وقف سماعت: حکومت کو جواب کے لیے وقت ملا؛ بورڈ میں تقرری اور جائیداد کی منتقلی پر عبوری روک

وقف (ترمیمی) ایکٹ کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کے دوسرے دن مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی کہ اگلی سماعت تک کسی بھی وقف جائیداد کو ڈی- نوٹیفائی نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کسی غیر مسلم کو کسی وقف بورڈ یا کونسل میں تقرری دی جائے گی۔

وقف (ترمیمی) ایکٹ کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کے دوسرے دن مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی کہ اگلی سماعت تک کسی بھی وقف جائیداد کو ڈی- نوٹیفائی نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کسی غیر مسلم کو کسی وقف بورڈ یا کونسل میں تقرری دی جائے گی۔

نئی دہلی: وقف (ترمیمی) ایکٹ، 2025 کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کے دوسرے دن مرکزی حکومت نے جمعرات (17 اپریل) کو سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی کہ 5 مئی کو ہونے والی اگلی سماعت تک کسی بھی وقف  جائیداد کو ڈی- نوٹیفائی نہیں کیا جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق ، مرکزی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئےسالیسٹر جنرل (ایس جی) تشار مہتہ نے عدالت عظمیٰ کو یقین دہانی کرائی کہ فی الحال وہ ترمیم شدہ ایکٹ کی متنازعہ دفعات، جیسے مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو شامل کرنے پر کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔

یہ سماعت کئی اپوزیشن رہنماؤں، مسلم اور این جی اوز اور سماجی کارکنوں کی جانب سے ترمیم شدہ ایکٹ پر تنقید کرنے کے بعد ہوئی ہے، جس میں  اسے آئین کے آرٹیکل 26 کی خلاف ورزی قرار دیا  گیاہے، جو شہریوں کو مذہبی امور کے مینجمنٹ کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔

پارلیامنٹ میں ایکٹ کی تیزی سے منظوری اور اس کے نفاذ کے بعد سے مغربی بنگال کے مرشد آباد ضلع سمیت کئی ریاستوں میں تشدد کا مشاہدہ بھی کیا گیا ہے۔

جمعرات کو چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ اور جسٹس پی وی سنجے کمار اور کے وی وشواناتھن پر مشتمل تین ججوں کی بنچ نے مسلسل دوسرے دن کیس کی سماعت کی۔

بار اینڈ بنچ کے مطابق، سماعت کے دوران ایس جی مہتہ نے عدالت پر درخواست کی کہ وہ کوئی اسٹے نہ لگائے۔ ‘یہ ایک سخت قدم ہے۔ براہ کرم مجھے کچھ دستاویزوں کے ساتھ ابتدائی جواب داخل کرنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیں۔ یہ ایسا معاملہ نہیں ہے جس پر اس طرح غور کیا جا سکے،‘ مہتہ نے کہا۔

جواب دیتے ہوئے سی جے آئی کھنہ نے کہا کہ ایکٹ میں کچھ مثبت چیزیں ہیں، لیکن اسٹیٹس -کو کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا، ‘ہم نے کہا تھا کہ قانون میں کچھ مثبت چیزیں ہیں۔ ہم نے کہا ہے کہ اس پر پوری طرح سے روک نہیں لگائی جا سکتی۔ لیکن ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ موجودہ صورتحال میں کوئی تبدیلی آئے… کچھ دفعات… جب معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے، توہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ موجودہ صورتحال میں کوئی تبدیلی نہ ہو۔’

سپریم کورٹ نے ایکٹ کی ترمیم شدہ دفعات پر روک لگانے کی درخواست پر حکومت کو اپنا جواب داخل کرنے کے لیے سات دن کا وقت دیا ہے۔ اس کے بعد درخواست گزاروں کو پانچ دن میں جواب داخل کرنے کی مہلت دی گئی ہے۔

مہتہ کی یقین دہانی کو ریکارڈ کرتے ہوئے بنچ نے کہا، ‘سماعت کے دوران ایس جی مہتہ نے کہا کہ جواب دہندگان 7 دنوں کے اندر مختصر جواب داخل کرنا چاہیں گے اور یقین دلایا کہ اگلی تاریخ تک اس ایکٹ کے تحت بورڈ اور کونسلوں میں کوئی تقرری نہیں ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ نوٹیفکیشن یا گزیٹڈ کے ذریعے پہلے سے  اعلان کردہ استعمال سے وقف  سمیت وقف کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔’

قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل بدھ کی سماعت میں سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے پوچھا تھا کہ کیا جس طرح وہ وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو شامل کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے، وہ  اسی طرح ہندو انڈومنٹ بورڈ(بندوبستی بورڈ) میں مسلمانوں کو شامل کرنے کے لیے تیار ہے۔

عدالت نے عبوری فیصلہ دینے کی تجویز دی تھی۔سی جے آئی  نے مشورہ دیا کہ عدالت کی طرف سے وقف قرار دی گئی جائیدادوں کو غیر وقف نہیں سمجھا جائے گا اور نہ ہی اسے غیر وقف کے طور پر مطلع کیا جائے گا، چاہے وہ وقف بائی یوزر ہو یا نہیں؛ کلکٹر کارروائی کو جاری رکھ سکتے ہیں، لیکن یہ دفعات مؤثر نہیں ہوگی۔ اور وقف بورڈ اور کونسل کے لیے ممبران کا تقرر کیا جا سکتا ہے لیکن دیگر ممبران کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔

کیس کی اگلی سماعت 5 مئی کو ہوگی۔

Next Article

ہندوستان اور پاکستان جنگ بندی کے لیے تیار، فوجی کارروائی پر روک مؤثر: سکریٹری خارجہ

ہندوستان اور پاکستان نے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔ خارجہ سکریٹری وکرم مصری نے بتایا کہ یہ فیصلہ دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوکے درمیان بات چیت کے بعد کیا گیا ہے۔ یہ جنگ بندی سنیچر کی شام 5 بجے سے مؤثر ہو گئی ہے۔ 12 مئی کو پھر سے بات چیت ہوگی۔

(علامتی تصویر: رائٹرز)

(علامتی تصویر: رائٹرز)

نئی دہلی: ہندوستان اور پاکستان جنگ بندی کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ ہندوستانی سکریٹری خارجہ وکرم مصری نے سنیچر (10 مئی) کی شام کو تصدیق کی کہ ہندوستان نے امریکہ کی ثالثی میں جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی آج شام 5 بجے سے مؤثر ہو گئی ہے۔

سکریٹری خارجہ کے مطابق پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) نےہندوستانی ڈی جی ایم او کودوپہر پہر 3 بجکر 35 منٹ پر کال کیا اور اس دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ شام 5 بجے کے بعد ہر طرح کی فائرنگ اور فوجی کارروائی روک دی جائے گی۔

