مرکز کی مودی حکومت نے کامرشیل سروگیسی پر لگام لگانے کے لئے سروگیسی ریگولیشن بل، 2019 گزشتہ اگست مہینے میں لوک سبھا میں پاس کیا تھا، جس کے بعد سے اس کی مخالفت شروع ہو گئی ہے۔
نئی دہلی: نشا (بدلا ہوا نام)دہلی کے جہانگیرپوری علاقے میں رہتی ہیں،لوگوں کے گھروں میں کھانا پکانے کا کام کرنے والے ان کے شوہر یومیہ مزدور ہیں۔معاشی تنگی میں زندگی گزار رہیں نشا نے دو سال پہلے کامرشیل سروگیسی کے ذریعے ایک بچے کو جنم دیا تھا۔ اس کے عوض میں ملی رقم کا استعمال اس نے اپنے گھر کی مرمت کےکام میں کیا۔
نشا کی طرح ایسی کئی غریب خواتین ہیں، جو معاشی دقتوں کی وجہ سے سروگیٹ مدربن چکی ہیں لیکن مرکزی حکومت نے کامرشیل سروگیسی پر لگام لگانے کے لئے سروگیسی ریگولیشن بل 2019 گزشتہ اگست مہینے میں لوک سبھا میں پاس کر دیا، جس میں کامرشیل (پیشہ ورانہ)سروگیسی پر پابندی لگانے اور الٹرسٹک سروگیسی کو بڑھاوا دینے کی وکالت کی گئی ہے۔
یہ بل کامرشیل سروگیسی پر تو روک لگاتی ہی ہے، ساتھ ہی اس میں الٹرسٹک سروگیسی کو لےکر اصول و ضابطے کو بھی سخت کیا گیا ہے۔ اس کے تحت غیر ملکی، سنگل پیرنٹ، طلاق شدہ جوڑوں، لیو ان پارٹنرس اور ایل جی بی ٹی کیو آئی کمیونٹی سے جڑےلوگوں کے لئے سروگیسی کے راستے بند کر دئے گئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سماجی کارکنان سے لےکر ڈاکٹروں تک نے اس کی مخالفت میں مورچہ کھول لیا ہے اور بل میں ترمیم کی مہم چلائی جا رہی ہے۔
کیا ہے سروگیسی؟
جب کوئی جوڑا کسی بھی طبی وجہ سے ماں باپ نہیں بن سکتا تو ایسی حالت میں کسی دوسری عورت کی مدد لی جاتی ہے۔ آئی وی ایف یعنی انوِٹرو فرٹلائزیشن تکنیک کےذریعے شوہر کی منی اور بیوی کے بیضہ سے بنے ایمبریو کو کسی دوسری خاتون کےحمل میں انجیکٹ کیا جاتا ہے۔ اس عمل کو سروگیسی اور اس عمل سے جنم لینے والے بچے کو سروگیٹ چائلڈ کہاجاتا ہے۔
اس عمل سے جنم لینے والے بچے کا ڈی این اے سروگیسی کرانے والے جوڑے کاہی ہوتا ہے۔
کامرشیل اور الٹرسٹک سروگیسی میں فرق
کامرشیل یعنی تجارتی سروگیسی میں بےاولادجوڑا پیسوں کی ادائیگی کر سروگیٹ مدر کے ذریعے اولاد کی خوشی حاصل کرتا ہے، جبکہ الٹرسٹک سروگیسی میں طبی طور پرنااہل جوڑاسروگیسی کے لئے قریبی رشتہ دار کی ہی مدد لے سکتے ہیں۔
اس کے لئے سروگیٹ مدر کو میڈیکل خرچ کے علاوہ کسی طرح کا معاشی معاوضہ نہیں دیا جا سکتا۔
کیا ہے سروگیسی ریگولیشن بل 2019
سروگیسی ریگولیشن بل کے تحت صرف ایسے شادی شدہ جوڑےسروگیسی کرا سکتےہیں، جن کی شادی کو پانچ سال ہو گئے ہوں اور جو کسی میڈیکل وجہ سے ماں باپ نہیں بن پاتے ہیں۔
اس حالت میں پہلی شرط یہی ہوگی کہ سروگیٹ مدر جوڑے کا قریبی رشتہ دار ہواور وہ خود شادی شدہ ہو اور اس کا خود کا ایک بچہ ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی سروگیٹ مدر کی عمر بھی 25 سے 35 سال طے کی گئی ہے۔
