جے این یو کی نئی وائس چانسلر شانتی سری پنڈت کی تقرری کے بعد ان کے کچھ پرانے ٹوئٹس تنازعہ میں ہیں۔ اب ڈیلیٹ کردیے گئے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے بارے میں پنڈت نے کہا کہ جے این یو سے کسی شخص نے سازش کے تحت اس کو بنایا تھا۔ تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ جے این یو کےکسی شخص کو یہ کیسے پتہ رہا ہوگا کہ انہیں یہاں کا وائس چانسلر بنایا جائے گا اور کیسے ان کی تقرری سے پہلے ٹوئٹر اکاؤنٹ بنا ہوگا۔
نئی دہلی: جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی نئی وائس چانسلر شانتی سری دھولیپڑی پنڈت نے ان کے پرانے ٹوئٹس پر تنازعہ کے بعددعویٰ کیا ہے کہ ان کا کبھی کوئی ٹوئٹر اکاؤنٹ نہیں رہا۔
رپورٹ کے مطابق، جے این یو کی وائس چانسلر کے عہدے پر ان کی تقرری کے اعلان کے بعد سےہی ان کے نام کے ٹوئٹر ہینڈل سے ان کے کئی پرانے قابل اعتراض ٹوئٹس تنازعات میں تھے، لیکن بعد میں اس اکاؤنٹ کو ڈیلیٹ کر دیا گیا تھا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، پنڈت نے دعویٰ کیا ہے کہ جے این یو سے کسی نے اندرونی طور پر ایسا کیا ہے۔
انہوں نے کہا، میرا کبھی کوئی ٹوئٹر اکاؤنٹ نہیں رہا۔ یہ پتہ چلا کہ اسے ہیک کرلیا گیا تھا اور جے این یوکے کسی شخص نے ایسا کیا تھا۔ معاملہ یہ ہے کہ کئی لوگ میرے پہلی خاتون وائس چانسلر بننے سے خوش نہیں ہیں۔
پنڈت نے کہا کہ ان کے باوثوق ذرائع نے انہیں بتایا ہے کہ اس میں جے این یو کے لوگوں کی مبینہ طور پر شمولیت ہے۔
تاہم، انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ جے این یوکے کسی شخص کو یہ کیسے معلوم رہا ہوگا کہ وہ یہاں کی وائس چانسلر بننے والی ہیں اور وہ کیسے ان کی تقرری سے قبل ٹوئٹر اکاؤنٹ بناپایا ہو گا۔
Someone hacked into her family albums too https://t.co/8Vnklye09O pic.twitter.com/JhQV0VMnGy
— Amritkaalvin Klein (@bigdeekenergyy) February 9, 2022
اس کے ساتھ وہ یہ بھی نہیں بتا سکیں کہ اگر ہیکر کا مقصد ان کی شبیہ کو خراب کرنا تھا تو پھر ان کے ٹوئٹ پر تنازعہ کے بعد ان کا اکاؤنٹ کیوں ڈیلیٹ کر دیا گیا؟
جے این یو کی نئی وائس چانسلر کے اس نئے دعوے پر شدید شبہ کا اظہار کیا جارہا ہے کیونکہ ان کے پرانے ٹوئٹ میں کچھ ایسی تصویریں بھی تھیں، جوصرف ان کی اور ان کے اہل خانہ کی رسائی میں ہی ہو سکتی ہیں۔
Santishree Pandit now claims she never had a twitter account, or it was hacked, one wonders who then tweeted this very personal picture from the same acc. Curious #JNUVC pic.twitter.com/lGvfltFWcd
— Gargi Rawat (@GargiRawat) February 9, 2022
اس سے قبل دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ انھوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کرکے قتل عام کی اپیل، طلبا اور کسانوں پر حملوں کی حمایت کی تھی۔ حالاں کہ اب ان کا اکاؤنٹ ڈیلیٹ ہو چکا ہے۔
انہوں نے دائیں بازو کے رجحان والی اپنی پوسٹ میں بائیں بازو کو جہادی، کارکنوں کو ذہنی طور پر جہادی کہا تھا۔ انہوں نے دیگر ٹوئٹس میں مہاتما گاندھی کے قتل کو افسوسناک قرار دیا تھا لیکن گوڈسے کے جرم کو اس بنیاد پر منصفانہ قرار دیا کہ صرف گاندھی کو مارنا ہی ‘اکھنڈ بھارت’ کا حل تھا۔
Professor Santishree Dhulipudi Pandit, the new VC of JNU.
