سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم کسانوں کے حالات کو لےکرفکرمند ہیں۔ ہم بھی ہندوستانی ہیں، لیکن جس طرح سے چیزیں شکل لے رہی ہیں، اس کو لےکر ہم فکرمند ہیں، وہ بھیڑ نہیں ہیں۔ دہلی کی سرحدوں پر مظاہرہ کر رہے کسانوں کو فوراً ہٹانے کے لیے کئی عرضیاں دائر کی گئی ہیں۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو کسانوں کے پرامن مظاہرہ کے حق کو قبول کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ مرکز فی الحال ان تین متنازعہ قوانیں پر عمل کو ملتوی کردے، کیونکہ وہ اس تعطل کو دور کرنے کے ارادے سے ماہرین زراعت کی ایک‘غیرجانبدرانہ اورآزاد’کمیٹی بنانے پر غور کر رہا ہے۔
چیف جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی راماسبرامنیم کی بنچ نے کہا کہ اس کا یہ بھی ماننا ہے کہ مظاہرہ کرنے کے کسانوں کے حق کو دوسروں کے بنا رکاوٹ آنے جانے اورضروری اشیا کو حاصل کرنے کے بنیادی حقوق سےمتجاوز نہیں کرنا چاہیے۔عدالت نے کہا کہ مظاہرہ کے حق کا مطلب پورے شہر کو روک دینا نہیں ہو سکتا ہے۔
بنچ نے کہا کہ اس سلسلےمیں کمیٹی بنانے کے بارے میں احتجاج کر رہے کسان یونینوں سمیت تمام فریقوں کو سننے کے بعد ہی کوئی آرڈر پاس کیا جائےگا۔بنچ نے کہا کہ مرکز کے ذریعے ان قوانین کے عمل (نفاذ) کوملتوی رکھنے سے کسانوں کے ساتھ بات چیت میں مدد ملے گی۔
حالانکہ، اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ اگر ان قوانین کا عمل ملتوی رکھا گیا تو کسان بات چیت کے لیے آگے نہیں آئیں گے۔عدالت نے کہا کہ وہ مرکز سے ان قوانین پر عمل روکنے کے لیے نہیں کہہ رہی ہے، بلکہ یہ مشورہ دے رہی ہے کہ فی الحال ان پر عمل ملتوی رکھا جائے، تاکہ کسان سرکار کے ساتھ بات چیت کر سکیں۔
CJI : One thing we will make it clear. We recognize the fundamental right to protest against a law. But that cannot affect other fundamental rights and right to life of others.#FarmersProtest #SupremeCourt
— Live Law (@LiveLawIndia) December 17, 2020
بنچ نے کہا، ‘ہم کسانوں کے حالات کو لےکر فکرمند ہیں۔ ہم بھی ہندوستانی ہیں، لیکن جس طرح سے چیزیں شکل لے رہی ہیں اس کو لےکر ہم فکرمند ہیں۔’بنچ نے کہا، ‘وہ(احتجاج کر رہے کسان)بھیڑ نہیں ہیں۔’عدالت نے کہا کہ وہ احتجاج کر رہی کسان یونینوں پر نوٹس کی تعمیل کرنے کے بعد آرڈر پاس کرےگا اور انہیں سرمائی تعطیل کے دوران بنچ کے پاس جانے کی چھوٹ دےگی۔
ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعےاس معاملے کی شنوائی کے دوران بنچ نے تبصرہ کیا کہ وہ کسانوں کے مظاہرہ کےحق کو مانتی ہے، لیکن اس حق کوبنارکاوٹ آنے جانے اور ضروری اشیاودیگر چیزیں حاصل کرنے کے دوسروں کےبنیادی حقوق سےمتجاوزنہیں کرنا چاہیے۔
بنچ نے کہا کہ جمہوریت میں مظاہرہ کرنے والوں سے دوسروں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کاحق پولیس اور انتظامیہ کو دیا گیا ہے۔
CJI : It does not matter. We are not on the extent of blocking. It is not as if Delhi is choked. I think Salve has put it bit high.#FarmersProtest #SupremeCourt
— Live Law (@LiveLawIndia) December 17, 2020
بنچ نے کہا، ‘اگر کسانوں کو اتنی زیادہ تعدادمیں شہر میں آنے کی اجازت دی گئی تو اس بات کی گارنٹی کون لےگا کہ وہ تشدد کا راستہ نہیں اپنائیں گے؟عدالت اس کی گارنٹی نہیں لے سکتا۔عدالت کے پاس ایسے کسی بھی تشددکو روکنے کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ یہ پولیس اور دوسرے اتھارٹی کا کام ہے کہ وہ دوسروں کے حقوق کی حفاظت کریں۔’
بنچ نے کہا کہ احتجاج کے حق کا مطلب پورے شہر کو روک دینا نہیں ہو سکتا۔عدالت نے کہا کہ پولیس اورانتظامیہ کو احتجاج کر رہے کسانوں کو کسی بھی طرح کے تشدد میں شامل ہونے کے لیے اکسانا نہیں چاہیے۔عدالت نے 1988 میں بوٹ کلب پر کسانوں کے احتجاج کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اس وقت کسان تنظیموں کے مظاہرہ سے پورا شہر ٹھہر گیا تھا۔
عدالت نے کہا کہ بھارتیہ کسان یونین (بھانو)، اکیلا کسان یونین جو اس کے سامنے ہے، نے کہا کہ سرکار کے ساتھ بات چیت کیے بغیر وہ لگاتار احتجاج کو جاری نہیں رکھ سکتے ہیں۔
CJI : For that, we are proposing an independent impartial committee before whom both the parties can state their case while the protest goes on and that the committee will give its opinion, which we expect the parties to follow.