سکریٹری خارجہ نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے ڈی جی ایم او 12 مئی کوپھر سے بات چیت کریں گے۔

اس سے قبل امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ نئی دہلی اور اسلام آباد نے ‘مکمل اور فوری’ جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔

ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹروتھ سوشل’ پر لکھا، ‘امریکہ کی ثالثی میں طویل مذاکرات کے بعد مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان نے مکمل اور فوری جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔’ ٹرمپ نے اس فیصلے کو دانشمندانہ قرار دیا اور اس کے لیے ہندوستان اور پاکستان کو مبارکباد دی۔

ٹرمپ کی پوسٹ کے چند منٹ بعد پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا، ‘پاکستان اور ہندوستان نے فوری اثر سے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر سمجھوتہ کیے بغیر خطے میں امن و سلامتی کے لیے کوششیں کی ہیں۔

Next Article

پاکستان اور ہندوستان کے مابین ٹریک ٹو سفارت کاری کا زوال

دونوں ممالک خاص طور پر ہندوستانی میڈیا کی موجودہ روش نے بھی ٹریک ٹو کو زوال کی وادی میں دھکیل دیا ہے۔

(علامتی تصویر: رائٹرز)

(علامتی تصویر: رائٹرز)

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ ہندوستان اور پاکستان جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے۔ ماضی میں جب بھی ایسی کشیدگی پیدا ہوئی، تو اس میں کمی کے لیے امن دوست آوازوں نے اپنا کردار اد اکیا۔ اس بارلیکن امن کی حامی ایسی آوازیں کیوں خاموش رہیں؟

پاکستان اور ہندوستان کے ریٹائرڈ فوجی افسران، سفارتکاروں، انٹلی جنس اہلکاروں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل غیر سرکاری سطح پر کی جانے والی پس پردہ سفارت کاری یا ٹریک ٹو ڈپلومیسی دونوں پڑوسی ممالک کے مابین کشیدگی کم کرنے اور قیامِ امن کو برقرار رکھنے میں ایک خاموش لیکن بنیادی کردار ادا کرتی رہی ہے۔

ٹریک ٹو سے وابستہ کئی افراد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ  سول سوسائٹی اس ٹریک ٹو ڈپلومیسی  کا ایک اہم جزو رہی ہے اور اب اس کی عدم دلچسپی اور دونوں ممالک میں تقسیم ہند کے وقت کی نسل کے معدوم ہونے کے عمل نے پس پردوہ سفارت کاری کو بڑی حد تک غیر مقبول بنا دیا ہے۔

 اس سے بڑھ کر پاکستان اور ہندوستابن میں سرگرم ٹریک ٹو گروپس کو امن کےخواہاں کئی یورپی و دیگر ممالک کے غیر سرکاری گروپ فنڈ فراہم کرتے تھے تاہم اب ان گروپوں نے یہ فنڈنگ بند کردی ہے۔

اندازہ ہے کہ کبھی 15 سے زائد فعال گروپ پاک-ہندوستان مکالمے کو زندہ رکھنے کا کام کرتے تھے۔ اب یہ تقریباً غیر مؤثر ہو چکے ہیں- جن تنظیموں نے ٹریک ٹو میں کلیدی کردار ادا کیا ان میں میڈیا سے متعلق سافما یعنی ساؤتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن، اور پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی یعنی پی آئی پی ایف ڈی قابل ذکر ہیں۔ یہ تنظیمیں اعتماد سازی اور عوامی تعلقات کی بحالی میں ایک بڑا کردار ادا کرتی تھیں۔

ہندوستانی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں ہندوستانی اراکین پارلیامان کا ایک وفد پاکستان کے دورے پر گیا تھا۔ پاکستانی صحافی امتیاز عالم، جنہوں نے سافما کے مقامی ذمہ دار ہونے کی وجہ سے اس گروپ کی میزبانی کی تھی، کا کہنا ہے کہ وفد میں تمام پارٹیوں کے نمائندے شامل تھے، جنھوں نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کا نفاز کروانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔

اس وفد میں بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو بھی شامل تھے، جہنوں نے پاکستانی سامعیں کو خوب لبھایا۔ وہ اسلام آباد اور راولپنڈی کی سڑکوں پر دکانداروں اور ریڑھی والوں سے بات چیت کرتے ہوئے  بھی نظر آتے تھے۔ سال 2004 میں ہندوستانی صحافیوں کا ایک وفد پاکستان اور پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر گیا، جس کے نتیجے میں ایک بڑی پیش رفت ہوئی۔

ان کے مشورہ پر حکومت نے لائن آف کنٹرول پر سرحدی آمد و رفت کی اجازت دی اور دونوں ملکوں نے کشمیر میں چار مقامات پر سرحد کھول دی، جہاں عوامی رابطوں اور دوطرفہ تجارت کا آغاز ہوا۔ امتیاز عالم کہتے ہیں،’یہ سب اسی وفد کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔’

شائستگی کی موت

وزیر اعظم نریندر مودی کے برسر اقتدار میں آنے کے بعد ٹریک ٹو کی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں۔ دوسری طرف ٹی وی اسٹوڈیوز نے بھی اپنی ریٹنگزیا ٹی آرپی کی ریس میں جنگی جنون برپا کروانے کی ترجیح دی۔ حال ہی میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں  پہلگام میں سیاحوں پر کیے گئے حملے اور اس کے بعد کے واقعات نے صرف آن لائن جنون کو بڑھاوا دیا۔ اس قومی جنون نے امن کی آوازوں کو دبا دیا اور دونوں حکومتیں خاموش تماشائی بنی رہیں۔

ہندوستانی تھنک ٹینک سینٹر فار پیس اینڈ پروگریس کے کنوینر او پی شاہ  کہتے ہیں،’اس وقت سے بہتر کوئی لمحہ نہیں ہو سکتا کہ سیاسی دانش مندی دکھائی جائے اور پرامن حل نکالا جائے۔’  پہلگام حملے کے دس دن گزرنے کے بعد دونوں ملکوں کے امن پسند کارکنوں نے بمشکل ایک مشترکہ بیان جاری کیا، جس کا اثر تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا۔

پاکستان اور ہندوستان کے مابین  ٹریک ٹو  سفارت کاری کے سلسلے میں کی گئی متعدد کوششوں کا حصہ رہنے والے سینئر ہندوستانی صحافی ونود شرما افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں،’نفرت نے امید کو شکست دے دی ہے۔ جو امن کی بات کرتا ہے اسے غدار کہا جاتا ہے۔‘

