وقف سماعت: سپریم کورٹ نے مرکز سے پوچھا – کیا ہندو بندوبستی بورڈ میں مسلمانوں کو شامل کریں گے؟

وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ نے پوچھا کہ کیا مرکزی حکومت مسلمانوں کو ہندو بندوبستی بورڈ میں شامل کرنے کے لیے تیار ہے، جس طرح سے وہ وقف بورڈ میں غیر مسلم اراکین کا مطالبہ کر رہی ہے۔

وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ نے پوچھا کہ کیا مرکزی حکومت مسلمانوں کو ہندو بندوبستی بورڈ میں شامل کرنے کے لیے تیار ہے، جس طرح سے وہ وقف بورڈ میں غیر مسلم اراکین کا مطالبہ کر رہی ہے۔

نئی دہلی: وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے بدھ (16 اپریل) کو پوچھا کہ کیا مرکزی حکومت مسلمانوں کو ہندو بندوبستی  بورڈ میں شامل کرنے کے لیے تیار ہے، جس طرح سے وہ وقف بورڈ میں غیر مسلم ممبران کا مطالبہ کر رہی ہے۔

وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 اس ماہ کے شروع میں پارلیامنٹ نے منظور کیا ہے۔ اس بل کو 3 اپریل کو لوک سبھا میں منظور کیا گیا گیا تھا، جس میں 288 ممبران نے اس کے حق میں اور 232 نے مخالفت میں ووٹ دیا تھا، جبکہ 4 اپریل کو راجیہ سبھا میں 128 ممبران نے حق میں اور 95 نے مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔

چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن کی بنچ اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی، عآپ  لیڈر امانت اللہ خان، ایسوسی ایشن فار دی پروٹیکشن آف سول رائٹس، ارشد مدنی، کیرالہ جمعیۃ العلماء، انجم قادری، طیب خان سلمانی ، محمد شفیع ، محمد فضل الرحمن اورآر جے ڈی لیڈر منوج کمار جھا کی جانب سے دائر 10 درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی۔

دریں اثنا، ٹی ایم سی ایم پی مہوا موئترا اور سماج وادی پارٹی کے رہنما ضیاء الرحمان برق کی طرف سے دائر تازہ درخواستیں بھی درج کی گئیں ہیں۔

وقف (ترمیمی) ایکٹ کی سماعت میں سینئر وکیل کپل سبل، ابھیشیک منو سنگھوی، راجیو دھون، سی یو سنگھ اور دیگر درخواست گزاروں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے کیا کہا؟

باراینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، بحث کا آغاز کرتے ہوئے وکیل کپل سبل نے کہا کہ وقف کونسل میں غیر مسلموں کو شامل کرنا آرٹیکل 26 کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔

سبل نے بنچ سے کہا، ‘میں موٹے طور پر بتادوں کہ چیلنج کس بارے میں ہے۔ پارلیامانی قانون سازی کے ذریعے جو کچھ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ ایک مذہب کے لازمی اور اٹوٹ حصے میں مداخلت ہے۔ میں آرٹیکل 26 کا حوالہ دیتا ہوں۔ ایکٹ کی بہت سی دفعات آرٹیکل 26 کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔’

سی جے آئی  سنجیو کھنہ نے وقف بائی یوزر پر دلائل سنتے ہوئے کہا، ‘جب ہم دہلی ہائی کورٹ میں تھےتو ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ زمین وقف کی زمین ہے!! ہمیں غلط مت سمجھیے… ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ یوزر کے ذریعے ساری دقف  غلط طریقے سے رجسٹر ہیں۔’

اس پر ایڈوکیٹ سنگھوی نے جواب دیا، ‘ہم نے سنا ہے کہ پارلیامنٹ بھی وقف کی زمین  پر ہے… ہم کہہ رہے ہیں کہ آپ کسی کو اس طرح باہر نہیں پھینک سکتے… سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے ایودھیا فیصلے کی بنیاد کو ہٹا دیا ہے؟’

انہوں نے کہا، ‘ان میں سے کچھ نقصاندہ دفعات فوری طور پر نافذ ہو گئی ہیں۔ ہم ان میں سے کچھ پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں، پورے قانون پر نہیں۔’

مرکزی حکومت  کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اسے مشترکہ پارلیامانی کمیٹی نے منظور کیا ہے اور اسے منظور ہونے سے پہلے پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں میں بھیجا گیا تھا۔

تاہم، ایک تلخ  سوال میں سی جے آئی کھنہ نے ایس جی مہتہ سے پوچھا کہ کیا حکومت مسلمانوں کو ہندو مذہبی ٹرسٹ کا حصہ بننے کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مہتہ جی کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ اب سے آپ مسلمانوں کو ہندو بندوبستی بورڈ کا حصہ بننے کی اجازت دیں گے۔ اسے کھل کر کہیں !’

عدالت نے کہا کہ یوزر کے ذریعے وقف کی منسوخی سے کئی مسائل جنم لیں گے اور اس نے ایکٹ کو چیلنج کرنے والی 100 سے زیادہ درخواستوں پر مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا۔

سی جے آئی نے کہا، ‘جب 100 یا 200 سال پہلے کسی عوامی ٹرسٹ کو وقف قرار دیا جاتا ہے… تو اچانک آپ کہتے ہیں کہ اس پر وقف بورڈ نے قبضہ کر لیا ہے اور اسے دوسری صورت قرار دیا جاتا ہے… آپ تاریخ کو دوبارہ نہیں لکھ سکتے!’

سپریم کورٹ نے عبوری فیصلہ تجویز کیا۔ جیسا کہ بار اینڈ بنچ کی رپورٹ میں حوالہ دیا گیا ہے، چیف جسٹس نے تجویز پیش کی کہ عدالت کی جانب سے وقف قرار دی گئی جائیدادوں کو غیر وقف نہیں سمجھا جائے گا یا انہیں غیر وقف نہیں مانا جائے گا، چاہے یہ وقف بائی یوزرہو یا نہیں؛ کلکٹر کارروائی کو جاری رکھ سکتا ہے، لیکن یہ اہتمام  مؤثر نہیں ہوگا۔ اور وقف بورڈ اور کونسل کے لیے سابق ممبران کا تقرر کیا جا سکتا ہے لیکن باقی ممبران کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔

عدالت نے بل کی منظوری کے بعد ہونے والے تشدد کی مذمت کی اور کہا کہ یہ بہت پریشان کن ہے۔

سماعت 17 اپریل کو دوپہر 2 بجے دوبارہ شروع ہوگی۔