیوں کی عبادت اردو میں ہوتی تھی، ہم نے اپنے بچپن میں لفظ بائبک کبھی سنا ہی نہیں، ہمیشہ انجیل مقدس ہی کانوں میں پڑا۔
پنجاب کے گرجا گھروں میں روزانہ صبح سات بجے سے پونے آٹھ بجے تک پینتالیس منٹ کی عبادت اردو میں ہوتی تھی۔میرے والد صاحب اکثر بیمار رہتے تھے۔ وہ ذیابیطس کے مریض تھے، اس لیے ان کے پاس ایک چھوٹی سی میز تھی جس پر طرح طرح کی دوائیاں رکھی رہتی تھیں۔ان کو چوں کہ شوگر کی شکایت تھی جس کی وجہ سےانہیں ٹافی وغیرہ کھانی ہوتی تھی، اس لیے وہ میز پر ٹافی کا ایک ڈبہ رکھتے تھے اور اسی ڈبے کے بغل میں بائبل یعنی انجیل مقدس بھی رکھی رہتی تھی ۔
اس وقت مجھے اردو پڑھنی نہیں آتی تھی، اس لیے میں ان سے پوچھتا تھا کہ یہ کیا ہے؟ تو وہ بتاتے تھے ٹام یہ انجیل مقدس ہے۔اردو رسم الخط مجھے شروع سے ہی اچھا لگتاتھا اس لیے جب باقاعدہ اردوپڑھنی شروع کی تو کسی طرح کی پریشانی نہیں ہوئی۔’
وہ مزید لکھتے ہیں کہ؛
’ جب میں نے ایکٹنگ کی لائن میں آنے کا فیصلہ کیا اور مجھے پونے کے فلم انسٹی ٹیوٹ(ایف ٹی آئی آئی ) میں داخلہ مل گیا تب میں نے طے کیا کہ اب مجھے باقاعدہ اردو سیکھنی ہے۔ ‘
وہ ایک سچے اور پکے محب اردو تھےاور انہوں نے دامے درمے قدمے سخنے اردو کی خدمت کی۔ ہم ان کی زندگی اور کارنامےسے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جو اپنے آپ کو اردو والا، اردو دوست، محب اردو، خادمِ اردو وغیرہ سمجھتے ہیں یاکہلوانا پسند کرتے ہیں۔
اگر ہم ٹام آلٹر صاحب کو کسی بھی طرح سے خراج تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اردو تھیٹر کی ترقی اور فروغ کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ ان کے اپنے الفاظ میں کہیں تو؛
‘ہندوستان میں اچھے اردو تھیٹر کم ہیں اور اول درجے کے اردوپلے تو بہت ہی کم کھیلے جاتے ہیں، مگر ہندوستان کا اچھا اردو تھیٹر دنیا کے کسی بھی تھیٹر سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے…
چھوٹی جگہوں پر جو اردو تھیٹر ہو رہا ہے، اس کا مجھے کچھ زیادہ علم نہیں اور اپنے محدود تجربے کی بنیاد پر، میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ جب میں اردوکا کوئی پلے کرتا ہوں وہ لوگ بھی جنہیں اردو نہیں آتی مجھ سے کہتے ہیں ہمیں آپ کا پلے سمجھ میں آتا ہے، جونہایت اہم بات ہے، اردو اس ادبی زبان کے طور پر تیزی سے سکڑتی جا رہی ہے جو معاشرے میں اردو کے ادب کا ذوق بیدار کرکے اسے اعلیٰ اقدار سے روشناس کرائے، اس کے باوجود جب اچھا اردو تھیٹر ہوتا ہے، تو لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں، جن میں یقیناً اکثریت اردو ادب اور ثقافت سے دلچسپی رکھنے والے غیر مسلم ناظرین ہوتے ہیں ۔
(مہتاب عالم صحافی، مصنف اور محقق ہیں۔ انہیں ٹام آلٹر سےمتعلق ایک مضمون (مطبوعہ ؛دی وائر انگریزی)کے لیے ممبئی پریس کلب کی جانب سے ریڈ انک ایوارڈ فار ایکسیلنس ان جرنلزم سے نوازا جا چکا ہے۔)