خوف کی فضا اور قوم پرستی کا غلبہ

پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی سے وابستہ ریتا منچندا کہتی ہیں،’ہندوستان میں امن کے لیے کام کرنے والے کارکنوں میں خوف کی فضا ہے۔ آج ٹریک ٹو دونوں ملکوں میں یتیم ہے۔ مین اسٹریم اور سوشل میڈیا صرف دشمنی کو ہوا دے رہے ہیں۔‘

سال 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد سے ہی ٹریک ٹو نیٹ ورک زوال کا شکار ہو گیا تھا۔ اگرچہ اب سرکاری طور پر دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز ہر ہفتے رابطہ میں رہتے ہیں، مگر سول سوسائٹی کی سطح پر روابط نہ ہونے کےبرابر ہیں۔

ہندوستان کے وزیراعظم مودی نے ان  کاوشوں کو ہمیشہ ہی شک کی نگاہ سے دیکھا ہے اور ان کے لیے ‘خان مارکیٹ گینگ’الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ ان کی حکومت کی طرف سے فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ کو سخت کرنے سے امن کی خواہاں غیر ملکی اور غیر سرکاری اداروں کی طرف سے فنڈنگ کا حصول مشکل بنا دیا گیا۔

یورپی اداروں نے بھی ہندوستان پاکستان کی سول سوسائٹی سے منہ موڑ رکھا۔ افغانستان میں امریکی مداخلت کے بعد ان کی بھی ترجیحات بدل گئیں اور دوسری طرف یورپ میں کساد بازاری کی وجہ سے ان کی اپنی فنڈگ کے ذرائع خشک ہو گئے۔

کچھ عطیہ دہندگان نے تو افغانستان کا رُخ کیا اور کچھ نے دہلی و اسلام آباد کی غیر دلچسپی دیکھ کر امید ہی چھوڑ دی۔

ناقدین کہتے ہیں کہ ٹریک ٹو ہمیشہ اشرافیہ کے درمیان محدود رہا۔ ایسے افراد کے مابین جو تقسیمِ ہند کی یادیں یا سرحد پار رشتہ داریاں رکھتے تھے، مگر نئی نسل اس سے پوری طرح کٹی ہوئی تھی۔

’یہ ملاقاتیں محض جذباتی نقطہ نظر سے اہم تھیں، نوجوانوں کے لیے ان کے کوئی معنی نہیں۔ ‘ یہ بات ایک سابق ہندوستانی امن کارکن نے کہی، جو اب قوم پرست نظریہ کے ہراوال سپاہی بنے ہوئے ہیں اور اپنی تقریریوں میں پاکستان اور مسلمانوں پر تنقید کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے ہیں۔

ریتا منچندا بھی اس نکتے سے اتفاق کرتی ہیں،’ہم نے کہیں نہ کہیں نوجوان نسل کو کھو دیا ہے۔ آج کی نسل نفرت انگیز وائرل مواد سے متاثر ہے، مشترکہ ماضی کی یادوں سے نہیں۔ یہ خلا خطرناک ہے۔ تاہم کچھ نوجوانوں کے اقدامات آج بھی امید دلاتے ہیں۔’

میڈیا کا کردار

دونوں ممالک خاص طور پر ہندوستانی میڈیا کی موجودہ روش نے بھی ٹریک ٹو کو زوال کی وادی میں دھکیل دیا ہے۔ کارگل جنگ کے بعد ٹی وی میڈیم نے کلیدی پوزیشن حاصل کی تھی اور اس میڈیم کو امن کا نقیب نہیں بنایا جاسکا۔ باقی رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کی۔

ساؤتھ ایشیا پیس ایکشن نیٹ ورک کی صدر اور پاکستان اور ہندوستان کے مابین دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کے ایک اقدام امن کی آشا کی ایک سرگرم کارکن رہنے والی بینا سرور شکست تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سول سوسائٹی کو امن کی قیمت کا اندازہ ہو گا۔

اس موقع پر وہ ایک سوال پوچھتی ہیں،’اگر فرانس اور جرمنی جو ایک لمبےعرصے تک ایک دوسرے کے دشمن رہے اور خونریز جنگیں بھی لڑیں، یورپی یونین کے رکن بن کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں، تو ہندوستان اور پاکستان اچھے ہمسائے کیوں نہیں بن سکتے؟‘

(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کایہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)

Next Article

ہندوستان-پاکستان اطلاعاتی جنگ اور صحافت کی موت

غلط انفارمیشن کے علاوہ ٹی وی اینکروں کی گندی زبان اور گالی گلوچ نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔سفید جھوٹ اور پروپیگنڈہ کوئی انٹرنیٹ ٹرول نہیں بلکہ قومی سطح کے بڑے میڈیا ادارے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کسی کے کہنے پر پھیلا رہے تھے۔

اسکرین شاٹ

اسکرین شاٹ

یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ کا پہلا شہید’سچ’ ہوتا ہے، کیونکہ گولہ بارود، ہتھیاروں اور انٹلی جنس کے علاوہ اطلاعاتی نظام بھی اس کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ مگر ہندوستانی میڈیا نے اس ہتھیار کو جس قدر اوچھے طریقے سے استعمال کیا کہ اس کو دیکھ کر ہی گھن آتی ہے۔

 اطلاعاتی جنگ کے اپنے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں، جن سے دشمن کو زیر کیا جاسکتا ہے۔ میڈیا پروفیشنلز ان سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔ میں پچھے تیس سالوں سے ہندوستان کے قومی میڈیا کا حصہ رہاہوں۔ چند سال قبل تک اہم نیوز رومز کے انتظام و انصرام کے علاوہ بطور چیف آف بیورو سینکڑوں رپورٹروں کی نگرانی و رہنمائی کا کام کیا ہے۔

 مگر ٹی وی اسکرینوں اور میڈیا ویب سائٹس نے اس جنگ کے دوران قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر سفید جھوٹ کے جو دریا بہاکر جنگی جنون برپا کرایا، سر شرم سے جھک گیا ہے۔ اب اس میڈیا کے ساتھ وابستگی کا حوالہ دینا ہی سبکی جیسا لگتا ہے۔

کیا ان اینکروں اور مدیران کو معلوم نہیں ہے کہ اکیسویں صدی میں، جب اطلاعاتی ماحول جغرافیائی سرحدوں اور روایتی میڈیا کے کنٹرول سے آزاد ہوچکا ہے، کیسے ایک سفید جھوٹ کو پروسا جاسکتا ہے۔

ایک صحافی کی سب سے زیادہ اہم متاع اس کی ساکھ ہوتی ہے۔ اگر یہ متاع کھو جائے، تو صحافی کی موت واقع ہوجاتی ہے، گو کہ جسمانی طور پر وہ زندہ ہو۔رپورٹنگ میں غلطیاں تو ہو جاتی ہیں، مگر ان کو تسلیم کرکے ان پر شرمندہ ہونا اور اپنے قارئین یا سامعین سے معافی کا خواستگار ہونا، ایک عظیم صحافی کی نشانیاں ہیں۔