سروگیسی کا سہارا لینے والے مرد کی عمر 26 سے 55 سال جبکہ خاتون کی 23 سے 50 سال ہونی چاہیے۔
سروگیسی کے لئے طبی طور پر معذور ہونے کی سندخاتون کے پاس ہونی چاہیے،تبھی وہ سروگیٹ مدر بن سکتی ہے۔
سروگیسی کا سہارا لینے والے جوڑے کے پاس میڈیکل سرٹیفکیٹ ہونا چاہیے کہ وہ میڈیکلی انفرٹائل ہیں۔
جوڑے کا کوئی زندہ بچہ (بایولاجیکل، گود لیا ہوا یا سروگیٹ)نہیں ہوناچاہیے۔
ایسے جوڑے جن کا بچہ جسمانی اور ذہنی طور پرمعذور ہے، وہ سروگیسی کا اختیار چن سکتے ہے نہیں تو ایسے جوڑے کو ہی سروگیسی کا سہارا لینے کی اجازت ہوگی، جن کی کوئی اولاد نہیں ہوگی۔
ایک خاتون اپنی زندگی میں ایک ہی بار سروگیٹ مدر بن سکتی ہے۔
بل میں قومی اور ریاستی سطح پر سروگیسی بورڈ کی تشکیل کرنے کا بھی اہتمام ہے۔
اس قانون کے وجود میں آنے کے 90 دنوں کے اندرریاستوں کو اس کے لئے افسر کی تقرری کرنی ہوگی۔
سروگیسی ریگولیشن بل 2019 کے انہی سخت اہتماموں کی وجہ سے اس بل کی بڑے پیمانے پر مخالفت ہو رہی ہے۔ کئی سماجی کارکن اورڈاکٹر اس بل کو ضرورت مند لوگوں کے ساتھ ناانصافی بتا رہے ہیں۔
کیوں ہو رہی ہے بل کی مخالفت
انڈین سوسائٹی فار تھرڈ پارٹی اسسٹیڈ ری پروڈکشن کے جنرل سکریٹری شیوانی سچدیو کہتی ہیں،’ہندوستان میں ہرسال ایک لاکھ 80 ہزار آئی وی ایف سرجری ہوتی ہیں، جن میں سے پانچ فیصدی ایسے معاملے ہوتےہیں، جب خاتون کی بچہ دانی میں دقتوں کی وجہ سے سروگیسی کرانی ہوتی ہے، لیکن بل میں سروگیسی کے اہتماموں کو اتنا سخت کر دیا گیا ہے کہ اس کے نافذ ہونے پر کوئی ضرورت مند جوڑا چاہکر بھی سروگیسی نہیں کرا پائےگا۔ ‘
وہ کہتی ہیں، ‘بل میں غیر قانونی سروگیسی کے لئے سزا اور جرمانے کااہتمام ہے لیکن حکومت یہ کیوں نہیں سمجھ رہی ہے کہ اصولوں کا اتنا سخت کرکے وہ پچھلے دروازے سے غیر قانونی سروگیسی کے کاروبار کو پھلنے-پھولنے کا موقع دے رہی ہے۔ ‘
شیوانی کہتی ہے، ‘غریب خواتین کو زبردستی اس میں دھکیلنے اور ان کےاستحصال کی جو دلیل دی جا رہی ہے، وہ سب خیالی ہیں۔ یہ سمجھنے والی بات ہے کہ کسی کو بھی زبردستی سروگیسی کے لئے تیار نہیں کیا جا سکتا۔ ہر خاتون اپنی خواہش سے اوراپنی ضروریات کے حساب سے سروگیسی کا راستہ چنتی ہے، کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ ان کواس کے لئے نو مہینوں کا سفر طے کرنا ہے۔ یہ سننا مضحکہ خیز لگتا ہے، کیا کسی کوجبراً حاملہ کیا جا سکتا ہے؟ ‘
اس بل میں اصلاح کرنے کو لےکر مہم چلا رہی سماجی کارکن کرن چاولہ کپورکہتی ہیں،’سروگیسی ریگولیشن بل پوری طرح سے ایل جی بی ٹی کیو آئی کمیونٹی کےلوگوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ سروگیسی کوئی شوقیہ چیز نہیں ہے، یہ ان ضرورت مندوں کےلئے سنجیونی بوٹی کی طرح ہے، جو کسی وجہ سے ماں باپ نہیں بن پائے۔ ‘