And her Immense Love with the Word "Jihadi".
Best of Luck, JNU. pic.twitter.com/tLzJmU8UIk
— Darab Farooqui दाराब फारूक़ी داراب فاروقی (@darab_farooqui) February 7, 2022
رپورٹ کے مطابق ، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی بیٹی سائبر سکیورٹی انجینئر ہے اور انہوں نے ان کا پرانا ٹوئٹر اکاؤنٹ بند کر دیا تھا لیکن ان کا یہ بیان ان کے اس دعوے کے خلاف ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کا کبھی ٹوئٹر اکاؤنٹ نہیں تھا۔
انہوں نے کہا، چھ سال پہلے میری بیٹی نے میرا اکاؤنٹ بند کر دیا تھاکیونکہ وہ امریکہ میں نوکری کے لیے اپلائی کر رہی تھی اور اس نے مجھے بتایا کہ ماں، آپ کسی بھی سوشل میڈیا سائٹ پر نہیں رہ سکتیں۔ میں سوشل میڈیا پر بالکل بھی ایکٹو نہیں ہوں۔
پنڈت نے کہا کہ پریس کے ذریعے ان کے ساتھ برا اورخراب سلوک کیا جا رہا ہے کیونکہ ان کی تقرری کرکے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک نیا ریکارڈ بنا کر بائیں بازو کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
Santishree Pandit now claims she never had a twitter account, or it was hacked, one wonders who then tweeted this very personal picture from the same acc. Curious #JNUVC pic.twitter.com/lGvfltFWcd
— Gargi Rawat (@GargiRawat) February 9, 2022
انہوں نے کہا، میں حاشیے پر موجود طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ہوں اور تمل ناڈو سے ہوں۔ بائیں بازو والے اتنے سالوں میں ایسا کیوں نہیں کر سکے؟ وہ یہاں ستر سال تک اقتدار میں رہے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے جبکہ جے این یو انہی کا اڈہ ہے۔
جب ان سے ساوتری بائی پھولے پونے یونیورسٹی کی ویجیلنس رپورٹ کے بارے میں پوچھا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ انہوں نےضابطوں کی پیروی نہ کرتے ہوئے اس وقت پرسن آف انڈین اوریجن (پی آئی او) کے لیے مخصوص نشستوں پر 1800 سے زائد طلبا کو مختلف پیشہ ورانہ کورسز میں داخلہ دے دیاتھا اوراس کے لیے انہیں مجرم قرار دیا گیا تھا، اس پر پنڈت نے کہا کہ اس معاملے میں ان کی دلیل کبھی نہیں سنی گئی۔
انہوں نے کہا، پونے یونیورسٹی نےپہچان کی سیاست کی کیونکہ میں ایک غیر مہاراشٹرین تھی جس نے مینجمنٹ کونسل کا الیکشن جیتا تھا۔ اس کے بعد سازش رچی گئی کہ مجھے کوئی عہدہ نہ ملے۔ اگر واقعی کوئی کیس تھا تو یونیورسٹی نے میرے خلاف ایف آئی آر درج کیوں نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ یہ مجھے ہراساں کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
پنڈت نے بحیثیت وائس چانسلر اپنی پہلی پریس ریلیز میں گرامر کی غلطیوں سے خود کو الگ کرتے ہوئے کہا، سابق وائس چانسلر کےاسسٹنٹ نے شارٹ ہینڈ میں ڈکٹیشن میں لیا تھا اور پی آر او نے کہا کہ وہ اسے دیکھ کرریلیز کر دیں گی ۔