جب ٹی وی اینکر چیخ چیخ کربتا رہے تھے، کہ کراچی کو تباہ کردیا گیاہے، بلکہ نقشہ سے ہی غائب ہو گیا ہے، تو میں نے پہلے کچھ زیادہ سیریس تو نہیں لیا، مگر جب ایک صحافی برکھا دت، جس کو چند احباب معتبر صحافی سمجھتے ہیں، نے ٹوئٹ کرکے یہی خبر دی، میں نے اپنے ایک سابق کولیگ، جو اب کراچی شفٹ ہوگئے ہیں کو فون کیا۔ جب وہ فون اٹھا نہیں رہے تھے، تو یقین آگیا کہ شاید کراچی واقعی ختم ہو گیا ہے۔

 مگر چند ساعت کے بعد ان کا خود ہی فون آیا اور معذرت کہ کہ وہ اس وقت نہاری لینے کے لیے ایک ریسٹورنٹ کے باہر قطار میں کھڑے ہیں۔ ہندوستانی میڈیا کی چند ہیڈلائنز دیکھیں۔ ہندوستانی بحریہ نے کراچی پورٹ تباہ کر دیا! آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بغاوت کے بعد گرفتار کر لیا گیاہے۔ ہندوستانی فوج نے اسلام آباد پر حملہ کر دیا اور شہباز شریف کو کسی’سیف ہاؤس’میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

زی نیوز نے سنسنی خیزی میں اضافہ کرتے ہوئے اعلان کر دیا؛’اسلام آباد پر قبضہ کر لیا گیا!’ جس وقت یہ خبر چلائی گئی، تو پینل پر موجود ماہرین خوشی سے ڈانس کرنے لگے۔ آج تک ٹی وی نے تو حد ہی کر دی۔کراچی پورٹ پر فرضی حملے کی ویڈیو اسٹوڈیو میں ہی تیار کر کے ایسے نشر کی جیسے یہ حقیقی مناظر ہوں۔اس کے انگریزی چینل انڈیا ٹوڈے نے لاہور اور کراچی پر بیک وقت حملے کا دعویٰ کر دیا۔

اے بی پی نیوز  نے سب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے یہ دعویٰ کر ڈالا کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر گرفتار ہو چکے ہیں۔ ٹی وی نو  نے بتایا کہ پاکستان کے 25شہر تباہ کر دئے گئے ہیں۔ا یک اور چینل نے دعویٰ کیا کہ پاکستان زیر انتظام کشمیر میں فوج گھس گئی ہے اور پینل میں موجود ایک ریٹائرڈ میجر تو خوشی سے چلانے لگا۔

 ایک سابق فوجی ہوتے ہوئے اس کو معلوم نہیں تھا کہ ہندوستان میں اسٹرائیک کور کو سرحد کی طرف کوچ کرنے کے لیے خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔ 2001میں آپریشن پراکرم کے  وقت تو دو ہفتے کا وقت لگا تھا۔سبھی اسٹرائیک کورز اور دفاعی کورز کو تو دوماہ کا وقت لگا تھا۔

انڈیا نیوز نے تو نیا آرمی چیف بھی خود ہی تعینات کر دیا۔زی نیوز نے گرافکس چلائے کہ’پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے اور ہندوستانی افواج نے بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔اسی پروگرام میں اسکرین پر وزیراعظم شہباز شریف کو بنکر میں چھپتے اور ہندوستانی افواج کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے دکھایا گیا۔

 اس غلط انفارمیشن کے علاوہ ٹی وی اینکروں کی گندی زبان اور گالی گلوچ نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ ایک اینکر نے تو دورہ پر آئے ایرانی وزیر خارجہ کے خلاف نازیبا االفا ظ ادا کیے اور ان کو سور کی اولاد تک کہا۔ جس پر ایرانی سفارت خانہ نے احتجاج بھی درج کر دیا۔

 اس طرح ریپبلک ٹی وی پراینکر ایک پاکستانی مہمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے،’جنجوعہ، تمہاری فوج پٹ گئی۔ تم بھگوڑے ہو۔’یہی حال دیگر چینلوں پر پاکستانی پینلسٹوں کا ہو رہا تھا۔

یہ پروپیگنڈہ کوئی انٹرنیٹ ٹرول نہیں بلکہ قومی سطح کے بڑے میڈیا ادارے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کسی کے کہنے پر پھیلارہے تھے۔ اس قدر پاگل پن، جب بریکنگ خبر دی گئی کہ پاکستان کا جہاز راجستھان میں مار گرایا گیا ہے اور پائلٹ زیر حراست ہے۔ کسی نے بطور مذاق ایک وہاٹس اپ گروپ میں لکھا کہ پائلٹ کا نام جہاز الدین ہے۔

 اگلے چند منٹ میں نیوز ٹکر ز پر جہازالدین کا نام آنے لگا۔  جو ٹوئٹر اکاونٹ یا میڈیا کے ادارے صحیح خبریں نشر کر رہے تھے، ان کو بلاک کردیا گیا۔

دی وائر کی ویب سائٹ بلاک کر دی گئی۔اس سلسلے میں آٹھ ہزارسے زائد اکاونٹس تک رسائی بند کر دی گئی۔ سچ بولنے والوں کو صرف اس لیے چپ کرایا جا رہا تھا،تاکہ جھوٹ پھیلانے والی فیکٹریوں کو کہیں سے مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

میڈیا کو قوت ضرب یا فورس ملٹیپلیرکے بطور استعمال کرنے کا پہلا تجربہ ہندوستان میں اکتوبر 1993میں اس وقت کیا گیا، جب جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ سے وابستہ عسکریوں کو حضر ت بل کی درگاہ سے باہر نکالنے کے لیے فوج نے آپریشن کیا تھا۔ یہ آپریشن 32دن جاری رہا۔ اس دوران سرینگر میں 15ویں کور میں اس و قت کے بریگیڈیر جنرل اسٹاف ارجن رے نے میڈیا کو آپریشن ایریا تک رسائی دی۔یہ آپریشن تو دو تین دن میں ختم ہو سکتا تھا۔ مگر اس کو طول دےکر میڈیا کو قوت ضرب کا حصہ بنانے کی ریہر سہل کی گئی۔

 دہلی سے قومی اوربین الاقوامی میڈیا اداروں کے نمائندوں کو لالاکر درگاہ کے اندر موجود عسکریوں کے انٹرویوز تک کرنے دیے گئے۔ اندر عسکری کمانڈروں کو کھانے بہم کروانے کو بھی میڈیا وار کا حصہ بنایا گیا۔ انہی دنوں فوج نے روزانہ بریفنگ کی روایت بھی شروع کی۔