وہ کہتی ہیں،’لوک سبھا کے پچھلے سیشن میں سروگیسی بل کو اسٹینڈنگ کمیٹی میں بھیجا گیا تھا۔ اس بل کے بارے میں کہا گیا کہ کئی اداروں سے صلاح مشورہ کر کےاس بل کو تیار کیا گیا ہے لیکن اصل میں صرف نیتی آیوگ کے مشوروں پر غور کیا گیا ہے،جبکہ 25 اداروں کے مشورے خارج کر دئے گئے،کیونکہ حکومت کی سیدھی منشا سروگیسی کو بین کرنے کی تھی۔ ‘
کرن کہتی ہیں،’حکومت کی دلیل ہے کہ کامرشیل سیرگیسی کو بین کر کےسروگیٹ مدر کا استحصال کم ہوگا جب کہ پیسہ ہی صر ف ایسی ایک چیز تھی، جس کی وجہ سےکوئی بھی عورت سروگیٹ مدر بننے کے لیے تیار ہوتی تھی، جب کسی عورت کو پیسہ ہی نہیں ملے گا ، تو وہ سروگیٹ مدر بننے کے لیے کیوں تیار ہوگی؟ کیا سروگیٹ مدرزکے لئےمعاشی مدد پر روک لگاکر حکومت سروگیسی کے ذریعے پیدا ہونے والے بچے کی حفاظت کی گارنٹی دے پائےگی۔’
اس بل کو رگریسو بتاتے ہوئے گجرات میں بھاویشی فرٹلٹی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹرڈاکٹر ہمانشو بھاویشی کہتے ہیں،’یہ بہت ہی رگریسِو بل ہیں۔ میں اس کو کامرشیل (سروگیسی)نہیں بلکہ کامپینسیٹو سروگیسی کہنا زیادہ صحیح مانتا ہوں۔ حکومت کو اس بل کو پیش کرنے سے پہلے ان لوگوں سے ملنا چاہیے تھا، جن کے لئے بچہ پیدا کرنے کی آخری امیدسروگیسی تھی۔ یہ نیا بل ایک مذاق ہے۔ بل کے کلاز اتنے سخت اور پیچیدہ ہیں کہ کسی بھی حالت میں سروگیسی ممکن ہی نہیں ہو پائےگی۔ ‘
ڈاکٹر ہمانشو کہتے ہیں،’مجھے یاد ہے، اس بل کو لےکر سابق وزیر خارجہ سشما سوراج نے ایوان میں کہا تھا کہ سروگیسی کو ملک میں دھندہ بنا دیا گیا ہے۔ شاہ رخ خان، عامر خان اور کرن جوہر جیسےلوگوں کا حوالہ دےکر سروگیسی کو بین کرنےکی وکالت کی جاتی رہی۔ لیکن صرف چند ستاروں کی وجہ سے سروگیسی کو بین کرنے کومنطقی نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔’
انہوں نے کہا کہ سشما جی نے تو کڈنی ٹرانسپلانٹ کرائی تھی، تو کیا کڈنی ٹرانسپلانٹ ایک طرح کا دھندہ نہیں ہے، پھر تو حکومت کو اس پر بھی روک لگا دینی چاہیے۔
وہ کہتے ہیں،’ہر خاتون چاہتی ہے کہ وہ اپنی کوکھ سے بچے کو جنم دے،سروگیسی کسی بھی خاتون کے لئے بچہ پیدا کرنے کا آخری اختیار ہوتا ہے۔ ہمارے سماج میں کتنی قریبی رشتہ دار سروگیٹ مدر بننے کے لئے آگے آئیںگی۔ ہمارے سماج کا تانابانا اتنا پیچیدہ ہے کہ کوئی بہن اپنے بھائی کے لئے سروگیٹ مدر نہیں بن سکتی۔جیٹھانی، دیورانی جیسے تعلقات میں آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کوئی خاتون آگے آئےگی۔ ‘