— Live Law (@LiveLawIndia) December 17, 2020
بنچ نے کہا، ‘آپ سرکار سے بات کیے بغیر سالوں سال دھرنا نہیں دے سکتے۔ ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہم احتجاج کرنے کے آپ کے حق کو مانتے ہیں لیکن اس کا کوئی مقصد ہونا چاہیے۔ آپ کو سرکار سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔’
بنچ نے کہا کہ اس کمیٹی میں پی سائی ناتھ جیسے ماہرین اور سرکار اور کسان تنظیموں کے نمائندوں کو شامل کیا جائےگا، جو ان قوانین کو لےکرجاری تعطل کاحل تلاش کریں گے۔بنچ نے کہا، ‘ہم مانتے ہیں کہ کسانوں کو احتجاج کرنے کا حق ہے، لیکن یہ پرامن ہونا چاہیے۔’
عدالت نے کہا کہ اس کا مقصد تبھی حاصل کیا جا سکےگا، جب کسان اور سرکار بات چیت کریں اور ہم اس کا موقع دینا چاہتے ہیں۔اس معاملے کی شنوائی شروع ہوتے ہی بنچ نے صاف کیا،‘ہم قانون کے جواز پر آج فیصلہ نہیں کریں گے۔ ہم صرف مظاہرہ اور بنارکاوٹ آمدورفت کے مدعے پر ہی فیصلہ کریں گے۔’
عدالت دہلی کی سرحدوں پر لمبے عرصے سے کسانوں کے مظاہروں کی وجہ سے آمدورفت میں ہو رہی دقتوں کو لےکر دائر عرضیوں پر شنوائی کر رہا ہے۔ ان عرضیوں میں دہلی کی سرحدوں سے کسانوں کو ہٹانے کا اپیل کی گئی ہے۔
عدالت نے گزشتہ بدھ کو اشارہ دیا تھا کہ زرعی قوانین کی مخالفت میں دہلی کی سرحدوں پر دھرنا دے رہے کسانوں اور سرکار کے بیچ جاری تعطل کودور کرنے کے لیے وہ ایک کمیٹی کا قیام کر سکتا ہے، کیونکہ ‘یہ جلد ہی ایک قومی مدعا بن سکتا ہے۔’
بنچ نے سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ سے کہا تھا، ‘آپ کی بات چیت سے ایسا لگتا ہے کہ بات نہیں بنی ہے۔’بنچ نے یہ تبصرہ بھی کیا تھا کہ یہ ناکام ہونا ہی ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ اس پر مہتہ نے جواب دیا، ‘ہاں، ہم کسانوں سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔’
CJI : We do not think they will accept your outcomes. We do not want them to do that also. That is for the committee to decide.
We saw how successful you have been in negotiations.#FarmersProtest #SupremeCourt— Live Law (@LiveLawIndia) December 17, 2020
اس معاملے میں کئی عرضیاں دائر کی گئی ہیں، جن میں دہلی کی سرحدوں پر مظاہرہ کر رہے کسانوں کو فوراً ہٹانے کے لیے عدالت میں کئی عرضیاں دائر کی گئی ہیں۔ان میں کہا گیا ہے کہ ان کسانوں نے دہلی این سی آر کی سرحدیں بند کر رکھی ہیں، جس کی وجہ سے آنے جانے والوں کو بہت پریشانی ہو رہی ہے اور اتنی بڑی بھیڑ کی وجہ سے کووڈ 19 کے معاملوں میں اضافہ کا بھی خطرہ ہے۔
معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف کسان مظاہرہ کر رہے ہیں۔
کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں کے رحم پر جینا پڑےگا۔
دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل نظام بنا رہے ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)