 یہ تجربہ بعد میں 1999کی کرگل جنگ میں خاصا کام آیا۔ اس وقت ارجن رے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے اور ڈائرکٹر جنرل پبلک انفارمیشن کا محکمہ قائم کرکے ان کو اس کا سربراہ بنادیا گیا۔ وہ انتہائی زیرک، چہرے پر مسکراہٹ سجائے، میڈیا فرینڈلی جنرل تھے۔

گو کہ کرگل جنگ کے دوران روزانہ بریفنگ کرنل بکرم سنگھ (جو بعد میں آرمی چیف بن گئے) کرتے تھے، مگر ان کی بریفنگ کا انتظام، کرگل محاذ پر صحافیوں کو دورے کروانا،  بیک گراؤنڈ بریفنگ کروانا ا رجن رے اور ان کے دست راست کرنل منوندر سنگھ کے سپرد تھا۔

منوندر انڈین ایکسپریس میں دفاع کے بیٹ کے رپورٹر تھے اور انہی دنوں انہوں نے استعفیٰ دیکر ٹیریٹوریل آرمی جوائن کی تھی۔ ایک روز وہ بطور صحافی ہمارے ساتھ جنگ کور کر رہے تھے، اگلے روز وردی میں بریفنگ کا انتظام کر رہے تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ پاکستانی آرمی چیف جنرل پرویز مشرف اور لیفٹنٹ جنرل عزیز کی ریکارڈ کردہ بات چیت کو عام کروانے کا مشورہ جنرل رے نے ہی وزیر خارجہ جسونت سنگھ کو دیا تھا۔ جسونت سنگھ منوندر کے والد تھے۔

مگر اس پوری سعی کے باوجود کرگل جنگ کے دوران قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرا مطمئن نہیں تھے۔ ان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر انڈین میڈیا کی ساکھ خاصی نیچے ہے اور اس پر کوئی یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے۔

 پرائیوٹ چینلوں کا دور شروع ہو چکا تھا۔ نیوز چینلوں میں اسٹار نیوز اور زی نیوز آن ایر ہو چکے تھے۔ اسٹار نیوز کے انگریزی شعبہ کو این ڈی ٹی وی مواد اور اینکر فراہم کرتا تھا۔ جنگ کے فوراً بعد مشرا نے این ڈی ٹی وی کے سربراہ پرنائے راے کو بلا کر ان کو اپنی الگ چینل شروع کرانے کا مشورہ دیا۔

 ان دنوں ہندوستان سے اپ لنکنگ کی اجازت نہیں تھی۔ مشرا نے مداخلت کرواکے اپ لنکنگ کا مسئلہ حل کروادیا۔ این ڈی ٹی وی کے بجٹ کے ایک حصہ کا بار حکومت نے اپنے ذمہ لے لیا۔ طے ہوا کہ این ڈی ٹی وی ایک سینٹر ٹو لیفٹ کی پوزیشن لےکر ٹی وی صحافت میں ایک اعلیٰ معیار قائم کرے۔

حکومت کی کارکردگی کی جتنی بھی تنقید کرنا چاہیے کرسکتا ہے، اس میں حکومت کبھی مداخلت نہیں کرےگی، مگر نازک اوقات، خاص طور پر جب کشمیر میں مظاہرے ہورہے ہوں یا ملک حالت جنگ میں ہو، اس وقت حکومت کی مدد کرنے کے لیے ایک ایسا بیانیہ وضع کرے جس کوبین الاقوامی سطح پر قبولیت ہو۔

اس لیے جب بھی کشمیر میں عوام سڑکوں پر ہوتے تھے یا پتھر بازی ہوتی تھی، برکھا دت فوراً پہنچ کر اس کا بیانہ وضع کروانے کا کام کرتی تھی۔ لہذا جو افراد برکھا دت کو قابل اعتماد اور لبرل صحافی کی حیثیت سے جانتے  ہیں ان کو اپنی معلومات درست کرنی چاہیے۔

این ڈی ٹی وی اور اس کے اینکروں نے واقعی اس دوران اپنی کوریج اور حکومت کے ہمہ وقت احتساب کروانے کی وجہ سے ساکھ بنوائی۔ جس کا استعمال نازک اوقات، خاص طور پر کشمیر میں شورش کو موڑ دینے کے لیے بیشتر اوقات کیا گیا۔ یعنی یہ چینل برجیش مشرا کی توقعات پر بالکل پورا اترا۔

بین الاقوامی سطح پر اس نے بی بی سی، سی این این کی طرح معتبریت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔  2015کے بعد موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کے کہنے پر این ڈی ٹی وی کے فنڈز بند کر دیے گئے، کیونکہ معلوم ہو گیا تھا کہ فنڈز جو انگریزی چینل کے لیےمخصوص تھے ان کو دیگر شعبوں اور نان نیوز اداروں میں استعمال کیا جارہا تھا۔

 چونکہ موجودہ حکومت کو ادراک ہوا کہ ہندوستان اب ایک ہارڈ اور معاشی پاور بن چکا ہے اس لیے بین الاقوامی بیانیہ کے لیے اس کو کسی میڈیا کے سافٹ پاور کی اب ضرورت نہیں رہی۔طے ہوا کہ صرف اسی میڈیا کی سرپرستی کی جائےگی، جو بالکل حکومت کی گود میں بیٹھا ہو اور اس کی تعریفوں کے پل بغیر کسی ابہام کے باندھے۔

اطلاعاتی جنگ کا ایک بنیادی پہلو’اعتبار’ہوتا ہے۔ یہ اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب  غلط معلومات اور گمراہ کن دعوے کے ساتھ کچھ سچائی بھی پروسی جائے۔جس طرح کی کارکرگی اس وقت ہندوستانی چینلوں نے دکھائی اب کون ان کے بیانہ پر اعتبار کرےگا۔حکومت کی طرف سے بھی کرگل جنگ کے برعکس اس با ر دہلی میں کوئی تفصیلی بریفنگ نہیں دی گئی۔

یہ حال 1999میں پاکستان کا تھا۔لگ رہا تھا کہ اس بار رول تبدیل ہو چکے ہیں۔ جونیئر افسران کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویمکا سنگھ کو میڈیا کو بریفنگ کی ذمہ داری دی گئی۔ اس کے برعکس پاکستان نے ایئر فورس کے تیسرے سینئر ترین افسر، ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد کو میڈیا کے سامنے پیش کیا، جنہوں نے نقشے کے ذریعے ایک تفصیلی بریفنگ دی۔