ڈاکٹر ہمانشو آگے کہتے ہیں،’دوسری طرف سروگیسی میں قریبی رشتہ داروں کوشامل کرنے سے بچے میں بایولاجیکل مسائل بھی آ سکتے ہیں۔ قریبی رشتہ دار شامل ہوںگےتو بلیک میلنگ جیسے مسائل بڑھ سکتے ہیں، کیونکہ ملکیت اس میں ایک بڑا فیکٹرہوگا۔ جائیداد تنازعے کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو کوئی جیٹھانی نہیں چاہےگی کہ اس کی دیورانی کے یہاں بچہ پیدا ہو یا وہ خود دیورانی کے لئے سروگیٹ مدر بن جائے۔ اس کے علاوہ حکومت نے قریبی رشتہ دار کی تعریف ہی طے نہیں کی ہے۔ ‘
سماجی کارکن کرن چاولہ کہتی ہیں،’جن خواتین میں پیدائش سے ہی بچہ دانی نہیں ہے یا بچہ دانی کا سائز چھوٹا ہے، جس سے وہ حاملہ نہیں ہو سکتی، ایسے میں ان کے لئے حکومت نے سروگیسی کا راستہ کھلا ہی نہیں چھوڑا۔ ‘
وہ کہتی ہیں، ہر جوڑا گود لیا ہوا بچہ نہیں چاہتا، جو موروثی بچہ چاہتےہیں، حکومت کو ان کو اس کا اختیار دینا چاہیے۔ سروگیسی کے جتنے بھی معاملے میڈیامیں آئے اس میں انڈین کاؤنسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر)اچھے سے جانچکر چکاہے اور تفتیش میں سروگیٹ مدرس کے ظلم و استحصال کے دعووں کی تصدیق نہیں ہوئی۔ ‘
نئی دہلی میں آئی وی ایف کےماہر ڈاکٹر انوپ گپتا کہتے ہیں،’سروگیٹ مدرز کے لئے ظلم و استحصال کو لےکر آج تک ملک میں ایک بھی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ہے۔ ایسے میں کس بنیاد پر سروگیٹ مدرز کے استحصال کی بات کی جا رہی ہے۔’
وہ کہتے ہیں،’سروگیسی کے لئے ضرورت مند خواتین کو ادائیگی کی جاتی رہی ہےاور اس کے بدلے ضرورت مندجوڑے کو بچہ ملتا رہاہے۔ حکومت ایک طرف سروگیسی پرچابک چلا رہی ہے تو دوسری طرف بچوں کو گود لینے کے اصول سخت کر رہی ہے۔’
کرن کہتی ہیں،’یہ بل آرٹیکل 15 کے خلاف ہے،کیونکہ اس میں اپنی ذات کے اندر (قریبی رشتہ دار) ہی سروگیسی کی بات کی گئی ہے۔اگر رکن پارلیامان اس دلیل کو اچھے سے سمجھیںگے تو یہ بل منسوخ ہوجائےگا۔ آج حکومت ذات کے اندر سروگیسی کی بات کر رہی ہے تو کل شادی بھی ذات کےاندر کرنے کی بات کرےگی، جو ہماری آزادی کے لئے چیلنج ہوگا۔ ‘
وہ کہتی ہیں،’اس بل کے کئی اہتمام غیر واضح اور منطقی نہیں ہیں۔ مثلاًسروگیسی کے لئے جن قریبی رشتہ داروں کا حوالہ دیا گیا ہے، اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔ بل مردوں کی انفرٹلٹی کی تشریح نہیں کرتا۔ ‘
ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی پوجا شریواستو کہتی ہیں،’اس بل کے ذریعے حکومت نے غیر ملکی، سنگل پیرینٹ، طلاق شدہ جوڑوں، لیو اِن پارٹنر،ایل جی بی ٹی کیو آئی کمیونٹی سے جڑے لوگوں کے لئے سروگیسی کا حق ہی چھین لیا ہے۔ ‘