انہوں نے صبر و تحمل سے بتایا کہ آپریشن سیندور کے آغاز سے قبل ہی پاکستانی فضائیہ نے الکٹرانک طریقے سے ہندوستانی طیاروں کی شناخت کرلی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فضائی حکمتِ عملی اب روایتی فضائی جھڑپوں تک محدود نہیں، بلکہ اب وہ ایک ‘کثیر الجہتی جنگی حکمت عملی’ (ملٹی ڈومین آپیزیشنز) پر مبنی ہے۔

جن صحافیوں نے کرگل جنگ اور اس کے بعد آپریشن پراکرم کور کیا ہو، ان کو معلوم ہوگا کہ جب اتنی تفصیل سے بریفنگ دی جائے تو میڈیا بھی اسی بیانیے کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔دونوں مواقع پر مجھے یاد ہے کہ نئی دہلی میں نہ صرف روزانہ آن ریکارڈ بلکہ اعلیٰ افسران متواتر ایک موقع پر تو خود آرمی چیف کی طرف سے بیک گراؤنڈ بریفنگ دی گئی تھی۔

مجھے یاد ہے کہ پاکستان کے جنگ اور نیوز کے دہلی کے بیورو چیف عبدالوحید حسینی بھی اس میں شریک ہوتے تھے اور تیکھے سوالات بھی پوچھتے تھے۔  ایڈیٹروں اور دہلی میں مقیم بین الاقوامی میڈیا کے سربراہوں کو خود وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور جسونت سنگھ بھی بسا اوقات بیک گراؤنڈ بریفنگ کے لیے بلاتے تھے۔

پاکستان نے چونکہ سینئر افسران کو میدان میں اتارا، اس لیے  اگلے روز بین الاقوامی اخبارات اور ٹیلی وژن چینلوں پر پاکستانی موقف چھایا رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان کی طرف سے کسی سینئر فضائی افسر نے  میڈیا سے بات نہیں کی۔جب اس غلطی کا اندازہ ہوگیا، تب تک دیر ہو چکی تھی۔ تو نتیجہ کیا نکلا؟

پاکستانی موقف کو اعتبار حاصل ہوا۔ اب یہ درست ہے یا غلط، یہ ایک الگ بحث ہے۔ مگر جب ہندوستان کی جانب سے کوئی متبادل بیانیہ ہی موجود نہ تھا، تو پھر یکطرفہ کہانی ہی سچ مان لی جاتی ہے۔

دفاعی تجزیہ نگار اور فورس میگزین کے ایڈیٹر پروین ساہنی کے مطابق پاکستان کی’کثیر الجہتی جنگی حکمت عملی’ مودی حکومت کے کشمیر میں 5 اگست 2019 کو کیے گئے اقدمات کا شاخسانہ ہے۔ ان کے مطابق اس سیاسی قدم نے چین اور پاکستان کی افواج کو ایک تزویراتی اتحاد میں باندھ دیا۔ پہلے بھی تعاون موجود تھا، مگر اس کے بعد یہ رشتہ کہیں زیادہ گہرا اور ادارہ جاتی ہو گیا۔

 صدر شی جن پنگ سمیت تمام اعلیٰ چینی قیادت نے کھلے عام پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کے حق میں بیانات دیے۔ مطلب یہ کہ اگر ہندوستان کے ساتھ جنگ ہوئی، تو چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) براہ راست نہ سہی، پس منظر میں ضرور پاکستان کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ اور اس کا اشارہ ہمیں آپریشن سیندور میں ملا۔ا

س وقت بھی پاکستان کے بجائے دراصل چھوٹا چین ہندوستان کے ساتھ برسرپیکار تھا۔ اب اگر آئندہ کبھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑجاتی ہے، تو وہ صرف یک محاذی جنگ نہیں ہوگی۔

ساہنی کا کہنا ہے کہ 2019 سے وہ خبر دار کرتے آئے ہیں کہ ہندوستان کو اب خطرہ اب صرف پاکستان سے نہیں، بلکہ چین اور پاکستان کے مشترکہ فوجی اتحاد سے ہے۔جس میں چینی فوج میدانِ جنگ میں تو نظر نہیں آئے گی، مگر اس کی موجودگی ہر مرحلے پر محسوس کی جائے گی۔

ان کے مطابق،’کثیر الجہتی جنگی حکمت عملی’کے چھ بنیادی پہلو ہیں؛


لڑاکا طیارے – پاکستان کے موجودہ فرنٹ لائن طیارے، جے-10 اور جے ایف -17، دونوں چینی ساختہ ہیں،

بی وی آر میزائل – پی ایل -15، جو بہت دور تک ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے،

 چین سے حاصل کیا گیا ہے، سیٹلائٹ نظام – چین کے بیئی ڈوؤ نیٹ ورک سے استفادہ، جس میں 44 سیٹلائٹس موجود ہیں، پاکستان کو 24 گھنٹے میدانِ جنگ کی نگرانی اور میزائل ہدف بندی کی سہولت دیتا ہے،

  ایئربورن ارلی وارننگ اینڈ کنٹرول سسٹم (اے ای ڈبلیو اینڈ سی)،پاکستان کے پاس نو نظام موجود ہیں جو دشمن کے اہداف کی شناخت اور نگرانی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں,

الکٹرانک وار فیئر – 2019 کے بالا کوٹ حملے میں پاکستان نے نہ صرف ہندوستانی کمیونی کیشن جام کیا  تھا بلکہ اسے ریکارڈ بھی کیا۔اس بار بھی اورنگزیب نے ہندوستانی پائلٹوں کی پرواز کے دوران گفتگو کی ایک ویڈیو میڈیا کو سنائی، جس نے اُن کے دعوے کو مزید مستند بنایا اور

  ڈیٹا لنکنگ – تمام یونٹس، چاہے وہ سیٹلائٹ ہوں، زمینی افواج یا فضائی یونٹس، سب ایک دوسرے کے ساتھ حقیقی وقت میں جڑے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے پاس لنک -17 نیٹ ورک پہلے سے موجود تھا، جسے اب مزید اپ گریڈ کیا گیا ہے۔

ان میں سب سے اہم دو صلاحیتیں ڈیٹا لنکنگ اور الکٹرانک وار فیئر ہیں، جو پائلٹ کو میدانِ جنگ کا مکمل 360 ڈگری منظر فراہم کراتی ہیں۔ اس نظام کو ’کل چین‘ کہا جاتا ہے—یعنی خبردار ہونا، ہدف تلاش کرنا، اس پر نظر رکھنا، اور پھر اسے مکمل طور پر تباہ کر دینا۔


اگر یہ تمام عناصر مربوط انداز میں کام کریں تو دشمن کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔2020 کے بعد سے پاکستانی فضائیہ اور چینی فضائیہ نے اس حکمت عملی پر مشترکہ مشقیں شروع کی ہیں، جنہیں’شاہین ایکسرسائز’ کہا جاتا ہے۔ یہ مشقیں 2012 سے جاری تھیں، لیکن پہلے ان کا محور صرف ڈاگ فائٹ اور الکٹرانک وار فیئر ہوتا تھا۔ اب توجہ اس بات پر ہے کہ میدانِ جنگ میں کون پہلے کل- چین مکمل کرتا ہے۔

اور یہ ہم آہنگی 2019 کے بعد بہت زیادہ مستحکم ہو چکی ہے۔اسی طرح یہ آنے والے خصوصاً کروز میزائل کے سسٹم میں داخل ہوکر اس میں غلط معلومات درج کرواکر اس کو بھٹکاتا ہے۔ جیسا کہ ہندوستان کا ایک برہموس کروز میزائل اپنے ہدف کے بجائے پاکستان کی سرحد کو کراس کرکے افغانستان کے کسی علاقے میں گرا۔

ساہنی کے مطابق، آپریشن سیندور مکمل جنگ کے بجائے ایک بحران تھا۔ لیکن بحران اور جنگ کے درمیان قبل از جنگ مرحلہ ہوتا ہے۔ یہاں پاکستان کو برتری حاصل ہوگئی ہے۔ کیونکہ وہ  اپنے جغرافیائی خدوخال  ہولڈنگ کی وجہ سے اسٹرائیک فورسز کو 48 سے 72 گھنٹوں میں متحرک کر سکتا ہے۔

جبکہ ہندوستانی فوج چونکہ بہت بڑی ہے اور ملک کے مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے، اس لیے اس میں وقت لگتا ہے۔ جیسے 2001–2002 میں آپریشن پراکرم کے دوران اسٹرائیک کور کو متھرا، بھوپال اور آگرہ سے سرحد تک پہنچانے میں دو ہفتے لگے تھے۔ اگرچہ اب بہتری آئی ہے، مگر پاکستان کے مقابلے میں اب بھی سست ہے۔

 مودی حکومت کے 11 سالوں میں تین تھرش ہولڈ قائم ہوئے ہیں۔ پہلا قدم تھا 2019 کا بالا کوٹ حملہ—جب پہلی بار ہندوستانی فضائیہ نے کسی بحران میں کارروائی کی، یہ ایک نئی نظیر تھی، دوسرا قدم تھا آپریشن سیندور—اس بار پاکستان مکمل طور پر تیار تھا، فضائی حملے کا انتظار کر رہا تھا،  تیسرا قدم  اسی آپریشن کے دوران ڈرون اور میزائلوں کا استعمال، جو اب نہ صرف لائن آف کنٹرول بلکہ بین الاقوامی سرحد پر بھی داغے جاسکتے ہیں۔

 اس کے علاوہ، ہندوستانی وزیرِ اعظم کی سربراہی میں ہونے والی سکیورٹی میٹنگ کے بعد یہ اعلان ہوا کہ آئندہ کسی بھی دہشت گرد حملے کو ‘جنگ کا اعلان’ تصور کیا جائے گا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کشمیر یا کسی اور علاقے میں کوئی حملہ ہوتا ہے، تو براہِ راست جنگ ہوسکتی ہے یعنی جنگ کرنے کا تھرش ہولڈ مزید گر گیا ہے۔ یعنی ایک ایسی صورتحال  پیدا ہو گئی ہے جہاں جنگ بندی اور جنگ کرنے میں میں فرق مٹ چکا ہے۔

ہندوستانی فوج کو ہر وقت جنگی تیاری کی حالت میں رہنا ہوگا۔یعنی مودی حکومت کے دور میں ہندوستان کو درپیش خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔اب دشمن صرف پاکستان نہیں بلکہ چین اور پاکستان کی متحدہ فوجی قوت ہے۔جنگ کا دہانہ یعنی تھرش ہولڈ نیچے آ چکا ہے۔یعنی دو بلکہ چین سمیت تین جوہری طاقتوں کی حامل قوتوں کے درمیان جنگ آسانی سے چھڑ سکتی ہے۔

اب آپ فیصلہ کریں کہ کیا واقعی مودی کے اس قدم سے ہندوستان زیادہ محفوظ ہوگیا ہے اور مسلسل تیاری کی حالت میں رہنے سے فوج کی کیا حالت ہوسکتی ہے؟ کیا اس سے بہتر یہ نہ ہوتا کہ سیاسی مسائل کو باہمی طور پر حل کیاجاتا، تاکہ پوری توجہ معاشی ترقی اور عوام کی بہبودی کی طرف دی جاتی۔

Next Article

حکومت کی جانب سے ویب سائٹ بلاک کیے جانے پر دی وائر کا بیان

نومئی 2025 کو دی وائر کے متعدد قارئین نے اطلاع دی کہ وہ دی وائر کی انگریزی ویب سائٹ دی وائر ڈاٹ اِن کو نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔ اس بارے میں  دی وائر کا بیان۔

نو مئی 2025 کو دی وائر کے متعدد قارئین نے اطلاع دی کہ وہ دی وائر کی انگریزی ویب سائٹ دی وائر ڈاٹ اِن کو نہیں دیکھ پا رہے  ہیں ۔ اس بارے میں دی وائر کا بیان ۔

§

معزز قارئین،

پریس کی آزادی کے آئینی طور پر دیے گئے حق کی براہ راست خلاف ورزی کرتے ہوئے حکومت ہند نے دی وائر ڈاٹ اِن کو  پورے ملک میں بلاک کر دیا ہے ۔ دی وائر کی ویب سائٹ  کے ویب ایڈریس پر جانے پر انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے کی طرف سے ایک پیغام (نیچے تصویر) میں کہا جا رہا ہے کہ اسے ‘ الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی وزارت کےآرڈڑ کے مطابق آئی ٹی ایکٹ، 2000 کے تحت بلاک کیا گیا ہے۔’

ایسے وقت میں جب سچی، منصفانہ اور تعقل پسند آوازیں ، خبریں اور معلومات کے ذرائع ملک کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں، ہم اس طرح کی  سینسرشپ کی مخالفت کرتے ہیں۔

ہم اس من مانی کارروائی سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کر رہے ہیں۔

آپ نے پچھلے دس سالوں میں دی وائر کے کام کو سپورٹ کیا ہے، اور ہمیں امید ہے کہ آپ اس بار بھی ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

ہم اپنے قارئین کو سچی اور درست خبریں فراہم کرنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

ستیہ میو جیتے۔

تاریخ: 09.05.2025

Next Article

ڈی جی پب نے دی وائر کی ویب سائٹ کو بلاک کرنے پر تنقید کی، سی پی آئی لیڈر نے اشونی ویشنو کو لکھا