وہ کہتی ہیں،’ہم لوگوں کے ساتھ اس طرح کی جانبداری کرنے کی وجہ بھی حکومت بتا دیتی تو اچھا ہوتا؟ آخر کن وجہوں سے اس اختیار کو ہمارے لئے بند کر دیاگیا؟ ایک طرف ہمیں تھرڈ جینڈر کا درجہ دیا گیا ہے تو وہیں دوسری طرف اس طرح کا امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔’
سروگیسی ریگولیشن بل کی تاریخ
سال 2008 میں سپریم کورٹ نے ہندوستان کوسروگیسی کا ہب بتاتے ہوئے اس کو سروگیسی ٹورزم کہا تھا۔ 2009 میں لا کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ملک میں سروگیسی ریگولیشن کو لےکر کمیاں ہیں اور اس کی وجہ سے سروگیٹ مدرز کا استحصال ہوتاہے۔ اس کے بعد 2015 میں حکومت نےسروگیسی کو ریگولیٹ کرنے کے لئے کچھ انضباطی ہدایات بنائے۔21 نومبر 2016 میں یہ بل لوک سبھا میں پیش ہوا تھا لیکن اس کو قانون سازمجلس کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھیج دیا گیاتھا۔ کمیٹی نے 2017 میں اپنی رپورٹ پیش کی اور یہ 2018 میں منظور ہوا۔
سروگیسی کا کاروبار
کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری(سی آئی آئی)کے مطابق، ملک میں سروگیسی کاتقریباً 2.3 ارب ڈالر کا سالانہ کاروبار ہے۔انڈین کاؤنسل آف میڈیکل ریسرچ کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں ہرسال سروگیسی کےذریعے تقریباً 2000 بچوں کا جنم ہوتا ہے، جن میں سے زیادہ تر غیر ملکی کو سونپ دئے جاتے ہیں۔ سماجی کارکن کرن چاولہ کا دعویٰ ہے کہ ملک میں سروگیسی سے جڑے سات سے آٹھ ہزار کلینک ہیں، جو غیر قانونی طور پر چل رہے ہیں۔ ایسے میں پورا امکان ہے کہ یہ پورا کاروبار پچھلے دروازے سے چلےگا۔
بل کی حمایت کرنے والوں کی دلیل
سینٹر فار ریسرچ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر رنجنا کماری کہتی ہیں،’پوری دنیا کومعلوم ہے کہ ہندوستان سروگیسی کا ہب بن گیا ہے۔ دنیا بھر سے لوگ سروگیسی کے لئےہندوستان کا رخ کرتے تھے۔ سروگیسی کی آڑ میں ایک پوری انڈسٹری ہے، جو پھل-پھول رہی ہے، جس کو روکنا بہت ضروری تھا اور اس بل کی مدد سے اس پر لگام لگےگی۔ سروگیٹ مدرز کا استحصال کم ہوگا۔ سروگیسی کو لےکر ایک طرح کی شفافیت آئےگی، جو پہلے نہیں تھی۔ ‘
وہ کہتی ہیں،’بل میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ایک خاتون اپنی زندگی میں ایک بار ہی سروگیٹ مدر بن سکتی ہے جبکہ پہلے ایک ہی خاتون کے پانچ-پانچ بار سروگیٹ مدر بننے کے معاملے سامنے آتے تھے، جو کسی بھی خاتون کی صحت کے ساتھ کھلواڑ ہی ہے۔اب کم سے کم اس پر روک لگےگی۔ ‘وہیں سماجی کارکن گیتیکا چودھری کہتی ہیں،’اس بل میں کامرشیل سروگیسی پرروک لگانے کی بات کہی گئی ہے، جو بہت ضروری تھا۔ کرایے کی کوکھ کی آڑ میں غیرقانونی کام ہو رہے تھے۔ سروگیسی ہب کے طور پر پہچانے جا رہے ملک میں سروگیٹ مدرزکے استحصال کو روکنے اور کروموسوم کی خرید-فروخت کے لئے ثالث کے ریکیٹ کو ختم کیاجا سکےگا۔