سی پی آئی لیڈر ڈی راجہ نے وزیر اطلاعات و نشریات کو لکھے خط میں کہا ہے کہ دی وائر جیسی ذمہ دار ویب سائٹ کو بلاک کرنا غلط ہے۔ ڈیجیٹل نیوز آرگنائزیشنز  کی تنظیم ڈی جی پب نے بھی اس قدم کی مذمت کی ہے۔

نئی دہلی: حکومت کی جانب سے دی وائر کی ویب سائٹ کو  بلاک کیے جانے کے بعد  کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے جنرل سکریٹری ڈی راجہ نے وزیر اطلاعات و نشریات کو خط لکھا ہے۔ وہیں، ڈیجیٹل نیوز آرگنائزیشنز کی تنظیم ڈی جی پب  نےدی وائر کو بلاک کرنے کی مذمت کی ہے ۔

دی وائر کو معلوم ہوا ہے کہ اس کی ویب سائٹ کو بلاک کرنے کا آرڈر وزارت اطلاعات و نشریات  کی جانب سے آیا ہے۔ مختلف انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے اس بارے میں مختلف باتیں کہہ رہے ہیں۔

ڈی راجہ کا خط

وزیر اشونی ویشنو کو اپنے خط میں ڈی راجہ نے بتایا ہے کہ کس طرح’آپریشن سیندور’ کے دوران میڈیا میں گمراہ کن اور اشتعال انگیز معلومات کھلے عام پھیلائی گئیں۔

‘کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی جانب سے، میں ‘آپریشن سیندور’ کے بعد کئی ٹیلی ویژن چینلوں کے ذریعے نشر کیے گئے اشتعال انگیز اور گمراہ کن مواد پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہوں۔ جب پورا ملک  دہشت گردی کے خلاف متحد ہے، ہم ایک خطرناک رجحان کا مشاہدہ کر رہے ہیں جہاں کچھ چینل اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دے  رہے ہیں، بغیر کسی سرکاری تصدیق کے جھوٹے بیانیے پھیلا رہے ہیں، اور جنگی جنون کو ہوا دے رہے ہیں – حالانکہ حکومت یا فوج کی طرف سے ایسی کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔’

راجہ نے لکھا کہ اس طرح کی رپورٹنگ لوگوں میں خوف و ہراس پھیلاتی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس کے برعکس دی وائر جیسی ذمہ دار نیوز ویب سائٹ کو بلاک کر دیا گیا ہے۔

‘اس طرح کی کوریج نہ صرف ذمہ دارانہ صحافت کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ قومی یکجہتی کو بھی براہ راست نقصان پہنچاتی ہے۔ جنگی موقف اور برادریوں کو نشانہ بنانا شہریوں کے درمیان اعتماد کو ختم کرتا ہے، خوف پیدا کرتا ہے، اور ان قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلتا ہے جو ملک کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔’

‘عوامی خدشات کو دور کرنے کے بجائے انہیں مزید بھڑکایا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ سرکاری نشریاتی ادارے بھی اس غیر ذمہ دارانہ لہجے کی نقل کر رہے ہیں اور لوگوں کو درست معلومات فراہم کرنے میں اپنے بنیادی فرض میں ناکام رہے ہیں۔’

کئی مواقع پر خود فوج کو آگے آنا پڑا اور ان چینلوں کی جھوٹی خبروں کی تردید کرنی پڑی۔ وہیں دوسری جانب دی وائر ڈاٹ اِن جیسی ذمہ دار ویب سائٹس کو بلاک کر دیا گیا ہے۔’

راجہ نے کہا کہ سی پی آئی اس بات کو یکسر مسترد کرتی ہے کہ پہلگام  کے واقعہ کو نفرت اور تفرقہ پیدا کرنےکے تماشے میں تبدیل کیا جائے۔

‘ہم وزارت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایسے چینلوں اور پلیٹ فارمز کے خلاف سخت کارروائی کرے جو فرقہ وارانہ منافرت پھیلاتے ہیں اور غلط معلومات پھیلاتے ہیں۔’

‘ساتھ ہی، ان پلیٹ فارمز تک رسائی بحال کی جائے جو ذمہ داری سے کام کرتے ہیں اور قومی اتحاد کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’

‘ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وزارت اطلاعات کے ساتھ ساتھ دفاع، داخلہ اور خارجہ امور کی وزارتیں باقاعدہ اور حقائق پر مبنی بریفنگ دیں تاکہ عوام کو قابل اعتماد معلومات مل سکیں اور غلط معلومات کو روکا جا سکے۔’

راجہ نے آخر میں لکھا؛


‘کہا جاتا ہے کہ جنگ میں سب سے پہلے سچائی  کی موت ہوتی ہے، لیکن آج سچ کی قربانی اس وقت دی جا رہی ہے جب جنگ جیسی کوئی صورتحال بھی نہیں ہے۔ سچ کو شور، تعصب اور سنسنی خیزی کے نیچے دفن کیا جا رہا ہے۔’


ڈی جی پب کا بیان

ڈی جی پب  نے دی وائر کی ویب سائٹ کو بلاک کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔

ڈی جی پب نے کہاہے؛


‘ ڈی جی پب کے بانی رکن دی وائر نے جمعہ، 9 مئی کو ایک بیان جاری کیا ہےکہ ان کی ویب سائٹ تک رسائی کو کچھ انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کے سرکاری حکم  کے بعد بلاک کر دیا ہے۔ ایک انٹرنیٹ سروس فراہم کنندہ نے کہا کہ یہ بلاک وزارت اطلاعات و نشریات نے آئی ٹی ایکٹ 2000 کے تحت کیا ہے۔’

‘اگر ہندوستانی حکومت نے واقعی دی وائر تک رسائی روک دی ہے تو یہ پریس کی آزادی پر براہ راست حملہ ہے۔ آزاد میڈیا کو خاموش کرنا جمہوریت کی حفاظت نہیں بلکہ اسے کمزور کرتا ہے۔’


بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ ملک کے لیے انتہائی حساس وقت ہے اور ایسے اقدامات تعقل پسند سوچ کو متاثر کرتے ہیں۔


‘ جنگ کےاندیشے یا اس کی ہولناکیوں کو بہانہ بنا کر آزاد صحافت کوخاموش نہیں کیا جا سکتا۔’


بیان میں مزید کہا گیا ہے؛

‘فیک نیوز اور گمراہ کن معلومات کے خلاف سب سے مؤثر تدبیر آزاد میڈیا ہے۔’

‘ہم ایسی سینسر شپ کو فوراً ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہیں، جس کے احکامات  کو ابھی تک عام نہیں کیا گیا  ہے۔ ہندوستانی حکومت کو آزادی اظہار اور آئینی اقدار کا تحفظ کرنا چاہیے اور آزاد میڈیا تک بلا روک ٹوک رسائی بحال کرنی چاہیے کیونکہ جمہوریت خاموشی سے پروان نہیں چڑھتی۔’